• 25 اپریل, 2024

2019ء میں دنیائے سائنسں نے کن اہم شخصیات کو الوداع کیا

2019ء کا سال جہاں دنیائے سائنس نے بےشمار نئی اور حیرت انگیز ایجادات کو دیکھا۔وہیں ایسی شخصیات کو کھویا جنہوں نے انسان کے علم اور دنیا کی تار یخ کا دھارا اپنی ایجادات اور سائنسی شاہکار کے ذریعہ بدل دیا۔ گو ایسی تمام شخصیات کا ذکر کرنا ممکن نہیں ، لیکن ان میں سے چند ناموں کا ذکرکرتے ہیں اور انسانیت اور سائنس کے لئے کی گئی ان کی خدمات کا ذکر کرتے ہیں۔

کیری بی ۔مولس (Kary B. Mullis)

دنیائے سائنس کے علاوہ بھی دنیا میں شاید ہی کوئی طالبِ علم ہوگا جو اس نام سے مانوس نہیں ہوگا۔ کیری نے 1990ء کی دہائی میں وہ سائنسی ایجاد کی جس نے دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ ڈی این اے (DNA) جو کسی بھی جاندار کے جسم کا انفارمیشن ہاؤس سمجھا جاتا ہے اور کسی بھی مخلوق چاہے وہ انسان ہو، جانور، نباتات یا کوئی مائکرواورگنزیزم میں پائی جانے والی بیماریوں، ان کے ماضی سے متعلق علم، الغرض ڈی این اے کے ذریعے ہر قسم کی تحقیق جانداروں کے بارے میں کی جاسکتی ہیں۔ اس لئے ڈی این اے کی کاپی بنا کر اس پر تحقیق کرنا آج کل ہر سائنسی تحقیق کا بنیادی حصہ سمجھا جاتا ہے۔ کیری نے پی سی آر یعنی polymerase chain reaction کی تکنیک متعارف کروائی جس سے محض چند گھنٹوں میں ڈی این اے کو ریپلیکیٹ (Replicate) کیا جاسکتا ہے۔ اسی ایجاد کی وجہ سے ہی کیری کو 1993ء نوبیل انعام سے نوازا گیا۔ آج کل انسانوں میں پائی جانے والی بیماریوں کو اسی تکنیک کہ ذریعے سٹڈی کیا جاتا اور اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ جرائم میں ملوث افراد کے متعلق تحقیق بھی کی جارہی ہے اور انسانی تاریخ اور گزشتہ انسانی نسلوں کے رہن سہن اور ان کے متعلق دیگر معلومات بھی اس کے ذریعے حاصل کی جارہی ہے۔ الغرض ماڈرن میڈیکل، فارینزک، بایوکیمیکل سائنس ہمیشہ کیری کی اس ایجاد پر ان کی شکر گزار رہے گی۔ کیری کی وفات 7 ۔اگست 2019ء میں 74 سال کی عمر میں کیلیفورنیا، امریکہ میں ہوئی۔ کیری کی ایک اور بہت اچھی بات جو میں قابلِ بیان سمجھتی ہوں وہ یہ ہے کہ وہ آج کل کی سائنس اور سائنسدانوں کے متعلق ناخوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے تھے ‘‘گو میں خود بھی ایک سائنسدان ہوں لیکن آج کے زمانہ میں ہم سائنسدان انسانیت کی مدد کرنے کے نام پر الٹادنیا کو نقصان پہنچا رہے ہیں’’ اور میرے خیال میں ہم میں سے بیشتر لوگ کیری کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔

پال گرین گارڈ (Paul Greengard)

پال کو 2000ء میں ان کی ایک ایسی سائنسی کھوج پر فزیالوجی میں نوبیل انعام دیا گیا جس نے نیورو بیالوجی کی فیلڈ میں ایک انقلاب برپا کردیا۔ انسانی دماغ میں نیورونز (Neurons) کے درمیان ہونے والے روابط جو ہمارے دماغ اور جسم کے درمیان کارڈینیشن (Coordination) کو برقرار رکھتے ہیں، پال نے نیورونز کے درمیان ہونے والے ان رابطوں کے راستے یا پاتھوے (Pathway) کا پہلی بار تعین کیا۔ یہ دریافت پارکنسنز (Parkinson’s disease)، الزائمر (Alzheimer’s) وغیرہ جیسی ناقابل علاج دماغی بیماریوں کے علاج کے نئے طریق ڈھونڈنے میں نہایت مدد گار ثابت ہوئی ہے۔ پال کی ایک اور سائنسی خدمت یہ ہے کہ نوبیل انعام سے حاصل ہونے والی رقم سے 2004ء میں انہوں نے اپنی والدہ کے نام پر ایک سالانہ فنڈ جاری کیا جس کے ذریعہ میڈیکل سائنس کے میدان میں اعلیٰ اعزاز حاصل کرنے والی خواتین سائنسدانوں کو انعام دیا جاتا ہے۔ پال کی وفات 13۔اپریل 2019 ءکو 93 برس کی عمر میں ہوئی۔

والٹر ایچ۔ منک (Walter H. Munk)

