• 11 مئی, 2025

ٹورینو کی چادر کے متعلق تعارف

اٹلی کے شہر ٹورینو میں ایک linen سے بنی ہوئی چادر ہے جو 14 فٹ تین انچ لمبی اور 3 فٹ چار انچ چوڑی ہے۔ اس کی بنتی اس طرز کی ہے جو herringbone کہلاتی ہے۔ herrong شمالی بحر الکاہل کی ایک مچھلی کو کہتے ہیں۔ اس مچھلی کی ہڈیاں ٹیڑھی zigzag ہوتی ہیں۔ اس مناسبت سے اس بنتی کی طرز کو herringbone کہا جاتا ہے اور اس کا تانا 3 اور بانا ایک (1) یا بانا 3 اور تانا 1 ہوتا ہے۔ کپڑا بننے والوں کی اصطلاح انگریزی میں تو 3 over 1 کے الفاظ سے ادا کی جاتی ہے۔ یہ بنتی کی طرز یورپ میں 16ویں صدی تک استعمال ہوتی تھی، پھر اس بنتی کا رواج بند ہوگیا۔

یہ چادر روئی یا ریشم وغیرہ کی نہیں بلکہ linen کی ہے۔ linen اس کپڑے کو کہتے ہیں جو نباتات کے ریشہ سے بنایا جاتا ہے جس کوانگریزی میں flax، اردو میں السی اور عبرانی میں linen کوفشتان کہتے ہیں۔

linen کے لفظ کے متعلق چلتے چلتے عرض کردوں کہ آج کل یہ لفظ صرف السی کے پودے سے بنے ہوئے کپڑے کو نہیں کہتے بلکہ چونکہ پہلے اس کپڑے سے بستر کی چادریں اور کھانے کی میز کے دسترخوان وغیرہ بنائے جاتے تھے تو اب linen کا لفظ ان کپڑوں کے لئے استعمال ہوتا ہے خواہ وہ cotton کے ہی ہوں۔

ہمیں اپنے تجربات کے لئے خالصاً linen کی تلاش تھی۔بی بی (امۃ المتین صا حبہ) رحمھا اللّٰہ مجھے امریکہ کی ویسٹ کوسٹ پر ایک جگہ لے گئیں جہاں یہودیوں اور ایرانیوں کے کپڑوں کے بڑے زبردست سٹور تھے۔ وہاں مجھے وہ linen کے نام سے کپڑا دیتے تھے۔مجھے شبہ ہوتا تھا کہ یہ خالص flax کی linen نہیں ہے۔ آج کل fiber دوسرا بھی ملاتے ہیں۔ پھر مجھے معلوم ہوا کہ خالص linen غالباً بیلجیئم اور آئرلینڈ میں بنائی جاتی ہے۔ چنانچہ میں نے عزیزم سیّد حسین احمد سلمہ اللہ کے بڑے بیٹے کو جو آئرلینڈ میں ڈاکٹری کرتے ہیں کہا اور وہ ایک گز linen لائے۔ اب مجھے معلوم نہیں کہ وہ خالص ہے یا نہیں۔ بہرحال میں فیصل آباد وغیرہ کے ان احمدی احباب کو کہتا رہتا ہوں کہ وہ خالص linen مہیا کرنے میں ہماری مدد کریں۔اللہ انہیں جزائے خیر دے۔

اس ٹورینو کی چادر پر ایک پورے انسان کے بدن کے نقوش ہیں۔ اس کے علاوہ خون کے بہنے اور قطرات کے نشان بھی ہیں۔اس آگ کے بھی نشان ہیں جو اس چادر کے کچھ حصہ کو لگی تھی اور اس آگ کو بجھانے کے لئے جو پانی ڈالا گیا تھا اس کے بھی نشان ہیں اور نیز ایک اور نشان بعض پودوں کے زر گل یعنی pollen کے نشان ہیں۔ اسی طرح بعض اور چیزوں کے بھی نشان پڑتے رہے ہیں۔ میرا خیال ہے۔

