• 20 اپریل, 2024

تیری عاجزانہ راہیں اُسے پسند آئیں

’’ہماری جماعت کو اس پر توجہ کرنی چاہئے کہ ذرا سا گناہ خواہ کیسا ہی صغیر ہ ہوجب گردن پر سوار ہو گیا تو رفتہ رفتہ انسان کو کبیرہ گناہوں کی طرف لے جاتا ہے۔ طر ح طرح کے عیوب مخفی رنگ میں انسان کے اندر ہی اندر ایسے رَچ جاتے ہیں کہ ان سے نجات مشکل ہو جاتی ہے۔ انسان جو ایک عاجز مخلوق ہے اپنے تئیں شامتِ اعمال سے بڑا سمجھنے لگ جاتا ہے۔ کبر اور رعونت اس میں آجاتی ہے۔ اللہ کی راہ میں جب تک انسان اپنے آپ کو سب سے چھوٹا نہ سمجھے، چھٹکارا نہیں پاسکتا۔ کبیرؔ نے سچ کہا ہے۔

بھلا ہوا ہم نیچ بھئے ہر کو کیا سلام جے ہوتے گھر اُونچ کے ملتا کہاں بھگوان

یعنی اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہم چھوٹے گھر میں پیدا ہو ئے۔ اگر عالی خاندان میں پیدا ہو تے تو خدانہ ملتا۔ جب لوگ اپنی اعلیٰ ذات پر فخر کرتے تو کبیر اپنی ذات با فندہ پر نظر کر کے شکر کرتا۔

پس انسان کو چاہئے کہ ہر دم اپنے آپ کو دیکھے کہ مَیں کیسا ہیچ ہوں۔ میری کیا ہستی ہے۔ ہر ایک انسان خواہ کتنا ہی عالی نسب ہو مگر جب وہ اپنے آپ کو دیکھے گا بہر نہج وہ کسی نہ کسی پہلو میں بشرطیکہ آنکھیں رکھتا ہو تمام کائنات سے اپنے آپ کوضرور با لضرور ناقابل وہیچ جان لے گا۔ انسان جب تک ایک غریب وبیکس بڑھیا کے ساتھ وہ اخلاق نہ برتے جوایک اعلیٰ نسب عالی جاہ انسان کے ساتھ برتتا ہے یا بر تنے چاہئیں اور ہر ایک طرح کے غرور و رعونت وکبر سے اپنے آپ کو نہ بچا وے وہ ہر گز ہرگز خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں داخل نہیں ہو سکتا۔

جس قدر نیک اخلاق ہیں تھوڑی سی کمی بیشی سے وہ بداخلاقی میں بدل جاتے ہیں۔ اللہ جلّشانہٗ نے جودروازہ اپنی مخلوق کی بھلا ئی کے لیے کھو لا ہے وہ ایک ہی ہے یعنی دعا۔ جب کوئی شخص بکا و زاری سے اس دروازہ میں داخل ہوتا ہے تو وہ مولائے کریم اُس کو پاکیزگی و طہارت کی چادر پہنا دیتا ہے اور اپنی عظمت کا غلبہ اُس پر اس قدر کردیتا ہے کہ بیجا کا موں اور نا کارہ حرکتوں سے وہ کوسوں بھاگ جاتا ہے۔ کیا سبب ہے کہ انسان باوجود خدا کو ماننے کے بھی گناہ سے پر ہیز نہیں کرتا؟ درحقیقت اس میں دہر یت کی ایک رگ ہے اور اس کو پورا پورا یقین اور ایمان اللہ تعالیٰ پر نہیں ہو تا۔ ورنہ اگر وہ جا نتا کہ کو ئی خدا ہے جو حساب کتاب لینے والا ہے اور ایک آن میں اس کو تباہ کر سکتا ہے تو وہ کیسے بدی کر سکتا ہے۔ اس لیے حدیث شریف میں وارد ہے کہ کو ئی چور چوری نہیں کرتا درآنحالیکہ وہ مومن ہے اور کو ئی زانی زنا نہیں کرتا درآنحا لیکہ وہ مومن ہے۔بدکرداریوں سے نجات اُسی وقت حاصل ہو سکتی ہے جبکہ یہ بصیرت اور معرفت پیدا ہو کہ خدا تعالیٰ کا غضب ایک ہلاک کر نے والی بجلی کی طرح گرتا اور بھسم کر نے والی آگ کی طرح تباہ کردیتا ہے۔ تب عظمت الٰہی دل پر ایسی مستولی ہو جاتی ہے کہ سب افعال بد اندر ہی اندر گداز ہو جاتے ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد 3صفحہ314تا315 ایڈیشن 1988 مطبوعہ ربوہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 دسمبر 2020

اگلا پڑھیں

شانِ احمدِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم