حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز، حضرت مصلح موعود ؓ کے حوالہ سے بیان فرماتے ہیں:۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت میر حسام الدین صاحب جن کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بڑا تعلق تھا، آپ ان کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں۔ ان کے بیٹے میر حامد شاہ صاحب کے بیٹے کے نکاح کے موقع پر یہ بیان کیا۔ کہتے ہیں کہ: میر حامد شاہ صاحب جماعت میں خصوصیت رکھنے کے علاوہ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے۔) ان کے والد حکیم حسام الدین صاحب کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس وقت سے واقفیت تھی جبکہ آپ اپنے والد کے بار بار کے تقاضے سے تنگ آ کر ملازمت کے لئے سیالکوٹ تشریف لے گئے تھے۔ میر حسام الدین صاحب سیالکوٹ کے رہنے والے تھے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیالکوٹ تشریف لے گئے تو آپ سے تعلق پیدا ہوا۔ فرماتے ہیں کہ وہاں کچہری کی چھوٹی سی ملازمت پر کئی سال تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام رہے۔ انہی ایام میں حکیم حسام الدین صاحب سے تعلقات ہوئے اور آخر وقت تک تعلقات قائم رہے۔ یہ تعلقات صرف انہی کے ساتھ نہ رہے بلکہ ان کے خاندان کے ساتھ بھی رہے۔ (ان کے بعد میر حامد شاہ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سلسلے میں خاص لوگوں میں شمار ہوتے رہے۔) ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں حضرت میر حامد شاہ صاحب کے بارے میں ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ شاہ صاحب ایک درویش مزاج آدمی ہیں اور خدا تعالیٰ ایسے ہی لوگوں کو پسند کرتا ہے۔ بہرحال حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ’’تاہم حکیم حسام الدین صاحب کے ساتھ جو ابتدا کے تعلقات تھے۔ اس مثال سے ان کی خصوصیت نظر آتی ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام دعوی کے بعد سیالکوٹ تشریف لے گئے۔ حکیم حسام الدین صاحب کو آپ کے تشریف لانے کی بہت خوشی ہوئی۔ انہوں نے ایک مکان میں آپ کے ٹھہرانے کا انتظام کیا۔ لیکن جس مکان میں آپ کو ٹھہرایا گیا اس کے متعلق جب معلوم ہوا کہ اس کی چھت پر منڈیر کافی نہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سیالکوٹ سے واپسی کا ارادہ فرما لیا۔
(خطبات محمود جلد3 صفحہ326-327)
(منڈیر کے بارے میں بھی یہ یاد رکھنا چاہئے۔ حدیث میں بھی آیا ہے کہ ایسی چھتیں جن کی منڈیر نہ ہو ان چھتوں کے اوپر سونا نہیں چاہئے۔
(سنن ابی داؤد کتاب الادب باب فی النوم علیٰ سطح غیر محجر حدیث نمبر 5041)
اور اس زمانے میں گرمیوں میں لوگ چھتوں پر سویا کرتے تھے کیونکہ پنکھے وغیرہ کا تو انتظام نہیں ہوتا تھا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب دیکھا کہ چھت کی منڈیر نہیں ہے تو آپ نے فرمایا یہ گھر تو صحیح نہیں ہے۔ آپ نے واپسی کا ارادہ فرما لیا۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ) ’’اوراس وقت میرے ذریعے سے ہی باہر مَردوں کو لکھ دیا کہ کل ہم واپس قادیان چلے جائیں گے۔ نیز یہ بھی بتلا دیا کہ یہ مکان ٹھیک نہیں کیونکہ اس کی چھت پر منڈیر نہیں۔ اس خبر کے سننے پر احباب جن میں مولوی عبدالکریم صاحب وغیرہ تھے راضی بقضاء معلوم دیتے تھے لیکن جونہی حکیم حسام الدین صاحب کو معلوم ہوا تو انہوں نے کہا کس طرح واپس جاتے ہیں۔ چلے تو جائیں اور فوراً زنانہ دروازے پر حاضر ہوئے اور اطلاع کرائی کہ حکیم حسام الدین حضرت صاحب سے ملنے آئے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوراً باہر تشریف لے آئے۔ حکیم صاحب نے کہا مجھے معلوم ہوا ہے کہ حضور اس لئے واپس تشریف لے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں کہ یہ مکان مناسب نہیں۔ (مکان کے متعلق انہوں نے عرض کیا کہ) مکان کے متعلق تو یہ ہے کہ تمام شہر میں سے جو مکان بھی پسند ہو اسی کا انتظام ہو سکتا ہے۔ رہا واپس جانا تو کیا آپ اس لئے یہاں آئے تھے کہ فوراً واپس چلے جائیں اور لوگوں میں میری ناک کٹ جائے۔ اس بات کو ایسے لب و لہجے میں انہوں نے کہا اور اس زور کے ساتھ کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بالکل خاموش ہو گئے اور آخر میں کہا اچھا ہم نہیں جاتے۔‘‘
