• 7 مئی, 2025

محمدؐ اپنے ربّ پر عاشق ہوگیا

’’جب یہ آیتیں اتریں کہ مشرکین رِجس ہیں۔ پلید ہیں۔ شَرُّالْبَرِیَّہ ہیں۔ سُفَہَاء ہیں اور ذُریّتِ شیطان ہیں اور ان کے معبود وَقُودُ النّار اور حَصَبُ جَہَنَّمُ ہیں۔ تو ابوطالب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا کر کہا کہ اے میرے بھتیجے اب تیری دشنام دہی سے قوم سخت مشتعل ہو گئی ہے اور قریب ہے کہ تجھ کو ہلاک کریں اور ساتھ ہی مجھ کو بھی۔ تُو نے ان کے عقلمندوں کو سَفِیہ قرار دیا اور ان کے بزرگوں کو شرّ البریّہ کہا اور ان کے قابلِ تعظیم معبودوں کا نام ہیزمِ جہنم اور وَقُوْدُ النَّار رکھا اور عام طور پر ان سب کو رِجس اور ذریّتِ شیطان اور پلید ٹھہرایا۔ مَیں تجھے خیر خواہی کی راہ سے کہتا ہوں کہ اپنی زبان کو تھام اور دشنام دہی سے باز آ جا ورنہ مَیں قوم کے مقابلے کی طاقت نہیں رکھتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں کہا کہ اے چچا! یہ دشنام دہی نہیں ہے بلکہ اظہارِ واقعہ ہے اور نفس الامر کا عین محل پر بیان ہے اور یہی تو کام ہے جس کے لئے مَیں بھیجا گیا ہوں۔ اگر اس سے مجھے مرنا درپیش ہے تو مَیں بخوشی اپنے لئے اس موت کو قبول کرتا ہوں۔ میری زندگی اسی راہ میں وقف ہے۔ مَیں موت کے ڈر سے اظہارِ حق سے رک نہیں سکتا۔ اور اے چچا اگر تجھے اپنی کمزوری اور اپنی تکلیف کا خیال ہے تو تُو مجھے پناہ میں رکھنے سے دستبردار ہو جا۔ بخدا مجھے تیری کچھ بھی حاجت نہیں۔ مَیں احکام الٰہی کے پہنچانے سے کبھی نہیں رکوں گا۔ مجھے اپنے مولیٰ کے احکام جان سے زیادہ عزیز ہیں۔ بخدا اگر مَیں اس راہ میں مارا جاؤں تو چاہتا ہوں کہ پھر بار بار زندہ ہو کر ہمیشہ اسی راہ میں مرتا رہوں۔ یہ خوف کی جگہ نہیں بلکہ مجھے اس میں بے انتہا لذّت ہے کہ اس کی راہ میں دکھ اٹھاؤں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ تقریر کر رہے تھے اور چہرہ پر سچائی اور نورانیت سے بھری ہوئی رقّت نمایاں ہو رہی تھی اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ تقریر ختم کر چکے تو حق کی روشنی دیکھ کر بے اختیار ابو طالب کے آنسو جاری ہو گئے اور کہا کہ مَیں تیری اس اعلیٰ حالت سے بے خبر تھا۔ تُو اور ہی رنگ میں اور اَور ہی شان میں ہے۔ جا اپنے کام میں لگا رہ۔ جب تک مَیں زندہ ہوں جہاں تک میری طاقت ہے مَیں تیرا ساتھ دوں گا۔‘‘

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ110-111)

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ذات کے عاشقِ زار اور دیوانہ ہوئے اور پھر وہ پایا جو دنیا میں کبھی کسی کو نہیں ملا۔ آپ کو اللہ تعالیٰ سے اس قدر محبت تھی کہ عام لوگ بھی کہا کرتے تھے کہ عَشِقَ مُحَمَّدٌ عَلٰی رَبِّہٖ۔ یعنی محمد اپنے رب پر عاشق ہو گیا ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔‘‘

(ملفوظات جلد6 صفحہ273 ایڈیشن 1984ء مطبوعہ انگلستان)

پچھلا پڑھیں

شعراء (مرد حضرات) متوجہ ہوں

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 جنوری 2022