عزیزم مظفر چوہدری نے ایک طالبعلم کی زمین پر السی پیدا کرکے لالیاں کے باشندوں سےlinen کاکپڑا بنوایا بھی تھا۔
بہرحال اصل بات جو ہم سب کے لئے اور دنیا کی بڑی تعداد میں لوگوں کے لئے دلچسپی کا باعث ہے وہ یہ ہے کہ صدیوں سے یہ خیال چلا آرہا ہے کہ اس چادر میں جو شخص رکھا گیا تھا یا لپیٹا گیا تھا وہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام تھے اور اس وجہ سے صدیوں سے اس خیال کی بناء پر اس چادر سے محبت اور عقیدت کا زبردست اظہار ہوتا ہے۔

نئے عہدنامہ میں ذکر

اب ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس چادر کا ذکر نئے عہدنامہ میں ہے۔ اس بارہ میں صرف یہ عرض کردوں گا کہ ایک چادر کا ذکر نئے عہد نامہ میں دو جگہ ملتا ہے۔

ایک ذکر تو یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی مزعومہ وفات کے بعد لکھا ہے:
ان باتوں کے بعد آرمیتیہ کے رہنے والے یوسف نے جو یسوع کا شاگرد تھا (لیکن یہودیوں کے ڈر سے خفیہ طور پر) پیلاطوس نے اجازت چاہی کہ یسوع کی لاش لے جائے۔ پس وہ آکر اس کی لاش لے گیااور نیکدیمس بھی آیا جو پہلے یسوع کے پاس رات کو گیا تھا اور پچاس سیر کے قریب مر اور عود ملا ہوا لایا۔ پس انہوں نے یسوع کی لاش لے کر اسے سوتی کپڑے میں خوشبودار چیزوں کے ساتھ کفنایا جس طرح کہ یہودیوں میں دفن کرنے کا دستور ہے۔

(یوحنا باب 19 آیت 38 تا 40)

پھر یوحنا ہی میں لکھا ہے۔
ہفتہ کے پہلے دِن مریم مگدلینی ایسے تڑکے کہ ابھی اندھیرا ہی تھا قبر پر آئی اور پتھر کو قبر سے ہٹا ہوا دیکھا۔ پس وہ شمعون پطرس اور اس دوسرے شاگرد کے پاس جسے یسوع عزیز رکھتا تھا دوڑی ہوئی گئی اور ان سے کہا کہ خداوند کو قبر سے نکال لے گئے اور ہمیں معلوم نہیں کہ اسے کہاں رکھ دیا۔ پس پطرس اور وہ دوسرا شاگرد نکل کر قبر کی طرف چلے اور دونوں ساتھ ساتھ دوڑے مگر وہ دوسرا شاگرد پطرس سے آگے بڑھ کر قبر پر پہلے پہنچا اوراس نے جھک کر نظر کی اور سوتی کپڑے پڑے ہوئے دیکھے مگر اندر نہ گیا اورشمعون پطرس اُس کے پیچھے پیچھے پہنچا ۔ اس نے قبر کے اندر جاکر دیکھا کہ سوتی کپڑے پڑے ہیں اور وہ رومال جو اُس کے سر سے بندھا ہوا تھا سوتی کپڑوں کے ساتھ نہیں بلکہ لپٹا ہوا ایک جگہ الگ پڑا ہے۔ اس پر دوسرا شاگرد بھی جو پہلے قبر پر آیا تھا اندر گیا اور اس نے دیکھ کر یقین کیا۔

(یوحنا باب 20 آیت 1 تا 8)

