• 18 اپریل, 2024

یہ خانہ ٔ خدا ہوتا ہے

یہ خانہ ٔ خدا ہوتا ہے جس گاؤں یا شہر میں ہماری جماعت کی مسجد قائم ہو گئی تو سمجھو کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی۔ (حضرت مسیح موعودؑ)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
ہم تو اس مسیح محمدی کی جماعت میں شامل ہیں جس کے سپرد اللہ تعالیٰ نے مساجد کی آبادی اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والوں کی تعداد میں اضافے کا کام کیا ہوا ہے۔ ہم تو مساجد اس لئے بناتے ہیں کہ اُن کو دیکھ کر زیادہ سے زیادہ لوگ اِس پاکیزہ جماعت میں شامل ہوں اور اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار بندے بن جائیں۔ اور اسی مقصد کو حاصل کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے توجہ دلائی ہے۔

آپؑ فرماتے ہیں کہ: ’’اس وقت ہماری جماعت کو مساجد کی بڑی ضرورت ہے۔ یہ خانہ ٔ خدا ہوتا ہے جس گاؤں یا شہر میں ہماری جماعت کی مسجد قائم ہو گئی تو سمجھو کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی۔ اگر کوئی ایسا گاؤں ہو یا شہر جہاں مسلمان کم ہوں یا نہ ہوں اور وہاں اسلام کی ترقی کرنی ہو تو ایک مسجد بناد ینی چاہئے۔ پھر خدا خود مسلمانوں کو کھینچ لاوے گا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ قیامِ مسجد میں نیت بہ اخلاص ہو۔ محض لِلّٰہ اسے کیا جاوے نفسانی اغراض یا کسی شَر کو ہرگز دخل نہ ہو تب خدا برکت دے گا‘‘۔

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 93 جدید ایڈیشن- البدر 24 اگست 1904ء)

پس اس ارشاد کو سامنے رکھتے ہوئے ہم نے ہر جگہ مساجدبنانی ہیں اور جماعت احمدیہ اسی لئے مساجد بناتی ہے۔ میرے دل میں بڑی شدت سے یہ خیال پیدا ہوا کہ پانچ سو سال بعد اس ملک میں مذہبی آزادی ملتے ہی جماعت احمدیہ نے مسجد بنائی۔ اور اب اس کو بنے بھی تقریباً 25 سال ہونے لگے ہیں اب وقت ہے کہ سپین میں مسیح محمدی کے ماننے والوں کی مساجد کے روشن مینار اور جگہوں پہ بھی نظر آئیں۔ جماعت اب مختلف شہروں میں قائم ہے۔ جب یہ مسجد بنائی گئی تو اس وقت یہاں شاید چند لوگ تھے۔ اب کم از کم سینکڑوں میں تو ہیں۔ پاکستانیوں کے علاوہ بھی ہیں۔ جماعت کے وسائل کے مطابق عبادت کرنے والوں کے لئے، نہ کہ نام و نمود کے لئے اللہ کے اور گھر بھی بنائے جائیں۔ تو اس کے لئے میرا انتخاب جو مَیں نے سوچا اور جائزہ لیا تو بلنسیہ (Valencia) کے شہر کی طرف توجہ ہوئی۔ یہاں بھی ایک چھوٹی سی جماعت ہے اور یہ شہر ملک کے مشرق میں واقع ہے۔ آپ کو تو پتہ ہے دوسروں کو بتانے کے لئے بتا رہا ہوں۔ اور آبادی کے لحاظ سے بھی تیسرا بڑا شہر ہے اور یہاں بھی ابتدا میں ہی 711ء میں مسلمان آ گئے تھے مسلمانوں کی تاریخ بھی اس علاقے میں ملتی ہے، ابھی تک ملتی ہے۔ زرعی لحاظ سے بھی اس جگہ کو مسلمانوں نے ڈیویلپ (Develop) کیا ہے۔ بہت سے احمدی جو وہاں کام کرتے ہیں۔ مالٹوں کے باغات میں بہت سے لوگ کام کرتے ہیں۔ یہ مالٹوں کے باغات کو رواج دینا بھی مسلمانوں کے زمانے سے ہی چلا آ رہا ہے۔ تو بہرحال ہم نے اب یہاں مسجد بنانی ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی توفیق سے جلد بنانی ہے۔

