• 16 اپریل, 2024

آخری گھر اللہ کا گھر

’’گھر‘‘ میرا گھر۔ یہ میں کسی کے گھر کونہیں بلکہ اپنے ہی گھر کو لکھ رہی ہوں۔ کسی کو نہیں خود کو ہی گھر کی اہمیت بتانا چاہتی ہوں۔ بس اس بارے میں کچھ لکھنے کو دل چاہا اور لکھنے بیٹھ گئی ہوں۔ زندگی مُٹھی سے ریت کی طرح پھسلتی جا رہی ہے۔

میری پیدائش انڈیا میں ہوئی جہاں میرے والدین ہمارے دادا دادی کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتے تھے۔ میں سات یاآٹھ سال کی تھی تو تقسیم بر صغیر ہو گئی پاکستان آ کر میرے والدین مختلف شہروں میں اور مختلف گھروں میں رہائش پذیررہے۔ غالباً 1952ء کے شروع میں میری اُمی جان نے ربوہ میں مستقل قیام فر مایا۔ پہلے تو کچھ عرصہ ہم کچی مٹی کے بنے ہوئے کرائے کےگھروں میں رہے۔ جہاں بارشوں، آندھیوں میں، بے شمار کالی چیونٹیوں ’’جن کے ریلہ سے زمین کالی ہو جاتی تھی‘‘ اور مچھروں کی خوفناک دھنوں اور حملوں کے ساتھ گزارا کرنا پڑا۔ یہ مچھر رات بھر تابڑ توڑ حملے جاری رکھتے کبھی اپنا وار خالی نہ جانے دیتے (مگر آج وہ میٹھی اور خوشگوار یادوں میں تبدیل ہو چکی ہیں جو بہت مزا دیتی ہیں اُن کو دہرانا بہت اچھا لگتا ہے) پھر اُمی جان نے ایک خطہ زمین خرید کر اُس پر اپنا گھر بنوا لیا یعنی ہماری فیملی کا گھر ہو گیا۔ جہاں ہم بہن بھائی اپنی اُمی جان کے ساتھ رہتے تھے۔ بہت خوشیوں بھرا گھر تھا بہنوں اور بھائی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور کھیل کود میں وقت گزررہا تھا لیکن اکثر کسی نہ کسی ایسی بات پر جو اُمی جان کو پسند نہ آتی اُن سے یہ فقرہ ضرور سننے کو مل جاتا ’’جب اپنے گھر جاؤ گی پھر جو مرضی کرنا‘‘ یعنی وہ میرا گھر نہیں تھا۔ پھر واقعی ایسا ہی ہوا شادی ہوئی، پیا کے ساتھ سُسرال گئی۔ شوہر کا گھر بہت اچھا لگا۔ شوہر نے یہ کہا کہ دیکھو! اب یہ تمہارا گھر ہے اس میں جیسے مرضی رہو۔ لیکن یہ گھر بھی کمپنی والوں سے ملا ہوا تھا ہم اُس گھر میں رہتے ضرور تھے مگر گھر ہمارا نہیں تھا۔ چھ سات سال اُس کرایہ کے گھر میں محبت بھرا وقت گزارا۔ اُس گھر کو چھوڑ کر ہم لندن پہنچے۔ کچھ دن ایک کزن کے گھر میں گزارے پھر ایک اپنا گھر کرایہ پر لیا۔ پھر کونسل کے ذریعے ایک گھر حاصل کر کے اس میں آ گئے۔ بچے بڑے ہوتے گئے پھر اپنا گھر خرید لیا جو کہنے کو تو ہمارا گھر ہو گیا لیکن یقین کریں کبھی میں نے ایک بار بھی اپنی زبان سے یہ لفظ نہیں نکالا کہ یہ میرا گھر ہے۔ ہمیشہ یہ ہی بات ہوئی کہ یہ ہمارا گھر ہے سب کا گھر ہے گھر کسی ایک بندے کا نہیں پوری فیملی کا ہوتا ہے۔ جہاں ہم سب مل کر خوشیوں بھری زندگی گزارتے ہیں۔ ایک دوسرے کے دُکھ سُکھ بانٹتے ہیں۔ وہی گھر ہوتا ہے۔ ہاں بچے کہہ دیتے ہیں کہ یہ میرا گھر ہے کیونکہ وہ اپنے والدین کے ساتھ رہتے ہیں اُن کو ابھی ان پوشیدہ باتوں کا کچھ علم نہیں ہوتا کہ گھر ہے کس کا، بچوں نے والدین کے ساتھ ہی رہنا ہوتا ہے۔ جب 36 سال کی رفاقت کے بعد شوہر صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے تو گھر میرے نام ہو گیا یعنی کہ کاغذات پر اب میں اس گھر کی مالکہ ہو گئی جس سے مجھے کوئی خاص فرق تو نہیں پڑا۔ فرق پڑا تو یہ کہ اب میں ہر کام کے لئے ذمہ دار ٹھہری تب تک باقی بچے تو سب اپنے اپنے گھروں کے ہو چکے تھے ایک چھوٹا بیٹا میرے ساتھ تھا اُس کی ابھی شادی نہیں ہوئی تھی۔ لیکن اب مجھے وہ میرا ہی گھر کاٹنے کو آتا تھا۔ خالی گھر اب یہ گھر کم، سیمنٹ اور اینٹوں کامکان زیادہ لگنے لگا۔ تنہائی، سناٹا اور اکیلا پن محسوس ہوتا تھا۔ پھر میں نے اپنے بیٹے کی شادی کر دی بہو کے آنے سے مکان پھر سے گھر لگنے لگا گھر میں رونق ہو گئی (ماشاءاللّٰہ)۔ کچھ عرصہ بعد میری بہو اور بیٹے کو اپنا گھر چاہئے تھا۔ میں اب سوچنے لگی ’’اب میں کیا کروں‘‘؟ بہت سوچ بچار کے بعد یہی والا گھر میری رضا مندی اور خواہش سے دو سال جو کا غذات پر میرا گھر بنا رہا تھا وہ اب میرے بیٹے اور بہو نے خرید لیا اور میں پھر ذمہ داری سے آزاد ہو گئی۔ بیٹے کی ماشاءللّٰہ فیملی بڑھنے لگی تو اُنہوں نے دوسرا گھر خرید لیا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ بہت اچھا اور خوبصورت گھر ہے اور میں اب گزشتہ 20 سال سے اپنی بہو اور بیٹے کے گھر میں اُن کے ساتھ بہت خوشی سے رہتی ہوں۔

