خطبہ جمعہ
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 13؍ نومبر 2020ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے
چار مرحومین مکرم محبوب خان صاحب (شہید) پشاور پاکستان، مکرم فخر احمد فرخ صاحب مربی سلسلہ پاکستان اور ان کے بیٹےعزیزم احتشام احمد عبداللہ اور
مکرم ڈاکٹر عبدالکریم صاحب ریٹائرڈ اکنامک ایڈوائزر سٹیٹ بینک آف پاکستان کا ذکر ِخیر اور نماز ِجنازہ غائب
آنحضرت ﷺ کے عظیم المرتبت بدری صحابہ حضرت عبداللہ بن عمرو اور حضرت سماک بن خرشہ (ابودُجانہ) رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے اوصافِ حمیدہ کاتذکرہ
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
آج بدری صحابہ کا ذکر ہو گا۔ سب سے پہلے تو میں ایک وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔ دو خطبے پہلے حضرت معاذ بن جبلؓ کے بارے میں جو بیان ہوا تھا اس میں مسند احمد بن حنبل کی ایک روایت تھی جس میں طاعون کے بارے میں کہا گیا تھا کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ عنقریب تم شام کی طرف ہجرت کرو گے، اور وہ تمہارے ہاتھوں فتح ہو جائے گا لیکن وہاں پھوڑے پھنسیوں کی ایک بیماری تم پر مسلط ہو جائے گی جو آدمی کو سیڑھی کے پائے سے پکڑ لے گی۔ یہ ترجمے میں غلطی تھی صحیح طرح ترجمہ بیان نہیں ہو سکا تھا، اور اس سے بات واضح بھی نہیں ہوتی تو اس بارے میں صحیح ترجمے کے ساتھ جو روایت ہے وہ دوبارہ بیان کرتا ہوں۔
اسماعیل بن عبیداللہ سے روایت ہے کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تم لوگ شام کی طرف ہجرت کرو گے۔ وہ تمہارے لیے فتح کیا جائے گا۔ وہاں تم لوگوں میں ایک بیماری ظاہر ہو گی جو پھوڑے یا سخت کاٹنے والی ایک چیز کی طرح ہو گی۔ وہ انسان کی ناف کے نچلے حصے میں ظاہر ہو گی۔ اب جو یہ ہے کہ ’’سیڑھی کے پائے سے پکڑے گی‘‘ یہ ترجمہ جو مختلف الفاظ کا ہوتا ہے پہلے غلط کیا گیا تھا۔ اصل ترجمہ یہ ہے کہ وہ انسان کی ناف کے نچلے حصہ میں ظاہر ہو گی۔ جس طرح ناف کے نچلے حصے میں ٹانگ کے اوپر اور درمیان جسم کے ایک پھوڑا نکلتا ہے۔ فرمایا کہ اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو شہادت عطا کرے گا اور اس کے ذریعہ ان کے اعمال کو پاک کرے گا۔ پھر حضرت معاذؓ نے دعا کی کہ اے اللہ! اگر تُو جانتا ہے کہ معاذ بن جبل نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے تو اسے اور اس کے گھر والوں کو اس سے وافر حصہ دے۔ اس پر ان سب کو طاعون ہو گئی حتیٰ کہ ان میں ایک بھی نہ بچا۔ آپؓ کی شہادت کی انگلی پر طاعون کا دانہ نکلا تو آپؓ نے کہا کہ میں ہرگز خوش نہ ہوں گا کہ مجھے اس کے بدلے سرخ اونٹ ملیں۔
(مسند امام احمد بن حنبل جلد 7 صفحہ 371 مسند معاذ بن جبل حدیث 22439 عالم الکتب بیروت 1998ء)
تو یہ درستی تھی۔ ترجمہ جو پرنٹ ہو رہا ہے اور الفضل میں بھی چھپتا ہے اس میں تو کر دی گئی ہے۔ میں نے کہا کہ آپ کے سامنے بھی پیش کر دوں۔
اس کے بعد اب جو ذکر چل رہا تھا وہ حضرت عبداللہ بن عمروؓ کا تھا۔ اب وہی ذکر دوبارہ شروع ہوتا ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ غزوۂ احد کے دن میرے والد کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس حال میں لایا گیا کہ آپؓ کا مُثلہ کیا گیا تھا یعنی جسم کے اعضاء کاٹ دیے گئے تھے خاص طور پر کان اور ناک۔ آپ کی میت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھی گئی تو کہتے ہیں کہ میں ان کے چہرے سے کپڑا اٹھانے لگا تو لوگوں نے مجھے منع کیا۔ پھر لوگوں نے ایک عورت کی چیخنے کی آواز سنی تو کسی نے کہا کہ وہ حضرت عبداللہ بن عمروؓ کی بیٹی ہیں۔ ان کا نام حضرت فاطمہ بنت عمرو تھا یا یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓکی بہن تھیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مت رو کیونکہ فرشتے مسلسل اس پر اپنے پَروں سے سایہ کیے ہوئے ہیں۔
(الاستیعاب فی معرفة الاصحاب جز3 صفحہ 954۔955، عبد اللّٰہ بن عمرو، دار الجیل بیروت 1992ء)
ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد کو جب احد کے روز لایا گیا تو میری پھوپھی ان پر رونے لگی تو مَیں بھی رونے لگا۔ لوگ مجھے منع کرنے لگے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے منع نہیں فرمایا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ اس پر رو یا نہ رو، اللہ کی قسم! فرشتے اس پر مسلسل اپنے پروں سے سایہ کیے ہوئے تھے یہاں تک کہ تم نے اسے دفن کر دیا۔
(الاستیعاب فی معرفة الاصحاب جز3 صفحہ 956، عبد اللّٰہ بن عمرو، دار الجیل بیروت 1992ء)
غزوۂ احد کے شہداء کی نماز جنازہ کے بارے میں مختلف آراء ہیں۔ کافی اختلاف پایا جاتاہے۔ صحیح بخاری کی روایت میں حضرت جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ احد کے شہداء میں سے دو دو آدمیوں کو ایک ہی کپڑے میں اکٹھا رکھتے اور پھر پوچھتے کہ ان میں سے کون قرآن زیادہ جاننے والا تھا۔ جب ان میں سے کسی ایک کی طرف اشارہ کیا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو لحد میں پہلے رکھتے یعنی قبر میں پہلے اتارتے اور فرماتے: میں قیامت کے دن ان لوگوں کا گواہ ہوں اور ان کو ان کے خونوں میں ہی دفن کرنے کا حکم دیتے۔ نہ ان کو نہلایا گیا اور نہ ہی ان کی نماز جنازہ پڑھی گئی۔
(صحیح بخاری کتاب الجنائز باب الصلاة علی الشہید حدیث نمبر1343)
صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت (یہ بھی بخاری کی روایت ہے جو میں نے پڑھی تھی) میں حضرت عقبہ بن عامرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ احد کے شہداء کا جنازہ پڑھا۔ بخاری کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہدائے احد کا جنازہ غزوۂ احد کے آٹھ سال بعد پڑھا۔
(صحیح بخاری کتاب الجنائز باب الصلاة علی الشہید حدیث نمبر 1344)
(صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوة الاحد حدیث نمبر 4042)
سنن ابن ماجہ میں بیان ہے کہ حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ غزوۂ احد کے شہداء کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا جاتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم دس دس شہداء کا جنازہ پڑھتے اور حضرت حمزہ ؓکی میت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہی موجود رہتی جبکہ باقی شہداء کو لے جایا جاتا۔
(سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز باب ما جاء فی الصلاة علی شہداء و دفنھم حدیث نمبر 1513)
سنن ابو داؤد میں بیان ہے کہ حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ غزوۂ احد کے شہداء کو غسل نہیں دیا گیا اور ان کو ان کے خون یعنی زخموں سمیت دفنا دیا گیا اور ان میں سے کسی کی بھی نماز جنازہ نہیں اد اکی گئی۔
(سنن ابو داؤد کتاب الجنائز باب فی الشہید یغسل حدیث نمبر 3135)
سنن ابو داؤد ہی کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوائے حضرت حمزہ ؓکے اَور کسی شہید کا جنازہ نہیں پڑھا۔
(سنن ابو داؤد کتاب الجنائز باب فی الشہید یغسل حدیث نمبر 3137)