سپین میں جماعت کی تعداد تو چند سو ہے اور یہ بھی مجھے پتہ ہے کہ آپ لوگوں کے وسائل اتنے زیادہ نہیں ہیں۔ زمینیں بھی کافی مہنگی ہیں۔ امیر صاحب کو جب مَیں نے کہا وہ ایک دم بڑے پریشان ہو گئے تھے کہ کس طرح بنائیں گے۔ تومَیں نے انہیں کہا تھا کہ آپ چھوٹا سا، دو تین ہزار مربع میٹر کا پلاٹ تلاش کریں اور اپنی کوشش کریں۔ اور جماعت سپین زیادہ سے زیادہ کتنا حصہ ڈال سکتی ہے یہ بتائیں۔ کون احمدی ہے جو نہیں چاہے گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہش کو پورا کرنے والا نہ بنے؟۔ کون ہے جو نہیں چاہے گا کہ جنت میں اپنا گھر بنائے۔ پس آپ لوگ اپنی کوشش کریں باقی اللہ تعالیٰ خود اپنے فضل سے انتظام کر دے گا۔ یہی ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا جماعت سے سلوک رہا ہے۔ اور ان شاء اللہ تعالیٰ آئندہ بھی رہے گا اور وہ خود انتظام فرما دے گا۔ بہرحال بعد میں امیر صاحب نے لکھا کہ مجھ سے غلطی ہو گئی تھی یا غلط فہمی ہو گئی تھی کہ مَیں نے مایوسی کا اظہار کر دیا، بات سمجھا نہیں شاید۔ تو ہم ان شاء اللہ تعالیٰ مسجد بنائیں گے اور دوسرے شہروں میں بھی بنائیں گے۔ تو بہرحال عزم، ہمت اور حوصلہ ہونا چاہئے اور پھر ساتھ ہی سب سے ضروری چیز اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے اس سے دعائیں مانگتے ہوئے، اس سے مدد چاہتے ہوئے کام شروع کیا جائے تو ان شاء اللہ تعالیٰ برکت پڑتی ہے اور پڑے گی۔ تو بہرحال مجھے پتہ ہے کہ فوری طور پر شاید سپین کی جماعت کی حالت ایسی نہیں کہ انتظام کر سکے کہ سال دو سال کے اندر مسجد مکمل ہو۔ لیکن ہم نے ان شاء اللہ تعالیٰ، اللہ تعالیٰ کا نام لے کر فوری طور پر اس کام کو شروع کرنا ہے اس لئے زمین کی تلاش فوری شروع ہو جانی چاہئے چاہے سپین جماعت کو کچھ گرانٹ اور قرض دے کر ہی کچھ کام شروع کروایا جائے اور بعد میں ادائیگی ہو جائے۔ تو یہ کام بہرحال ان شاء اللہ شروع ہو گا۔ اور جماعت کے جو مرکزی ادارے ہیں یا دوسرے صاحب حیثیت افراد ہیں اگر خوشی سے کوئی اس مسجد کے لئے دینا چاہے گا تو دے دیں اس میں روک کوئی نہیں ہے۔ لیکن تمام دنیا کی جماعت کو یا احمدیوں کو مَیں عمومی تحریک نہیں کر رہا کہ اس کے لئے ضرور دیں۔ ان شاء اللہ تعالیٰ یہ مسجد بن جائے گی چاہے مرکزی طور پر فنڈ مہیا کرکے بنائی جائے یا جس طرح بھی بنائی جائے اور بعد میں پھر سپین والے اس قرض کو واپس بھی کر دیں گے جس حد تک قرض ہے۔ تو بہرحال یہ کام جلد شروع ہو جانا چاہئے اور اس میں اب مزید انتظار نہیں کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق دے۔ کیونکہ اب تک جو سرسری اندازہ لگایا ہے اس کے مطابق دو تین سو نمازیوں کی گنجائش کی مسجد ان شاء اللہ خیال ہے کہ 6-5لاکھ یورو (Euro) میں بن جائے گی۔ یہاں بھی اور جگہوں پر بھی مسجد بنانے کا عزم کیاہے تو پھر بنائیں` ان شاء اللہ شروع کریں یہ کام۔ ارادہ جب کرلیا ہے تو وعدے کریں۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس میں برکت ڈالے گا۔ جلسے کے دنوں میں جو وزارت انصاف کے شاید ڈائریکٹر جو آئے ہوئے تھے بڑے پڑھے لکھے اور کھلے دل کے آدمی ہیں۔ مجھے کہنے لگے کہ جماعت کے وسائل کم ہیں۔ وہ تو دنیاداری کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ کہنے لگے کہ حکومت مسلمان تنظیموں کوبعض سہولتیں دیتی ہے۔ اب قرطبہ میں بھی انہوں نے مسجد بنائی ہے۔ تو اس طرح اور سہولتیں ہیں لیکن آپ کو(جماعت احمدیہ کو) وہ مسلمان اپنے میں شامل نہیں کرنا چاہتے۔ اس لئے جو حکومت کا مدد دینے کا طریق کار ہے اس سے آپ کو حصہ نہیں ملتا۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا آپ ان مسلمانوں کی کچھ باتیں مان جائیں اور حکومت سے مالی فائدہ اٹھا لیا کریں۔ باقی ان کی باتوں میں شامل نہ ہوں۔ تو مَیں نے ان کو جواب دیا تھا کہ اگر باقی مسلمان تنظیمیں راضی بھی ہو جائیں تو پھر بھی ہم یہ نہیں کر سکتے۔ کیونکہ کل کو پھر آپ نے ہی یہ کہنا ہے کہ تمہارا امن پسندی کا دعویٰ یونہی ہے، اندر سے تم بھی ان لوگوں کے ساتھ شامل ہو جو شدت پسند ہیں۔ اور دوسرے سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان کر دئیے ہیں کہ ہم باقی مسلمانوں سے الگ ہو کر جو ان کے عمل ہیں، جو اسلامی تعلیم کے خلاف ہیں، اس سے بچ کر صحیح اسلامی تعلیم کے مطابق اپنی پہچان کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان مہیا فرما دئیے ہیں۔ پیشگوئی پوری ہو چکی ہے کہ ہماری علیحدہ ایک پہچان ہے تو چند پیسوں کے لئے یا تھوڑے سے مفاد کے لئے ہم اللہ کے رسول کی سچی پیشگوئی اور اللہ کے فضلوں کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کریں۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اللہ اور اس کے رسول کے لئے بڑی غیرت رکھتا ہے۔ ہر احمدی کے دل میں اللہ اور اس کے رسول کے نام کی بڑی غیرت ہے۔ اگر حکومت احمدیوں کا حق سمجھ کر ہمیں فائدہ دے سکتی ہے تو ہمیں قبول ہے، ورنہ جماعت احمدیہ میں ہر شخص قربانی کرنا جانتا ہے۔ وہ اپنا پیٹ کاٹ کر بھی مساجد کی تعمیر کے لئے پلاٹ خرید سکتا ہے، رقم مہیا کر سکتا ہے، یا جماعت کے دوسرے اخراجات برداشت کر سکتا ہے۔ بہرحال ان کا جماعت سے بڑا تعلق ہے۔ بعض لوگوں سے بڑی ذاتی واقفیت ہے۔ کہنے لگے کہ مَیں تو اس بات کو سمجھتا ہوں۔ لیکن قانون ایسا ہے کہ تمہارا حق بھی دوسری مسلمان تنظیمیں لے رہی ہیں۔ آپس میں چاہے یہ تنظیمیں لڑتی رہیں لیکن جب فائدہ اٹھانا ہو، مفاد لینا ہو، کچھ مالی فائدہ نظر آتا ہو، یا حکومت سے کسی قسم کی مدد لینی ہو تو یہ اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ ان کو تومَیں نے یہی جواب دیا تھا پھر لینے دیں ہمیں تو اس وجہ سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ ہم اس سہولت کے لئے اپنا ضمیر اور اپنا ایمان نہیں بیچ سکتے۔ ان کا بڑا گہرا مطالعہ تھا اور ان باتوں کا وہ پہلے بھی علم رکھتے تھے شاید براہ راست میرا مؤقف سننا چاہتے تھے اس کے لئے شاید انہوں نے یہ بات چھیڑی ہو گی۔ تو بہرحال اس چیز نے بھی میرے دل میں اور بھی زیادہ شدت سے یہ احساس پیدا کیا کہ اب ہمیں کسی بڑے شہر میں جلد ہی ایک اور مسجد بنانی چاہئے۔ مجھے امید ہے ان شاء اللہ تعالیٰ، اللہ تعالیٰ ہماری توفیقوں کو بھی بڑھائے گا۔ اور جلد ہی ہمیں سپین میں ایک اور مسجد عطا فرمائے گا۔

پس آپ دعاؤں سے کام لیتے ہوئے اس بات کا عزم کر لیں کہ آپ نے یہ کام کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ پر توکل کریں۔ ان شاء اللہ ضرور مدد کرے گا۔ اللہ کرے، اللہ سب کو توفیق دے۔

(خطبہ جمعہ 14؍ جنوری 2005ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

جماعت احمدیہ مالٹا کے خدمت خلق کے پروگرام