اب کیا یہ وہی چادر ہے جو اب ٹورینو میں ہے یا نہیں۔ اللہ بہتر جانتا ہے۔

حضرت مسیحؑ کا وصال

مگر چادر کا مزید ذکر کرنے سے پہلے خاکسار یہ عرض کرنا چاہتا ہے کہ شمالی سپین کے شہر oviedo میں ایک رومال پڑا ہے جس کو بڑی محبت اور عقیدت سے دیکھا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے چہرہ کو touch ہونے والا رومال ہے اس رومال پر ٹورینو کی چادر کی طرح image تو کوئی نہیں مگر کہا جاتا ہے کہ اس پر خون کے نشان ہیں اور جس طرح ٹورینو کی چادر پر خون کے نشانوں کے بارہ میں ٹیسٹ کیا گیا ہے وہ AB Positive ہیں۔ اسی طرح اس رومال پر خون کے نشان بھی AB Positive ہیں اور یہ رومال بھی linen کا ہے۔

اگرچہ نئے عہدنامہ میں مذکورہ بالا دو حوالوں کے علاوہ اس چادر کا کوئی ذکر نہیں مگر واقعہ صلیب کی جو تفاصیل نئے عہد نامہ میں ملتی ہیں وہ پوری طرح اس نقش سے ثابت ہوتی ہیں۔

چاروں اناجیل میں جو صلیب کے بار ہ میں بیان ہے اس کی تائید کرتی ہے اور اناجیل میں لکھا ہے کہ حضرت مسیحؑ کو قلعہ میں رومن سپاہیوں نے کانٹوں کا تاج پہنایا۔ پیلاطوس کی عدالت میں الزام لگایا گیا تھا کہ یسوع رومن بادشاہوں کے بجائے اپنے باپ کو یہود کا بادشاہ کہتے ہیں اس الزام کے مدنظر ان کو کانٹوں کا تاج بنا کر پہنایا گیا ٹورینو کی چادر اس بات کی تصدیق کرتی ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ دوسرے مجرموں جن کوصلیب دی جاتی تھی کانٹوں کا تاج پہنایا جاتا ہو۔

البتہ ایک اختلاف اس چادر میں اس روایتی انداز سے ہے جو صلیب کے بارہ میں عالم عیسائیت میں رائج ہے۔ صدیوں سے صلیب کی جو تصاویر بنائی جاتی ہیں یا مجسمے وغیرہ بنائے جاتے ہیں ان میں کیل ہتھیلیوں میں دکھائے جاتے ہیں جبکہ ٹورینو کی چادر میں کیل ہتھیلیوں میں نہیں بلکہ کلائی میں ہیں اور یہی درست ہے کیونکہ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اگر کیل ہتھیلیوں میں ہوتے تو بدن کا بوجھ ہاتھوں کو چیر دیتا اور بدن گرجاتا۔ چادر جس جگہ کیل ٹھونکنے کے نشان دکھاتی ہے وہاں چاروں طرف ہڈیاں اور درمیان میں کیل کے لئے سوراخ ہے۔ یہ بات ایک قطعی ثبوت ہے کہ چادر پر نقوش کسی جعل ساز کے نہیں ورنہ وہ روایتی انداز کے مطابق کیل کے نشان ہتھیلیوں میں بناتا۔ یوحنا کی انجیل میں لکھا ہے کہ توما نے کہا جب تک میں اُس کے ہاتھوں میں میخوں کے سُوراخ نہ دیکھ لُوں نہ مانوں گا۔ مگر لفظ ہاتھ کا ذکر ہے۔

اس چادر کے متعلق دو باتیں جن پر گفتگو کی جاتی ہے میں جگہ کی کمی کی وجہ سے چھوڑ دیتا ہوں ۔ ایک تو چادر کی تاریخ (اگرچہ یہ مضمون بہت اہم ہے) اس کے متعلق صرف یہ عرض کرتا ہوں کہ چادر کی تاریخ کو دو حصوں میں بانٹا جاسکتا ہے ۔ ایک شروع سے لے کر 1349ء تک۔ جس دور میں جگہ جگہ اور وقت وقت پر چادر کی جھلکیاں تو ملتی ہیں مگر اس کی معین محفوظ تاریخ موجود نہیں اور دوسرا 1349ء سے آج تک۔ جو معین محفوظ تاریخ موجود ہے۔

