• 26 اپریل, 2024

آنحضرتﷺکی معمولاتِ زندگی۔ (قسط اوّل)

آنحضرتﷺکی معمولاتِ زندگی۔ تقلیدو پیروی کے لئے اسوہ اعلیٰ
قسط اوّل

اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کے متعلق اپنے کلام پاک میں فرماتاہے۔ اِنَّہُمۡ کَانُوۡا قَبۡلَ ذٰلِکَ مُحۡسِنِیۡنَ ۔کَانُوۡا قَلِیۡلًا مِّنَ الَّیۡلِ مَا یَہۡجَعُوۡنَ۔ وَ بِالۡاَسۡحَارِ ہُمۡ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ۔ یعنی وہ بہت اچھے اعمال بجا لاتے تھے۔ تھوڑا تھاجو وہ رات کو سوتےتھے۔ اور صبحوں کے وقت وہ استغفار میں لگے رہتے تھے۔ (الذّٰریٰت آیت نمبر 17تا 19) انسان جب ان آیات پر غور کرتا ہے تو بے ساختہ یہ کہنے کو دل کرتا ہےکہ وہ خدا کے پیارے وجودتھےجو کہ جنّت کے وار ث بنے۔ لیکن دماغ ِانسانی میں ایک سوال اُبھرتا ہے کہ وہ کون سی خدا کی بزرگ و پاک ہستی ایسی تھی؟ جس کے نقش قدم پر چل کر وہ گروہ اتنا اُونچا مقام پا گیا۔کن کی صحبت میں اُن کا اُٹھنا بیٹھنا تھا؟ کہ وہ روحانی طور پر اتنے پاک و صاف ہو گئے کہ اللہ تعالیٰ کی یاداُن کو بستروں سے الگ کردیتی اور وہ رات کا اکثر حصہ عبا دات میں گذارتے۔اور دن کے اوقات میں استغفار سے اُ ن کی زبانیں تَر رہتیں۔تو بے سا ختہ درود بھیجنے کو جی چاہتا ہے اُس مقدس ذات پرجس کا نا م محمدﷺ ہے ۔جس کی صحبت میں رہ کر یہ لوگ کُندن بنے۔ اور دُنیا و آخرت میں مقام پا گئےاور ترقی کرتے کرتے رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوۡا عَنْہُ تک پہنچ گے۔ اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتاہے اے نبیﷺ تو اعلان کردے۔ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ کہ تُو کہہ دے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو، تو میری پیروی کرواللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ (آل عمران:32) یہ آیت اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا ایک راستہ یہ بتا تی ہے کہ ہم آنحضرتﷺ کے نقش قدم پر چلیں اورجس طرح آپ ﷺکیاکرتے تھے اُسی طرح ہم بھی کریں۔قرآن کریم ہمیں آپﷺ کے اقوال و افعال کو انسانوں کےلیے نمونہ قرار دیتے ہوئے فرماتا ہے۔ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (الاحزاب:22) کہ یقیناً تمہارے لئے اللہ کے رسول میں نیک نمونہ ہے ۔مندرجہ بالا باتیں ہمیں سوچنے اور غور کرنے پر مجبور کرتی ہیں کہ ہم اُس سراج منیراورہادیِ کائنات ﷺ کی حالات زندگی کا مطالعہ کریں تاکہ اُس پرچلتے ہوئے ہم بھی خداتعالیٰ کے محبوب بن سکیں ۔

آپؐ کے بارے میں آتا ہے کہ آپؐ نےاپنےاوقات کوتین حصوں میں تقسیم کیا ہواتھا۔دن کا ایک حصہ عبادت الہٰی کیلئے مقرر ہوتا،ایک حصہ اہل خانہ اور اصحاب کے لئے اورایک حصہ اپنی ذاتی ضروریات کیلئے مقررتھا لیکن یہ وقت بھی زیادہ تربنی نوع انسان کی خدمت میں ہی گزارتے۔

