تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے
ذاتی تجربات کی روشنی میں
قسط 72
سایۂ خدائے ذوالجلال
پاکستان ٹائمز جو امریکہ اور کینیڈا سے شائع ہوتا ہے اس کے اخبار موٴرخہ 11تا 17؍ اگست 2011ء میں صفحہ 3 پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’عدل و انصاف کا فقدان اور یوم آزادی‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع ہوا۔
نیویارک عوام نے بھی اپنی اشاعت 12 تا 18؍ اگست 2011ء میں صفحہ 12 پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’عدل و انصاف کا فقدان اور یوم آزادی‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔ نفس مضمون وہی ہے جو دوسرے اخبار کے حوالہ سے پہلے گزر چکا ہے۔
ویسٹ سائیڈ سٹوری نیوز پیپر نے اپنی اشاعت 11؍اگست 2011ء میں صفحہ 4 پر خاکسار کی تصویر کے ساتھ ہماری ایک خبر شائع کی ہے جس کا عنوان یہ دیا ہے کہ چینو کی مسجد میں روحانی موسم بہار، موسم تطہیر اور غیرمسلموں کو شمولیت کی دعوت۔
اخبارنے لکھا ہے کہ مسلمانوں کا ماہ رمضان یکم اگست سے شروع ہوچکا ہے۔ خاکسار کے حوالہ سے لکھا کہ امام شمشاد ناصر نے جو کہ مسجد بیت الحمید کے امام ہیں نے بتایا کہ رمضان ہمارے لئے روحانی موسم بہار اور پاکیزگی اختیار کرنے اور خدا کا قرب حاصل کرنے کا مہینہ ہے۔
جلسہ سالانہ یوکے کے حوالہ سے بھی اخبار نے لکھا کہ لندن یوکے میں جماعت احمدیہ کا سالانہ جلسہ ہوا جس میں 96 ممالک سے 30 ہزار مندوبین شامل ہوئے۔ جلسہ پر جماعت احمدیہ کے روحانی پیشوا مرزا مسرور احمد (خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) نے خطابات کئے۔ آپ نے احمدیہ جماعت کے لوگوں کو تلقین کی کہ وہ تقویٰ اور راستبازی کو اپنا شعار بنائیں اس سے آپ خدا کا قرب اور اس کی رضا حاصل کر سکیں گے جس سے ایمانوں میں تازگی اور مضبوطی بھی ہوگی۔
اخبار نے اس کے بعد پھر رمضان کے حوالہ سے رمضان کی برکات اور اہمیت ایک مسلمان کے لئے کتنی ہے، کی وضاحت کی اور خبر کے آخر پر مسجد احمدیہ چینو بیت الحمید کا ایڈریس اور فون نمبر بھی دیا۔
پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 12؍اگست 2011ء میں صفحہ 13 پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’رمضان المبارک اور قبولیت دعا‘‘ کی دوسری قسط مع خاکسار کی تصویر کے شائع کیا۔ اس مضمون میں رمضان المبارک کے حوالہ سے باتیں لکھی گئی ہیں مثلاً:
’’اللہ تعالیٰ کی رحمت وسیع ہے اور وہ اپنے بندوں کی ہر وقت سنتا ہے، صرف سنانے والا اور مانگنے والا چاہئے۔ رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی قبولیت کے دروازے مزید وسیع اور کھل جاتے ہیں چنانچہ ان اوقات کی نشاندہی کی جارہی ہے۔ جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی بہت زیادہ سنتا ہے۔
(1) تہجد یا قیام اللیل: یہ وقت دعا کی قبولیت کا بہت اہم ہے۔ آدھی رات گزرنے کے بعد جب انسان خدا تعالیٰ کے حضور گڑ گڑائے، دعا کرے تو خدا تعالیٰ اس کی سنتا ہے۔
