• 18 اپریل, 2024

امام وقت کی بیعت اور صحبت

انسانی فطرت ہے کہ وہ اپنے اردگرد ہونے والی سماجی سرگرمیوں، نظریات اور مذہبی رجحانات سے متاثر ہوتا ہے اور جب بھی کوئی جاذب نظر عقیدہ ، ارادت یا رویہ ملتا ہے تو اسی اسوہ کو اپنا لیتا ہےاور اسی رنگ کو اپنی ذات پر اوڑھ لیتاہے۔یہی صحبت اسکی اخلاقی اور روحانی تراش خراش کرتی ہے جو بالآخر اسے ایک عام انسان سے باخدا انسان بنا دیتی ہے۔ انبیاءکرام اور انکے خلفاء اللہ تعالیٰ کے اذن اور حکم سے بنی نوع انسان کی ہمدردی میں اس روحانی صحبت اور ماحول کو قائم کرنے کے سب سے اولین ذمہ دار ہوتے ہیں۔اور اسی غرض کی تکمیل میں اپنی کل عمر صرف کر دیتے ہیں۔؎

صحبت صالح ترا صالح کند
صحبت طالح ترا طالح کند

کل انسانی تاریخ میں ہمارے ہادی ٔکامل حضرت اقدس محمد مصطفیؐ کا وجود کامل اس نسبت سے سب سے اثر انگیز اور پرکیف ہےکہ لاکھوں روحانی مردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہوگئے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں

صَادَفْتَهُم قَوْماً كَرَوْثٍ ذِلَّةً
فَجَعَلْتَهُمْ كَسِبيكَةِ الْعِقْيَانِ

یعنی آپؐ نے ان کو گوبر کی مانند پایا اور اپنی قوت قدسی سے سونے کی ڈلی بنا دیا۔

بیعت کی اہمیت اور حقیقت

آپؐ کا یہ طریق تھا کہ آپ لوگوں سے رابطہ و نسبت رکھنے کیلئے اپنے ماننے والوں سے بیعت لیا کرتے تھے۔

بیعت کےلغوی معنیٰ عقد،اتفاق،معاہدہ،اور بِک جانا کے ہیں۔جبکہ اصطلاحاً صوفیاء کے نزدیک ایسا عہد جو کسی نبی،ولی یا خلیفہ کے ہاتھ پر دینی او ر دنیاوی امور کی نسبت کیا جائے وہ بیعت کہلاتا ہے۔

حضرت اقدس محمد مصطفیؐ نے امام مہدی علیہ السلام کی نسبت بھی اپنی امت کو تاکیدی حکم دیتے ہوئے فرمایا:
’’جب تم اسے دیکھو تو اس کی ضرور بیعت کرنا خواہ تمہیں برف کے تودوں پر گھٹنوں کے بل بھی جانا پڑے۔ کیونکہ وہ خدا کا خلیفہ مہدی ہوگا۔‘‘

(مستدرک حاکم کتاب الفتن و الملاحم باب خروج المہدی)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’معرفت کے حصول کیلئے ضروری ہے کہ اول خدا شناس ہو۔خدا شناسی حاصل نہیں ہوتی جب تک کسی خدا نما انسان کی مجلس میں صدق نیت اور اخلاص کے ساتھ ایک کافی مدت تک نہ رہے‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ22۔21)

“A man is know by the company he keeps”

انگریزی زبان کا ایک مشہورمحاورہ ہے۔

انسان اپنی صحبت سے ہی پہچانا جاتا ہے۔ چنانچہ حضرت اقدسؑ اس متعلق فرماتے ہیں :
’’قرآن شریف میں آیا ہے قد افلح من زکھا اس سے اس نے نجات پائی جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا۔تزکیہ نفس کے واسطے صحبت صالحین اور نیکوں کیساتھ تعلق پیدا کرنابہت مفید ہے۔جھوٹ وغیرہ اخلاص رذیلہ دور ہونے چاہئیں۔اور جو راہ پر چل رہا ہے اس سے راستہ پوچھنا چاہیے۔اپنی غلطیوں کو ساتھ ساتھ درست کرنا چاہیےجیسا کے غلطیاں نکالنے کے بغیر املا درست نہیں ہوتا۔ویسا ہی غلطیاں نکالنے کے بغیر اخلاق بھی درست نہیں ہوتے‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ 309)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اذن الٰہی کے ماتحت حق کے طالبوں کیلئے یکم دسمبر 1888ء میں ’’تبلیغ‘‘ کے نام سے ایک اشتہار ِعام چھپوایا۔ جس میں آپؑ فرماتے ہیں :
’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ جو لوگ حق کے طالب ہیں وہ سچا ایمان اور سچی ایمانی پاکیزگی اور محبتِ مولیٰ کا راہ سیکھنے کےلئے اور گندی زیست اور کاہلانہ اور غدارانہ زندگی کےچھوڑنے کیلئے مجھ سے بیعت کریں۔

(مجموعۂ اشتہارات جلد اول صفحہ188)

