• 10 مئی, 2024

نمازوں میں نہایت عاجزی، انکساری اور دل سوزی سے دعائیں کیا کریں

آپ نمازوں میں نہایت عاجزی، انکساری اور دل سوزی سے دعائیں کیا کریں اور خط وغیرہ قادیان تحریر کرتے رہا کریں اور جلدی جلدی آیا کریں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
حضرت شیخ عطاء اللہ صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں گول کمرہ کے قریب جہاں بابو فخر الدین ملتانی کی دوکان تھی، کھڑا تھا تو حضرت اقدس علیہ السلام خود بنفس نفیس مسجد مبارک کے دروازے پر آئے اور مجھے آواز دی کہ میاں عطاء اللہ! یہ چٹھی لیٹر بکس میں ڈال دیں۔ جس پر میں بڑا خوش ہوا کہ حضور کو میرا نام خوب یاد ہے۔ مغرب کے وقت حضور انور ایک معمولی گلاس بکری کے کچے دودھ کا روزمرہ نوش فرماتے تھے۔ ایک شخص نے (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو) عرض کیا کہ حضور! کچا دودھ نہ پیا کریں۔ تو آپ نے فرمایا کہ اکثر انبیاء علیہم السلام کچا دودھ ہی پیا کرتے تھے۔ کچھ عرصے کے بعد جب میں محکمہ ٹیلی گراف میں نوکر تھا۔ (کہتے ہیں) مجھے بڑا شدید بخار ہو گیا، بلکہ تپ دِق سے بھی سخت بیمار ہو گیا۔ رخصت لے کر قادیان چلا گیا۔ حضرت مولوی نورالدین خلیفۃ المسیح الاولؓ کے دولت خانے میں قیام پذیر تھا کیونکہ اُنہی کے ذریعہ سے میں جموں میں مشرف بہ اسلام ہوا تھا۔ اس روحانی اور گہرے تعلق کی وجہ سے خلیفۃ المسیح الاولؓ نے میرا علاج شروع کیا۔ مجھے صبح سویرے کھچڑی چاول اور بعد میں ایک اُبلا ہوا انڈہ کھلا کر دوائی دیتے تھے۔ یہ چیزیں کھا کھا کر جن کی مجھے عادت نہیں تھی زبان کا ذائقہ بگڑ گیا۔ کہتے ہیں ایک روز میں نے شام کو محترمہ اماں جان والدہ عبدالسلام صاحب (حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی بیگم) کو التجا کی کہ میری زبان کا ذائقہ خراب رہتا ہے۔ اگر کچھ شوربہ یا کچھ اور نمکین چیز ہو تو ذائقہ درست ہو جاوے گا۔ انہوں نے فرمایا:مولوی صاحب ناراض ہوں گے۔ مگر انہوں نے ایک کپڑے سے مرچوں کو چھان کر اور صاف کر کے مجھے پلا دیا۔ یعنی عام شوربہ جو بنایا ہوا تھا، اُس کو چھان کے پلایا۔ کہتے ہیں اگلی صبح جب حضرت مولوی صاحب خلیفۃ المسیح الاولؓ نے میری نبض دیکھی تو فرمایا کہ رات کو کیا کھانا کھایا تھا۔ (اب ڈاکٹر بڑے بڑے ٹیسٹ لیتے ہیں تب بھی پتہ نہیں لگتا۔ لیکن حضرت خلیفہ اولؓ نے نبض دیکھی اور فرمایا رات کو کیا کھانا کھایا تھا؟) نبض بہت تیز چل رہی ہے۔ میں نے کہا کچھ نہیں۔ آپ درس کو چھوڑ کر جلدی سے گھر گئے اور گھر جاکے اپنی اہلیہ سے دریافت فرمایا کہ رات عطاء اللہ نے کیا کھایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ کھانا کھانے کے بعد اس نے ضد کر کے تھوڑا سا شوربہ پی لیا تھا۔ تو اُن پر ناراض ہوئے اور میرے پر بھی کہ تم نے اس قدر دروغگوئی کی ہے۔ غلط بیانی سے کام لیا ہے۔ بہرحال کہتے ہیں حضرت مولوی صاحب نے میرے اس جھوٹ کو اور بدپرہیزی کا جو قصہ ہے یہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عرض کیا کہ اس کو اپنی صحت کا کچھ خیال نہیں ہے۔ مرض تپ دق میں مبتلا ہے (یعنی ٹی بی میں مبتلاہے)۔ میں بباعث بیماری کے بہت کمزور ہو گیا تھا۔ (تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی اس بات پر بڑے ناراض ہوئے۔ کہتے ہیں) … آخر میری رخصت دو ماہ ختم ہو گئی۔ حضرت مولوی صاحب کو میری صحت کا بہت فکر تھا۔ ادویہ وغیرہ بنا کر ہمراہ دے دِیں تا مَیں استعمال کروں۔ اور فرمایا مَیں دعا بھی کروں گا۔ حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ حضور! آج میں راولپنڈی واپس جاتا ہوں کیونکہ رخصت ختم ہو گئی ہے۔ دعا کریں۔ صحت خراب ہے۔ حضور نے دعا فرمائی اور فرمایا کہ آپ نمازوں میں نہایت عاجزی، انکساری اور دل سوزی سے دعائیں کیا کریں اور خط وغیرہ قادیان تحریر کرتے رہا کریں اور جلدی جلدی آیا کریں۔ پھر فرمایا کہ بدپرہیزی کو چھوڑ دیں۔ (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو وہ بات یاد تھی کہ کھانے میں بدپرہیزی کی تھی اس لئے فرمایا کہ بدپرہیزی کو چھوڑ دیں۔) اللہ تعالیٰ کے حضور پختہ وعدہ کریں۔ خداتعالیٰ غفورالرحیم ہے انشاء اللہ ضرور صحت بخشے گا۔ کہتے ہیں جب میں راولپنڈی واپس گیا تو رات ڈیڑھ بجے کے قریب ایک رؤیا غیر زبان میں اس عاجز کو ہوئی جس کو میں نہ سمجھ سکا۔ حیران ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور گر گیا اور التجا کی کہ اے خدا! تیری ذات ہر زبان پر قدرت رکھتی ہے۔ مجھے اس خواب کا مفہوم سمجھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص رحمت فرماتے ہوئے رات کے اڑھائی بجے کے قریب میری زبان پر جاری کر دیا کہ ہیلدی ہیلدی ہیلدی (Healthy-healthy- healthy)۔ اس کئی بار کی آواز نے مجھے بیدار کر دیا کہ صحت ہو گئی ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ اب تک مجھے بیس برس ہو گئے ہیں (جب یہ بیان کیا تھا۔ ) کبھی سر درد سے بھی بیمار نہیں ہوا۔ اور دیگر اللہ تعالیٰ کی نصرت سے ہر امر میں کچھ ایسے سامان مہیاکئے گئے کہ اولاد پیدا ہونا شروع ہو گئی۔ (پہلے اولادنہیں تھی۔ ) پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے تین لڑکے اور چار لڑکیاں عطا کی گئیں۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ۔ غیرمطبوعہ۔ جلد1 صفحہ164 تا 167۔ روایات حضرت شیخ عطاء اللہ صاحبؓ)

