• 24 اکتوبر, 2024

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے (قسط 78)

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے
ذاتی تجربات کی روشنی میں
قسط 78

پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 28؍اکتوبر 2011ء میں صفحہ13 پر خاکسار کا مضمون ’’تنگ نظر، بے حس معاشرہ اور قوم‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ نفس مضمون اوپر گذر چکا ہے۔

پاکستان ٹائمز نے اپنی اشاعت 3؍نومبر 2011ء میں خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’تیری خیر شام و سحر مانگتا ہوں‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔ خاکسار نےلکھا کہ اس دعا کو میں اپنے وطن عزیز پاکستان کی نذر کرتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ وطن عزیز کے بے شمار سنجیدہ اور سعید فطرت خدا تعالیٰ کے حضور وطن عزیز کے لئے یہ دعا کرتے ہوں گے اور ہمیں خدا تعالیٰ کی قدرتوں پر پورا یقین اور بھروسہ ہے کہ ایک دن ضرور حالات بدلیں گے اور ایسا وقت ضرور آئے گا کہ دہشت گردی، مذہبی منافرت اور لوٹ مار اور بے ایمانی ختم ہوگی اور لوگ آپس میں پیار و محبت سے رہیں گے۔

جس شاعر کے کلام سے خاکسار نے یہ دعائیہ مصرع لیا ہے ان کا مختصراً ذکر کرنا بھی مناسب سمجھتا ہوں۔ شاعر نے تو یہ مصرع کسی اور موقعہ کے لئے کہا تھا۔ وہ واقعہ بھی آپ کے علم کے لئے لکھ دیتا ہوں۔ اس عظیم شاعر کا نام ’’حسن رہتاسی‘‘ ہے اور بہت سے لوگ انہیں جانتے بھی نہ ہوں گے مگر اپنے وقت کے یہ ہجوگو، بدیہہ گو کے بادشاہ، مزاحیہ شعراء کے سرخیل اور شاعر دارالاماں تھے۔ یہ دعائیہ مصرعہ انہیں کا ہے اور جس موقعہ کا ہے وہ یہ ہے کہ:
چند دوست آپس میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے جن میں ڈاکٹر محمد احمد سرساوی، مولانا احمد خاں نسیم صاحب، مولوی عبدالعزیز بھامبڑی صاحب اور فضل الٰہی خان صاحب تھے۔ ایک موقع پرحضرت میر محمد اسحاق صاحب رضی اللہ عنہ نے ’’تَریں‘‘ (جو کھیرے کی طرح ہوتی ہیں) خریدیں کہ مجلس میں ان اصحاب کے ساتھ مسجد مبارک کی چھت پر بیٹھ کر کھائیں گے۔ مسجد کی سیڑھیوں میں انہیں حسن رہتاسی صاحب نظر آئے۔ انہوں نے ان کو بھی اس ’’تر مجلس‘‘ میں شرکت کی دعوت دی۔ حسن صاحب نے سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے اس دعوت کے جواب میں ایک شعر کہہ دیا ؎


نہ کدو، نہ توری، نہ تر مانگتا ہوں
تیری خیر شام و سحر مانگتا ہوں

(کلام حسن رہتاسی صفحہ 99)

اسی طرح ایک اور مجلس لگی ہوئی تھی جہاں عموماً حسن رہتاسی کو دعوت کلام دی جاتی تھی حسن صاحب نے اپنی تازہ نظم ’’بند‘‘ سنائی جو چند روز قبل تیار ہوئی تھی۔ اس نظم کی نزول کی وجہ یہ بنی کہ آپ جہلم کے محلہ ’’ملاحاں‘‘ میں رہتے تھے ایک دن گوشت خریدنے بازار گئے۔ قصاب سے اپنی پسند کا گوشت طلب کیا۔ قصاب نے کہا حسن صاحب وہ حصہ تو فروخت ہوچکا ہے۔ آپ ’’بند لے جائیں‘‘ بس اس سے تخیل کی راہیں کھل گئیں اور یہ نظم لکھی۔ چند اشعار آپ بھی ملاحظہ فرمائیں؎