حضرت اقدسؑ اپنی آمد کی غرض بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’میں اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ تا ایمانوں کو قوی کروں اور خدا تعالیٰ کا وجود لوگوں پر ثابت کر کے دکھلاؤں کیونکہ ہر ایک قوم کی ایمانی حالتیں نہایت کمزور ہو گئی ہیں اور عالم آخرت صرف ایک افسانہ سمجھا جاتا ہے اور ہر ایک انسان اپنی عملی حالت سے بتا رہا ہے کہ وہ جیسا کہ یقین دنیا اور دنیا کی جاہ و مراتب پر رکھتا ہے اور جیسا کہ اس کو بھروسہ دنیوی اسباب پر ہے یہ یقین اوریہ بھروسہ ہر گز اس کو خدا تعالیٰ اور عالم آخرت پر نہیں۔ زبانوں پر بہت کچھ ہے مگر دلوں میں دنیا کی محبت کا غلبہ ہے۔حضرت مسیح نے اسی حالت میں یہود کو پایا تھا اور جیسا کے ضعف ایمان کا خاصہ ہے یہود کی اخلاقی حالت بھی بہت خراب ہو گئی تھی اور خدا کی محبت ٹھنڈی ہو گئی تھی۔ اب میرے زمانے میں بھی یہی حالت ہے۔ سو میں بھیجا گیا ہوں کہ تا سچائی اور ایمان کا زمانہ پھر آوے اور دلوں میں تقویٰ پیدا ہو۔سو یہی افعال میرے وجود کی علت غائی ہیں مجھے بتلایا گیا ہے کہ پھر آسمان زمین سے نزدیک ہوگا۔ بعد اس کے کہ بہت دور ہو گیا تھا۔سو میں ان ہی باتوں کا مجدد ہوں اور یہی کام ہیں جن کے لئے میں بھیجا گیا ہوں۔‘‘

(روحانی خزائن جلد13حاشیہ کتاب البریہ صفحہ291تا 294)

بیعت کے ذریعہ سے میسر آنے والی صحبت کی غرض و غایت اور بعد میں آنے والی روحانی تبدیلیوں کے متعلق حضورؑ فرماتے ہیں:
’’ہمارا کام اور ہماری غرض یہ ہے کہ تم اپنے اندر ایک تبدیلی پیدا کرو۔اور بالکل ایک نئے انسان بن جاؤ۔اس لئے ہر ایک کو تم میں سے ضروری ہے کہ وہ اس راز کو سمجھے۔اور ایسی تبدیلی پیدا کرے۔کہ وہ کہہ سکے کہ میں اور ہوں۔میں پھر کہتا ہوں کہ یقیناََ یقیناََ جب تک ایک مدت تک ہماری صحبت میں رہ کر یہ نہ سمجھے کہ میں اور ہو گیا ہوں،اسے فائدہ نہیں پہنچتا‘‘

(ملفوظات جلد2 صفحہ 73،72 ایڈیشن 1985ء)

بیعت صرف ظاہری راہ و رسم اور میل ملاقات کا نام نہیں بلکہ خدا شناس انسان کی صحبت میں ایک مناسب وقت تک رہ کر امورِ دینیہ میں اکتساب فیض سےحقیقی اور با مقصد بیعت بنتی ہے۔چنانچہ حضوؑر اس کے متعلق فرماتے ہیں :
’’یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ صبر کی حقیقت میں سے یہ بھی ضروری ہے کہ کونوا مع الصادقین۔ صادقوں کی صحبت میں رہنا ضروری ہے بہت سے لوگ ہیں جو دور بیٹھ رہتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ کبھی آئیں گے اس وقت فرصت نہیں‘‘

(تفسیر حضرت مسیح موعودؑ سورۃ العصر صفحہ 371

بیعت کیلئے توبہ شرط ہے

’’اسی طرح بیعت میں عظیم الشان بات توبہ ہے۔ جس کے معنی رجوع کے ہیں۔ تویہ اس حالت کا نام ہے کہ انسان اپنے معاصی سے جن سے اُس کے تعلّقات بڑھے ہوئے ہیں اور اُس نے اپنا وطن اُنہیں مقرر کر لیا ہؤا ہے گویا کہ گُناہ میں اس نے بُودو باش مقرر کر لی ہوئی ہے۔ تو توبہ کے معنے یہ ہیںکہ اُس وطن کو چھوڑنا۔ اور رجوع کے معنے پاکیزگی کواختیار کرنا۔ اب وطن کو چھوڑنا بڑا گراں گزرتا ہے اور ہزاروں تکلیفیں ہوتی ہیں۔ ایک گھر جب انسان چھوڑتا ہے تو کس قدر اسُے تکلیف ہوتی ہے۔ اور وطن کو چھوڑنے میں تو اُس کو سب یار دوستوں سے قطع تعلّق کرنا پڑتا ہے اور سب چیزوں کو مثل چارپائی، فرش وہمسائے، وُہ گلیاں کُوچے، بازار سب چھوڑ کر ایک نئے مُلک میں جانا پڑتا ہے۔ یعنی اُس (سابقہ) وطن میں کبھی نہیں آتا۔ اس کا نام توبہ ہے۔ معصیت کے دوست اَور ہوتے ہیں اور تقویٰ کے دوست اَور۔ اس تبدیلی کو صوفیاء نے مَوت کہا ہے۔