1349ء میں یہ چادر فرانس کے شہر Lirey میں Geoffrey de Charny نامی ایک اہم شخصیت کے پاس ملتی ہے اس کے بعد سے آج تک اس کی تاریخ محفوظ ہے۔ اس کی ملکیت بھی کئی ہاتھوں میں گئی۔ آخری مالک اس کا مشہور خاندان Savoy تھا جو اٹلی کا شاہی خاندان بن گیا اور انہوں نے اپنا دارالسلطنت ٹورینو میں بنایا اور اس چادر کو بھی ٹورینو لے گئے اور اب تک وہاں ہے۔ اس شاہی خاندان نے یہ چادر رومن کیتھولک چرچ کو ہبہ کر دی اور اب چرچ اس کا مالک ہے۔

اب ہم اس چادر کے سب سے عجیب اور اہم پہلو کی طرف آتے ہیں یہ چادر پرانے زمانہ میں وقتاًفوقتاً دیدار عام کے لئے پبلک کے سامنے لائی جاتی تھی۔ 1898ء میں اس کے ایک عام دیدار کے وقت اس کا فوٹو اتارنے کی تجویز کی گئی۔ کیمرہ کی ایجاد 1840ء میں ہوچکی تھی۔ مگر یہ فن ابھی اپنی ابتدائی حالت میں تھا۔ اس کام کے لئے ایک یہودی فوٹو گرافر Secondo Pia کا انتخاب کیا گیا۔ جب اس فوٹو گرافر نے تصویر کھینچی اور وہ رات کو دیکھ رہا تھا اُس شیشہ کی پلیٹ کو جس پر وہ تصویر آئی تھی تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی اور شیشہ کی پلیٹ بمشکل اس کے ہاتھ سے گرتے گرتے بچی۔ جب اس نے دیکھا کہ ا س پلیٹ پر عام اصول کے مطابق negative آنے کے بجائے positive تصویر آئی ہے۔ اس عجیب و غریب بات نے براعظم یورپ میں ایک ہلچل مچادی مگر انگلستان اور انگریزی بولنے والے دنیا میں اس کا کوئی خاص تذکرہ نہ ہوا کیونکہ انگلستان کی ایک معروف شخصیت (نام مجھے یاد نہیں رہا) نے یہ لکھ کر کہ یہ چادر اور اس پر تصویر سراسر fake ہے اس غیرمعمولی بات کو انگریزی بولنے والوں کی حدود سے باہر رکھا اور احباب جماعت میں بھی اس کا علم خلافت ثالثہ میں پھیلا جبکہ جرمن کانونٹ برنا (یہ قلمی نام ہے) نے اس چادر سے حضرت مسیح ناصری کا صلیبی موت سے بچنا ثابت کیا اور اس کا انگریزی ترجمہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے پاس آیا اور آپ نے پڑھنے کے لئے دیا۔

1931ء میں Giuseppe Enrie نے اس چادر کی تصاویر کھینچیں اور اس وقت Secondo Pia بھی جو 76 سال کا تھا موجود تھا اور ان تصاویر نے بھی Secondo Pia کے تجربہ کی پختہ طور پر تائید کر دی۔

پھر 1978ء میں امریکن سائنسدانوں کی ایک 33 افراد پر مشتمل ٹیم نے 3 دن تک اس چادر کا تفصیلی تحقیقی جائزہ لیا اس ٹیم میں فوٹو گرافر کے طور پر Barrie M. Schwortz تھے جو چند سال سے ہمارے جلسہ سالانہ پر لندن میں آتے ہیں اور تقریر بھی کی ہے۔ یہ ٹیم جب کام کر رہی تھی تو ان کے لئے چرچ کی طرف سے بڑی کڑی شرائط بھی لگائی گئی تھیں اور بندوق بردار سپاہی ان کی نگرانی ہمہ وقت کرتے تھے اس ٹیم نے 3 دن چادر پر کام کیا اور پھر 3سال تک اس کام پر تحقیق کرتے رہے۔