دریا ہی نہیں، کرتے ہیں کوزے میں جری بند
گر چاہیں تو آسکتے ہیں شیشے میں پری بند
جو بند کیا حق نے اسے کھول لیا ہے
نہ شرک خفی بند ہے نہ شرک جلی بند
مغضوب کی ضالین کی آمد ہے مسلسل
انعمت علیھم کی ہوئی کب سے لڑی بند
القصہ ہر اک قسم کی سب راہیں کھلی ہیں
اک بند ہے ان پر تو فقط راہ نبی بند
ان سادہ مزاجوں سے کوئی اتنا تو پوچھے
فیضان خدا وندی بھی ہوتے ہیں کبھی بند

حسن رہتاسی صاحب آخری عمر میں اکثر مسجد ہی میں شب بسر کر لیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ کسی نے حسن صاحب سے دریافت کیا ان دنوں آپ کا قیام کہاں ہے؟ بولے:

نہ ابا کےنہ دادا کے نہ اپنے گھر میں رہتا ہوں
چُھٹا ہے جب سے گھر اپنا خدا کے گھر میں رہتا ہوں

مضمون کے شروع میں یہ دعائیہ الفاظ انہیں کے ہیں:
’’تیری خیر شام و سحر مانگتا ہوں۔‘‘

وطن عزیز کے حالات کچھ ایسے ہی ہیں اور ایک لمبے عرصہ سے کشتی وطن ہچکولے کھا رہی ہے۔ ایک اخبار کے کالم نویس فاروق عادل صاحب نے بعنوان ’’سمجھ میں نہیں آتا‘‘ میں انہوں نے پاکستان میں مذہبی منافرت اور دہشت گردی اور نمازیوں اور عبادت گاہوں پر حملوں کے بارے میں لکھ کر آخر میں لکھتے ہیں کہ اگر میرے دوست نے مجھ سے پوچھ لیا کہ ’’ایسے ہوتے ہیں مسلمان‘‘ تو کیا جواب بن پڑے گا؟

اسی طرح ایک اور کالم نویس اپنے کالم میں ’’لعل و گہر‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں ’’تاہم یہ بات طے ہے کہ معمول کے حالات میں بھی انہیں کم از کم وہ مذہبی آزادی میسر نہیں جو کسی دوسری اقلیتوں کو حاصل ہے‘‘۔

اسی طرح ایک اور کالم نگار ارشد محمود اپنے کالم ’’بات یہ ہے‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’اگرچہ علما کے بیانات کا عوام پر کوئی اثر دیکھنے میں نہیں آیا لیکن یہ حقیقت ضرور سامنے آئی کہ مذہبی تنگ نظری کی جڑیں کس قدر گہری ہوچکی ہیں حتی کہ اب دیگر مذاہب کے پیرو کاروں کی خوشی اور غمی میں شرکت بھی ناقابل برداشت ہوتی ہے۔‘‘

سبط حسین گیلانی نے اپنے کالم ’’دست بریدہ‘‘ میں ’’فرقہ واریت اور سیاسی رویے‘‘ کے بارے میں جو کالم لکھے ہیں اور وطن عزیز میں اقلیتوں کے بارے میں کھل کر تحریر کیاہے کہ ان سے کیسا سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ ایسی صورت حال میں وطن عزیزہم سے دعا کا تقاضا کرتا ہے اور ہمارے پاس دعا کے سوائے کوئی اور ہتھیار نہیں اور ہر شخص اپنے اپنے دائرہ میں اپنی اصلاح کرے۔ خاکسار نے قرآن کریم سے دعا کے بارے میں چند آیات کا ترجمہ بھی لکھا ہے۔ مثلاً

(1) تمہارا ربّ کہتا ہے کہ مجھے پکارو میں تمہاری دعا سنوں گا۔

(40:61)