(ملفوظات جلداول صفحہ2اور3ایڈیشن1984ء)

حضوؑراپنی صحبت کی تاثیر قدسی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’اس نے مجھے مبعوث کیا ہے تا میں ان لوگوں کو جواللہ تعالیٰ سے غافل اور بے خبر ہیں اس کی اطلاع دوں اور نہ صرف اطلاع بلکہ جو صدق اور صبر اور وفا داری کے ساتھ اس طرف آئیں انہیں خدا تعالیٰ کو دکھلا دوں‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ5 ایڈیشن 2003ء)

حضرت اقدس اسی تاثیر قدسی سے فیض حاصل کرنے والوں کا ذکر خیر کرتے ہوئے ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
’’میں دیکھتا ہوں کہ میری بیعت کرنے والوں میں دن بدن صلاحیت اور تقویٰ ترقی پذیر ہے۔اور ایام مباہلہ کے بعدگویا ہماری جماعت میں ایک اور عالم پیدا ہو گیا ہے۔میں اکثر کو دیکھتا ہوں کہ سجدہ میں روتے اور تہجد میں تضرع کرتے ہیں۔ناپاک دل کے لوگ ان کو کافر کہتے ہیں۔ اور وہ اسلام کا جگر اور دل ہیں۔

(انجام آتھم۔روحانی خزائن جلد 11 حاشیہ صفحہ 315)

حضرت خلیفۃ المسح الاول رضی اللہ عنہ سے کسی نے ایک مرتبہ دریافت کیا کہ ’’سنا ہے کہ آپ کو کیمیا گری آتی ہے؟ آپؓ نے فرمایا کہ ہاں آتی ہے
اس نے عرض کیا کہ ہم غریب ہیں اور مقروض رہتے ہیں۔ آپ ہمیں بھی بتائیں۔

چنانچہ حضور نے ایک مرتبہ تقریر کرتے ہوئے فرمایا:
لوگ اکسیر اور سنگ پارس تلاش کرتے پھرتے تھے۔میرے لیے تو حضرت مرزا صاحب پارس تھے۔میں نے انکوچھوا تو بادشاہ بن گیا‘‘

(تاریخ احمدیت جلد سوم صہ 565)

سیدنا و امامنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں
’’پس ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنے کا دعویٰ کرتے ہیں، ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ ہم کس حد تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو پورا کر رہے ہیں۔ آپ نے اعلان فرمایا کہ مَیں ایمانوں کو قوی کرنے آیا ہوں۔ اُن میں مضبوطی پیدا کرنے آیا ہوں۔ ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہمارے ایمان مضبوطی کی طرف بڑھ رہے ہیں؟ فرمایا کہ ایمان مضبوط ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے وجود کے ثابت ہونے سے، اللہ تعالیٰ پر کامل یقین سے۔ آپ نے فرمایا کہ آج کل دنیا میں دنیا کے جاہ و مراتب پر بھروسہ خدا تعالیٰ پر بھروسے کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ خدا تعالیٰ کی طرف پڑنے کی بجائے دنیا کی طرف زیادہ نگاہ پڑتی ہے۔ وہ یقین جو خداتعالیٰ پر ہونا چاہئے وہ ثانوی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ اور دنیا والے اور دنیا کی چیزیں زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہیں۔ اگر ہم اپنے ارد گردنظر دوڑائیں تو یہی صورتحال ہمیں نظر آتی ہے، لیکن اپنے ارد گردنظر دوڑانا صرف یہ دیکھنے کے لئے نہیں ہونا چاہئے کہ آج دنیا خدا تعالیٰ کی نسبت دنیاوی چیزوں پر زیادہ یقین اور بھروسہ کرتی ہے۔ بلکہ یہ نظر دوڑانا اس لئے ہو کہ ہم اپنے جائزے لیں کہ ہم دنیاوی وسائل پر زیادہ یقین رکھتے ہیں یا خدا تعالیٰ پر۔ اگر ہم بیعت کر کے بھی خدا تعالیٰ کی ہستی کو اُس طرح نہیں پہچان سکے جو اس کے پہچاننے کا حق ہے تو ہماری بیعت بے فائدہ ہے۔ ہمارا اپنے آپ کو احمدی کہلانا کوئی قیمت نہیں رکھتا‘‘

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 11 اکتوبر 2013)

اللہ تعالیٰ ہمیں بیعت کا اصل حق ادا کرنے والا اپنا پیارا اپنا حبیب،اور عبد منیب بنائے (آمین)

(مرسلہ: قیصر شیراز)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

جماعت احمدیہ مالٹا کے خدمت خلق کے پروگرام