اب اس چادر پر دو بحثیں بڑی اہمیت رکھتی ہیں ایک تو یہ کہ چادر میں جو شخص تھا وہ زندہ تھا یا فوت ہوچکا تھا۔ اس پر تو آج کی مجلس میں بحث کی ضرورت نہیں۔ کتاب مسیح ہندوستان میں پڑھنا کافی ہے۔ ان زبردست دلائل میں سے میں صرف ایک دلیل نمونہ کے طور پر پیش کرتا ہوں ۔اناجیل کہتی ہیں کہ حضرت مسیح ناصری نے 4 دن سے مرا ہوا مردہ جس کے بدن سے سڑانڈ آرہی تھی آواز دے کر زندہ کر دیا۔ دو چار روٹیوں اور مچھلیوں سے 5ہزار آدمی کا پیٹ بھر دیا، سینکڑوں بیماروں، نابیناؤں کو اچھا کر دیا اور بدروحیں اُن میں سے نکال دیں، بادوباراں کے طوفان کو ڈانٹا اور وہ تھم گیا، سطح آب پر پیدل چلے، پانی کے چھ مٹکوں کونہایت عمدہ شراب سے بھر دیا۔ مگر ان تمام معجزات کے باوجود حضرت مسیح ناصری کہتے ہیں کہ
اس زمانہ کے برے اور زنا کار لوگ نشان طلب کرتے ہیں مگر یوناہ کے نشان کے سوا کوئی اور نشان ان کو نہ دیا جائے گا کیونکہ جیسے یوناہ نبی تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہا ویسے ہی ابن آدم تین رات دن زمین کے اندر رہے گا۔

(متی باب 12)

اب بظاہر اتنے زبردست نشانوں کے باوجود جن کا اناجیل ذکرکرتی ہیں جن میں چار دن کافوت شدہ آدمی زندہ کرنا بھی شامل ہے حضرت مسیح ناصری کہتے ہیں کہ اس زمانہ کے لوگوں کو صرف ایک نشان دیا جائے گا اور وہ یونس نبی کے نشان کی طرح ہو گا اب ہم دیکھتے ہیں کہ یونس نبی کا کیا نشان تھا۔ لوگ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح ناصری 3 دن اس یوسف آرمیتیہ کی قبر میں رہا جو ایک کمرہ نما قبر تھی ہماری طرح بند قبر نہیں تھی۔ بتایئے کہ اگر میں کہوں کہ تین رات دن فلاں کمرہ میں رہوں گا تو کیا یہ نشان بن جائے گا۔ مجھے تو اگر دفتر اور نماز کے لئے باہر نہ جانا ہو تو میں اطمینان سے اپنے کمرہ میں 3 دن سے زیادہ رہ سکتا ہوں یہ نشان کیا ہے۔ کیا یہ معجزہ ہے۔ یونس نبی کا نشان تو جیسا کہ یوناہ کی کتاب بتاتی ہے یہ تھا کہ بظاہر نظر تمام اسباب موت ان پر جمع ہو گئے مگر وہ موت سے بچائے گئے۔ کشتی میں بیٹھے، انتہائی خطرناک طوفان آیا پھر بھی بچ گئے ،پھر اٹھا کر طوفانی سمندر میں پھینک دیئے گئے پھر بھی بچ گئے، پھر مچھلی نے ان کو ہڑپ کر لیا پھر بھی بچ گئے، پھر مچھلی نے منہ سے ان کو نکال دیا اور وہ زندہ تھے۔ مسیح نے اپنے معجزہ کو یوناہ جیسا معجزہ قرار دیاہے معلوم ہوا کہ مسیح بھی تمام اسباب موت جمع ہو جانے کے بعد موت سے بچ گئے تھے۔ پھر جیساکہ یونا ہ ایک دور کے علاقہ میں بھیج دیئے گئے اور وہاں کے لوگوں نے پہلے تو ان کا انکار کیا پھر سارے کے سارے ایمان لائے اسی طرح مسیح بھی موت سے بچ کر ایک دور کے علاقہ میں بھیج دیئے گئے اور وہ لوگ ان پر ایمان لائے۔ اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ کشمیر سارے کا سارا مسلمان ہو گیا 99 فی صدی مسلمان ہیں کیونکہ ان کے پاس وہ مسیح آچکا ہوا تھا جس نے ان کو مُبَشِّرًا بِرَسُولٍ یَاْتِی … کہہ کر تیار کر دیا ہوا تھا۔ خیر یہ تو ایک لمبا مضمون ہے۔