اللہ تعالیٰ کے نام سے شب و روز کا آغاز و اختتام

آپؐ روزانہ اپنی مصروفیات کا آغاز نماز تہجد سے فرماتے تھے۔ نماز سے قبل وضو کرتے ہوئے مسواک استعمال فرماتے اور منہ کو اچھی طرح صاف کرتے۔نہایت خوبصورت اور لمبی نماز تہجد ادا کرتے جس میں قرآن شریف کی لمبی تلاوت فرماتے۔نماز کے بعد آپؐ کچھ دیر لیٹ جاتے۔اگر آپؐ کے گھر والوں میں سے کوئی جاگ رہا ہوتا تو اس سے بات کرلیتے ورنہ آرام فرماتے۔ پھر جونہی نماز کے لئے حضرت بلال ؓ کی آواز کان میں پڑتی فوراًنہایت مستعدی سے اُٹھتے اور دو مختصر رکعت سنت ادا کرکے نماز فجر پڑھانے مسجد نبوی میں تشریف لے جاتے۔ نمازفجر کے بعدسے طلوع آفتاب تک اگر کوئی اورمصروفیت نہ ہوتی تو صحابہ کے درمیان دن گزارتے ۔زمانہ جاہلیت کی باتیں بھی سنتے۔ آپؐ پوچھتے کہ اگر کسی کو کوئی خواب آئی ہے تو سنایئے ۔اچھی خواب پسند فرماتے اوراس کی تعبیر بیان کرتے۔کبھی اپنی کوئی خواب بھی سنادیتے۔ اگر کسی صحابی کو تین دن سے زیادہ غیرحاضر پاتے اس کے بارہ میں پوچھتے اگر وہ سفر پر ہوتا تو اس کے لئے دعا کرتے۔ شہر میں ہوتا تو اس کی ملاقات کو بھی جاتے۔ اور اگربیمار ہوتا تو اس کی عیادت کو تشریف لے جاتے۔ ظہر کے بعد گھر میں حسب حالات کچھ قیلو لہ فرمالیتے اور فرمایا کرتے کہ قیلولہ کے ذریعے رات کی عبادت کیلئے مد دحاصل کیا کرو۔ آپؐ کی مجالس میں صحابہ جاہلیت کے قصے سناتے رہتے اور رسولؐ بھی آپ کے ساتھ مسکراتے۔ آپ کی محفل نہایت بےتکلف اور مزے دار ہوتی تھی۔ اتنی روح پرور کہ صحابہ جنت اور جہنم کو قریب محسوس کرتے تھے ۔مگر بعد میں جب یہ کیفیت جاتی رہتی تو رسولؐ اللہ سے پوچھتے کہ لگتا ہے ہم منافق ہو گئے ہیں تو آپؐ فرماتے کہ تم ہمیشہ اس اعلیٰ درجہ کی کیفیت میں نہیں رہ سکتے۔ انسان کی کیفیات بدلتی رہتی ہیں ۔ ایمان گھٹتا بڑھتا رہتا ہے ورنہ انسان انسان نہ رہے فرشتہ بن جائے۔ عشاء سے قبل سونا آپؐ کو پسند نہ تھاتاکہ نماز عشاء نہ رہ جائے اورعشاء کے بعد بلاوجہ زیادہ دیر تک فضول باتیں پسند نہ فرماتے تھے۔ البتہ بعض اہم دینی کاموں کیلئے آپؐ صحابہ کرام سے عشاء کے بعد مشورہ جات بھی لیتے۔ نبی کریمؐ ہر کام اللہ کا نام لے کر شروع کرتے، فرماتے تھے کہ اس کے بغیر کام بے برکت ہوتے ہیں۔ فراغت و مصروفیت ہر حال میں اللہ کو یاد رکھتے تھے۔ الغرض آپؐ ’’دست درکارودل بایار‘‘ کے حقیقی مصداق تھے۔ہر موقع اور محل کے لئے آپؐ سے دعائیں ثابت ہیں۔ صبح اٹھتے ہوئے خیرو برکت کی دعا مانگتے تو شام کو انجام بخیر کی۔گھر سے جاتے اور آتے ہوئے، مسجد داخل ہوتے اور نکلتے ہوئے، کھانا کھانے سے پہلے اور بعد میں، بیت الخلاء جاتے آتے، بازار جاتے ہوئے، سفر پر روانہ ہوتے ہوئے، سوتے اور جاگتے وقت ہر حال میں خدا کی طرف رجوع کرتے اور اسے ہی سہارا بناکر دعا کرتے۔آپؐ مجلس میں بیٹھےہوئے استغفار فرماتے ۔ دعاؤں میں زیادہ الحاح اور تضرّع کے وقت یَاحَیُّ یَا قَیُّوْمُ پڑھ کر دعا کرتے۔ مصیبت کے وقت آسمان کی طرف سر اٹھا کر سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمُ پڑھتے۔ مجلس میں چھینک آنے پر دھیمی آواز میں الحمدللہ کہتے اور کسی دوسرے کو چھینک آنے پر یَرْحَمُکَ اللّٰہُ کی دعا دیتے ۔اسی طرح مختلف قسم کی برائیوں سے بچنے کے لیے خاص دعائیں فرماتے نیز دنیاوی شر اور اشیاء کی بدبختی سے بچنے کے لیے دعا کا سہارا لیتے ۔دل کی مختلف کیفیات کے لیے مختلف دعائیں کرتے۔ مومنین کی جماعت پر جب بھی کوئی خوف کی حالت آتی تو فوراً آپ ﷺ اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتےاور ان کی دلی تسکین کے واسطے اپنے محبوب حقیقی کے حضور فریاد کرتے ۔بارش نہ ہونے پر آپ ﷺ دعا کرتے ۔اور اگر بارش کی کثرت کی وجہ سے پریشانی ہو تو دعا کرتے ۔ رزق و مال میں برکت کے لیے دعا کرتے ، لوگوں کی ہدایت کے لیے دعائیں کرتے ،بیماری سے شفایابی کے لیے ، بری نظر سے بچنے کے لیے، بُرا خواب دیکھنے پر ،بجلی کڑکنے پر، کسوف و خسوف پر ،کسی کی تیمارداری کے واسطے اور کسی کے وفات پانے پردعا کرتے ۔