سنن ترمذی کی روایت میں حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ احد کے شہداء کا جنازہ نہیں پڑھا۔
(سنن ترمذی ابواب الجنائز باب ما جاء فی قتلیٰ احد و ذکر حمزة حدیث نمبر 1016)
سیرت ابن ہشام اور سیرت حلبیہ میں لکھا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے شہداء کا جنازہ اس طرح ادا کیا کہ سب سے پہلے حضرت حمزہ ؓکی نماز جنازہ ادا کی۔ آپؐ نے نماز جنازہ میں سات تکبیرات کہیں۔ سیرتِ حلبیہ کے مطابق چار تکبیریں کہیں۔ اس کے بعد باقی شہداء کو ایک ایک کر کے لایا جاتا اور حضرت حمزہؓ کی میت کے ساتھ رکھا جاتا اور آپؐ ان دونوں کی نماز جنازہ ادا فرماتے اور اس طرح تمام شہداء کی نماز جنازہ ایک بار اور حضرت حمزہؓ کی نماز جنازہ بہتّر بار اور بعض کے نزدیک بانوے بار ادا کی گئی۔
(سیرت ابن ہشام صفحہ 395۔396، غزوۂ احد، دار ابن حزم بیروت 2009ء)
(السیرة الحلبیة جلد2 صفح 337، باب ذکر مغازیہ، دارالکتب العلمیة بیروت، 2002ء)
سیرت کی ایک کتاب دلائل النبوہ میں لکھا ہے کہ حضرت حمزہ ؓکی میت کے پاس نو شہداء کو اکٹھا لایا جاتا اور ان کی نماز جنازہ ادا کی جاتی۔ پھر ان نو (۹) کو لے جایا جاتا اور مزید نو شہداء کو لایا جاتا اور اس طرح ان تمام شہداء کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور آپؐ نے ہر دفعہ نماز جنازہ میں سات تکبیرات کہیں۔
(دلائل النبوہ جزء 3صفحہ 287، اجاد الحرب و ما ظہر من الآثارفی حال الشہداء ، دارالکتب العلمیۃ بیروت، 2002ء)
سیرتِ حلبیہ اور دلائل النبوة میں غزوۂ احد کے شہداء کی نماز جنازہ کی احادیث کے بارے میں بحث کی گئی ہے اور ان دونوں کتب میں حضرت جابر بن عبداللہؓ کی روایت کہ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ احد کے شہداء کو ان کے خونوں کے ساتھ ہی دفن کرنے کا حکم دیا، نہ ان کو نہلایا گیا اور نہ ہی ان کی نماز جنازہ پڑھی گئی‘‘ کو زیادہ مضبوط قرار دیا ہے۔
(السیرة الحلبیة جلد2 صفحہ338، باب ذکر مغازیہ، دارالکتب العلمیة بیروت، 2002ء)
(دلائل النبوة جز3 صفحہ287۔288، اجاد الحرب و ما ظہر من الآثارفی حال الشہداء، دارالکتب العلمیۃ بیروت، 2002ء)
(صحیح بخاری کتاب الجنائز باب الصلاة علی الشہید حدیث نمبر 1343)
حضرت امام شافعی ؒبیان کرتے ہیں کہ متواتر روایات سے یہ بات پختہ طور پر معلوم ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ احد کے شہداء کا جنازہ نہیں پڑھا اور جن روایات میں ذکر آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان شہداء کا جنازہ پڑھا تھا اور حضرت حمزہؓ پر ستر تکبیرات کہی تھیں یہ بات درست نہیں ہے اور جہاں تک حضرت عقبہ بن عامرؓ کی روایت کا تعلق ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ سال کے بعد ان شہداء کا جنازہ پڑھا تو اس روایت میں اس بات کا ذکر ہوا ہے کہ یہ آٹھ سال بعد کا واقعہ ہے۔
(فتح الباری شرح صحیح بخاری از علامہ ابن حجر عسقلانی جلد 3 صفحہ 249 مطبوعہ دار الریان للتراث قاھرہ 1986ء)
جیسا کہ میں نے کہا اس پر بڑی بحثیں ہوئی ہیں۔کچھ اور بھی بیان کر دیتا ہوں۔
امام بخاری نے اپنی کتاب میں باب الصلوٰة علی الشہید یعنی شہیدوں کی نماز ِجنازہ کے عنوان سے باب باندھا ہے اور اس کے نیچے صرف دو حدیثیں لائے ہیں۔ پہلی حدیث جو کہ حضرت جابر بن عبداللہ سے مروی ہے اور اس میں واضح طور پر ذکر ہے کہ غزوۂ احد کے شہداء کو نہ غسل دیا گیا اور نہ ہی ان پر نماز جنازہ پڑھی گئی جبکہ دوسری حدیث میں حضرت عقبہ بن عامر سے مروی ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ أنَّ النَّبِیَّﷺ خَرَجَ یَوْمًا فَصَلَّی عَلٰی أھْلِ أُحُدٍ صَلَاتَہُ عَلَی الْمَیِّتِ۔ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور احد کے شہداء پر نماز جنازہ کی طرز پر نماز پڑھی اور یہی حدیث بخاری میں ہی دوسری جگہ غزوۂ احد کے باب میں بھی آئی ہے وہاں یہی صحابی روایت کرتے ہیں اور بیان کرتے ہیں کہ صَلَّی رَسُوْلُ اللّٰہِ عَلٰی قَتْلٰی أُحُدٍ بَعْدَ ثَمَانِیَ سِنِیْنَ کَالْمُوَدِّعِ لِلْأَحْیَاءِ وَالْأَمْوَاتِ۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے شہداء پر آٹھ سال بعد اس طرح نماز پڑھی جیسے زندوں یا وفات پانے والوں کو الوداع کہا جاتا ہے۔
(صحیح البخاری کتاب الجنائز باب الصلاۃ علی الشھید حدیث 1343۔1344)
(صحیح البخاری کتاب المغازی باب غزوۂ احد حدیث 4042)
اسی طرح علّامہ ابن حجر عسقلانی ؒکہتے ہیں کہ امام شافعی ؒکی اس سے یہ مراد ہے کہ کسی کی وفات پر لمبی مدت گزر جانے کے بعد اس کی قبر پر جنازہ نہیں پڑھا جاتا۔ امام شافعی کے نزدیک جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ آپؐ کے وصال کا وقت قریب ہے تو آپؐ نے ان شہداء کی قبروں پر جا کر انہیں الوداع کہتے ہوئے ان کے لیے دعا فرمائی اور ان کے لیے مغفرت طلب کی۔
(فتح الباری شرح صحیح بخاری از علامہ ابن حجر عسقلانی جلد3 صفحہ249 دار الریان للتراث قاھرہ 1986ء)
شہدائے احد کی تکفین اور تدفین کا ذکر کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب یہ لکھتے ہیں کہ
’’نعشوں کی دیکھ بھال کے بعد تکفین کاکام شروع ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو کپڑے شہداء کے بدن پرہیں وہ اسی طرح رہنے دئیے جائیں اور شہداء کو غسل نہ دیا جاوے۔ البتہ کسی کے پاس کفن کے لیے زائد کپڑا ہو تو وہ پہنے ہوئے کپڑوں کے اوپر لپیٹ دیا جاوے۔ نماز جنازہ بھی اس وقت ادا نہیں کی گئی۔ چنانچہ بغیر غسل دیئے اوربغیر نمازجنازہ اداکئے شہداء کو دفنا دیا گیا۔ اور عموماً ایک ایک کپڑے میں دو دوصحابیوں کواکٹھا کفنا کرایک ہی قبر میں اکٹھا دفن کردیا گیا۔ جس صحابی کو قرآن شریف زیادہ آتا تھا اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے ماتحت لحد میں اتارتے ہوئے مقدم رکھا جاتا۔‘‘ اور پھر لکھتے ہیں کہ ’’گو اس وقت نماز جنازہ ادا نہیں کی گئی لیکن بعد میں زما نہ وفات کے قریب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر شہداءِ احد پر جنازہ کی نماز ادا کی۔‘‘ یہ آپؓ نے مختلف تاریخوں سے استنباط کیا ہے۔ یا نماز پڑھی گئی یا دعا کی گئی بھی ہو سکتا ہے لیکن بہرحال بڑے درد سے ان کے لیے نمازِ جنازہ ادا کی ’’اور بڑے دردِ دل سے ان کے لیے دعا فرمائی۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ 501۔502)
ہو سکتا ہے کہ دعا کی ہو۔ جس طرح پہلے ذکر ہو چکا ہے۔ ہر ایک کی قبر پہ جا کے دعا کی ہو اور بڑے درد سے ان کے لیے دعا فرمائی۔
حضرت جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کے لیے غزوۂ احد کے چھ ماہ بعد قبر بنائی اور انہیں اس میں دفن کیا تو میں نے ان کے جسم میں کوئی تغیر نہیں دیکھا سوائے ان کی داڑھی کے چند بالوں کے جو زمین کے ساتھ لگے ہوئے تھے۔
(اسد الغابة فی معرفة الصحابہ جلد3 صفحہ344 عبد اللّٰہ بن عمرو، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2003ء)
ایک دوسری جگہ روایت میں آتا ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ غزوۂ احد کے موقعے پر ایک قبر میں دو لوگوں کو دفن کیا گیا اور میرے والد کے ساتھ بھی ایک صحابی کو دفن کیا گیا۔ چھ ماہ گزر گئے پھر میرے دل نے چاہا کہ میں انہیں الگ قبر میں اکیلا دفن کروں۔ چنانچہ میں نے انہیں قبر سے نکالا تو میں نے دیکھا کہ زمین نے ان کے جسم میں کچھ بھی تغیر نہیں کیا تھا سوائے ان کے کان کے گوشت میں سے تھوڑا سا۔
(الطبقات الکبریٰ جزء3 صفحہ425، عبد اللّٰہ بن عمرو، دارالکتب العلمیة بیروت، 1990ء)
غزوۂ احد کے چھیالیس سال بعد حضرت امیر معاویہ نے اپنے دورحکومت میں نہر جاری کی جس کا پانی غزوۂ احد کے شہداء کی قبروں میں داخل ہو گیا۔ حضرت عبداللہ بن عمروؓ اور حضرت عمرو بن جَمُوحؓ کی قبر میں بھی پانی داخل ہو گیا۔ جب ان کی قبر کھودی گئی تو ان پر دو چادریں پڑی ہوئی تھیں اور یہ روایت بیان کرنے والے کہتے ہیں کہ ان کے چہرے پر زخم تھا اور ان کا ہاتھ ان کے زخم پر تھا اور پھر آگے جو روایت ہے وہ بہرحال محلِ نظر ہے۔ بیان تو مَیں کر رہا ہوں لیکن ضروری نہیں ہے کہ اس پہ تسلی بھی ہو۔ یہ کیونکہ بعض تاریخی کتابوں میں لکھا ہے اور پڑھنے والے بعض پڑھتے بھی ہیں اس لیے یہاں بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ یہ ہو سکتا ہے کہ اس میں کچھ مبالغہ بھی کیا گیا ہو۔ بہرحال وہ کہتے ہیں زخم سے جب ہاتھ ہٹایا گیا تو زخم سے خون جاری ہو گیا (جو ناممکن ہے)۔ ان کا ہاتھ واپس زخم پر رکھ دیا گیا تو پھر خون رک گیا۔ اس قسم کی روایتیں بھی بعض بیچ میں آ جاتی ہیں جو محلِ نظر ہوتی ہیں۔ جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے قبر میں اپنے والد کو دیکھا تو ایسا معلوم ہوا گویا وہ سو رہے ہیں۔
(الطبقات الکبریٰ جزو3 صفحہ424، عبد اللّٰہ بن عمرو، دارالکتب العلمیة بیروت، 1990ء)
(کتاب المغازی جلد 1 صفحہ 267 مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1984ء)
حالانکہ چھ مہینے کے بعد جب انہوں نے نکالا تھا اس وقت بھی وہ کہتے ہیں گوشت پر کچھ اثر تھا تو چھیالیس سال بعد تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ نہ اثر ہوا ہو اور ہڈیاں نہ رہ گئی ہوں اور یہ قانونِ قدرت ہے۔ اس طرح نہیں ہو سکتا کہ جسم میں کوئی تغیر نہیں تھا۔
حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ملے تو آپؐ نے فرمایا اے جابر ! کیا بات ہے مَیں تمہیں غمگین دیکھ رہا ہوں؟ مَیں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے والد غزوۂ احد میں شہید ہو گئے اور وہ قرض اور اولاد چھوڑ گئے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کیا میں تمہیں اس چیز کی خوشخبری نہ دوں جس سے اللہ نے تمہارے والد سے ملاقات کی ہے؟ میں نے عرض کی جی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ آپؐ نے فرمایا اللہ نے کسی سے کلام نہیں کیا مگر پردے کے پیچھے سے، جس سے بھی اللہ تعالیٰ نے کلام کیا پردے کے پیچھے سے کیا لیکن اللہ نے تمہارے والد کو زندہ کیا اور پھر ان سے آمنے سامنے ہو کر کلام کیا اور فرمایا اے میرے بندے! مجھ سے مانگ کہ میں تجھے دوں۔ انہوں نے عرض کی کہ اے میرے رب! مجھے دوبارہ زندہ کر دے تا کہ میں تیری راہ میں دوبارہ قتل کیا جاؤں۔ ایک روایت میں ہے کہ اس موقعے پر حضرت عبداللہ نے عرض کی کہ اے میرے رب! مَیں نے تیری عبادت کا حق ادا نہیں کیا۔ میری تمنا ہے کہ تو مجھے دوبارہ دنیا میں بھیج تا کہ مَیں تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہو کر تیری راہ میں لڑوں اور تیری راہ میں دوبارہ مارا جاؤں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں یہ فیصلہ کر چکا ہوں کہ جو ایک بار مر جائیں وہ دنیا میں دوبارہ نہیں لوٹائے جائیں گے۔ حضرت عبداللہ بن عمروؓ نے اللہ سے عرض کی کہ اے میرے رب! میرے پیچھے رہنے والوں تک یہ بات پہنچا دے۔ اس موقعے پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُوْنَ۔ (آل عمران: 170) یعنی جو اللہ کی راہ میں مارے گئے تم انہیں ہرگز مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ تو زندہ ہیں۔ انہیں ان کے رب کے ہاں رزق عطا کیا جا رہا ہے۔
(سنن الترمذی ابواب تفسیر القرآن باب تفسیر سورہ آل عمران حدیث نمبر 3010)
(دلائل النبوة جز3 صفحہ 298، اجاد الحرب و ما ظہر من الآثارفی حال الشہداء، دارالکتب العلمیۃ بیروت، 2002ء)
(الاستیعاب فی معرفة الاصحاب جز3صفحہ 955۔956، عبد اللہ بن عمرو، دار الجیل بیروت 1992ء)
حضرت جابر بن عبداللہؓ کے ضمن میں پہلے بھی یہ آیت مَیں بیان کر چکا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے حضرت عبداللہ بن عمرؓو سے مکالمہ والے واقعے کی تفصیل حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒنے اپنی ایک تقریر میں جو خلافت سے پہلے تھی اس طرح بیان کی ہے کہ
’’اس واقعہ میں طرح طرح کا حسن کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے اور جس کروٹ سے اسے دیکھیں یہ ایک نئی رعنائی دکھاتا ہے۔ منجملہ اَور امور کے اس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ کس طرح مسلسل آنحضورؐ کا رابطہ اپنے رب سے قائم تھا۔ بندوں پر بھی نظر شفقت فرما رہے تھے اور رب سے بھی دل ملا رکھا تھا۔ ایک پہلو اپنے صحابہ پر جھکا ہوا تھا تو دوسرا پہلو رفیقِ اعلیٰ سے پیہم وابستہ اور پیوستہ تھا۔ وہ وجود جو امن کی حالت میں ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰى (النجم:9) کے افقِ اعلیٰ پر فائز رہا، جنگ کی حالت میں بھی ایک لمحہ اس سے الگ نہ ہوا۔ ایک نگاہ میدان حرب کی نگران تھی تو دوسری جمالِ یار کے نظارے میں مصروف تھی۔ ایک کان رحمت سے صحابہ کی طرف جھکا ہوا تھا تو دوسرا ملاءِ اعلیٰ سے اپنے رب کا شیریں کلام سننے میں مصروف۔ دست باکار تھا تو دل بایار۔ آپؐ صحابہ کی دلداری فرماتے تھے تو خدا آپؐ کی دلداری فرما رہا تھا۔ عبداللہ بن عمروؓ کی قلبی کیفیت کی خبر دے کر دراصل اللہ تعالیٰ آپؐ کو یہ پیغام دے رہا تھا کہ اے سب سے بڑھ کر مجھ سے محبت کرنے والے! دیکھ! تیرا بھی کیسا عشق ہم نے اپنے عارف بندوں کے دل میں بھر دیا ہے کہ عالم گزراں سے گزر جانے کے بعد بھی تیرا خیال انہیں ستاتا ہے اور تجھے میدان جنگ میں تنہا چھوڑ کے چلے جانے پر کس درجہ کبیدہ خاطر ہیں۔ تیرے مقابل پر انہیں جنت کی بھی حرص نہیں رہی۔ ان کی جنت تو بس یہی ہے کہ تیز تلواروں سے بار بار کاٹے جائیں مگر تیرے ساتھ رہیں، پھر تیرے ساتھ رہیں ،پھر تیرے ساتھ رہیں۔‘‘
(خطابات طاہر (تقاریر جلسہ سالانہ قبل از خلافت) تقریر جلسہ سالانہ 1979ء، صفحہ 349۔350)
حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمروؓ جب فوت ہوئے تو ان پر قرض تھا۔ مَیں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد طلب کی۔ آپؐ ان کے قرض خواہوں کو سمجھائیں کہ وہ ان کے قرض میں سے کچھ کمی کر دیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس خواہش کا اظہار کیا مگر انہوں نے کمی نہ کی۔ تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ جاؤ اور اپنی کھجوروں کی ہر ایک قسم کو الگ الگ کرو۔ عجوہ کھجور کی قسم کو علیحدہ رکھنا اور عِذْقْ بن زَید کھجور کی قسم کو علیحدہ۔ پھر مجھے پیغام بھیجنا۔ چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہلا بھیجا۔ آپؐ تشریف لائے تو آپؐ کھجوروں کے ڈھیر پر یا ان کے درمیان بیٹھ گئے۔ پھر آپؐ نے فرمایا ان لوگوں کو ماپ کر دو۔ چنانچہ میں نے ان کو ماپ کر دیا یہاں تک کہ جو اُن کا حق تھا میں نے ان کو پورا دے دیا۔ پھر بھی میری کھجوریں بچ گئیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان میں کچھ کمی نہیں ہوئی۔
(صحیح بخاری کتاب البیوع باب الکیل علی البایع و المعطی حدیث نمبر 2127)
حضرت عبداللہ بن عمروؓ اپنے پسماندگان میں اپنے بیٹے حضرت جابر بن عبداللہؓ کے علاوہ چھ بیٹیاں چھوڑ کے گئے۔ صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق حضرت عبداللہ بن عمرؓو نے پسماندگان میں سات یا نو بیٹیاں چھوڑی تھیں۔
(سنن نسائی کتاب الوصایا باب الوصیة بالثلث حدیث نمبر 3666)
(بخاری کتاب النفقات باب عون المرأة زوجھا فی ولدہ حدیث نمبر 5367)
اب اگلا ذکر جن صحابی کا ہے ان کا نام ہے حضرت ابودُجَانہ۔ ابو دُجَانہ حضرت سِمَاک بن خَرَشہؓ۔ حضرت ابودُجَانہؓ کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو ساعدہ سے ہے۔ حضرت ابودُجَانہ کے والد کا نام خَرَشَہ تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ اوس تھا اور ان کے دادا کا نام خرشہ تھا۔ حضرت ابودُجَانہ کی والدہ کا نام حَزْمَہ بنت حَرْمَلہ تھا۔ آپؓ اپنے نام کی نسبت اپنی کنیت ابودُجَانہ سے زیادہ مشہور تھے۔ حضرت ابودُجَانہ کا ایک بیٹا تھا جس کا نام خالد تھا اور اس کی والدہ کا نام آمنہ بنت عمرو تھا۔
(اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 317 سِمَاکْ بِنْ خَرَشَہ مطبوعہ دارالفکر بیروت لبنان 2003ء)
(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 419 اَبُوْ دُجَانَہ مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1990ء)
حضرت عتبہ بن غزوان ؓمکے سے ہجرت کر کے جب مدینہ پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اور حضرت ابودُجَانہ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 420 اَبُوْ دُجَانَہ مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1990ء)
حضرت ابودُجَانہ غزوۂ بدر، احد اور دیگر تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ رہے۔
(اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 317 سِمَاکْ بِنْ خَرَشَہ مطبوعہ دارالفکر بیروت لبنان 2003ء)
حضرت ابودُجَانہ ؓ کا شمار انصار کے کبار صحابہ میں ہوتا تھا اور انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں نمایاں حیثیت حاصل تھی۔
(الاستیعاب فی معرفة الاصحاب جلد2 صفحہ212 سِمَاکْ بِنْ خَرَشَہ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2010ء)
جب جنگ ہوتی تو حضرت ابودُجَانہ بہت شجاعت کا اظہار کرتے اور وہ کمال کے گھوڑ سوار تھے۔ ان کے پاس سرخ رنگ کا ایک رومال تھا جسے وہ صرف جنگ کے وقت سر پر باندھتے تھے۔ جب وہ سرخ رومال سر پر باندھتے تو لوگوں کو علم ہو جاتا کہ اب وہ لڑائی کے لیے تیار ہیں۔ حضرت ابودُجَانہ کا شمار دلیر اور بہادر لوگوں میں ہوتا تھا۔
(اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ جلد5 صفحہ96 اَبُوْ دُجَانَہ سِمَاکْ بِنْ خَرَشَہ مطبوعہ دارالفکر بیروت لبنان 2003ء)
محمد بن ابراہیم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابودُجَانہ جنگوں میں اپنے سرخ عمامے کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے اور غزوۂ بدر میں بھی یہ ان کے سر پر تھا اور محمد بن عمر کہتے ہیں کہ حضرت ابودُجَانہ غزوۂ احد میں بھی اسی طرح شامل ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثابت قدم رہے اور موت پر آپؐ سے بیعت کی۔
(الطبقات الکبریٰ جلد3 صفحہ420 اَبُوْ دُجَانَہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 1990ء)
غزوۂ احد کے دن حضرت ابودُجَانہؓ اور حضرت مصعب بن عُمَیرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھرپور دفاع کیا۔ حضرت ابودُجَانہ شدید زخمی ہو گئے تھے اور حضرت مصعب بن عمیرؓ اس دن شہید ہوئے۔
(الاستیعاب فی معرفة الاصحاب جلد4 صفحہ209 اَبُوْ دُجَانَہ انصاری مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 2010ء)
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دن ایک تلوار پکڑی اور فرمایا۔ مَنْ یَاْخُذُ مِنِّیْ ھٰذَا؟ اسے مجھ سے کون لے گا؟ سب نے اپنے ہاتھ بڑھائے اور ان میں سے ہر ایک نے کہا۔ مَیں۔ مَیں۔ آپؐ نے پھر فرمایا: فَمَنْ یَاْخُذُہٗ بِحَقِّہٖ۔ کون اس کو اس کے حق کے ساتھ لے گا؟ حضرت انسؓ کہتے ہیں اس پر لوگ رک گئے تو حضرت سِمَاک بن خَرَشہ ابودُجَانہؓ نے کہا کہ مَیں اس کو اس کے حق کے ساتھ لیتا ہوں۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ انہوں نے تلوار لی اور مشرکوں کے سر پھاڑ دیے۔ یہ مسلم کی حدیث ہے۔
(صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب من فضائل ابی دُجَانہ سِمَاکْ بِنْ خَرَشَہ حدیث: 6353)
ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابودُجَانہؓ نے پوچھا اس کا حق کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس سے کسی مسلمان کو قتل نہ کرنا اور اس کے ہوتے ہوئے کسی کافر کے مقابل پر نہ بھاگنا یعنی ڈٹ کر مقابلہ کرنا۔ اس پر حضرت ابودُجَانہؓ نے عرض کیا میں اس تلوار کو اس کے حق کے ساتھ لیتا ہوں۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابودُجَانہؓ کو تلوار دی تو انہوں نے اس سے مشرکین کے سر پھاڑ دیے۔ انہوں نے اس موقعے پر یہ اشعار پڑھے:
أَنَا الَّذِیْ عَاھَدَنِیْ خَلِیْلِیْ
وَنَحْنُ بِالسَّفْحِ لَدَی النَّخِیْلِ
اَنْ لَّا أَقُوْمَ الدَّھْرَ فِی الْکَیُوْلِ
أَضْرِبْ بِسَیْفِ اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ
مَیں وہ ہوں جس سے میرے دوست نے وعدہ لیا ہے جبکہ ہم سَفح مقام پر کھجور کے درختوں کے پاس تھے اور وہ وعدہ یہ ہے کہ میں لشکر کی پچھلی صفوں میں نہ کھڑا ہوں اور اللہ اور رسولؐ کی تلوار سے دشمنوں سے لڑائی کروں۔ حضرت ابودُجَانہؓ تفاخرانہ چال چلتے ہوئے لشکر کی صفوں کے درمیان چلنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اِنَّ ھٰذِہٖ مِشْیَةٌ یُبْغِضُھَا اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ اِلَّا فِیْ ھٰذَا الْمُقَامِ۔ کہ یہ ایسی چال ہے جو اللہ عز وجل کو ناپسند ہے سوائے اس مقام کے یعنی جنگ کے موقعے پر۔
(الاصابة فی تمییز الصحابہ جلد7 صفحہ100 اَبُوْ دُجَانَہ الانصاری دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2005ء)
(اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ جلد2 صفحہ317 سِمَاکْ بِنْ خَرَشَہ مطبوعہ دارالفکر بیروت لبنان 2003ء)
حضرت زبیر بن عوام ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دن ایک تلوار پیش کی اور فرمایا: مَنْ یَاْخُذُ ھٰذَا السَّیْفَ بِحَقِّہٖ کہ کون ہے جو اس تلوار کو اس کے حق کے ساتھ لے گا؟ حضرت زبیر ؓ کہتے ہیں میں کھڑا ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مَیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اعراض فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کون ہے جو اس تلوار کو اس کے حق کے ساتھ لے گا؟ میں نے پھر عرض کیا یارسول اللہ مَیں۔ آپؐ نے پھر مجھ سے اعراض فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کون ہے جو اس تلوار کو اس کے حق کے ساتھ لے گا؟ حضرت ابودُجانہ سِمَاک بن خَرَشہ ؓکھڑے ہوئے اور عرض کیا یار سول اللہؐ! مَیں اس تلوار کو اس کے حق کے ساتھ لیتا ہوں اور اس کا حق کیا ہے؟ آپؓ نے فرمایا اس سے کسی مسلمان کو قتل نہ کرنا اور اس کے ہوتے ہوئے کسی کافر سے نہ بھاگنا، ڈٹ کر مقابلہ کرنا۔ حضرت زبیر ؓ کہتے ہیں کہ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلوار ابودُجَانہ کو عطا فرمائی اور ابودُجَانہ کی یہ عادت تھی کہ جب جنگ کا ارادہ کرتے تو سرخ رومال سر پر باندھ لیتے تھے۔ حضرت زبیرؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے کہا آج میں دیکھوں گا کہ یہ کس طرح اس تلوار کا حق ادا کرتا ہے۔ حضرت زبیرؓ کہتے ہیں کہ ابودُجَانہ کے سامنے جو بھی آیا وہ اس کو ہلاک کرتے اور کاٹتے ہوئے آگے بڑھنے لگے یہاں تک کہ وہ لشکر سے گزر کر ان کی عورتوں کے سروں پر جا پہنچے جو پہاڑ کے دامن میں دَف بجا رہی تھیں اور ان میں سے ایک عورت یہ کہہ رہی تھی۔ یہ شعر پڑھ رہی تھی۔ اس کا ترجمہ یہ ہےکہ ہم طارق صبح کے ستارے کی بیٹیاں ہیں جو بادلوں پر چلتی ہیں۔ اگر تم آگے بڑھو گے تو ہم معانقہ کریں گی اور بیٹھنے کے لیے تکیے لگائیں گی اور اگر تم پیٹھ پھیر گئے تو ہم تم سے جدا ہو جائیں گی۔ یہ ایسی جدائی ہو گی کہ پھر تم میں اور ہم میں محبت کا کوئی تعلق باقی نہ رہے گا۔
حضرت زبیرؓ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ابودُجَانہ نے ایک عورت پر تلوار چلانے کے لیے اپنا ہاتھ اٹھایا اور پھر روک لیا۔ جب جنگ ختم ہوئی تو مَیں نے ان سے کہا مَیں نے تمہاری ساری لڑائی دیکھی ہے۔ تم نے ایک عورت پر ہاتھ اٹھایا اور پھر نیچے کر لیا۔ اس کی کیا وجہ تھی؟ انہوں نے کہا اللہ کی قسم! مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار کی تکریم کی کہ اس کے ذریعے کسی عورت کو قتل کروں۔ یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ مَیں کسی عورت کے قتل کے لیے رسول کریم ﷺ کی تلوار استعمال کروں اس لیے مَیں رک گیا۔ ایک اَور روایت میں ہے کہ یہ عورت ہند زوجہ ابوسفیان تھی جو دیگر عورتوں کے ساتھ مل کر گانے گا رہی تھی۔ جب اس پر حضرت ابودُجَانہ نے اپنی تلوار بلند کی تو اس نے مدد کے لیے بلند آواز سے کہا اے صخر! لیکن کوئی مدد کو نہ آیا۔ حضرت ابودُجَانہؓ نے اپنی تلوار نیچے کر لی اور واپس چلے گئے۔ حضرت زبیر ؓکے دریافت کرنے پر انہوں نے کہا کہ میں نے ناپسند کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار سے کسی عورت کو ماروں جس کا کوئی مددگار نہیں تھا۔
(المستدرک علی الصحیحین جلد3 صفحہ 440، 441 کتاب معرفة الصحابہ ذکر مناقب ابی دُجَانہ روایت نمبر 5088 مطبوعہ دارالفکر بیروت 2002ء)
(شرح علامہ زرقانی علی المواہب اللدنیہ جلد2 صفحہ 406 ،407کتاب المغازی باب غزوة احددارالکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)
حضرت ابودُجَانہ ؓکے اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اسے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ مبارزت میں جب کفار قریش کو ہزیمت اٹھانی پڑی تو کفار نے یہ نظارہ دیکھا تو غضب میں آ کر عام دھاوا بول دیا۔ مسلمان بھی تکبیر کے نعرے لگاتے ہوئے آگے بڑھے اور دونوں فوجیں آپس میں گتھم گتھا ہوگئیں۔ غالباً اسی موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تلوار ہاتھ میں لے کر فرمایا۔کون ہے جو اسے لے کر اس کا حق ادا کرے؟بہت سے صحابہ نے اس فخر کی خواہش میں اپنے ہاتھ پھیلائے۔ جن میں حضرت عمرؓ اور زبیر بلکہ بعض روایات کی رو سے حضرت ابوبکرؓ اورحضرت علی ؓبھی شامل تھے۔ مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ روکے رکھا اوریہی فرماتے رہے کہ کوئی ہے جو اس کا حق ادا کرے؟ آخر ابودُجَانہ انصاری نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اورعرض کیا۔ یارسول اللہ مجھے عنایت فرمایئے۔ آپؐ نے یہ تلوار انہیں دے دی اورابو دُجَانہ اسے ہاتھ میں لے کر تبخترکی چال سے یعنی بڑے فخر سے اور اکڑتے ہوئے کفار کی طرف آگے بڑھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے فرمایا خدا کو یہ چال ناپسند ہے مگر ایسے موقع پر ناپسند نہیں۔ زبیر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار لینے کے سب سے زیادہ خواہش مند تھے اورقرب رشتہ کی وجہ سے اپنا حق بھی زیادہ سمجھتے تھے، دل ہی دل میں پیچ وتاب کھانے لگے کہ کیا وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ تلوار نہیں دی اور ابودُجَانہ کو دے دی اوراپنی اس پریشانی کو دور کرنے کے لیے انہوں نے دل میں عہد کیا کہ میں اس میدان میں ابودُجَانہ کے ساتھ ساتھ رہوں گا اور دیکھوں گا کہ وہ اس تلوار کے ساتھ کیا کرتا ہے۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ ابودُجَانہ نے اپنے سر پر ایک سرخ کپڑا باندھا اوراس تلوار کو لے کر حمد کے گیت گنگناتا ہوا مشرکین کی صفوں میں گھس گیا اور میں نے دیکھا کہ جدھر جاتا تھا گویا موت بکھیرتا جاتا تھا اور میں نے کسی آدمی کو نہیں دیکھا جو اس کے سامنے آیا ہو اور پھر وہ بچا ہو۔ حتی کہ وہ لشکر ِقریش میں سے اپنا راستہ کاٹتا ہوالشکر کے دوسرے کنارے نکل گیا جہاں قریش کی عورتیں کھڑی تھیں۔ ہند زوجہ ابوسفیان جوبڑے زورشور سے اپنے مردوں کو جوش دلارہی تھی اس کے سامنے آئی اور ابو دُجَانہ نے اپنی تلوار اس کے اوپر اٹھائی جس پر ہند نے بڑے زور سے چیخ ماری اوراپنے مردوں کوامداد کے لیے بلایا مگر کوئی شخص اس کی مدد کو نہ آیا۔ زبیر کہتے ہیں کہ لیکن مَیں نے دیکھا کہ ابودُجَانہ نے خود بخود ہی اپنی تلوار نیچی کرلی اوروہاں سے ہٹ آیا۔ زبیر روایت کرتے ہیں کہ اس موقع پر میں نے ابودُجَانہ سے پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے کہ پہلے تم نے تلوار اٹھائی پھر نیچے کر لی۔ اس نے کہا کہ میرا دل اس بات پر تیار نہیں ہواکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار ایک عورت پر چلاؤں اور عورت بھی وہ جس کے ساتھ اس وقت کوئی مرد محافظ نہیں۔ زبیر کہتے ہیں میں نے اس وقت سمجھا کہ واقعی جو حق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار کاابودُجانہ نے اداکیا ہے وہ شاید مَیں نہ کرسکتا اورمیرے دل کی خلش دورہوگئی۔
(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ 489، 490)
حضرت خلیفة المسیح الثانی ؓنے اس واقعہ کو یوں بیان فرمایا ہے۔ فرماتے ہیں کہ احد کی جنگ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تلوار پیش کی اور فرمایا یہ تلوار مَیں اس شخص کو دوں گا جو اس کا حق ادا کرنے کا وعدہ کرے۔ بہت سے لوگ اس تلوار کو لینے کے لیے کھڑے ہوئے۔ آپؐ نے ابودُجَانہ انصاری کو وہ تلوار دی۔ لڑائی میں ایک جگہ مکہ والوں کے کچھ سپاہی ابودُجَانہ پر حملہ آور ہوئے۔ جب آپ ان سے لڑ رہے تھے تب آپ نے دیکھا کہ ایک سپاہی سب سے زیادہ جوش کے ساتھ لڑائی میں حصہ لے رہا ہے۔ آپؓ نے تلوار اٹھائی اور اس کی طرف لپکے لیکن پھر اس کو چھوڑ کر واپس آ گئے یعنی حضرت دُجَانہ نے تلوار اٹھائی، اس کی طرف لپکے لیکن پھر چھوڑ کے واپس آ گئے۔ آپ کے کسی دوست نے پوچھا کہ آپ نے اسے کیوں چھوڑ دیا تو انہوں نے جواب دیا کہ جب اس کے پاس گیا تو اس کے منہ سے ایک ایسا فقرہ نکلا جس سے مجھے معلوم ہو گیا کہ وہ مرد نہیں عورت ہے۔ ان کے ساتھی نے کہا۔ بہرحال وہ سپاہیوں کی طرح فوج میں لڑ رہی تھی پھر آپ نے اسے چھوڑا کیوں؟ ابودُجَانہ نے کہا میرے دل نے برداشت نہ کیا کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی تلوار کو ایک کمزور عورت پر چلاؤں۔ حضرت مصلح موعودؓ پھر فرماتے ہیں کہ غرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کے ادب اور احترام کی ہمیشہ تعلیم دیتے تھے جس کی وجہ سے کفار کی عورتیں زیادہ دلیری سے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتی تھیں مگر پھر بھی مسلمان ان باتوں کو برداشت کرتے چلے جاتے تھے۔
(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد2 صفحہ 421، 422)
ابودُجَانہ کے متعلق مشہور مستشرق سرولیم میور لکھتے ہیں کہ جنگ کی ابتدا میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تلوار لی اور فرمایا کون یہ تلوار اس کے حق کے ساتھ لے گا؟ عمر، زبیر اور بہت سے صحابہ نے لینے کی خواہش کی لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کر دیا۔ آخر میں ابودُجَانہ نے عرض کیا تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دے دی اور انہوں نے اس کے ساتھ کافروں کے سر تن سے جدا کرنے شروع کر دیے۔
(LIFE OF MAHOMET by Sir William Muir, pg: 269 Smith Elder& co, Waterloo place London 1878)
پھر وہ لکھتے ہیں کہ ’’مسلمانوں کے خطرناک حملوں کے سامنے مکی لشکر کے پاؤں اکھڑنے لگ گئے۔ قریش کے رسالے نے کئی دفعہ یہ کوشش کی کہ اسلامی فوج کے بائیں طرف عقب سے ہو کر حملہ کریں مگر ہر دفعہ ان کو ان پچاس تیر اندازوں کے تیر کھا کر پیچھے ہٹنا پڑا جو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے وہاں خاص طور پر متعین کیے ہوئے تھے۔ مسلمانوں کی طرف سے احد کے میدان میں بھی وہی شجاعت و مردانگی اور موت و خطر سے وہی بےپروائی دکھائی گئی جو بدر کے موقعہ پر انہوں نے دکھائی تھی۔ مکہ کے لشکر کی صفیں پھٹ پھٹ جاتی تھیں جب اپنی خَود کے ساتھ سرخ رومال باندھے ابودُجَانہ ان پر حملہ کرتا تھا اور اس تلوار کے ساتھ جو اسے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے دی تھی چاروں طرف گویا موت بکھیرتا جاتا تھا۔ حمزہؓ اپنے سر پر شتر مرغ کے پروں کی کلغی لہراتا ہوا ہر جگہ نمایاں نظر آتا تھا۔ علیؓ اپنے لمبے اور سفید پھریرے کے ساتھ اور زبیرؓ اپنی شوخ رنگ کی چمکتی ہوئی زرد پگڑی کے ساتھ بہادر انِ اِلْیَڈ کی طرح جہاں بھی جاتے تھے دشمن کے واسطے موت و پریشانی کا پیغام اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ یہ وہ نظارے ہیں جہاں بعد کی اسلامی فتوحات کے ہیرو تربیت پذیرہوئے۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ 490)
یہ سارا بیان جو پہلے میں نے پڑھا ہے یہ سیرت خاتم النبیینؐ میں ہے۔
حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احد سے لوٹے تو اپنی بیٹی فاطمہ کو اپنی تلوار دی اور فرمایا اے بیٹی! اس سے خون کو دھو دو۔ حضرت علی ؓنے بھی اپنی تلوار ان کو دی اور کہا اس سے بھی خون دھو دو۔ اللہ کی قسم ! آج اس نے میرا خوب ساتھ دیا ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم نے لڑنے کا حق ادا کر دیا ہے تو یقیناً سَہْل بن حُنَیف اور ابودُجَانہ نے بھی لڑنے کا حق ادا کیا ہے۔ ایک روایت میں سَہْل بن حُنیف کی بجائے حارث بن صِمَّہ کا نام بھی آتا ہے۔
(اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ جلد2 صفحہ317 سِمَاکْ بِنْ خَرَشَہ مطبوعہ دارالفکر بیروت لبنان 2003ء)
(الطبقات الکبریٰ جلد3 صفحہ420 اَبُوْ دُجَانَہ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1990ء)
زید بن اسلم بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابودُجَانہؓ کے پاس لوگ آئے جبکہ آپؓ بیمار تھے لیکن آپؓ کا چہرہ بہت چمک رہا تھا۔ کسی نے پوچھا کہ آپؓ کا چہرہ کیوں چمک رہا ہے؟ تو حضرت ابودُجَانہؓ نے کہا میرے اعمال میں سے میرے دو کام ایسے ہیں جو میرے نزدیک بہت زیادہ وزنی اور پختہ ہیں۔ پہلا یہ کہ میں کبھی ایسی بات نہیں کرتا جس کا مجھ سے تعلق نہ ہو۔ دوسرا یہ کہ میرا دل مسلمانوں کے لیے ہمیشہ صاف رہتا ہے۔
(الطبقات الکبریٰ جلد3 صفحہ420 اَبُوْ دُجَانَہ مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1990ء)
حضرت ابودُجَانہؓ جنگِ یمامہ میں شہید ہوئے۔ مسیلمہ کذاب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جھوٹی نبوت کا دعویٰ کر کے مدینہ پر لشکر کشی کا ارادہ کیا تو حضرت ابوبکرؓ نے اس کی سرکوبی کے لیے 12؍ہجری میں لشکر روانہ کیا۔ حضرت ابودُجَانہؓ بھی اس لشکر کا حصہ تھے۔ حضرت ابودُجَانہؓ نے جنگ یمامہ میں سخت لڑائی کی اور شہادت کا رتبہ حاصل کیا۔ بنو حَنِیْفَہ (قدیم عرب قبیلہ جس کے ایک بڑے حصے نے مسیلمہ کذاب کے زیر قیادت مدینہ کے خلاف بغاوت کی تھی) کا یمامہ میں باغ تھا جس میں محصور ہو کر وہ لڑ رہے تھے اور مسلمانوں کو اندر جانے کا موقع نہیں مل رہا تھا۔ حضرت ابودُجَانہ نے مسلمانوں سے کہا کہ مجھے باغ کے اندر پھینک دو۔ مسلمانوں نے ایسا ہی کیا لیکن ان کے دوسری طرف گرنے سے ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی لیکن پھر بھی وہ باغ کے دروازے پر لڑتے رہے اورمشرکین کو وہاں سے ہٹا دیا اور مسلمان اندر داخل ہو گئے۔ حضرت ابودُجَانہ، مسیلمہ کذاب کے قتل میں عبداللہ بن زید اور وحشی بن حرب کے ساتھ شامل تھے اور یمامہ کے دن آپ نے شہادت پائی۔
(اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ جلد2 صفحہ318 سِمَاکْ بِنْ خَرَشَہ مطبوعہ دارالفکر بیروت لبنان 2003ء)
(الاستیعاب فی معرفة الاصحاب جلد4 صفحہ209 أَبُوْ دُجَانَہ الانصاری مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 2010ء)
(الطبقات الکبریٰ جلد3 صفحہ420 اَبُوْ دُجَانَہ مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1990ء)
(اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد8 صفحہ695 شعبہ اردو لاہور)
ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابودُجَانہؓ نے جنگ ِصفین میں حضرت علی ؓکی طرف سے لڑتے ہوئے وفات پائی تھی لیکن یہ روایت کمزور ہے۔ پہلی روایت زیادہ صحیح اور بکثرت مذکور ہے۔
(اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ جلد2 صفحہ318 سِمَاکْ بِنْ خَرَشَہ مطبوعہ دارالفکر بیروت لبنان 2003ء)
مَیں پہلے بھی یہ بیان کر چکا ہوں۔ یہاں پہ کچھ حصہ بیان کر دیتا ہوں جس کا حضرت ابودُجَانہؓ سے تعلق ہے۔ ابودُجَانہ انصاری تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ ہجرت سے پہلے اسلام قبول کیا تھا۔ مدینہ کے رہنے والے تھے۔ ان کو بھی یہ اعزاز حاصل تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ بدر میں شامل ہوئے اور انتہائی بہادری کے جوہر دکھائے۔ اسی طرح احد کی جنگ میں بھی انہیں شمولیت کی توفیق ملی اور جنگ کا رخ پلٹنے کے بعد یعنی جب مسلمان پہلے جیت رہے تھے پھر رخ پلٹا اور ایک جگہ چھوڑنے کی وجہ سے کافروں نے دوبارہ حملہ کیا اور جنگ کا پانسہ مسلمانوں کے خلاف ہو گیا تو جو صحابہ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب رہ گئے تھے ان میں حضرت ابودُجَانہ بھی شامل تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع میں یہ انتہائی زخمی بھی ہوئے لیکن ان زخموں کے باوجود یہ پیچھے نہیں ہٹے۔ ایک دفعہ بیماری میں اپنے ساتھی کو کہنے لگے کہ شاید میرے دو عمل اللہ تعالیٰ قبول کر لے ایک یہ کہ میں کوئی لغو بات نہیں کرتا۔ غیبت نہیں کرتا۔ لوگوں کے پیچھے ان کی باتیں نہیں کرتا۔ دوسرے یہ کہ کسی مسلمان کے لیے میرے دل میں کینہ اور بغض نہیں ہے۔
(ماخوذ از خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 16 مارچ 2018ء بحوالہ الفضل انٹرنیشنل مورخہ06تا 12اپریل 2018ء جلد25شمارہ14صفحہ 5)
ان کا ذکریہاں ختم ہوا۔
اب بعض مرحومین کا میں ذکر کروں گا اور ان کا نماز جنازہ بھی پڑھاؤں گا جن میں سے ایک شہید بھی ہیں جن کو گذشتہ دنوں شہید کیا گیا۔ مکرم محبوب خان صاحب ابن سید جلال صاحب ضلع پشاور۔ محبوب خان صاحب کو مخالفین احمدیت نے 8نومبر 2020ء کو صبح آٹھ بجے شیخ محمدی گاؤں پشاور میں فائرنگ کر کے شہید کر دیا تھا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
تفصیلات کے مطابق محبوب خان صاحب چھ نومبر کو خوشحال ٹاؤن پشاور سے اپنی نواسی جو اپنی فیملی کے ہمراہ ملحقہ قصبہ شیخ محمدی میں رہتی ہے ان سے ملنے گئے۔ آٹھ نومبر کو واپسی کے لیے گھر سے نکلے۔ بس سٹاپ کے قریب پہنچے تھے کہ نامعلوم افراد نے تعاقب کر کے ان پر فائرنگ کر دی۔ ایک فائر سر میں پشت سے لگا اور گولی سامنے سے نکل گئی جس سے موقعے پر ہی وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ وقوعے کے بعد قاتل فرار ہو گیا۔ شہید مرحوم کی عمر تقریباً 80 سال تھی۔ شہید مرحوم پبلک ہیلتھ انجنیئرنگ ڈیپارٹمنٹ سے 2002ء میں بحیثیت آفس سپرنٹنڈنٹ ریٹائرڈ ہونے کے بعد پنشنر کی حیثیت سے زندگی بسر کر رہے تھے۔ شہید مرحوم کے والد سید جلال صاحب نے 1930ء کی دہائی میں بیعت کی تھی۔ شہید مرحوم پیدائشی احمدی تھے۔
مرحوم بے شمار خصوصیات کے حامل تھے۔ تہجد کے پابند تھے۔ شرافت، ہمدردی اور مہمان نوازی کے علاوہ سخاوت میں نمایاں تھے۔ دعوت الی اللہ کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ پیغام حق پہنچانے میں ہمیشہ پیش پیش رہتے۔ جب کبھی ان سے احتیاط کی درخواست کی جاتی تو ان کا ایک ہی موقف ہوتا کہ اب تو ویسے بھی خدا کے حضور حاضر ہونے کا وقت ہے اگر شہادت مل گئی تو میرے لیے سعادت ہو گی۔ بہرحال ان کی یہ شہادت کی بھی خواہش پوری ہو گئی۔ محبوب خان صاحب شہید کی اہلیہ معراج بیگم صاحبہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان کے والد محمد سعید صاحب اور چچا بشیر احمد صاحب 1966ء میں شہید ہوئے تھے اور اب یہ سعادت آپ کے خاوند کو حاصل ہوئی۔ اس طرح آپ ایک شہید کی بیٹی، شہید کی بھتیجی اور ایک شہید کی اہلیہ ہیں۔
پسماندگان میں ان کی اہلیہ معراج بیگم صاحبہ ہیں۔ اس کے علاوہ دو بیٹے ہیں منور صاحب اور فضل احمد صاحب۔ دو بیٹیاں ہیں ذکیہ بیگم صاحبہ اور وحیدہ بیگم۔ دو پوتے، ایک پوتی، چھ نواسے اور چار نواسیاں شامل ہیں اور آپ کے چھوٹے بیٹے نے مائیکرو بائیالوجی میں پی ایچ ڈی کی ہے۔ وہ آسٹریلیا میں ہوتے ہیں۔ دوسرے جرمنی میں ہوتے ہیں۔ فضل احمد صاحب وہ بھی پڑھے لکھے ہیں۔ ایم اے انگلش ہیں۔
ان کے بیٹے منور خان صاحب کہتے ہیں کہ محبوب خان صاحب اپنے علاقے میں امن و امان کے قیام کے لیے سرگرداں رہتے تھے۔ بعض اوقات جھگڑے کی صورت میں دو گروہوں کے درمیان صلح کروانے کے لیے اپنے پاس سے خون بہا بھی دے دیا کرتے تھے۔ آپ غرباء اور نادار لوگوں کی مددکے لیے ہر دم تیار رہا کرتے تھے۔ لوگ اپنی ضروریات کے لیے بلا جھجھک آپ سے رجوع کرتے اور آپ ان کی مدد کے لیے ہمیشہ اپنے پاس کچھ نہ کچھ نقدی اور اناج رکھا کرتے تھے۔ نہایت منکسر المزاج، خاموش طبع انسان تھے۔ نہایت صبر کرنے والے اور دوسروں کی تکلیف کا احساس کرنے والے تھے اور ہر دم ان کی مدد کے لیے تیار رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرماتا رہے اور ان کے لواحقین کو بھی ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
دوسرا جنازہ فخر احمد فرخ صاحب مربی سلسلہ کا ہے، پاکستان میں تھے۔ یکم نومبر 2020ء کو شام سوا چھ بجے کے قریب یہ اپنے بیٹے احتشام عبداللہ کے ہمراہ احمد نگر سے آرہے تھے کہ ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں احمد نگر سے آتے ہوئے ان کی وفات ہوئی ہے۔ خطر ناک ایکسیڈنٹ تھا دونوں باپ بیٹےکی موقعے پر وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے فخر صاحب موصی تھے۔ فخر صاحب کے والد سیف الرحمٰن صاحب نے خود بیعت کی۔ان کے خاندان میں پہلے کوئی احمدی نہیں تھا۔ 1968ءمیں انہوں نے بیعت کی تھی اور اپنے خاندان کے پہلے احمدی بنے۔ 1996ء میں جامعہ احمدیہ ربوہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعدپاکستان میں مختلف مقامات پر فخر صاحب کو خدمت کی توفیق ملی پھر انہیں آئیوری کوسٹ مغربی افریقہ بھجوایا گیا اور پھر گذشتہ آٹھ سال سے یہ بطور مربی احمد نگر میں سلسلےکی خدمت کی توفیق پا رہے تھے۔ ان کی شادی طاہرہ فخر صاحبہ سے ہوئی جو علی اصغر صاحب کی بیٹی ہیں۔ اس شادی سے ان کی چار بیٹیاں اور ایک بیٹا احتشام عبداللہ تھا جو اپنے والد کے ساتھ ہی ایکسیڈنٹ میں فوت ہو گیا اور اب پیچھے ان کے لواحقین میں ان کی اہلیہ اور چار بیٹیاں ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی والدہ ہیں اور بہن بھائی ہیں۔ ان کی بیٹیاں وجیہہ امة السبوح، عزیزہ خافیہ فخر، ثمرین فخر اور مہرین فخر ہیں۔
فخر صاحب کی اہلیہ طاہرہ صاحبہ لکھتی ہیں کہ ہماری شادی جب ہوئی تو مربی صاحب کی خوشاب کے ایک گاؤں میں پوسٹنگ تھی۔ یہ وہاں متعین تھے۔ اور جب میں وہاں سینٹر میں گئی تو انہوں نے مجھے مربی کی بیوی کے جو فرائض ہوتے ہیں ان کے بارے میں بتایا اور سمجھایا کہ اب تم میرے ساتھ وقف ہو۔ تمہیں بھی جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔ اس طرح تربیت کی۔ اس کے بعد ان کی ٹرانسفر بدین ہو گئی۔ مربی صاحب تو پہلے چلے گئے۔ یہ کچھ عرصے کے بعد گئی ہیں تو کہتی ہیں جس دن میں وہاں پہنچی میں نے پہلے اطلاع بھی دی ہوئی تھی لیکن وہاں گئی تو مربی صاحب وہاں سینٹر میں ،گھر میں نہیں تھے۔ میں مسجد میں باہر دھوپ میں بیٹھی رہی۔ پتہ لگا کہ کسی معلم کی اہلیہ بیمار ہیں اور اس کو خون دینے کی ضرورت ہے تو مربی صاحب خون دینے گئے ہوئے ہیں۔ میں نے ان کو واپسی پہ پوچھا کہ سارا دن میں دھوپ میں بیٹھی رہی آپ کو پتہ تھا کہ میں اتنا لمبا سفر کر کے آ رہی ہوں تو انہوں نے کہا کہ وہ کام بھی بڑا ضروری تھا اور مجھے سمجھایا کہ اس طرح قربانی کرنی چاہیے۔
آئیوری کوسٹ جب یہ گئے ہیں تو وہاں بھی خدمت دین کے کاموں کے ساتھ خدمت خلق کے بہت کام کرتے رہے اور ہمیشہ بیوی بچوں پر دین کو مقدم رکھا۔ ا ن کی اہلیہ کہتی ہیں کہ میری طبیعت ایک دفعہ خراب ہو گئی۔ بیٹی کی پیدائش ہونے والی تھی۔ مربی صاحب میڈیکل کیمپ کے سلسلے میں گئے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر نے حالت تشویشناک بتائی لیکن مربی صاحب مجھے چھوڑ کے چلے گئے اور صرف اتنا کہا کہ اللہ فضل کرے گا۔ تم واقف زندگی کی بیوی ہو۔ تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔ غرضیکہ مربی صاحب نے ہر معاملے میں دین کو دنیا پر مقدم رکھا۔ مہمان نوازی، خدمتِ خلق، خدمتِ دین کرنے والے تھے۔ اپنے پرائے سب سے پیار کرنے والے تھے۔ بچوں کے ساتھ دوستانہ تعلق تھا۔ کوئی مسئلہ ہو خواہ گھریلو ہو یا خاندانی ہو، جماعتی ہو یا غیر از جماعت احباب کا ہو بڑی خوش اسلوبی سے سمجھاتے تھے۔ بچوں کو بھی یہ سمجھاتے تھے کہ تم واقف زندگی کے بچے ہو اور ایک مربی کی اولاد ہو اس لیے ہمیشہ دین کو دنیا پر ترجیح دینی ہے اور اپنا اچھا نمونہ پیش کرنا ہے۔
باسط صاحب آئیوری کوسٹ میں مربی ہیں کہتے ہیں کہ فخر صاحب بطور مبلغ آئیوری کوسٹ تشریف لائے۔ بہت ملنسار، ہنس مکھ، اچھی طبیعت کے مالک تھے۔ ان کی شخصیت کی خاص بات ان کی دل موہ لینے والی گفتگو تھی۔ جس سے ملتے اسے اپنا گرویدہ کر لیتے۔ پانچ سال تک اومے ریجن میں بطور مبلغ خدمت کی اور حسنِ اخلاق اور ہمدردی کی وجہ سے ہر چھوٹا بڑا آپ سے بہت تعلق رکھتا تھا اور ہمیشہ ذکر کرتا ہے۔ جلسہ سالانہ پر جانے کے لیے بعض غرباء کو کرایہ کی ادائیگی بھی خفیہ طور پر کر دیتے تھے۔ اور کہتے ہیں ان کے عرصۂ قیام کے دوران ان کی ریجن ہمیشہ حاضری میں اول رہی ہے۔ وہاں کے ایک لوکل معلم سمارو ہارون صاحب ہیں وہ بھی کہتے ہیں کہ اڑھائی سال میں نے ان کے ساتھ کام کیا۔ بھائیوں کی طرح میرا خیال رکھا۔ جو بات خاص طور پر میں نے نوٹ کی وہ یہ تھی کہ انتہائی محنتی اور پرجوش مبلغ تھے۔ ہر کام بڑی ذمہ داری اور لگن سے کرتے تھے۔ جلد کام مکمل کرنے کی ایک دھن سوار ہوتی تھی چاہے وہ تبلیغ کا کام ہو، چندے کی وصولی کا ہو، جلسہ سالانہ کی تیاری کا ہو۔ تبلیغ کایہ حال تھا کہ چاہتے تھے کہ ہر گاؤں میں جماعت کا پیغام جلد سے جلد پہنچ جائے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔ ان کی بیٹیوں اور بیوی کا بھی حافظ و ناصر ہو اور ہر پریشانی اور مشکل سے آئندہ ان کو بچائے۔
تیسرا جنازہ مربی فخر احمد فرخ صاحب کے بیٹے احتشام احمد عبداللہ کا ہے۔ یہ بھی جیسا کہ میں نے بتایا اپنے والد کے ساتھ ہی روڈ ایکسیڈنٹ میں وفات پا گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے وقفِ نو کی بابرکت تحریک میں شامل تھے اور یہ آجکل فرسٹ ایئر میں پڑھ رہے تھے اور موصی تو نہیں تھے لیکن وصیت فارم فل (Fill)کیا تھا جمع نہیں کرایا تھا۔ بہرحال اگر فارم فل تھا توکارپرداز اس پہ کارروائی کر سکتی ہے۔ ان کی والدہ کہتی ہیں میرا بیٹا بہت سی خوبیوں کا مالک تھا۔ نیک، صالح اور تابعدار تھا۔ وقفِ نو کی تحریک میں شامل تھا۔ نمازوں کا پابند تھا۔ زعیم صاحب خدام الاحمدیہ کے ہر حکم کی تعمیل کرتا اور ڈیوٹی وغیرہ بڑی خوش اسلوبی سے دیتا تھا اور جس دن اس نے وفات پائی اس دن بھی اس نے مسجد میں ڈیوٹی دی۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے بھی مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند کرے۔
اور اگلا جنازہ مکرم ڈاکٹر عبدالکریم صاحب ابن میاں عبداللطیف صاحب ربوہ کا ہے جو سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ریٹائرڈ اکنامک ایڈوائزر تھے۔ 14؍ستمبر کو 92سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت مولوی محمد علی صاحب کے پوتے تھے۔ قادیان کے تعلیم الاسلام کالج کے پہلے بیج میں شامل تھے۔ پارٹیشن کے بعد جب کالج لاہور منتقل ہوا تو تعلیم الاسلام کالج کے طالبعلم کی حیثیت سے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ اس وقت وہ پوری یونیورسٹی میں تعلیم الاسلام کالج کے واحد طالبعلم تھے۔ بعد میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے سکالر شپ پر جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں اکنامکس میں پی ایچ ڈی کرنے کے لیے امریکہ چلے گئے اور وہاں مسجد فضل میں رہائش رکھی اور فارغ ہو کر تبلیغی سرگرمیوں میں وہاں مصروف رہتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کو پاکستان سے بےحد پیار تھا۔ انہوں نے اپنے کیریئر میں عالمی بینک جیسے بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مستقل طور پر کام کرنے کے باوجود ہمیشہ پاکستان میں ہی رہ کر کام کا انتخاب کیا۔ لمبا عرصہ سٹیٹ بینک آف پاکستان میں کام کیا اور مشیر کی حیثیت سے، ایڈوائزر کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوئے۔ اپنے دور میں انہوں نے IMF اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک جیسے اداروں کے ساتھ بہت ساری ملکی اور غیر ملکی اسائنمنٹس کامیابی کے ساتھ مکمل کیں۔ وزارتِ خزانہ میں بھی کچھ عرصہ کام کیا اور ایک وفاقی بجٹ بھی ان کی نگرانی میں تیار ہوا۔ آپ کو دو سال کے لیے آئی ایم ایف کی جانب سے سوڈان کی حکومت کے معاشی حالات، معاملات کے حل کے لیے خرطوم بھی بھیجا گیا۔
سٹیٹ بینک سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد انہوں نے جماعت کی خدمت کی خاطر ربوہ میں رہنے کو ترجیح دی۔ چنانچہ معاشیات اور مذہب سے متعلق معاملات سامنے آنے پر ان سے مشورہ کیا جاتا تھا۔ یہ کمیٹی جو بنی ہوئی تھی اس میں مَیں بھی ان سے مشورہ لیتا رہا ہوں۔ اس معاملے میں بہت صائب الرائے تھے اور اچھے مضامین لکھتے تھے۔ بڑی گہری نظر سے ان کی ہر تحقیق ہوتی تھی اور اس پہ جو اس کا عملی حل ہے وہ پیش کیا کرتے تھے۔ ان کی بعض کتابیں بھی ہیں جن میں ’اسلام کی بنیادی باتیں‘ انگریزی میں ہے۔ ’اسلام، فلسفۂ حیات اور معاشی اصول‘ یہ بھی انگریزی میں ہے۔ ’حرمتِ سود‘ یہ اردو میں ہے۔ ’حصولِ رزق‘ یہ بھی اردو میں ہے۔ 1989ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒکی تحریک پر وقف کر کے تاشقند یونیورسٹی میں معاشیات کی تدریس کے لیے ازبکستان چلے گئے۔ وہاں چھ ماہ تک خدمات سرانجام دیں۔ پھر ایک کمیٹی حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒ نے بنائی ہوئی تھی جو رہن اور سودی معاملات کے مسئلے پر غور کرنے کے لیے تھی۔ یہ علماء اور ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی تھی اور اس کی ایک سب کمیٹی بھی تھی اس کے آپ ممبر تھے اورمَیں نے بھی اس میں کچھ عرصہ ان کے ساتھ کام کیا ہے۔ بڑی گہرائی سے جیسا کہ مَیں نے کہا ہر بات کرتے تھے۔ بڑے ٹھوس دلائل کے ساتھ بات کرتے تھے۔ سودی نظام کے اوپر کئی مضامین انہوں نے مجھے بھی لکھ کر بھیجے ہوئے ہیں اور بڑے اچھے وہ مضامین ہیں۔ مزید اس پہ ان شاء اللہ غور ہو گا اور ہو سکتا ہے کہ آئندہ جو سودی نظام کے خلاف ، اس کے مقابلے پہ جو نظام پیش ہونا ہے اس میں ان کی بعض آراء کو بھی شامل کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کی اولاد کو بھی ان کی نیکیوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
٭…٭…٭