ترمذی کتاب الدعوات میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہمارا ربّ ہر رات قریبی آسمان تک نزول فرماتا ہے جب رات کا تیسرا حصہ باقی رہ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کون ہے جو مجھے پکارے تو میں اس کو جواب دوں کون ہے جو مجھ سے مانگے تو میں اس کو دوں۔ کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے تو میں اس کو بخش دوں۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ ہمارے پیارے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم رات کو قیام اتنا لمبا فرماتے کہ پاؤں بھی متورم ہوجاتے تھے۔
بعض لوگ نماز تراویح پڑھتے ہیں۔ ٹھیک ہے انہیں پھر بھی نماز تہجد کی کوشش کرنی چاہئے کیوں کہ دعاؤں کی قبولیت کا اصل وقت تہجد کا وقت ہی ہے۔
دوسری حدیث یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا روزہ دار کے لئے اس کی افطاری کے وقت کی دعا ردّ نہیں کی جاتی۔ پس افطاری کا وقت بھی قبولیت دعا کا وقت ہے۔ اس وقت سے بھی فائدہ اٹھانا چاہئے اور کسی طور پر بھی اس وقت کا ضیاع نہ ہو۔
ایک اور وقت قبولیت دعا کا مساجد سے تعلق رکھتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اذان اور اقامت کے درمیان کی جانے والی دعائیں درجہ قبولیت کو پہنچتی ہیں۔ اسی طرح ایک اور حدیث ہے۔ اللہ تعالیٰ تین لوگوں کی دعاؤں کو ردّ نہیں فرماتا بلکہ قبولیت کے درجہ سے نوازتا ہے۔ امام عادل کی دعا۔ روزہ دار کی دعا۔ یہاں تک وہ افطار کرے۔ (یعنی روزہ کی حالت میں انسان دعاؤں میں وقت گزارے) تیسرے مظلوم کی دعا اور ایک اور روایت میں یہ بھی ہے کہ والدین کی دعا اولاد کے حق میں بھی قبول ہوتی ہے۔
(2) جمعہ کا دن اور قبولیت دعا: اس ضمن میں ایک حدیث لکھی گئی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کا ذکر فرمایا کہ اس میں ایک ایسی گھڑی ہے اور جب مسلمان کو وہ گھڑی ملے اور وہ اس میں کھڑا دعا کر کر رہا ہو تو اس کی دعا قبول ہوگی۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ وہ گھڑی بہت ہی مختصر ہے۔
خاکسار نے اس حوالہ سے ایک واقعہ لکھا ہے کہ دعا کیوں قبول نہیں ہوتی؟ اس میں تذکرۃ الاولیاء سے حضرت ابراہیم بن ادھم کا ہے کہ ’’آپ سے کسی نے دریافت فرمایا کہ دعا کیوں قبول نہیں ہوتی۔ آپ نے فرمایا خدا کو جانتے ہوئے بھی اس کے احکامات کی پیروی نہیں کرتے۔ قرآن پڑھتے ہو مگر اس پر عمل نہیں کرتے، حق تعالیٰ کی نعمتیں کھاتے ہو مگر ان کی شکر گزاری نہیں کرتے، بہشت کے بارے میں جانتے ہو کہ مطیع اور فرمانبردار لوگوں کے لئے ہے پھر بھی اس کی طمع اور کوشش نہیں کرتے۔ جانتے ہو کہ دوزخ نافرمانوں کے لئے ہے۔ مگر اس سے دور نہیں بھاگتے۔ جانتے ہو کہ شیطان ہمارا دشمن ہے مگر اس سے عداوت کی بجائے دوستی کرتے ہو۔ یہ بھی جانتے ہو کہ موت ضرورآئے گی مگر موت کا سامان نہیں کرتے۔ والدین، دوستوں اور بچوں کو خاک میں دفن کر کے بھی عبرت نہیں پکڑتے۔ دوسروں کے عیب نکالتے ہو اور اپنے عیب پر اطلاع نہیں پاتے۔ جس آدمی کا یہ حال ہو اس کی دعا کیوں کر قبول ہو سکتی ہے۔‘‘
خاکسار نے آخر میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا دعا کے بارے میں ایک حوالہ لکھا ہے:
’’مبارک تم جب کہ دعا کرنے میں کبھی ماندہ نہیں ہوتے…… وہ خدا جس کی طرف ہم بلاتے ہیں نہایت کریم و رحیم، حیاء والا، صادق و فادار، عاجزوں پر رحم کرنے والا ہے۔ پس تم بھی وفادار بن جاؤ اور پورے صدق اور وفا سے دعا کرو کہ وہ تم پر رحم فرمائے۔ دنیا کے شور و غوغا سے الگ ہو جاؤ اور نفسانی جھگڑوں کو دین کا رنگ مت دو۔ خدا کے لئے ہار اختیار کرلو اور شکست کو قبول کرلو تاکہ بڑی بڑی فتحوں کے تم وارث بن جاؤ۔ دعا کرنے والوں کو خدا معجزہ دکھائے گا اور مانگنے والوں کو ایک خارق عادت نعمت دی جائے گی۔ دُعا خدا سے آتی ہے اور خدا کی طرف ہی جاتی ہے۔ دعا سے خدا ایسا نزدیک ہو جاتا ہے جیسا کہ تمہاری جان تم سے نزدیک ہے۔ دعا کی پہلی نعمت یہ ہے کہ انسان میں پاک تبدیلی پیدا ہوتی ہے…… غرض دُعا وہ اکسیر ہے جو ایک مشتِ خاک کو کیمیا کر دیتی ہے اور وہ ایک پانی ہے جو اندرونی غلاظتوں کو دھو دیتا ہے۔ اس دعا کے ساتھ روح پگھلتی ہے اور پانی کی طرح بہہ کر آستانہ حضرتِ احدیّت پر گرتی ہے۔‘‘
(لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد20 صفحہ223)
انڈیا پوسٹ نے اپنی اشاعت 12؍اگست 2011ء میں صفحہ 17 پر ہماری ایک خبر شائع کی ہے۔ جس میں پہلے تو ’’خون کے عطیہ جات‘‘ دینے اور اکٹھا کرنے کے بارے میں ہے کہ 9/11 کی سالانہ تقریبات سارے ملک میں ہوں گی۔ اس مناسبت سے انسانیت کے احترام اور جانوں کو بچانے کے لئے ہم احمدی مسلمان خون کے عطیات دیں گے۔ جس کا اہتمام جماعت احمدیہ کر رہی ہے۔ دوسرے اس میں اس بات کی بھی وضاحت کی گئی ہے کہ اسلام کا دہشت گردی سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ بلکہ کوئی مذہب بھی دہشت گردی کی تعلیم نہیں دیتا۔ قرآن کریم نے یہ تعلیم دی ہے کہ انسان کی زندگی ایک مقدس امانت ہے جس کا احترام ضروری ہے اور جو شخص اس کو پامال کرتا ہے اس کے لئے خدا کی طرف سے دردناک سزا تجویز ہے۔
جو لوگ دہشت گرد ہیں وہ قطعاً مسلمان ہونے کا حق ادا نہیں کر رہے اور نہ ہی یہ اسلام ہے۔ خبر کے آخر میں مسجد بیت الحمید کا نام اور ایڈریس بھی شائع کیا گیا ہے۔
انڈیا پوسٹ نے اپنی اشاعت 12؍اگست 2011ء میں صفحہ 16 پر خاکسار کا انٹرویو اور پریس ریلیز شائع کیا ہے۔ جس کا عنوان ہے۔ ’’مسلمانوں کا مقدس ماہ صیام یکم اگست کو شروع ہو رہا ہے۔‘‘
رمضان المبارک کے حوالہ سے مسجد بیت الحمید میں پروگرامز کی تفصیل ہے۔ نیز رمضان المبارک میں روزہ کی اہمیت اور برکات اور مقاصد پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ انٹرویو اس سے قبل دیگر اخبارات کے حوالہ سے پہلے بھی گذر چکا ہے۔
الانتشار العربی نے اپنی اشاعت 17؍اگست 2011ء میں صفحہ 20 پر خاکسار کا مضمون عربی زبان میں خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اس مضمون کا عنوان ہے۔ ’’کیف یمکن ان نستفید من شھر رمضان المبارک؟‘‘ کہ رمضان المبارک کے بابرکت مہینہ سے ہم کس طرح فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟
خاکسار نے اس میں 11 باتیں لکھی ہیں۔ رمضان کی برکات اور یہ کہ مسلمانوں کو حتی المقدور رمضان سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور اس کے لئے یہ باتیں ہیں جن پر عمل کر کے رمضان سے حقیقی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
(1) نماز باجماعت۔ (2) نماز تہجد۔ (3) صلوٰۃ تراویح۔ (4) تلاوت قرآن کریم۔ (5) دعائیں کریں، دعائیں کریں، دعائیں کریں۔ (6) ذکر الٰہی، استغفار، درود شریف کی کثرت۔ (7) صدقہ و خیرات مالی قربانی۔ (8) صدقۃ الفطر کی ادائیگی۔ (9) رمضان کے آخری عشرہ کی اہمیت و برکات۔ (10) لیلۃ القدر کی تلاش۔ (11) عید الفطر۔
ان تمام 11 باتوں کے لئے خاکسار نے قرآن کریم کی آیات، احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی سنت، تحریرات حضرت مسیح موعودؑ اور خلفاء کرام، بزرگان دین کی باتیں، شرعی مسائل اور فقہی مسائل۔ ان باتوں کو تفصیل سے بیان کیا۔
ہفت روزہ پاکستان ٹائمز کینیڈا نے اپنی اشاعت 18؍اگست 2011ء میں صفحہ 3 پر بڑی ہیڈ لائن میں یہ سرخی دی۔ ’’مسجد بیت الحمید چینو میں رمضان المبارک کی سرگرمیاں۔‘‘ اس کے ساتھ 3 تصاویر بھی شائع کی ہیں۔ ایک تصویر میں خاکسار درس دے رہا ہے۔ دوسری تصویر میں سامعین درس سن رہے ہیں اور تیسری تصویر میں حاضرین افطاری کر رہے ہیں۔
خبر میں یہ لکھا ہے کہ امریکہ میں روایت کے مطابق اس سال بھی رمضان کی برکتوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے ٹھیٹ اسلامی طریق جاری ہیں۔ پنجگانہ نمازوں کے علاوہ نماز تراویح، درس قرآن کریم اور دروس حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم جاری ہیں۔ امام شمشاد ناصر نے خصوصی طور پر مغرب کی نماز سے قبل ایک گھنٹہ درس قرآن کا اہتمام کیا ہوا ہے۔ درس میں شامل ہونے والوں کے لئے باقاعدگی سے روزانہ افطار اور پھر کھانے کا خصوصی بندوبست کیا جاتا ہے۔ عام دنوں میں تقریباً 175 کے قریب مرد، عورتیں اور بچے شامل ہوتے ہیں۔
لیکن ہفتہ اور اتوار کو شاملین کی تعداد تقریباً چار سو تک پہنچ جاتی ہے۔امام شمشاد احمد ناصر نے قرآن کریم کی باقاعدہ تلاوت سے پہلے چند روز تک صرف قرآن کریم کی فضیلت، اس کے نزول کی ضرورت اور افادیت کو بیان کیا۔ اسی طرح انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانے میں ہی قرآن کریم کے جمع ہونے اور ایک جلد میں مرتب ہونے کا ذکر کیا۔ نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح قرآن کریم کی تلاوت فرماتے تھے کے بارے میں بھی بتایا۔
اخبار مزید لکھتا ہے کہ امام سید شمشاد احمد ناصر نے پہلے دس دن تک متواتر سورۃ الفاتحہ کا درس دیا اور سورۃ الفاتحہ کی اہمیت اور فضیلت، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان فرمودہ احادیث اور بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی تحریرات سے پیش کی۔ درس پر جمع ہونے والے افراد کو اس امر کی طرف بھی توجہ دلائی جارہی ہے کہ وہ رمضان کی برکتوں سے بھرپور فائدہ اٹھائیں کیوں کہ احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اس مقدس مہینہ کے بہت سے فضائل بیان ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس ماہ میں غرباء کا بھی خاص خیال رکھا جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت رمضان میں تیز آندھی سے بھی زیادہ ہوتی تھی۔ یہ مہینہ تنویر قلب اور دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ بھی ہے۔ دنیا ایک بحران سے گزر رہی ہے اس لئے دعا ؤں کی طرف بہت توجہ دیں کیونکہ دعا کے ذریعہ ہر مشکل آسان ہوجاتی ہے اور ماہ رمضان کے لئے دعا کا ماحول پیدا کر دیا ہے اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے۔ خبر کے آخر میں خاکسار کا نام، مسجد بیت الحمید کا ایڈریس اور فون نمبر درج ہے۔
دنیا انٹرنیشنل نے اپنی اشاعت اگست 2011ء پر 20 سے زائد تصاویر کے ساتھ ہمارے جلسہ سالانہ کی خبر شائع کی۔ اس اخبار کے اوپر لکھا ہوا ہے کہ یہ اخبار واشنگٹن، نیویارک، ٹوکیو اور اسلام آباد سے بیک وقت شائع ہوتا ہے۔ تصاویر میں جماعت احمدیہ کے سرکردہ افسران مکرم ڈاکٹر احسان اللہ ظفر صاحب امیر جماعت امریکہ، مولانا نسیم مہدی صاحب مشنری انچارج امریکہ، مولانا اظہر حنیف صاحب (موجودہ مشنری انچارج) امجد محمود خان صاحب، سیکرٹری نیشنل امور خارجہ، خاکسار سید شمشاد احمد ناصر مبلغ لاس اینجلس، مکرم ملک وسیم احمد صاحب نائب امیر امریکہ، ڈاکٹر آغا شاہد خان صاحب، حسن حکیم صاحب سیکرٹری تبلیغ، سامعین کی ایک بڑی تعداد، مہمانان کرام، حکومتی اہل کار شامل ہیں۔ اخبار نے خبر کی سرخی یہ لگائی ہے: ’’جماعت احمدیہ کے 63 ویں سالانہ جلسہ میں امریکہ بھر سے ہزاروں افراد کی شرکت‘‘
’’اسلام آفاقی مذہب ہے اس کے ماننے والے امن و آشتی کے پیامبر ہیں، ہم امن، بھائی چارے اور مساوات کے نظام کے لئے کوشاں ہیں۔‘‘ (ڈاکٹر احسان اللہ ظفر)
’’اقوام متحدہ کا چارٹر آج 14 سو سال بعد بھی وہی کلمات ادا کر رہا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے 14 سو سال قبل کہہ دیئے تھے کہ ہر انسان کو مکمل آزادی ہے۔‘‘ (مولانا اظہر)
پنسلوینیا ہیرس برگ (منظور حسین سے) جماعت احمدیہ کے 63 ویں جلسہ سالانہ میں امریکہ بھر سے ہزاروں کی تعداد میں افراد کی شرکت۔ امسال جلسے کا مقصد پیار، محبت، بھائی چارے اور امن کا فروغ تھا۔ امریکہ بھر کی تمام مساجد کے اماموں اور جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والے اور ان کی فیملیوں نے اس جلسہ میں بھرپور شرکت کی۔ مقررین نے حاضرین کی ایک بڑی تعداد کو اسلام کے سنہری نظام مساوات، عدل و انصاف اور بھائی چارے کے حوالے سے بتایا۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مولانااظہر حنیف نے کہا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے سرداروں اور کفار مکہ کو تبلیغ کرنے کے لئے گئے تو نہ ہی ان کے پاس تلوار تھی اور نہ ہی کوئی فوج وہ صرف اللہ کے ایک برگزیدہ بندے کی حیثیت سے کفار کے پاس گئے۔ ان کا مقصد صرف اللہ کا پیغام، اللہ کے بندوں تک پہنچانا تھا۔ مگر آپ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیئے گئے۔ آپ سے معاشی قطع تعلق کر لیا گیا یہاں تک کہ شعب ابی طالب میں آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو قید کر دیا گیا۔
مولانا اظہر حنیف نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جو حقوق ایک مسلمان کو حاصل تھے وہی حقوق ایک یہودی اور نصرانی کو بھی حاصل تھے اور جب لوگوں نے ایک موقع پر آپ کی آواز پر کان نہ دھرے تو آپ نے اللہ کے حکم سے یہ کہہ دیا اے کافرو تمہارا دین تمہارے لئے اور میرا دین میرے لئے کافی ہے۔ مولانا اظہر حنیف نے کہا کہ اقوام متحدہ کا چارٹرآج 14 سو سال بھی وہی کلمات ادا کر رہا ہے جو آپ نے 14 سو سال پہلے کہہ دیئے تھے کہ ہر انسان کو اپنے مذہب اور آزادی تقریر و تحریر کی مکمل آزادی ہے۔ اخبار مزید لکھتا ہے کہ
سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں پاکستان افیئرز کے ڈائریکٹر مسٹر ٹم لینڈرکنگ نے کہا کہ اگر آج کی دنیا میں مختلف مذاہب کے لوگوں کو معاشرے میں یکساں مقام حاصل نہیں ہوگا تو معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا اور نہ ہی وہ معاشرہ ایک مہذب معاشرے کی صورت اختیار کر سکتا ہے انہوں نے کہا کہ وہ سات سال پاکستان میں رہے انہیں معلوم ہے کہ اس معاشرے میں مذہبی روا داری مکمل طور پر موجود نہیں۔ مذہبی انتہاء پسند وہاں معصوم لوگوں کو خودکش حملوں پر اکسا رہے ہیں۔ ہم سب کو مل کر ایسے معاشروں کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے……… انہوں نے مزید کہا کہ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ احمدیہ کمیونٹی کی امریکہ میں کی جانے والی مذہبی روا داری کی خدمات کو سراہتا ہے۔ اخبار مزید لکھتا ہے کہ
احمدیہ جماعت امریکہ کے صدر (امیر جماعت) ڈاکٹر احسان اللہ ظفر نے کہا کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے اور اس کے ماننے والے امن و آشتی کے پیامبر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم دنیا بھر کی طرح امریکہ میں امن، بھائی چارے اور مساوات کے نظام کے لئے کوشاں ہیں۔
جلسہ سالانہ سے خطاب کرتے ہوئے مولانا نسیم مہدی صاحب نے کہا کہ احمدیہ مسلم کمیونٹی دنیا بھر میں امن اور آزادی کے علمبردار ہے اور یہ سلسلہ پچھلے 120 سال سے جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ میں جماعت احمدیہ گزشتہ 90 سال سے اسلام کے پرامن پیغام کو پھیلانے میں کوشاں ہے۔ انہوں نے کہا کہ 9/11 کے بعد بھی ہمارے حوصلے پست نہیں ہوئے اور آج مرزا غلام احمد قادیانی (علیہ السلام) نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے 14 سو سال پہلے دیئے گئے پیغام امن کو پھر عام کر دیا ہے۔ جماعت احمدیہ دہشتگردی کی پرزور مذمت کرتی ہے اور بحیثیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار ان کا دہشتگردی سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ مولانا اظہر حنیف صاحب نے کہا کہ اسلام ہمیں سبق دیتا ہے کہ جہاں بھی رہو اس ملک کے قوانین اور حکمرانوں کی اطاعت کرو۔
مولانا نسیم مہدی صاحب نے کہا کہ جماعت احمدیہ نے امن کے فروغ کے لئے ایک مہم بھی شروع کر رکھی ہے جس کے پیش نظر بسوں، ٹرینوں اور دیگر مقامات پر امن و اسلام کا پیغام محبت اور آزادی کے لئے تشہیری مہم جاری ہے اور پیغام 60 ملین امریکنوں تک پہنچ چکا ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ دنیا انٹرنیشنل سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ہیرس برگ کی میئر مِس لنڈا تھامسن نے کہا کہ وہ جماعت احمدیہ کے اس کنونشن میں شرکت پر خوش ہیں نیز وہ چاہتی ہیں کہ جماعت احمدیہ اپنے محبت اور امن کے ایجنڈے کو دنیا بھر میں پھیلانے کے لئے مزید آگے بڑھے کیوں کہ اس کٹھن دنیا میں یہی پیغام اصل پیغام ہے۔