شرک سے بیزاری اور عشقِ الہی

حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شرک وبت پرستی کے تاریک دور میں قیام توحید کا عظیم الشان کام لیا جانا تھا ۔اس لئے اللہ تعالیٰ نے آغاز سے ہی آپؐ کے دل میں توحید کی محبت اور بت پرستی سے نفرت رکھ دی تھی اور اپنی خاص مشیّت سے آپؐ کو ہر قسم کے شرک سے محفوظ رکھا ۔ ایک دفعہ اپنی پھوپھیوں کے اصرار پر آپؐ ’’بُوانہ‘‘ نامی بت کے پاس گئے مگر سخت خوفزدہ ہو کر واپس آگئے اور کہنے لگے۔ میں نے وہاں ایک عجیب منظر دیکھا ہے۔ پوچھا گیا آپؐ نے کیا دیکھا ہے؟ آپؐ نے بتایا کہ جونہی میں بت کے قریب جانے لگتا تھا تو سفید رنگ اور لمبے قد کا ایک شخص چلّا کر کہتا تھا کہ اے محمدؐ ! پیچھے رہو اور اس بت کو مت چھوؤ۔ بعد میں پھوپھیوں نے بھی بتوں کے پاس جانے کے لئے اصرار چھوڑ دیا اور اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ آپؐ کو ایسی مشرکانہ رسوم سے محفوظ رکھا۔

(دلائل النبوۃ للبیہقی جلد 1 ص 58 مطبوعہ بیروت)

رسول اللہؐ کی محبت الہٰی کا یہ حال تھا کہ حضرت داؤد ؑ کی یہ دعا بڑے شوق سے اپنی دعا ؤں میں شامل کرتے تھے ۔
‘‘اے اللہ میں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں اور اُس کی محبت بھی جو تجھ سے محبت کرتا ہے۔ میں تجھ سے ایسے عمل کی توفیق مانگتا ہوں جو مجھے تیری محبت تک پہنچا دے۔ اے اللہ! اپنی اتنی محبت میرے دل میں ڈال دے جو میری اپنی ذات، میرے مال، میرے اہل اور ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ ہو ۔‘‘

(ترمذی کتاب الدعوات باب جاء فی عقد التسبیح باللہ:3490)

