• 16 اپریل, 2024

ذرائع رسل و رسائل کی ترقی اور احمدیت

وَ إِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ

مذہبی دنیا کی تاریخ کا مطالعہ ایسی ایسی جھلکیاں دکھاتا ہے کہ جن کے درمیان بعد المشرقین ہوتا ہے۔
مثلاً ایم ٹی اے انٹرنیشنل کے متعدد چینل دن رات دعوت الی اللہ کا فریضہ بجالارہے ہیں۔ دنیا بھر کی زبانوں میں پروگراموں کی سکیم، تیاری، جدید ترین آلات کی مدد سے تدوین اور سیٹلائیٹ سے نشر کے اس وسیع اور پیچیدہ نظام کا ایک ایک مرحلہ جماعت احمدیہ کے روحانی امام سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی براہ راست نگرانی توجہ اور رہنمائی کا مرہون منت ہے۔

ایک راوی بتاتا ہے کہ 2013ء میں جاپان کے ملک میں بلٹ ٹرین کا سفر ہو رہا ہے اور امام جماعت احمدیہ عالمگیر سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنا ذاتی آئی پیڈ نکالا۔ اس پر انٹرنیٹ ڈیوائس سے وائی فائی کا پاس ورڈ ڈالا اور گولی کی رفتار سے چلنے والی ٹرین میں ایم ٹی اے دیکھنے لگے۔

پھر یہی راوی بتاتا ہے کہ دورہ آئرلینڈ 2014ء کے سفر کے دوران ابھی فیری چلنے میں وقت تھا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت اپنے خدام کو وقت دیا۔ بے تکلف مجلس میں آئی فون کے نئے اور پُرانے ماڈل کا تطابق کیا گیا۔ نیز حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خدام کو اپنے ذاتی موبائل میں محفوظ ایک وڈیو بھی دکھائی جس میں ایک بیٹی اپنے والد کو نیا آئی پیڈ تحفہ دیتی ہے لیکن کیا دیکھتی ہے کہ بزرگ والد اس آئی پیڈ پر سبزی کاٹ رہا ہے۔