Image © Wikipedia

چادر پر نقش کس طرح آیا

دوسری بحث یہ ہے کہ چادر پر نقش کس طرح آیا؟ اور نقش بھی وہ عجیب کہ کیمرہ کی ایجاد سے قریب دو ہزار سال پہلے negative نقش تھے جس کی تصویر کھینچو تو پہلی تصویر negative آنے کی بجائے positive آتی ہے۔ اس بارہ میں سائنسدانوں نے سر توڑ کوشش کی ہے ابھی کوئی قطعی نظریہ پیش نہیں کر سکے۔

اس وقت دو نظریات جو ابھی مفروضے کی حد تک ہیں کچھ قرین قیاس سمجھے جاتے ہیں مگر وہ ابھی اعتراضات سے خالی نہیں ان کے متعلق میں کچھ عرض کروں گا۔ باقی نظریات کا سرسری ذکر کرتا ہوں۔

1984ء میں Igor Benson نے Ball lightning کو نقش پیدا کرنے والی طاقت کا منبع قرار دیا۔ 1985ء میں Rex. Morgan نے اس میں زلزلہ کا دخل بیان کیا۔

1986ء میں Judica Cordiglia نے لنن پر بجلی کی طاقت پر کچھ نقوش پیدا کئے۔ 1997ء میں الیکٹرونز کو نقش کا ماخذ قرار دیا گیا ۔ 2000ء میں G. De Liso نے کچھ نقوش زلزلوں کے دوران میں حاصل کئے ۔

بہرحال دو تجربات جو وہ بھی قطعی نہیں۔ یہ ہیں، ایک تو معروف سائنسدان جان جیکسن کا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے:

According to Jackson, an intense burst of vacuum ultraviolet radiation produced a discoloration on the uppermost surface of the Shrouds fibrils (without scorching it) which gave rise to a perfect three-dimensional negative image of both the frontal and dorsal parts of the body wrapped in it.

اس کو آپ لوگ جو سائنس پڑھے ہوئے ہیں مجھ سے زیادہ سمجھ سکتے ہیں۔ یہ تو ایک نظریہ ہے جو مجھے کچھ کچھ سمجھ آتا ہے۔ دوسرا نظریہ مجھے بالکل سمجھ نہیں آیا وہ کرونا ڈسچارج کے نام سے ذکر کیا جاتا ہے ۔ جہاں تک مجھے علم ہے کرونا ہالہ کو کہتے ہیں اگر مکمل سورج گرہن ہو تو چاند کے گرد ایک ہالہ نظر آتا ہے۔ مگر چادر کے سلسلہ میں کرونا ڈسچارج جو اٹلی کے ایک رومن کیتھلک سائنسدان فانٹی اور ان کے ساتھی کا ہے اس کا خلاصہ اس طرح بیان کیا ہے:

A Corona Discharge (CD) is an electrical discharge (Chen J., 2002) brought on by the ionization of a fluid surrounding a conductor which occurs when the potential gradient exceeds a threshold in situations where sparking is not favored.

