ڈائری عابد خان سے ایک ورق
اے چھاؤں چھاؤں شخص! تیری عمر ہو دراز
افریقہ میں حضور انور کی سادہ زندگی
ایک روز نماز کے بعد میں نے حضور انور کو ایک احمدی ڈاکٹر مکرم مظفر باجوہ صاحب کو ملتے دیکھا جو پیشہ کے اعتبار سے ڈینٹسٹ تھے۔ نہایت مشفقانہ طور پر حضور انور نے مکرم مظفر صاحب کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا اس دوران آپ بیت السبوح کی لفٹ کی طرف بڑھ رہے تھے۔ جس دوران آپ دونوں چل رہے تھے میں نے دیکھا کہ مکرم مظفر صاحب نے مستقل طور پر اپنا سر احترام کی وجہ سے جھکا یا ہوا تھا۔
بعد ازاں مجھے مکرم مظفر صاحب سے چند لمحات کے لئے ملنے کا موقع ملا۔ قافلہ کے دیگر ممبران آپ کو اچھی طرح جانتے تھے مگر میری ان سے پہلی ملاقات تھی۔ آپ نہایت شفیق اور عاجز انسان ہیں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ و ہ مکرم مبشر احمد باجوہ صاحب شہید کے بیٹے ہیں جو بیس سال قبل ایک کار حادثہ میں انتقال کر گئے تھے۔ وہ جرمنی سے لندن واپس آرہے تھے جہاں انہیں ایک جماعتی کام کی غرض سے بھجوایا گیا تھا۔
مکرم مظفر صاحب نے مجھے بتایا کہ وہ ذاتی طور پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ سے کس قدت قریب تھے جبکہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ان کا ذاتی تعلق اس وقت بنا جب وہ ایک ڈینٹل کلینک کے قیام کی غرض سے چند سال قبل غانا گئے تھے۔
مکرم مظفر صاحب نے بتایا کہ ’’جب وہ غانا گئے تو (مرحوم) عبد الوھاب آدم صاحب مجھے ان مقامات پر لے گئے جہاں حضور انور اور مکرمہ بیگم صاحبہ اپنے قیام افریقہ کے دوران رہائش پذیر رہے۔ میں سخت حیرت زدہ تھا کہ وہ کن حالات میں رہے۔ وہ (لمحات) نہایت سادہ تھے۔ امانتداری کی رو سے میں اور کئی دوسرے لوگ (شاید) ان حالات میں گزارا نہ کر سکتے تاہم حضور انور ان حالات میں کئی سال تک خوشی سے اور کمال عاجزی سے وہاں مقیم رہے۔‘‘
مکرم مظفر صاحب نے بتایا کہ
’’در حقیقت ایک ایسا آدمی جس نے ایسی عاجزانہ زندگی گزاری ہو اور بعد ازاں حضرت خلیفۃ المسیح کے طور پر مسندِ خلافت پر متمکن ہوئے اور یہ اعلیٰ مقام پایا اس بات نے مجھے سحر زدہ کرد یا۔ یوں غانا سے واپسی پر میں نے بھرپور کوشش کی کہ حضور انور سے اپنا تعلق مضبوط سے مضبوط تر کر سکوں اور اس کے بعد سے میں حضور انور کو کئی مواقعے پر ملا ہوں۔ الحمد للّٰہ۔‘‘
چند احمدی فیملیز کے تاثرات
میری ملاقات ایک نوجوان احمدی فیملی مکرم ظہور احمد (بعمر تیس سال) اور ان کی اہلیہ مکرمہ منصورہ ظہور صاحبہ سے حضور انور سے ان کی ملاقات کے چند لمحات کے بعد ہوئی۔
مکرمہ منصورہ صاحبہ جو واقفہ نو ہیں ابھی چند لمحات قبل حضرت خلیفۃ المسیح سے زندگی میں پہلی بار ملی تھیں۔ ان کے ساتھ ان کا ایک نومولود بچہ بھی تھا جو اپنی والدہ کی طرح وقف نو کی بابرکت سکیم میں شامل تھا۔
حضورانور کے ساتھ گزرے چند لمحات کے بارے میں مکرمہ منصورہ صاحبہ نے بتایا کہ
’’اپنی ساری زندگی میں حضور انور سے ملاقات کا خواب دیکھتی رہی ہوں اور آج میری دعائیں قبول ہوئی ہیں۔ آپ کو دیکھنے اور ملنے کے بعد مجھے میری کمزوریوں کا احساس ہوا تاکہ میں ایک بہتر انسان بن سکوں۔ ان شاء اللّٰہ‘‘
مکرمہ منصورہ صاحبہ نے مزید بتایا کہ