یہ روایات جہاں چشم تصور کے لئے دل کش مناظر سموئے ہوئے ہیں اور روح محبت کو سیراب کر رہی ہیں وہاں اس حقیقت سے بھی آشنا کرتے ہیں کہ یہ اس سچے مسیح آخر زمان کا دور ہے جس نے لکھا ہے کہ
’’دیکھو میں ایک حکم لے کر آپ لوگوں کے پاس آیا ہوں وہ یہ ہے کہ اب سے تلوار کے جہاد کا خاتمہ ہے مگر اپنے نفسوں کے پاک کرنے کا جہاد باقی ہے اور یہ بات میں نے اپنی طرف سے نہیں کہی بلکہ خدا کا یہی ارادہ ہے صحیح بخاری کی اُس حدیث کو سوچو جہاں مسیح موعود کی تعریف میں لکھا ہے کہ یضع الحرب یعنی مسیح جب آئے گا تو دینی جنگوں کا خاتمہ کر دے گا۔ سو میں حکم دیتا ہوں کہ جو میری فوج میں داخل ہیں وہ ان خیالات کے مقام سے پیچھے ہٹ جائیں۔ دلوں کو پاک کریں اور اپنے انسانی رحم کو ترقی دیں اور درد مندوں کے ہمدرد بنیں۔ زمین پر صلح پھیلا ویں کہ اسی سے اُن کا دین پھیلے گا اور اِس سے تعجب مت کریں کہ ایسا کیونکر ہوگا۔ کیونکہ جیسا کہ خدا نے بغیر توسط معمولی اسباب کے جسمانی ضرورتوں کے لئے حال کی نئی ایجادوں میں زمین کے عناصر اور زمین کی تمام چیزوں سے کام لیا ہے اور ریل گاڑیوں کو گھوڑوں سے بھی بہت زیادہ دوڑا کر دکھلایا ہے ایسا ہی اب وہ رُوحانی ضرورتوں کے لئے بغیر توسّط انسانی ہاتھوں کے آسمان کے فرشتوں سے کام لے گا۔ بڑے بڑے آسمانی نشان ظاہر ہوں گے اور بہت سی چمکیں پیدا ہوںگی جن سے بہت سی آنکھیں کھل جائیں گی۔ تب آخر میں لوگ سمجھ جائیں گے کہ جو خدا کے سوا انسانوں اور دوسری چیزوں کو خدا بنایا گیا تھا یہ سب غلطیاں تھیں۔ سو تم صبر سے دیکھتے رہو کیونکہ خدا اپنی توحید کے لئے تم سے زیادہ غیرت مند ہے اور دُعا میں لگے رہو ایسا نہ ہو کہ نافرمانوں میں لکھے جاؤ۔ اے حق کے بھوکو اور پیاسو! سُن لو کہ یہ وہ دن ہیں جن کا ابتدا سے وعدہ تھا۔ خدا ان قصوں کو بہت لمبا نہیں کرے گا اور جس طرح تم دیکھتے ہو کہ جب ایک بلند مینار پر چراغ رکھا جائے تو دور دور تک اس کی روشنی پھیل جاتی ہے اور یا جب آسمان کے ایک طرف بجلی چمکتی ہے تو سب طرفیں ساتھ ہی روشن ہو جاتی ہیں۔ ایسا ہی ان دنوں میں ہوگا کیونکہ خدا نے اپنی اس پیشگوئی کے پورا کرنے کے لئے کہ مسیح کی منادی بجلی کی طرح دنیا میں پھر جائے گی یا بلند مینار کے چراغ کی طرح دنیا کے چار گوشہ میں پھیلے گی زمین پر ہر ایک سامان مہیا کر دیا ہے اورریل اور تار اور اگن بوٹ اور ڈاک کے احسن انتظاموں اور سیرو سیاحت کے سہل طریقوں کو کامل طور پر جاری فرما دیا ہے۔ سو یہ سب کچھ پیدا کیا گیا تا وہ بات پوری ہو کہ مسیح موعود کی دعوت بجلی کی طرح ہر ایک کنارہ کو روشن کرے گی اور مسیح کا منارہ جس کا حدیثوں میں ذکر ہے دراصل اس کی بھی یہی حقیقت ہے کہ مسیح کی ندا اور روشنی ایسی جلد دنیا میں پھیلے گی جیسے اونچے منارہ پر سے آواز اور روشنی دور تک جاتی ہے۔ اس لئے ریل اور تار اور اگن بوٹ اور ڈاک اور تمام اسباب سہولت تبلیغ اور سہولت سفر مسیح کے زمانہ کی ایک خاص علامت ہے جس کو اکثر نبیوں نے ذکر کیا ہے اور قرآن بھی کہتا ہے واذالعشار عطلت یعنی عام دعوت کا زمانہ جو مسیح موعود کا زمانہ ہے وہ ہے جب کہ اونٹ بے کار ہو جائیں گے یعنی کوئی ایسی نئی سواری پیدا ہو جائے گی جو اونٹوں کی حاجت نہیں پڑے گی اور حدیث میں بھی ہے کہ یترک القلاص فلا یسعٰی علیھا یعنی اس زمانہ میں اونٹ بے کار ہو جائیں گے اور یہ علامت کسی اور نبی کے زمانہ کو نہیں دی گئی۔ سو شکر کرو کہ آسمان پر نور پھیلانے کے لئے طیاریاں ہیں۔ زمین میں زمینی برکات کا ایک جوش ہے یعنی سفر اور حضر میں اور ہر ایک بات میں وہ آرام تم دیکھ رہے ہو جو تمہارے باپ دادوں نے نہیںدیکھے گویا دنیا نئی ہوگئی بے بہار کے میوے ایک ہی وقت میں مل سکتے ہیں۔ چھ مہینے کا سفر چند روز میں ہو سکتا ہے۔ ہزاروں کوسوں کی خبریں ایک ساعت میں آسکتی ہیں ہر ایک کام کی سہولت کے لئے مشینیں اور کلیں موجود ہیں۔ اگر چاہو تو ریل میں یوں سفر کر سکتے ہو جیسے گھر کے ایک بستان سرائے میں۔ پس کیا زمین پر ایک انقلاب نہیں آیا؟ پس جبکہ زمین میں ایک اعجوبہ نما انقلاب پیدا ہو گیا اس لئے خدائے قادر چاہتا ہے کہ آسمان میں بھی ایک اعجوبہ نما انقلاب پیدا ہو جائے اور یہ دونوں مسیح کے زمانہ کی نشانیاں انہی نشانیوں کی طرف اشارہ ہے جو میری کتاب … کے ایک الہام میں جو آج سے بیس برس پہلے لکھا گیا پائی جاتی ہیں اور وہ یہ ہے … یعنی زمین اور آسمان دونوں ایک گٹھڑی کی طرح بند ھے تھے جن کے جوہر مخفی تھے ہم نے مسیح کے زمانہ میں وہ دونوں گٹھڑیاں کھول دیں اور دونوں کے جوہر ظاہر کر دیئے‘‘۔