احمدیہ جماعت امریکہ کا یہ سب سے بڑا جلسہ مانا جاتا ہے اس جلسہ میں 5 ہزار کے قریب لوگوں نے شرکت کی۔ جلسے میں پاسٹر ٹیری جونز کی طرف سے قرآن مجید کو جلانے کی بھی مذمت کی گئی جب کہ جماعت احمدیہ کے مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ وہ بہترین مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ امریکہ سے بھی محبت رکھتے ہیں اور اس کے قوانین کا احترام کرتے ہیں۔
اخبار لکھتا ہے کہ احمدیہ کمیونٹی کی بنیاد مرزا غلام احمد قادیانی (علیہ السلام) نے قادیان میں سو سال پہلے رکھی تھی جس کی شاخیں آج دنیا کے 80 ممالک میں موجود ہیں۔
پہلے پہل جماعت احمدیہ کے اجتماعات (مراد جلسہ سالانہ ہے) مرزا غلام احمد کی ہدایات پر ہر سال قادیان (انڈیا) میں قائم کئے جاتےرہےمگر بعد ازاں انہیں ربوہ پاکستان منتقل کر دیا گیا۔ مگر حکومت پاکستان کی جانب سے جماعت احمدیہ پر پابندی کی وجہ سے اب ہر سال یہ اجتماع امریکہ میں کئے جارہے ہیں۔ جماعت احمدیہ کی کمیونٹی کا ہیڈ آفس برطانیہ میں موجود ہے۔ آج ربوہ کا نام تبدیل کر کے چناب نگر رکھ دیا گیا ہے۔ پاکستان میں احمدیہ فرقہ سے تعلق رکھنے والے افراد اذان نہیں دے سکتے اور انہیں مذہبی رسومات ادا کرنے کی بھی مکمل آزادی نہیں ہے…… احمدیہ جماعت کے سالانہ جلسے میں لوگوں کو مفت کھانا تقسیم کیا گیا۔
نوٹ: ہم انٹرنیشنل دنیا اخبار کے ایڈیٹر اور نمائندہ کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ہمارے جلسہ کی خبر شائع کی۔ آخر میں جو انہوں نے لکھا کہ بعد ازاں قادیان سے جلسہ سالانہ ربوہ منتقل ہوگیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ قادیان میں جلسہ نہیں ہوتا۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے قادیان میں ہر سال دسمبر کے آخر میں یہ جلسہ بلا روک ٹوک ہورہا ہے اور دنیا کے قریباً سبھی ممالک اپنے اپنے موسم اور دیگر سہولتوں کے پیش نظر ہر سال جلسہ سالانہ کرتے ہیں۔
امریکہ میں بھی ہر سال اپنا جلسہ ہوتا ہے۔ یہ ربوہ کے جلسہ کا بدل نہیں ہے۔ 1984ء میں جب پاکستان میں جماعت احمدیہ کے خلاف آرڈننس XXشائع ہوا اور آئین میں مزید ہمارے خلاف ترامیم کی گئیں۔ اس کے بعد سے اب تک وہاں جلسہ کرنے کی اجازت حکومت کی طرف سے نہہں ملتی۔ جب کہ جماعت کی طرف سے ہر سال حکومت کو اجازت کے لئے لکھا جاتا ہے مگر اجازت نہیں ملتی۔ اس کے برعکس وہ لوگ جو جماعت احمدیہ کے مخالفین اور معاندین ہیں جن کا صبح و شام مشغلہ ہمیں گالیاں دینا اور ہمارے بزرگوں کو بُرے نام سے یاد کرنا ہے انہیں ہر سال ہمیں گالیاں دینے کے لئے جلسہ کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔
اخبار نے جلسہ کی خبر شائع کی ہے ہم اس پر شکرگزار ہیں لیکن ساتھ ہی خبر سے جو غلط فہمی پیدا ہوسکتی تھی وہ دور کی گئی ہے۔ دنیا کے ہر ملک میں اپنے اپنے حالات کے مطابق جلسے ہو رہے ہیں اور یہ خدا کا فضل ہے کہ قادیان کی بستی سے صرف 75 افراد سے جو جلسہ شروع ہوا تھا وہ آج دنیا کے کونے کونےمیں ہو رہا ہے اور یہ حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کا نشان بن رہا ہے۔ بصیرت رکھنے والوں کے لئے یہی ایک صداقت کی دلیل کافی ہونی چاہئے۔
(مولانا سید شمشاد احمد ناصر۔ امریکہ)