’’میرے والدین نے مجھے وقف نو کی بابرکت سکیم کے لئے وقف میں پیش کیا تھا تاکہ احمدیت کی خدمت کر سکوں اور یوں میں بہت خوش قسمت ہوں کہ وقف نو کی سکیم کا حصہ ہوں۔ ہم نے یہی عہد اپنی بیٹی کے لئے بھی کیاہے اور وہ بھی وقف نو میں شامل ہے۔ یوں مجھے دو گنا ذمہ داری کا احساس ہوتاہے پہلا یہ کہ اپنے وقف کو نبھاؤں اور دوسرا یہ کہ اپنی بیٹی کی ایسی تربیت کروں کہ وہ بھی اپنا وقف نبھا سکے۔ میں اس ذمہ داری کے بوجھ کو بہت شدت سے محسوس کرتی ہوں اور حضور انور سے دعا کی درخواست کرتی ہوں کہ میں اپنی زندگی اپنی بیٹی کے لئے (نیک) نمونہ کے طور پر گزار سکوں۔‘‘
میری ملاقات ایک احمدی خاتون مکرمہ شاہدہ جمیل صاحبہ سے بھی ہوئی جو اپنے شوہر کے ہمراہ ابھی کچھ دیر قبل حضرت خلیفۃ المسیح سے زندگی کی پہلی ملاقات کر کے آئی تھیں۔
اس ملاقات کے بعد انہوں نے بتایا کہ
’’میں نے یہی سیکھا ہے کہ خلافت ہی سب کچھ ہے اور جب تک ہمارا اپنے خلیفہ سے تعلق (مضبوط) نہیں ہے ہماری زندگیاں خالی ہیں، بودی اور بے وقعت ہیں۔ ایک احمدی اور اس کے خلیفہ کے مابین تعلق کو بیان کرنے کے لئے ایک ہی طریق ہے کہ یہ ایک آسمانی تعلق ہے‘‘ بعد ازاں انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ میری ڈائریز کون کون پڑھتا ہے جو میں حضور انور کے دورہ جات کے متعلق لکھتا ہوں۔ میں نے ان کو بتایا کہ اللہ کے فضل سے حضور انور ان کو سب سے پہلے پڑھتے ہیں اور آپ کی اجازت سے سے ہی میں ان کو باقی احباب جماعت کے ساتھ شیئر کرتا ہوں۔ جب انہوں نے یہ سنا تو نہایت خوشی سے جذباتی ہوتے ہوئے کہنے لگیں۔ ’’میری کتنی خواہش ہے کہ حضور انور ہمارے الفاظ پڑھیں اور ہمارے لئے دعا کریں۔‘‘
میری ملاقات ایک احمدی خادم مکرم فواد احمد (بعمر24سال) سے ہوئی جن کی حال ہی میں حضور انور سے ملاقات ہوئی تھی۔
انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کے بہت سے احمدی دوست ہیں اور وہ ہمیشہ پریشان رہتے تھے کہ وہ کس قدر غیر مطمئن اور پریشان تھے۔ انہوں نے کہا ’’میرے غیر احمدی دوست اکثر مجھے بتاتے ہیں کہ ایک مولوی یا ملا جن کے پاس ہو جاتے ہیں وہ انہیں ایک بات سکھاتا ہے اور دوسرا مولوی انہیں ایک بالکل مختلف بات سکھاتا ہے۔وہ کھل کر کہتے ہیں اس بات نے انہیں اسلام کے متعلق تذبذب میں ڈال دیا ہے۔تاہم ہماری جماعت میں ہر عالم یا مبلغ ایک ہی بات کا پرچار کرتا ہے اور یہ سب اس لئے ہے کہ ہم خلافت کے ہاتھ پر اکٹھے ہیں۔‘‘
مکرم سخاوت صاحب کے دوست سے ملاقات
ایک دن جب میں مختلف احمدیوں سے مل رہا تھا، سخاوت باجوہ صاحب نے مجھے ایک بزرگ سے ملوایا جن کا نام وڑائچ صاحب تھا۔وہ بھاری جسم کے مالک تھے اس لئے ان کے لئے چلنا مشکل تھا،پھر بھی ہر روز وہ 70کلومیٹر کا سفر کر کے مسجد تشریف لاتے تاکہ وہ دورہ کے دوران لنگر (خانہ) کی ڈیوٹی کر سکیں۔ (حضور انور کے دورہ کے دوران) پنجابی میں بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ کیوں روزانہ آتے ہیں۔ انہوں نے بتایا
’’اگر آپ شہد کی مکھیوں کو دیکھیں وہ ہمیشہ اپنی Queen کے گرد لپٹی رہتی ہیں اور دائرہ بنائے رکھتی تھیں۔اس طرح ہم احمدی اپنے خلیفہٴ وقت کے گرد دائرہ بنائے رکھتے اور آپ کے گرد لپٹے رہتے ہیں تاکہ آپ سے برکت حاصل کر سکیں۔یہی وجہ ہے کہ میں روزانہ یہاں آتا ہوں۔
(حضور انور کا دورہ جرمنی مئی – جون 2015ء اردو ترجمہ از ڈائری مکرم عابد خان)
(با تعاون: مظفرہ ثروت۔ جرمنی)
(مترجم: ابو سلطان)