توحید کے اقرار کا بھی آپؐ کو بہت لحاظ تھا ۔ایک دفعہ ایک انصاری نے عرض کیا کہ میرے ذمہ ایک مسلمان لونڈی آزادکرناہے۔ یہ ایک حبشی لونڈی ہے اگر آپؐ سمجھتے ہیں کہ یہ مومن ہے تو میں اسے آزاد کر دیتا ہوں ۔آنحضورؐ نے اس لونڈی سے پوچھا کہ کیا تم گواہی دیتی ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ؟اس نے کہا ہاں۔ آپؐ نے فرمایا کیا گواہی دیتی ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ اس نے کہا ہاں۔فرمایا کیا یوم آخرت پر ایمان لاتی ہو؟ اس نے کہا ہاں۔ آپؐ نے فرمایا ’’اسے آزادکر دو۔یہ مومن عورت ہے۔‘‘ رسول اللہؐ کی شریعت کا پہلا سبق ہی کلمہ توحید لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ تھا۔ یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔آپؐ کا اوڑھنا بچھونا توحید ہی تھا ۔صبح وشام خدا کی توحید کا دم بھرتے تھے۔دن چڑھتا تو آپؐ کے لبوں پریہ دعاہوتی۔ ’’ہم نے اسلام کی فطرت اور کلمۂ اخلاص (یعنی توحید) پر اور اپنے نبی محمدؐ کے دین اور اپنے باپ ابراہیم ؑکی ملت پر صبح کی جو موحّد تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے۔‘‘ شام ہوتی تو یہ دعا زبان پر ہوتی۔ ’’ہم نے اور سارے جہاں نے اللہ کی خاطر شام کی ہے اور تمام تعریف اللہ کے لئے ہے ۔اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ بادشاہت اسی کی ہے ۔تمام تعریفوں کا وہی مالک ہے اور وہ ہر شے پر قادر ہے۔‘‘

(مسلم کتاب الذکر باب التعوْذ من شرماعمل6569)

حضرت مقداد بن عمرو کندیؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول کریمؐ سے پوچھا کہ اگر کسی کافر کے ساتھ میدان جنگ میں میرا مقابلہ ہو ، وہ میرا ہاتھ کاٹ دے اور کسی درخت کی آڑ لے کر مجھ سے بچنے کی خاطر کہہ دے کہ میں اللہ کی خاطر مسلمان ہوتا ہوں تو کیا اس کلمے کے بعد میں اسے قتل کرنے کا حق رکھتا ہوں۔فرمایا ’’نہیں تم اسے ہر گز قتل نہ کرو۔‘‘ میں نے عرض کیا یارسول اللہ! اس نے میرا ہاتھ کاٹا ہے اور اس کے بعد مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ حضورؐ نے فرمایا ’’اسے قتل نہ کرو۔ اگر تم اسے قتل کرو گے تو وہ مسلمان اور تم کافر سمجھے جاؤ گے۔‘‘

(بخاری کتاب المغازی باب شہود الملائکۃ بدراً)

رسول کریمؐ کی توہر بات کی تان توحیدالہٰی اور عظمت باری پر جاکر ٹوٹتی تھی۔ آپؐ کی اونٹنی عضباء بہت تیز رفتار تھی جس سے آگے کوئی اور اونٹنی نہ نکل سکتی تھی۔ایک دفعہ ایک اعرابی نے اپنی اونٹنی اُس کے ساتھ دوڑائی اور آگے نکل گیا۔صحابہ کو بڑا رنج ہوا مگر رسول کریمؐ نے عجب طمانیت کے ساتھ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ دنیا کی کسی بھی چیز کو اونچا کرتا ہے تو لازم ہے کہ اسے نیچا بھی کرے کیونکہ سب سے اونچی خدا کی ذات ہے۔

(ابوداؤد کتاب الادب باب فی کراھیۃ الرفعۃ فی الامور)

حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں:
’’ہم کس زبان سے خدا کا شکر کریں جس نے ایسے نبی کی پیروی ہمیں نصیب کی جو سعیدوں کی ارواح کے لیے آفتاب ہے جیسے اجسام کے لیے سورج۔ وہ اندھیرے کے وقت ظاہر ہوا اور دنیا کو اپنی روشنی سے روشن کردیا۔ وہ نہ تھکا نہ ماندہ ہوا جب تک کہ عرب کے تمام حصہ کو شرک سے پاک نہ کردیا‘‘۔

(چشمہ معرفت ،روحانی خزائن جلد23صفحہ302تا303)