نیز ایک اور جگہ آپ نے مزید وضاحت سے فرمایا :
‘‘ غرض اس میں کسی کو متقدمین اور متاخرین میں سے کلام نہیں کہ … اقبال کے زمانہ کے دو حصے کئے گئے۔
(2) ایک تکمیل ہدایت کا زمانہ جس کی طرف یہ آیت اشارہ فرماتی ہے يَتْلُو صُحُفًا مُّطَهَّرَةً (2)دوسرے تکمیل اشاعت کا زمانہ جس کی طرف آیت لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ اشارہ فرما رہی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جیسا کہ یہ فرض تھا کہ بوجہ ختم نبوت تکمیل ہدایت کریں۔ ایسا ہی بوجہ عموم شریعت یہ بھی فرض تھا کہ تمام دنیا میں تکمیل اشاعت بھی کریں لیکن آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اگرچہ تکمیل ہدایت ہو گئی جیسا کہ آیت الیوم اکملت لکم دینکم اور نیز آیت یتلوا صحفاً مطھرۃً … اس پر گواہ ہے لیکن اس وقت تکمیل اشاعت ہدایت غیر ممکن تھی اور غیر زبانوں تک دین کو پہنچانے کے لئے اور پھر اس کے دلائل سمجھانے کے لئے اور پھر ان لوگوں کی ملاقات کے لئے کوئی احسن انتظام نہ تھا اور تمام دیار بلاد کے تعلقات ایسے ایک دوسرے سے الگ تھے کہ گویا ہر ایک قوم یہی سمجھتی تھی کہ اُن کے ملک کے بغیر اور کوئی ملک نہیں جیسا کہ ہندو بھی خیال کرتے تھے کہ کوہ ہمالہ کے پار اور کوئی آبادی نہیں اور نیز سفر کے ذریعے بھی سہل اور آسان نہیں تھے اور جہاز کا چلنا بھی صرف بادشرط پر موقوف تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے تکمیل اشاعت کو ایک ایسے زمانہ پر ملتوی کر دیا جس میں قوموںکے باہم تعلقات پیدا ہو گئے اور بّری اور بحری مرکب ایسے نکل آئے جن سے بڑھ کر سہولت سواری کی ممکن نہیں اور کثرت مطابع نے تالیفات کو ایک ایسی شیرینی کی طرح بنا دیا جو دنیا کے تمام مجمع میں تقسیم ہو سکے۔…

جیسا کہ تکمیل ہدایت قرآن خلقت آدم کی طرح چھٹے دن کی گئی یعنی بروز جمعہ ایسا ہی تکمیل اشاعت کا زمانہ بھی وہی ہو جو چھٹے دن سے مشابہ ہو لہٰذا اُس نے اس بعث دوم کے لئے ہزار ششم کو پسند فرمایا اور وسائل اشاعت بھی اِسی ہزار ششم میں وسیع کئے گئے اور ہر ایک اشاعت کی راہ کھولی گئی۔ ہر ایک ملک کی طرف سفر آسان کئے گئے جابجا مطبع جاری ہو گئے۔ ڈاک خانہ جات کا احسن انتظام ہو گیا اکثر لوگ ایک دوسرے کی زبان سے بھی واقف ہو گئے اور یہ امور ہزار پنجم میں ہرگز نہ تھے بلکہ اس ساٹھ سال سے پہلے جو اس عاجز کی گذشتہ عمر کے دن ہیں ان تمام اشاعت کے وسیلوں سے ملک خالی پڑا ہوا تھا اور جو کچھ ان میں سے موجود تھا وہ ناتمام اور کم قدر اور شاذو نادر کے حکم میں تھا۔
اسی طرح جب متحدہ ہندوستان میں ابھی نوایجاد آلہ ،فونو گراف اتنی ہی تعدادمیں تھے کہ ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جاسکتے تھے، تب یہ آلہ قادیان دارالامان میں لایا گیا ا ورحضرت اقدس مسیح موعود کی مبارک آواز ریکارڈ کی گئی، تب لوگوں نے اعتراض بھی کیا تو فرمایا کہ
‘‘اعمال نیت پر موقوف ہیں، تبلیغ کی خاطر اس طرح نظم فونوگراف سے سنانا جائز ہے، کیونکہ اشعار سے بسا اوقات لوگوں کے دلوں کو نرمی اور رقت حاصل ہوتی ہے’’۔

