7؍دسمبر 1922ء پنج شنبہ (جمعرات)
مطابق17؍ربیع الثانی1341 ہجری
صفحہ اول پر 1922ء کے جلسہ کے انعقاد کا اعلان شائع ہوا ہے۔ اعلان میں ذکر ہے کہ امسال جلسہ سالانہ 25 تا 27؍دسمبر منعقد ہوگا۔
صفحہ دوم پر ’’لیکھرام کے متعلق حضرت مسیح ِموعود کی پیشگوئی۔ قتلِ لیکھرام پر تقریریں‘‘ کے عنوان سے ایک جلسہ کی کارروائی شائع ہوئی ہے۔ اس جلسہ کے ذکر میں الفضل نے تحریر کیا کہ یکم دسمبر کو آریوں کے ایک لیکچرارپنڈت دھرم بھکشو لکھنوی نے قادیان میں آ کر حضرت مسیحِ موعودؑ کی پیشگوئی بابت پنڈت لیکھرام پشاوری تقریر کی۔ چونکہ اس تقریر کو سننے کے لیے بذریعہ منادی احمدیوں کو بھی دعوت دی گئی تھی۔ چنانچہ بہت سے احمدی احباب نے بھی اس لیکچر میں شرکت کی۔ لیکچرار مذکور نے اس لیکچر کی آڑ میں حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ کی ذاتِ مبارک پر ناپاک حملے کیے۔ جب لیکچرار دل کھول کر حضرت اقدسؑ کی ذات پر ہرزہ سرائی کر چکا تویہ کہہ کر اپنا لیکچر ختم کر دیا کہ میرا وقت اب ختم ہو چکا ہے۔ احمدی احباب کے اصرار کے بوجود کہ ہم لیکچر سننے کو تیار ہیں، اصل موضوع پیشگوئی کے متعلق بھی بیان کیا جائے۔ لیکن آریوں کے پریذیڈنٹ نے بھی وقت کو آڑ بنا کر جلسہ ختم کر دیا۔
اس پر احمدیوں کی جانب سے اعلان کیاگیا کہ کل رات اس تقریر کا جواب دیا جائے گا۔لہٰذا اگلے روز احمدی لیکچرار نے گزشتہ روز کیے جانے والے اعتراضات اور حملوں کا جواب دیا۔جماعتِ احمدیہ کا یہ جلسہ ساڑھے تین گھنٹے جاری رہا۔اس لیکچر میں آریہ صاحبان اور مذکورہ لیکچرار بھی شریک ہوئے۔
3؍دسمبر کو قادیان میں دوبارہ آریوں نے جلسہ کیا اور پھر بد زبانی سے کام لیا۔ جلسہ کے آخر میں آریوں نے اعلان کیا کہ کل چار بجے تک احمدی صاحبان ہم سے مباحثہ کے لیے شرائط طے کرلیں تو مباحثہ ہو گا۔ ورنہ سمجھا جائے گا کہ احمدی ہم سے گفتگو کے لیے تیار نہیں۔ جس پر جواباً کہا گیا کہ مناظرہ کے لیے آریہ جس وقت چاہیں طے کر لیں لیکن یہ ممکن نہیں کہ اس لیکچر کا جواب نہ دیا جائے۔ مباحثہ اس کے بعد ہو گا۔
چنانچہ جواباً اگلے روز 4؍دسمبر کی رات احمدیوں کا جلسہ ہوا۔اس جلسہ سے قبل منادی کے ذریعہ اعلان کروایا گیا کہ آریہ صاحبان کو تقریر پر اعتراض کا موقع دیا جائے گا۔ لیکن اس کے باوجود آریوں اور ان کے لیکچرار نے اس جلسہ سے راہِ فرار اختیار کی اور انہوں نے اپنا علیحدہ لیکچر کروایا۔ احمدی لیکچرار نے اپنی تقریر سے قبل یہ اعلان کیا کہ ہم ہر وقت مناظرہ کے لیےتیار ہیں۔ آریہ جس وقت چاہیں گفتگو کر لیں لیکن ہماری جوابی تقریر سننا اُن کا فرض ہے اور ان کا نہ آنا فرار۔ اسی طرح وہ تو اپنے جلسہ میں کوئی بات بھی پوچھنے کی اجازت نہیں دیتے لیکن ہماری جانب سے انہیں کھلی اجازت ہے کہ تقریر پر جو چاہیں اعتراض کریں ہم جواب دیں گے۔ پس انہیں چاہیے کہ ابھی آئیں اور ہماری تقریر پر جیسا چاہیں اعتراض کریں۔ بعدازاں احمدی لیکچرار نے تقریر کی جو رات بارہ بجے تک جاری رہی۔ایک آریہ اس تقریر کو نوٹ کرتا رہا۔
صفحہ نمبر3 اور 4 پر اداریہ شائع ہوا ہے جودرج ذیل دو مختلف موضوعات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔
1۔حضرت مسیح کی ولادت بے پدر۔غیر مبائعین کا عقیدہ حضرت مسیحِ موعودؑ کے خلاف2۔مولوی محمد علی صاحب سے مطالبہ نمبر2
صفحہ نمبر5 اور 6 پر حضرت مصلح موعودؓ کا خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ 24؍نومبر 1922ء شائع ہوا ہے۔
صفحہ نمبر6 پر حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ کی جانب سے ایک اعلان شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب کی مرتبہ ایک انگریزی کتاب ’’احمد‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ یہ کتاب حضرت مسیحِ موعودؑ کی تحریرات کی رُو سے آپؑ کے دعاوی اور تعلیم پر مشتمل ہے۔ حضرت شیخ یعقوب علی صاحبؓ اس اعلان کے آخر میں تحریر کرتے ہیں کہ ’’آخر میں سیٹھ صاحب سے معذرت کرتا ہوں کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ پسند نہیں کرتے کہ اُن کا نام کسی کام کے سلسلہ میں اشاعت پائے۔ میں اس تحریک کی اشاعت پر اس لیے مجبور ہوں کہ جماعت کو ایک ثواب اور ضرورت کے کام سے ناآشنا رکھنا میں گناہ سمجھتا ہوں۔ ہر ایک انگریزی خواں کو یہ کتاب اپنے پاس رکھنی چاہیے اور ہر انگریزی خوان کو دکھانی چاہیے۔‘‘
صفحۃ نمبر7 اور 8 پر ’’مکتوبات امام علیہ السلام‘‘ کے عنوان سے حضرت مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے افسر ڈاک (حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد) کی جانب سے حضرت مصلح موعودؓ کے بعض مکتوبات شائع ہوئے ہیں جو آپ نے مختلٖف احباب کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے جواب میں تحریر فرمائے۔ ارشاد فرمودہ جوابات سے متعلق سوالات ذیل میں درج ہیں۔
کیا جماعتِ احمدیہ دوسرے مسلمانوں کو کافر کہتی ہے؟
ایک صاحب نے لکھا کہ وہ ایک سردار صاحب کے پاس ملازم ہیں جو روپیہ سُود پر دیتے ہیں اور انہیں اس کا حساب کرنا پڑتا ہے۔ ایسی حالت میں انہیں کیا کرنا چاہیے؟
ایک دوست نے لکھا کہ انہوں نے 1917ء میں سب ناجائز وسائل آمدنی کو ترک کر دیا ہے اور بڑی دعائیں بھی کی ہیں مگر ابھی تک تکالیف کا پہاڑ سر پر ہے۔
ایک شخص نے دریافت کیا کہ منافقوں کو ہم کیسے پہچانیں ان کے کیا نشانات ہیں؟
ایک دوست نے دریافت کیا کہ موپلے یتیم اور بیواؤں کے لیے چندہ مانگتے ہیں اس امر میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟
ایک دوست نے سوال کیا کہ ترکوں کی فتح کی خوشی میں روشنی وغیرہ کرنے کے لیے چندہ دینے کے متعلق کیا حکم ہے؟
ایک دوست نے لکھا کہ متوفی بچے کے لیے دعا کرنے کو از حد دل چاہتا ہے۔ دعا کس طرح کی جاوے؟
ایک دوست نے سوال کیا کہ میرا بھائی اگرچہ احمدیوں کا زیرِ احسان ہے مگر وہ باوجود اس کے احمدیوں کا سخت دشمن ہے اور جو آدمی احمدیت کے قریب ہوتا ہے اُس کو بہکانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جاوے۔
صفحہ نمبر11 اور 12 پر ہندوستان اور غیر ممالک کی خبریں شائع ہوئیں۔
مذکورہ بالا اخبار کے مفصل مطالعہ کےلیے درج ذیل لنک ملاحظہ فرمائیں۔
https://www.alislam.org/alfazl/rabwah/A19221207.pdf
(م م محمود)