آنحضرتﷺ کی عبادت گزاری اور حمد وثناء

ہمارے نبی کریم حضرت محمدﷺ فَا سْجُدُوْا لِلّٰهِ وَاعْبُدُوْ ا پس اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو جاؤاور عبادت کرو۔ (النجم 63) کی عملی تصویر تھے۔ عین عالم ِجوانی میں آپؐ دنیا کی دلچسپیوں سے بیزار غارحرا کی تنہائیوں میں جاکر محبوب حقیقی کو یادکرتے تھے۔ جس میں آپؐ کی زندگی کاسارا لطف تھا۔ دن ہو یا رات ،خلوت ہویا جلوت عالم خواب ہو یا بیداری کبھی بھی آپؐ ا پنے ربّ کی یاد نہیں بھولے۔ رسول اللہؐ کی یاد الہٰی کی اصل معراج آپؐ کی نمازتھی۔ جس میں آپؐ کی آنکھوں اور دل کی ٹھنڈک تھی۔نبی کریمؐ کا دل ہر وقت نماز میں ہی اٹکا ہوتا تھا۔حضرت عوف بن مالک اشجعیؓ کہتے ہیں کہ ایک رات مجھے نبی کریم ﷺ کے ساتھ رات کو عبادت کرنے کی توفیق ملی۔آپؐ نے پہلے سورہ بقرہ پڑھی۔ آپؐ کسی رحمت کی آیت سے نہیں گزرتے تھے مگر وہاں رک کر دعا کرتے اور کسی عذاب کی آیت سے نہیں گزرے مگر رک کر پناہ مانگتے۔پھر نماز میں قیام کے برابر آپؐ نے رکوع فرمایا۔جس میں تسبیح و تحمید کرتے رہے۔پھر قیام کے برابر سجدہ کیا۔سجدہ میں بھی تسبیح اوردعا پڑھتے رہے۔پھر کھڑے ہوکر آل عمران کی تلاوت کی۔پھر اس کے بعد ہر رکعت میں ایک ایک سورۃ پڑھتے رہے۔ (ابوداؤد کتاب الصلوۃ باب ما یقول الرجل فی رکوعہ و سجود) جب کوئی خوشی کی خبر آتی تورسول کریمؐ فوراً خدا کے حضور سجدہ میں گر جاتے اور سجدہ تشکّر بجالاتے۔حضرت سعد بن ابی وقاصؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم آنحضرت ﷺ کے ساتھ مکہ سے مدینہ واپس لوٹ رہے تھے۔جب ہم عزوراء مقام پر پہنچے وہاں حضورؐ اترے۔آپؐ نے ہاتھ اٹھائے اور کچھ وقت دعا کی۔پھرحضورؐ سجدے میں گر گئے۔لمبی دیر سجدے میں رہے۔پھر کھڑے ہوئے اور ہاتھ اُٹھا کر دعا کی۔پھر سجدے میں گر گئے۔آپؐ نے تین دفعہ ایسے کیا۔پھر آپؐ نے فرمایا کہ میں نے اپنے رب سے دعا مانگی تھی اور اپنی امت کیلئے شفاعت کی تھی تو اللہ تعالیٰ نے مجھے میری امت کی ایک تہائی کی شفاعت کی اجازت دی۔ میں اپنے رب کا شکرانہ بجالانے کیلئے سجدے میں گر گیا اور سر اُٹھاکر پھر اپنے رب سے امت کیلئے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے مجھے مزیدایک تہائی اپنی امت کی شفاعت کیلئے اجازت مرحمت فرمائی۔میں نے پھر شکرانے کا سجدہ بجالایا۔ پھر سر اُٹھایا اور امت کیلئے اپنے رب سے دعا کی تب اللہ تعالیٰ نے میری امت کی تیسری تہائی کی بھی شفاعت کے لئے مجھے اجازت عطافرما دی اور میں اپنے رب کے حضورسجدۂ شکر بجالانے کے لئے گر گیا۔

(ابوداؤد کتاب الجھاد باب فی سجودالشکر)