(بدر، 24 مئی 1908 صفحہ 8)

حضرت اقدس مسیح موعود کی وفات کے سانحہ سے چند دن قبل ایک آسٹریلوی پروفیسر صاحب اپنی اہلیہ سمیت ملنے آئے اور ایک سے زائد نشستوں میں اپنے درجنوں علمی سوالات کے کافی و شافی جواب لے کر اٹھے۔ ان صاحب کو حضرت اقدس مسیح موعود نے واشگاف الفاظ میں فرمایا کہ
’’یہی تو ہمارا کام ہے، اور یہی تو ہم ثابت کر رہے ہیں کہ مذہب اور سائنس میں بالکل اختلاف نہیں ہے بلکہ مذہب بالکل سائنس کے مطابق ہے اور سائنس خواہ کتنی ہی عروج پکڑ جاوے مگر قرآن کی تعلیم اور اصول کو ہر گز نہیں جھٹلاسکے گی‘‘

برصغیر پاک و ہند میں بجلی کی سہولت آئی، تو جماعت احمدیہ نے اس سے استفادہ کیا، جب ٹیلی فون کی سہولت آئی تو جماعتی دفاتر میں ٹیلی فون لگ گئے۔ 1938ء میں جب لاؤڈ سپیکر عام ہوا تو باقاعدہ تحریک کرکے بیت اقصیٰ قادیان دارالامان میں لاؤڈ سپیکر نصب کیا گیا اور خلیفۃ المسیح نے اس پر خطبہ دیا اور اسے حضرت اقدس مسیح موعود کی صداقت کا نشان قرار دیا۔ جب ریڈیو کا دور دورہ ہوا تو جماعت احمدیہ ریڈیوسٹیشن کے قیام کے لئے کوششیں کرنے لگی، خدا کی قدرتیں بھی نہاں در نہاں ہیں کہ ایک ریڈیو سٹیشن کے قیام کے لئے کوششیں اور دعائیں کرنے والی جماعت کو دنیا کے کونے کونے میں بذریعہ سیٹلائٹ پہنچنے والے متعدد زبانوں کے کئی ٹیلی چینل دے دیئے، جس پر معاند احمدیت ڈاکٹر ذاکر نائیک بھی ششدر رہ گیا اور اپنے سامعین کو غیرت دلانے کے لئے بار بار ایم ٹی اے کا ذکر کیا کرتا تھا۔ یہ ایم ٹی اے اب ٹی وی کے ساتھ ساتھ دیگر ممکن ذرائع سے بھی دنیا بھر کے احمدیوں تک پہنچ رہا ہے،جیسے آئی پیڈ، آئی فون، بلیک بیری، ٹیبلٹ، اینڈرائیڈ، وغیرہ وغیرہ

اب اگر دوسری دنیا میں جھانکنا چاہیں تو واقعات ہی واقعات ہیں کہ کس طرح روایت کی لفظی پیروی کرنے والے علماء نے واضح حدیث ’’ کَلِمَۃُ الْحِکمَۃِ ضَالَۃُ الْمُؤْ مِنِ ‘‘ کو نہ سمجھتے ہوئے، جدید ایجادات، سائنس اور سہولیات کی مخالفت کی اور عامۃ المسلمین نے بغیر سوچے سمجھے ان کی اتباع کی۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہی مضحکہ خیز فتاویٰ دینے والے، ان کو بدعت اور کفر گرداننے والے، ان اشیاء کو یہود و نصاریٰ کی سازش قرار دینے والے ان ایجادات او رترقیات کے اسیر ہوتے چلے گئے۔

مثلاً گھڑی کی ایجاد کے بعد اس کا استعمال عام ہونے پر فتویٰ دیا گیا:
’’یقینا وہ لوگ کافر ہوئے جنہوں نے گھڑیوں کے اوقات کے حساب سے اذانیں دیں اور نمازیں ادا کیں اور رسول اللہﷺ کی سنت کو ترک کیا کہ اذان اور نماز کے لئے سایہ کا حساب نہیں رکھا اور اس طرح سنت سے براہ راست تعلق توڑ لیا‘‘