گھر

وہ باپ کا ہو۔۔۔ یا شوہر کا۔۔۔ یا کہ۔۔ ۔ بیٹوں کا۔۔ ۔۔ مَیں ہر مکان کو۔۔ ۔ سمجھی کہ یہ میرا۔۔ ۔ اپنا ہی ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ! ان سب گھروں نے مجھے بےبہا خوشیاں دیں۔ اپنے حصہ کے غم بھی دیکھے۔ لیکن جس گھر کی مجھے سب سے زیادہ یاد آئی کبھی اُن یادوں کو بھول نہیں پائی۔ وہ وہی گھر تھا جہاں میری ماں تھی جس کے ساتھ میرا درد کا رشتہ تھا اور بہنوں اور بھائی کے ساتھ محبت کا اور خون کا رشتہ تھا۔ وہ میری ماں کا گھر جہاں میری ماں نے اپنے غم دُکھ چھپا کر ہمیشہ ہمیں خوشیاں دیں۔ جہاں ہماری ماں کو ہماری تکلیفوں کا بہت جلد علم ہو جاتا تھا ہمیں کانٹا بھی لگے تو تکلیف امی جان کو ہوتی تھی مگر اُن کے دوپٹے کا پلو گیلا ہوتا تو اُن کا یہ کہنا کہ پانی سے گیلا ہوا ہے اور ہم سے چھپ کے اپنے دُکھوں کو چھپالینا یہ سب صرف میری ماں کو ہی آتا تھا۔ اگر میں چھپ کر ڈائجسٹ پڑھتی تو اُمی جان کو فوراً علم ہو جاتا تھا۔ مگر اُن کی دعاؤں بھری سسکیوں کا ہمیں علم نہیں ہوتا تھا۔ ہم نے سوجی ہوئی آنکھیں ضرور دیکھی ہیں مگر ان کی آ نکھوں میں آنسو کبھی نہیں دیکھے اور اُس وقت ہمیں اپنی ماں کے ان چھپے دُکھوں کا احساس بھی نہیں ہوتا تھا۔ جانے ہماری ماں دلوں کے حال کاکیسے جان جاتیں تھیں۔ میرے والد صاحب ہمیشہ ملک سے باہر رہے چنانچہ سب گھر کی ذمہ داری میری اُمی جان کی ہی تھی۔ ہاں! ہمیں مالی مشکلات نہیں تھیں کہ اباجان باقاعدگی سے ہمیں خرچ بھیجتے تھے۔ یہ پیاری یادیں اور میری بہنوں اور بھائی کی محبت ہمیشہ دل کے اندر جاگزیں رہتی ہے۔ اب جب کہ میں خود زندگی کی آخری دہلیز پر ہوں اپنے بیٹے سے اپنی خواہش کا اظہار کیا ہے کہ جہاں میرے شوہر کا آخری ٹھکاناہے وہیں میرے لئے جگہ خرید لے جہاں میرے اللہ کا گھر ہو جہاں میرا مستقل ٹھکانا ہو گا۔ منتظمین سے درخواست بھی کی اور اس بارے میں کوشش بھی جاری ہے۔ لیکن اب میرے دل میں یہ خیال جگہ پا گیا ہے کہ میں کیوں جگہ خریدوں؟ اللہ تعالیٰ نے میرے لئے بہترین گھر کی جگہ خود سے مقرر کی ہوئی ہو گی اور اللہ کی رضا ہو کہ میں وہاں اُس گھر میں مستقل جگہ پاؤں جہاں میرا ربّ چاہے بس اسی بات سے دل کو تسلی ہے کہ اب ایک مستقل گھر ہوگا جہاں میرے ربّ نے میری جنت بنائی ہوگی وہی اپنا مستقل گھر ہوگا۔ اب بہت مطمئن ہوں۔ یہ تمنا ہے اور دعا ہے کہ بس اللہ مجھ سے راضی ہو جائے اور اللہ کا گھر مجھے مل جائے۔ اللہ کے گھر کے کسی کونے میں جگہ مل جائے جہاں اُس کی رحمتیں، فضلوں کی بارش ہو اور پیارے ربّ کے پیارے نبی کریم ﷺکا دیدار ہو جائے۔ آمین۔

اللہ تعالیٰ میری بخشش فر مادے اور رحمت کی چادر میں لپیٹ لے۔

اٰمِیْن اَللّٰھُمَّ اٰمِیْن
اَللّٰھُمَّ حَا سِبْنِیْ حِسَا بًا یَسِیْرًا

(صفیہ بشیر سامی۔ لندن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 نومبر 2022

اگلا پڑھیں

سیّدنا حضرت امیر المؤمنین کا دورہ امریکہ 2022ء (قسط 10)