ایک اور جگہ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ مسجد میں تشریف لائے اور قبلہ رُو ہوکر سجدے میں گرگئے اور بہت لمبا سجدہ کیا۔ یہاں تک کہ ہمیں گمان ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے شاید آپؐ کی روح قبض کرلی ہے۔میں آپؐ کے قریب ہوا تو آپؐ اُٹھ بیٹھے اور پوچھا کون ہے؟میں نے عرض کیا عبدالرحمن۔ فرمایا کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسولؐ! آپؐ نے اتنا لمبا سجدہ کیا کہ مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی روح تو قبض نہیں کرلی۔آپؐ نے فرمایا میرے پاس جبریل ؑ آئے تھے انہوں نے مجھے یہ خوشخبری سنائی کہ اللہ تعالیٰ آپؐ کے حق میں فرماتا ہے کہ جوا ٓپؐ پر درود بھیجے گا میں اس پر اپنی رحمتیں نازل کرونگا اور جو آپؐ پر سلام بھیجے گا میں اس پر سلامتی بھیجوں گا۔یہ سُن کر میں اللہ تعالیٰ کے حضور سجدۂ شکر بجالایا ہوں۔ (مسند احمد حدیث 1664) رسول کریم ﷺ فرماتے کہ انسان حالت ِسجدہ میں اپنے رب کےبہت قریب ہوتا ہے۔پس تم اس وقت کثرت سے دعائیں کیا کرو۔رسول کریمؐ صحابہ کو دعا کے آداب بھی سکھاتے تھے۔ ایک دفعہ آپؐ ایک شخص کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے۔ جو چُوزے کی طرح کمزور ہوچکا تھا۔ رسول کریمؐ نے اس کی حالت بھانپ کر فرمایا کیا تم کوئی خاص دعا کرتے تھے وہ کہنے لگا ہاں میں دعاکرتا تھا کہ اے اللہ تو نے جو سزا مجھے دینی ہے۔آخرت کی بجائے اسی دنیا میں دے لے۔رسول کریمؐ نے فرمایا ’’اللہ پاک ہے تمہیں اس سزا کی برداشت کہاں ہے؟ تمہیں یہ دعا کرنی چاہئے تھی!اَللّٰھُمَّ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاَخِرَۃِ حَسَنَۃً ،وَقِنَا عَذَابَ النَّار۔ ہمارے آقا ومولیٰ کا اٹھنا بیٹھنا اور اوڑھنا بچھونا تو دعا ہی تھا، آپؐ کے ہر کام کا آغاز بھی دعا سے ہی ہوتا تھا اور دعاؤں سے ہی آپؐ کے کام انجام کو پہنچتے تھے۔ عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ ہم نے خدا کے سچے واسطے دے کر محمدؐ سے بڑھ کر دعا کرنے والا کوئی نہیں سنا۔ ہمارے لیے تو اس دعاؤں کے رسولؐ نے یہ اسوہ چھوڑا ہے کہ جنگ بدر کے موقعہ پر جبکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فتوحات کے وعدے تھے اور فرشتوں کی فوجیں مسلمانوں کی مدد کے لیے نازل کی گئی تھیں تب بھی آپ ﷺ اپنے خیمہ میں خدا کے حضور نماز و دعاؤں میں مشغول تھے ۔ آخری ایام میں بھی آپ ﷺ کو اگر کسی چیز کی فکر لاحق تھی تو وہ نماز تھی ۔پیارے آقا ﷺ شدید بخار میں مبتلا تھے مگر گھبراہٹ کے عالَم میں بھی بار بار پوچھتے تھے،کیا نماز کا وقت ہو گیا؟ آپؐ دو اصحاب کے کندھوں سے سہارا لے کر مسجد میں تشریف لے گے اور نماز ادا کی۔ آپؐ کے بارے میں بیان کیا جاتاہےکہ آپؐ اس قدر لمبی نمازیں پڑھتے تھے کہ آپؐ کے پاؤں متورم ہو جایا کرتے تھے۔

حضرت مسیح موعود ؑآپؐ کی عبادات کا نقشہ یوں کھینچتے ہیں۔

’’دُنیا میں یکدفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا ۔اور نہ کسی کان نے سُنا ۔ کچھ جانتے ہو کہ وہ کیا تھا؟ وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دُعائیں ہی تھیں جنہوں نے دُنیا میں شور مچا دیا‘‘

( برکات الدعا ، روحانی خزائن جلد 6صفحہ 11)

آپؑ کی زندگی کا مرکزی نقطہ قرآنِ کریم کا پڑھنا و پڑھانا
قرآن کریم آپؐ کے بارے کہتا ہے کہ رَسُولٌ مِّنَ اللّٰہِ یَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَھَّرَۃً یعنی اللہ کا رسول مُطَھّر صحیفے پڑھتا تھا۔ (البیّنۃ:3)

آپؐ کی تلاوت کی عظمت اور شان کے بارے میں قرآن یوں گواہی دیتا ہے۔ اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنَاھُمُ الْکِتَابَ یَتْلُوْ نَہ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ (البقرہ:122)