پھر ایک صحابی ہیں حضرت ملک برکت اللہ صاحبؓ پسر حضرت ملک نیاز محمد صاحبؓ۔ بیان فرماتے ہیں کہ اگرچہ میرے والد صاحب ملک نیاز محمد صاحبؓ 1897ء اور 98ء سے احمدی تھے اور میں بھی اُن کی اقتداء میں بچپن سے احمدی تھا تا ہم 1904ء میں جبکہ میری عمر چودہ یا پندرہ سال کے لگ بھگ تھی، میں نے حضور کی خود بیعت کی۔ جب کوئی شخص بیعت کرتا تھا، ہم بھی بار بار بیعت کر لیتے تھے تا کہ ہم حضور کی اس دعا میں جو حضور علیہ السلام بعد بیعت فرمایا کرتے تھے، شامل ہو جائیں۔ بعض وقت بہت آدمی بیعت کرنے والے ہوتے تھے تو لوگ اپنی اپنی پگڑیاں اُتار کر حضور کے ہاتھ تک پہنچا دیا کرتے تھے اور ان پگڑیوں کو سب لوگ پکڑ لیتے تھے اور اس طرح بیعت ہو جاتی تھی۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ۔ غیرمطبوعہ۔ جلد3 صفحہ227 تا 228۔ روایات حضرت ملک برکت اللہ صاحبؓ)

( خطبہ جمعہ 19؍اکتوبر 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

شعراء (مرد حضرات) متوجہ ہوں

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 جنوری 2022