والٹر کے تعارف کے لئے یہی کہنا کافی ہوگا کہ ان کو ’’سمندر کا آئن سٹائن‘‘ (Einstien of oceans) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ والٹر کی آبی علوم کی خدمات طویل 75 سالوں پر محیط ہیں۔ والٹر نے دوسری عالمی جنگ کے دوران فوج میں خدمات کہ دوران مدّ وجزر (tidal waves) اور امواجِ بحر (oceanic currents) کے بارے میں ایسے انکشافات کئے جس کی وجہ سے امریکی افواج کو مخالف طاقتوں کے خلاف فائدہ ہوا۔ والڑ نے طبیعات الارض (geophysics) اور سمندر میں لہروں اور ہواؤں کے ان لہروں پر اثرات کو بھی ایک نئے زاویے سے پڑھا۔ آج کل محکمہ موسمیات طوفان اور سمندر میں ہونے والی مختلف سرگرمیوں کو والٹر کے پیش کردہ علم کی بنیاد پر ہی جانچتے ہیں۔ اس کے علاوہ والٹر نے بڑھتی ہوئی سطح سمندر اور درجہ حرارت کے درمیان تعلق کو بھی تفصیلاً پڑھا اسی علم نے بہت سے لوگوں کو ماحولیاتی تبدیلی یعنی climate changes کی جانب متوجہ کیا جو کہ آج کل تمام دنیا کو سب سے اہم ماحولیاتی مسئلہ درپیش ہے۔ والٹر کی کثیرالتعداد خدمات کا بیان مشکل ہے لیکن یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ان کی تحقیقات کا ثانی اس شعبہ میں کوئی نہیں۔ ان کی وفات 8 فروری 2019ء کو 101 سال کی عمر میں امریکی ریاست کیلیفورنیا میں ہوئی۔

مینفریڈ آئیگن (Manfred Eigen)

مینفریڈ کا نام سائنسی حلقوں میں ان کی اس کاوش کی وجہ سے یاد رکھا جائےگا جو انہوں نے مختلف شعبہ ہائے سائنس کو یکجا کرنے پر صرف کی اور اس میں کامیاب بھی ہو ئے۔ لیکن جس دریافت کی وجہ سے ان کو 1967ء میں نوبیل انعام سے نوازا گیا وہ یہ تھی کہ کیمسٹری، بائیالوجی کی تمام شاخوں میں بے شمار ایسے کیمیائی رد عمل یا chemical reactions ہیں جس کو سائنسدان بے حد تیز کہہ کر خیال کرتے تھے کے وہ ناقابل پیمائش ہیں ۔ اس خیال کی بنیاد پر بہت سے کیمیائی مادوں پر تحقیق کرنا اور ان کو ٹھیک سے سمجھنا گمان سے آگے تھا مگر آیئگن نے اس خیال کو محض خام خیالی کا نام دیا اور 1950ء کی دہائی میں اس کو ثابت بھی کردیا۔ انہوں نے ریلیکسیشن (relaxation methods) کے ذریعے ان رییکشنز کو ملی(millisecond) اور مائکرو سیکنڈز (microsecond) میں مکمل طور سے سٹڈی کر کے ثابت کردیا کہ کسی بھی کیمیائی ردعمل ناپا جاسکتا ہے۔ اس دریافت نے ہر شعبہ میں ایک انقلاب برپا کردیااور آئیگن کہ اس خیال کی بھی تصدیق کردی کہ جب تک کیمسٹری،بائیالوجی اور فزکس کے علوم کو یکجا استعمال نہیں کیا جاتا اس وقت تک ممکن نہیں کہ کوئی بھی تحقیق ٹھیک انداز سے کی جاسکے۔آئیگن کا ایک اور بڑا معرکہ ارتقائی بایوٹیکنالوجی (Evolutionary Biotechnology) کی فیلڈ کا اجراء بھی ہے، انہوں نے ڈارون کی ارتقائی تھیوری کو اپناتے ہوئے کیمیائی مادوں پر تحقیق کی اور بائیالوجی اور فزکس کا آپس میں ملاپ کروایا۔ آئیگن اس بات کے بھی حامی تھے کہ سائنسدانوں کو علم آپس میں بانٹنا چاہئے تاکہ بہتر طور سے سائنسی رازوں کو حل کیا جاسکے۔ ان کی وفات 6 فروری 2019 ءکو 91 سال کی عمر میں جرمنی میں ہوئی۔

الغرض ایک لمبی فہرست ہے ان ناموں کی جنہوں نے انسانیت کے فلاح و ترقی کے لئے کام کیا اور وہ 2019ء میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ گو ان سب کا ذکر کرنا ممکن نہیں لیکن ہمیں ایسے وجودوں کے لئے دعا کرنی چایئے کہ اللہ تعالیٰ ان کی انسانیت کی اس خدمت کے صلے میں ان سے بہترین سلوک کرے۔ اور ہمیں بھی ایسا وجود بنائے جو خدمتِ انسانی میں مشغول رہیں۔ آمین

(سدرۃالمنتہٰی۔ڈنمارک)

پچھلا پڑھیں

ٹیلیویژن۔ ایجاد سے LCD اور LED تک

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 جنوری 2020