یعنی جن کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس کی اسی طرح تلاوت کرتے ہیں جیسے تلاوت کا حق ہے۔ آپؐ حکم الہٰی کے مطابق خوبصورت لحن اور ترتیل کے ساتھ ایسی تلاوت کرتے تھے کہ تلاوت کا حق ادا ہوجاتا تھا۔حضرت انسؓ سے پوچھا گیا کہ رسول کریمؐ کی تلاوت کیسی ہوتی تھی؟ انہوں نے کہا آپؐ لمبی تلاوت کرتے تھے۔ پھر انہوں نے بسم اللہ پڑھ کر سنائی۔ اسے لمبا کیا پھر الرحمان کو لمبا کرکے پڑھا پھر الرحیم کو۔ حضرت ابوھریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کسی چیز کو کان لگا کر توجہ سے نہیں سنتا جتنا نبی کریمؐ کی تلاوت قرآن کو سنتا ہے۔ جب وہ خوبصورت لحن اور غنا کے ساتھ بآوازبلند اس کی تلاوت کرتے ہیں۔ دن بھر گاہے بگاہے اور خصوصاً نمازوں میں نازل ہونے والی تازہ قرآنی وحی کے تکرار اور دہرائی کا اہتمام تو ہوتا ہی تھا۔ عموماً رات کو بھی زبان پر قرآن ہی ہوتا۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ کبھی رات کو اچانک آنکھ کھل جاتی تو زبان پر اللہ تعالیٰ کی عظمت کی یہ آیات جاری ہوتیں۔ وَمَامِنْ اِلٰہٍ اِلَّاللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُ رَبُّ السَّمٰوَاتِ وَالْاَ رْضِ وَمَابَیْنَھُمَا الْعَزِیْزُ الْغَفَّارُ

یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ صاحب جبروت ہے نیز آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، ان کا رب ہے اور غالب اور بخشنے والا ہے۔ (صٓ:66۔67)

نبی کریمؐ قرآن شریف کے مضامین میں ڈوب کر تلاوت کرتے تھے اور اس کے گہرے اثرات آپؐ کی طبیعت پرہوتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کیا کہ یارسول اللہؐ! آپؐ کے بالوں میں سفیدی آنی لگی ہے۔

فرمایا:ہاں! مجھے سورۂ ھود، الواقعہ، المرسلات،النبأ اور التکویر نے بوڑھا کردیاہے۔بعض اوقت کلام الہٰی سن کررسول کریمؐ پر رقت طاری ہوجاتی اورآنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے تھے۔ آپؐ ظہر و عصر کی نمازوں میں سورۃالفاتحہ کے بعد بعض سورتوں کی خاموش تلاوت فرماتے تھے اور مغرب ،عشاء اور فجر میں سورۃالفاتحہ کے ساتھ کسی سورت یا حصۂ قرآن کی بآواز بلند تلاوت فرماتے۔ نبی کریمؐ جمعہ اور عیدین کے موقع پر سورۃ الاعلیٰ اور سورۃ الغاشیہ کی تلاوت فرماتے تھے۔ حضرت ام سلمہؓ سے روایت ہےکہ انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ ٹھہر ٹھہر کر تلاوت فرماتے ۔ آپؐ اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ پڑھ کر ٹھہر جاتے ، پھر الرحمن الرحیم پڑھ کر ٹھہر جاتے ۔ پھر مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ پڑھتے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ہر رات رسول اللہ ﷺجب اپنے بستر پر لیٹتے تواپنے دونوں ہاتھوں کو ملا لیتے اور ان میں پھونک مارتے اور قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ پڑھتے۔ پھر جس قدر ممکن ہوتا اپنے جسم پر دونوں ہاتھ پھیرتے اور اپنے سر سے شروع کرتے اور بدن کے اگلے حصہ پر پھیرتے۔آپؐ تین بار ایسا کرتے۔

اہل خانہ کے ساتھ محبت و اُلفت اورپیارو نیاز

گھر میں بے تکلفی سےاور خوش رہتے ۔کبھی بیویوں کو کہانیاں اور قصے بھی سناتے۔ اہل خانہ سے حد درجہ کی نرمی اور اکرام کا سلوک فرماتے۔گھریلو زندگی کا ایک نہایت دلکش اور قابل رشک نظارہ خود حضرت عائشہ ؓ کی زبانی سنیئے۔آپؓ بیان فرماتی ہیں کہ میں گھر میں بیٹھی چرخے پر سوت کات رہی تھی اور نبی کریمؐ اپنے جوتے کی مرمت فرمارہے تھے کہ آپؐ کی پیشانی مبارک پر پسینہ آگیا۔پسینہ کے قطرے آپؐ کے پُرنور چہرے پر دمک رہے تھے اور ایک روشنی ان سے پھوٹ رہی تھی۔ میں محو حیرت ہوکر یہ حسین نظارہ دیکھنے میں مگن تھی کہ ناگہاں رسول اللہؐ کی نظر مجھ پر پڑگئی۔ آپؐ نے میری حالت بھانپ کر فرمایا کہ اےعائشہؓ! تم اتنی کھوئی کھوئی اور حیران وششدر کیوں ہو؟میں نے عرض کیا کہ ابھی جو آپؐ کی پیشانی مبارک پر پسینہ آیا تھاتو اس کے قطرات سے ایک عجب نور پھوٹتے ہوئےمیں نے دیکھا۔ اگر شاعر ابوکبیر ھُذلی آپؐ کو اس حال میں دیکھ لیتا تو اسے ماننا پڑتا کہ اس کے شعر کے مصداق آپؐ ہی ہیں۔ رسول کریمؐ نے فرمایا: اچھا! ابوکبیر کے وہ شعرتو سناؤ؟ میں نے شعر سنائے جن میں ایک شعر کا ترجمہ یوں ہے۔ ’’تم میرے محبوب کے روشن چہرے کے خدوخال کو دیکھو تو تمہیں اس کی چمک دمک بادل سے چمکنے والی بجلی کی طرح معلوم ہو‘‘۔

