یہ میرے رب کی مجھ پر اک عطا ہے
کہ مجھ پر سوچ کا ہر در کھلا ہے
ہمارے ساتھ ہے خوشبو چمن کی
ہمارے ساتھ چلتی اک صبا ہے
یہ کس نے شور آہوں کا اُٹھایا
یہاں پر کون سا اب سرپھرا ہے
کبھی بھی وصل کی خواہش نہ کرنا
مزاجِ عشق ہم نے پڑھ لیا ہے
تمہیں دیکھا، لگا ایسے ہمیں کیوں
کہ تم نے دل میں رکھا ہی گلہ ہے
یقین و وہم کی چادر سمیٹی
لگا ہر پل ہی روشن ہو گیا ہے
وہ جس نے آرزو کا مان رکھا
ہمارے پاؤں میں وہ آبلہ ہے
یہ دل رویا نہیں در پر تمہارے
فقط آنسو ندامت کا گرا ہے
جسے آنا تھا تیرے جاگنے پر
وہ سورج سر پہ کب کا آ چکا ہے
پلٹ کر کوئی بھی آیا نہیں، سو
صداؤں کا سفر غارت گیا ہے
جہاں چشمے رواں تھے چاہتوں کے
وہاں پر دل، دیؔا! پتھر بنا ہے
(دیا جیم۔ فجی)