اس سے زیادہ مضحکہ خیزاور قابل ترس صورت حال مولانا عنائیت اللہ خان مشرقی کی روایت میں نظر آتی ہے جس کا ملخص یہ ہے کہ افغانستان کے امیر امان اللہ خان نے مساجد کے لئے گھڑیاں تجویز کیں، مگر مولوی بگڑ گئے اور ہرات کے مولوی نے فتویٰ دیا کہ گھڑیوں کی بدعت شروع کرنے والا امیر افغانستان، گھڑیاں تقسیم کرنے والا فوجی جرنیل سب کافر ہیں۔امیر کو اتنا غصہ آیا کہ اس نے حکم دیا کہ اس مولوی کو توپ کے دہانے پر باندھ کر گولے سے اڑا دیا جائے۔ گو بعد میں بعض لوگوں کی مداخلت سے امیر کا غصہ ٹھنڈا ہوا اور یہ حکم ٹل گیا۔

لاؤڈ سپیکرکی شرعی حیثیت کے بارہ میں فتاویٰ دیئے گئے، مثلاً اس کو لہو و لعب سے مشابہہ قراردیا گیا، لوگوں کو کہا گیا کہ اس سے امام الصلوٰۃ کی اصل آواز مقتدیوں تک نہیں پہنچتی، اور نقل کی پیروی کرنا درست نہیں ہے، پھر کہا گیا کہ یہ آلہ غلو اور تکلف ہے اور اسلام میں غلو جائز نہیں۔ یہ آلہ تشبہ بالنصاریٰ ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔

حتیٰ کہ آغاز میں لاؤڈ سپیکر کی آواز کو گدھے کی آواز سے مساوی قرار دیا گیا، خدا جانے آج کل وطن عزیز کی گلی گلی میں صبح شام لاؤڈ سپیکر سے عوام کا ظاہری اور باطنی آرام و سکون غارت کرنے والوں نے اس فتویٰ کو پڑھ کر کیا کہا ہو گا۔

بریلوی مسلک کے بانی احمد رضا بریلوی صاحب کی سائنس کی حلت و حرمت کے بارہ میں تحریرات عجیب و غریب ہیں۔
پرنٹنگ پریس کی ایجادوں سے بھی مذکورہ بالا ایجادات جیسا ہی سلوک کیا گیا۔ جدید چھاپہ خانے کے بارہ میں کہا گیا کہ ہماری تو مقدس مذہبی کتب ہیں، مشین پر کیسے شائع ہوسکتی ہیں، ان کو باوضو کاتب اور عملہ تیار کیا کرتا ہے۔ اس بے وضو شیطانی مشین پر اللہ اور رسول کی باتیں چھاپنا حرام ہے۔

علماء اور عوام نے ٹیلی گراف کی ایجاد کے بعد اس کے کام کو ناممکن تصور کیا، احمدرضا خان صاحب بریلوی کا فتویٰ ہے کہ ٹیلی گراف کے ذریعہ ملنے والی گواہی کی بنیاد پر رویت ہلال کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔

حضرت اقدس مسیح موعود کے تصویر بنانے پر طعن کیا گیا اور تصویر اور کیمرہ کو گناہ کبیرہ اور تخلیق خداوندی کے مقابلہ سے مترادف قراردیاگیا۔ لیکن آپ نے اغراض دینیہ کی تکمیل اور صحت نیت سے تصویر کشی او رکیمرہ سے استفادہ فرمایا، مگر جن لوگوں نے کیمرہ کو گناہ کبیرہ قراردیا، آج ان کی اولادیں اور شاگرد اور پیروکار دوسری انتہاؤں کو چھو رہے ہیں۔ مغز کو چھوڑ کر قشر سے پیارکرنے والوں کی مثال درج ہے۔

ڈاکٹر حمید اللہ کا نام پاکستان سمیت دنیا بھر میں معتبر ہے۔ ایک صحافی بتاتا ہے کہ پاکستان کے ایک وزیراعظم ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کی غرض سے فرانس میں ان کی مختصر سی قیام گاہ میں پہنچے، دیگر امور کے ساتھ ساتھ میں نے ڈاکٹر صاحب کی تصویر کشی کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے فوراً اپنے دونوں ہاتھ اپنے چہرے پر رکھ لئے اور فوٹو نہ بنانے دی۔

جبکہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی تربیت یافتہ جماعت احمدیہ صحت نیت کی بناء پر اغیار کی ایجادات، جدید سہولیات اور نعمتوں سے استفادہ کرتے ہوئے اللہ اور اس کے رسولﷺ کا پیغام دنیا کے کونے کونے میں پھیلانے میں مصروف ہے۔

(طارق حیات)

پچھلا پڑھیں

ٹیلیویژن۔ ایجاد سے LCD اور LED تک

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 جنوری 2020