اب یہ بات یاد رہے کہ یہ دو مفروضے اور نہ کوئی نظریہ کہ نقش چادر پر کس طرح بنا قطعی طور پر سائنسدان ثابت کر سکے۔
جیکسن کے مفروضہ پر سائنسدانوں نے 5 اعتراض اٹھائے تھے۔ 2010ء میں اٹلی کی مشہور پادوا یونیورسٹی نے ایک حد تک جیکسن کے مفروضہ کی تائید کی مگر کہتے ہیں :

However, his experiments did not confirm how the other two enigmas of the image originated. The double image on the frontal part pf the Shroud and the image of the inside and outside of the hands.

اور دوسرا مفروضہ جو فانٹی کا ہے اس کے متعلق سائنسدانوں کی رائے ہے:

This hypothesis needs to be verified by experiments that are not easy to perform.

بہرحال ابھی تک سائنسدان اپنی تحقیق کے ذریعہ نقش کے آنے کی کوئی سائنٹفک توجیہہ نہیں کر سکے اور اس پر چرچ کے حامی، معلوم ہوتا ہے پورا زور لگا رہے ہیں کہ کوئی توجیہہ نہ نکال سکیں اور وہ اس کو یسوع کے مُردوں میں سے جی اٹھنے اور اس کی وجہ سے جو Vibrations ہوئی اس کو نقش کا باعث قرار دے سکیں۔ خیر یہ تو ایک سائنس سے مذاق ہے یہی چرچ کے نمائندے تھے جو 1988ء میں اس بات پرخوش نظر آتے تھے کہ کاربن 14 ٹیسٹوں کے ذریعہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ یہ چادر 1290-1360ء کے درمیان کی ہے ۔ کیونکہ اس چادر سے جیسا کہ کارانٹ برتا نے لکھا تھا کہ ثابت ہوتا ہے کہ یسوع صلیب پر فوت نہیں ہوئے۔ 1988ء میں جو کوشش کی گئی اس کو ہمارے حبش صاحب کے عیسائی دوست ہیں Holger kersten نے فراڈ آف دی سنچری قرار دیا۔ سب سے پہلے تو امریکہ کے ایک خاتون نے اس کے خلاف آواز اٹھائی۔ چرچ کے نمائندوں نے اپنی طرف سے اس چادر کا ایک ٹکڑا کاٹا اور اس کے 3حصے کئے اور ایک حصہ انگلینڈ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کو، دوسرا زیورک کو اور تیسرا آری زونا کو بھیجا اور تینوں نے اپنی طرف سے بڑی احتیاط کے ساتھ تجربہ کر کے بتایا کہ یہ کپڑا قرون وسطیٰ کا ہے پہلی صدی کا نہیں ہو سکتا ۔

سنا جاتا ہے کہ چرچ نے اس فیصلہ کو قبول بھی کرلیا۔ مگر سائنسدانوں میں اس کی تردید کرنے والوں کا hero Ramon Rodgers ہے جو کینسر سے شدید بیمار تھے۔ انہوں نے فوت ہونے سے 5 دن پہلے اس کاربن 14 ٹیسٹ کے خلاف مضمون لکھا یہ ان کی زندگی کا آخری مضمون تھا۔ تفاصیل سے معلوم ہوا کہ جو کپڑا ان تینوں درسگاہوں کی تجربہ گاہوں کو دیا گیا تھا وہ اصل چادر کا کپڑا تھا ہی نہیں بلکہ 1532ء کی آگ کے بجھانے کے بعد کچھ راھبات نے اس چادر پر مرمت کا کام کیا تھا اور انہوں نے پشت پر ایک اور کپڑا سی دیا تھا یہ کپڑا اس کاحصہ تھا۔ نیز اس پرچکنائی وغیرہ لگی ہوئی تھی جو صحیح ٹیسٹ میں روک تھی۔ بہرحال عام طور پر لوگ ان تین یونیورسٹیوں کا نام سن کر خاموش ہوگئے تھے مگر شبہ کا اظہار بھی کرتے تھے بالآخر اپنے جھوٹے مذہب کو بچانے کیلئے یہ دھوکہ دہی بھی پکڑی گئی۔