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ یہ شعر سن کر رسول کریمؐ جوش محبت اور فرطِ مسرت سے اٹھ کھڑے ہوئے اور میری پیشانی کا بوسہ لے کر فرمانے لگے۔ اے عائشہؓ ! اللہ آپ کو بہترین جزا عطافرمائے۔ شایدتم نے مجھے اس حال میں دیکھ کر اتنا لطف نہیں اُٹھایا ہوگا۔جتنا مزا مجھے آپ سے یہ شعر سن کر آیا ہے۔

(سنن البیھقی جلد 7، صفحہ 422،دائرہ المعارف حیدر آباد)

گھر میں بیک وقت نو بیویاں رہیں۔آپؐ ہمیشہ ان میں عدل فرماتے۔ان میں سے کسی کو سفر پر ہمراہ لے جانے کے لئے فیصلہ قرعہ انداز ی سے فرماتے۔مدینہ سے رخصت ہوتے وقت سب سے آخر میں اپنی لختِ جگر حضرت فاطمہ ؓ سے مل کر جاتے اور واپسی پر مسجد نبوی میں دو رکعت نماز ادا کرنے کے بعد سب سے پہلے حضرت فاطمہؓ سے ہی آکر ملتے۔ مغرب کے بعد سب بیویا ں اس گھر میں جمع ہوجاتیں جہاں حضورؐ کی باری ہوتی۔ وہاں ان کے ساتھ مجلس فرماتے۔ آپؐ کےشب و روز کے حسن خُلق اور اخلاق کریمانہ کانتیجہ ہی تو تھا کہ آپ کی بیویوں نے آپ کے گھرکی سادہ اورغریبانہ زندگی کے مقابل پر دنیاکی زیب وزینت اورمال ومتاع کی ہرطرح کی پیشکش کو ٹھکرادیا تھا۔

(ماخذ۔اسوۂ انسانِ کامل ازمکرم حافظ مظفر احمد صاحب)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہُ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزجماعت کو آپﷺکے نمونہ پر چلنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ ہمیں اُسوہ رسول پر چلتے ہوئے اپنے اخلاق کو ہر لحاظ سے اور ہر موقع پہ اور ہر جگہ اور ہر صورت میں بہتر سے بہتر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمارے اخلاق کے معیار اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہوں، نہ کہ دنیا دکھاوے کے لئے۔ مخلوق کی سچی ہمدردی ہمارے دلوں میں پیدا ہو۔ تقویٰ کے معیار بلند کرنے والے ہم ہوں۔ ہم نے زمانے کے امام کو مانا ہے تو ہماری سوچ ہر وقت یہ رہے کہ ہمارا کوئی عمل اسلام، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعود علیہ السلام کی بدنامی کا باعث نہ بنے بلکہ اسلام کی خوبصورت تعلیم کو ہم پھیلانے والے ہوں اور دنیا کو اس سے متاثر کرنے والے ہوں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ ہم اپنے اخلاق کے معیاروں کو بڑھانے کی ہر وقت کوشش کرتے رہیں اور اللہ تعالیٰ کے آگے جھک کر دعا سے کام لیتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے اس کے حصول کے لئے مدد طلب کرنے والے ہوں‘‘۔ آمین

(خطبہ جمعہ فرمودہ 2؍ مارچ 2018ء۔مطبوعہ الفضل انٹرنیشل23 مارچ2018ء صفحہ8)

(مرسلہ: جاوید اقبال ناصر مربی سلسلہ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

جماعت احمدیہ مالٹا کے خدمت خلق کے پروگرام