(ماخوذ از خطبات محمود جلد3 صفحہ326-327۔ خطبہ نکاح بیان فرمودہ 19 اکتوبر 1933ء)
ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس ایک شخص آیا۔ اس نے کہا کہ میں آپ کا بہت مداح ہوں لیکن ایک بہت بڑی غلطی آپ سے ہوئی ہے۔ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کہنے لگا کہ) آپ جانتے ہیں کہ علماء کسی کی بات نہیں مانا کرتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر مان لی تو ہمارے لئے موجب ہتک ہو گی۔ لوگ کہیں گے یہ بات فلاں کو سوجھی اور اِنہیں نہ سوجھی۔ اس لئے ان سے منوانے کا یہ طریق ہے کہ ان کے منہ سے ہی بات نکلوائی جائے۔ (یعنی علماء بات نہیں مانتے۔ علماء سے یا مولویوں سے بات منوانے کا طریقہ یہ ہے کہ انہی کے منہ سے بات نکلوائی جائے اور جو طریقہ اُس شخص نے پیش کیا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملنے آیا تھا یہ تھا کہ) جب آپ کو وفات مسیح کا مسئلہ معلوم ہوا تھا تو آپ کو چاہئے تھا کہ چیدہ چیدہ علماء کی دعوت کرتے اور ایک میٹنگ کر کے یہ بات ان کے سامنے پیش کرتے کہ عیسائیوں کو حیات مسیح کے عقیدے سے بہت مدد ملتی ہے اور وہ اعتراض کر کے اسلام کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تمہارا نبی فوت ہو گیا اور ہمارے مذہب کا بانی آسمان پر ہے۔ اس لئے وہ افضل بلکہ خود خدا ہے۔ اس کا کیا جواب دیا جائے۔ (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام علماء کو اکٹھا کر کے یہ پوچھیں کہ یہ بات ہے بتاؤ اس کا کیا جواب دیا جائے۔ تو وہ شخص کہنے لگا کہ) اُس وقت علماء یہی کہتے کہ آپ ہی فرمائیے اس کا کیا جواب ہے۔ آپ کہتے کہ رائے تو دراصل آپ لوگوں کی ہی صائب ہو سکتی ہے لیکن میرا خیال ہے کہ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ تجویز پیش کر رہا ہے کہ آپ یہ کہتے کہ) فلاں آیت سے حضرت مسیح کی وفات ثابت ہو سکتی ہے۔ علماء فوراً کہہ دیتے کہ یہ بات ٹھیک ہے۔ بسم اللہ کر کے اعلان کیجئے۔ ہم تائید کے لئے تیار ہیں۔ پھر اسی طرح یہ مسئلہ پیش ہو جاتا کہ حدیثوں میں مسیح کی دوبارہ آمد کا ذکر ہے مگر جب مسیح علیہ السلام فوت ہو گئے تو اس کا کیا مطلب سمجھا جائے گا۔ اس پر کوئی عالم آپ کے متعلق کہہ دیتا (کہ) آپ ہی مسیح ہیں اور تمام علماء نے اس پر مہر تصدیق ثبت کر دینی تھی۔ یہ تجویز سن کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر میرا دعویٰ انسانی چال سے ہوتا تو بیشک ایسا ہی کرتا مگر یہ خدا کے حکم سے تھا۔ خدا نے جس طرح سمجھایا اسی طرح میں نے کیا۔ تو (حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ) چالیں اور فریب انسانی چالوں کے مقابل پر ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کی جماعتیں ان سے ہرگز نہیں ڈر سکتیں۔ یہ ہمارا کام نہیں خود خدا تعالیٰ کا کام ہے۔
(ماخوذ از خطبات محمود جلد12 صفحہ196-197۔ خطبہ جمعہ فرمودہ 15 نومبر 1929ء)
اور آجکل بھی اسی طرح بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ یوں نہ کیا جائے، یوں دعویٰ کیا جائے، نبی نہ مانا جائے صرف مجدد کہا جائے تو مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ خود میرے سے بھی یہاں ایک شخص مسلمان رسالے کے انٹرویو لینے آئے تھے۔ کہتے ہیں اگر آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نبی نہ مانیں تو کیا فرق پڑتا ہے؟ پھر علماء آپ کے خلاف نہیں رہیں گے۔ تو اس کو میں نے بڑا سمجھایا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ جواب دیا کہ جو اللہ نے کہا ہے وہ مانا جائے یا تمہارے علماء کی بات مانی جائے لیکن بہر حال ان کو سمجھ نہیں آتی۔
(خطبہ جمعہ 27؍ فروری 2015ء)