ایک اہم بات میں اوپر لکھنے سے بھول گیا تھا اور وہ ہے تصویر کا تھری ڈائمنشنل ہونا۔ نقش کے negative ہونے کے علاوہ یہ بھی ایک عجیب بات ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ٹورینو کی چادر کے عجائبات بھی اس قرآنی بیان کا حصہ ہیں۔ وَجَعَلْنَا ابنَ مَرْیَمَ وَاُمَّہٗ آیَۃً ۔

بی بی امۃ المتین رحمہا اللہ اور خاکسارچند سال ہوئے امریکہ کے مغربی ساحل کے ایک مقام سانتا باربرا گئے جہاں انہوں نے 3Dتصویر کے مطابق Straw کا مجسمہ بنا کر رکھا ہوا تھا ۔ ہم دیکھ ہی رہے تھے کہ فوراً امریکہ کے مشہور ادارہ NASA کے فوٹو گرافر Vincent Smith آگئے اور بڑے شبہ کے انداز سے ہمیں دیکھ رہے تھے مجھے معلوم ہوتا تھا کہ NASA والے ہمارے خلاف نظریات رکھنے والوں کے مدد گار ہیں اور ونسنٹ سمتھ کا نام بھی میرے علم میں آچکا تھا۔ میں نے ان سے بات کی۔ اس کے بعد واشنگٹن ڈی سی میں ایک چرچ میں اس موضوع پر ایک سکالر کی تقریر تھی۔ سوال جواب میں میں نے ان کو کہا کہ آپ جو کہہ رہے ہیں میں نے ونسنٹ سمتھ سے پوچھا تھا اس نے یہ جواب دیا تھا تو انہوں نے بڑے تحمل سے، پورے زور سے، ونسٹنٹ سمتھ کے خلاف اظہار کیا۔

شروع میں ذکر ہوا تھا کہ چادر پر آدمی کے نقش کے علاوہ خون کے نشان بھی ہیں۔ آگ کے نشان ہیں۔ آگ کو پانی سے بجھانے کے نشان ہیں اور زرگل ہے۔ غالباً 58 پودوں کے زرگل ملتے ہیں جن میں 30 فلسطین کے ہیں بلکہ ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو پہلی دوسری صدی میں فلسطین میں تھے اور بعد میں نہیں رہے اور باقی یورپ اور ترکی کے ہیں کیونکہ یہ چادر کچھ حصہ قسطنطنیہ میں بھی رہی ہے۔

مجھے محض اللہ کے فضل اور حضرت صاحب کی دعاؤں سے یہ سعادت ملی کہ میں نے چند سال ہوئے حضور کی خدمت میں لکھا کہ اب اس چادر کا دیدار عام کرایا جانے والا ہے۔ لاکھوں لاکھ آدمی اس کو دیکھنے کے لئے آرہے ہیں ۔ہماری جماعت کا نمائندہ بھی بھیجا جائے تو مناسب ہے۔ میری خوشی اور تعجب کی انتہا نہیں کہ سیّدی میرے آقا خود وہاں تشریف لے گئے اور چرچ کے کارکنوں نے لاکھوں آدمیوں کی قطار کو روک کر بڑے احترام اور ادب کے ساتھ حضور کو الگ راستہ سے لے جا کر اس چادر کو دیکھنے کا موقع دیا۔ اس واقعے کے بعد مجھے اب اس چادر کے احمدیت کے حق میں کام آنے کے بارہ میں کوئی شبہ نہیں رہا۔

(مکرم سید میر محمود احمد ناصر)

Image © Wikipedia

پچھلا پڑھیں

ٹیلیویژن۔ ایجاد سے LCD اور LED تک

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 جنوری 2020