(2) تم اپنے پروردگار کو گڑ گڑا کر بھی اور چپکے چپکے بھی پکارو۔

(اعراف: 56-57)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔ ’’اگر تم چاہتے ہو کہ خیریت سے رہو اور تمہارے گھروں میں امن رہے تو مناسب ہے کہ دعائیں بہت کرو اور اپنے گھروں کو دعاؤ ں سے پُر کرو۔ جس گھر میں ہمیشہ دعا ہوتی ہے خدا تعالیٰ اسے برباد نہیں کرتا‘‘۔

قبولیت دعا کے بارے میں لکھا گیا کہ ’’جب تک تیرا سینہ صاف نہ ہو دعا قبول نہیں ہوتی۔ یاد رکھو جو مخلوق کا حق مارتا ہے اس کی دعا قبول نہیں ہوتی کیوں کہ وہ ظالم ہے‘‘۔ ’’یاد رکھو کہ دعائیں منظور نہ ہوں گی جب تک تم متقی نہ ہو۔‘‘

پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 4؍نومبر 2011ء میں صفحہ9 پر خاکسار کا مضمون ’’تیری خیر شام و سحر مانگتا ہوں‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔ یہ وہی مضمون ہے جس کا ذکر اوپر ہوچکا ہے۔

ویسٹ سائیڈ سٹوری نیوز پیپر نے اپنی اشاعت 3؍نومبر 2011ء میں صفحہ2 پر ایک تصویر کے ساتھ ہماری خبر شائع کی ہے۔ خبر کا عنوان ہے کہ
’’انٹرفیتھ میٹنگ کی دعائیہ تقریب میں مسلمان، یہودی، بہائی اور عیسائی سب اکٹھے ہوئے۔‘‘

تصویر میں جماعت احمدیہ کی مسجد بیت الحمید کے امام سید شمشاد ناصر اور برادر محمد علیم کی اَپ لینڈ کی انٹرفیتھ دعائیہ تقریب میں شرکت۔ امام شمشاد دوسرے مذاہب کے ساتھ رابطے میں بہت مستعد ہیں جس سے بین المذاہب ہم آہنگی کی راہیں کھل رہی ہیں اور امن، محبت اور بھائی چارے کی فضا بھی قائم ہورہی ہے۔ یہ جماعت احمدیہ کے ریجنل مبلغ ہیں جو اس علاقہ میں کام کر رہے ہیں۔

اخبار لکھتا ہے کہ 25؍اکتوبر کو مختلف مذاہب کے مرد اور عورتیں یہاں اپ لینڈ کے فائر سٹیشن کے احاطہ میں جمع ہوئے۔ یہ ان کی 16ویں تقریب تھی جس میں سب کو صبح کا ناشتہ (کھانا) بھی دیا گیا اور روحانیت بڑھانے کی باتیں بھی بیان کی گئیں۔ پروگرام کا آغاز دعا سے ہوا جو Rev. Jim Rhoads فرسٹ میتھوڈسٹ چرچ آف اپ لینڈ نے کرائی۔ اس سال اس دعائیہ تقریب کے کا مرکزی نقطہ کا موضوع تھا ’’محبت سب کے لئے، نفرت کسی سے نہیں‘‘۔ یہ ماٹو عالمگیر جماعت احمدیہ کا ہے اور ان کے نمائندہ امام سید شمشاد احمد ناصر اس تقریب میں مع برادر علیم صاحب کے تھے۔ اپ لینڈ کے میئر مسٹر Ray- Musser نے اس موقعہ پر افتتاحی تقریر کی جس میں انہوں نے اپنے بیٹے اور بیٹی کی بیماری کا ذکر کیا اور بتایا کہ کس طرح دعاؤں کے ذریعہ خداتعالیٰ نے ان کی مدد کی اور وہ صحت یاب ہوئے۔

یہودی ٹیمپل کے کینٹرپاؤل بُچ نے موسیقی سے (گیٹار) کے ذریعہ اپنا پیغام دیا۔ اس موقعہ پر مسٹر ولیم لیشر نے بھی تقریر کی جو کہ عالمی مذاہب کے سابقہ صدر تھے انہوں نے کہا کہ اس میٹنگ/ تقریب کا جو ماٹو ہے اسے سب مذاہب کو اختیار کرنا چاہیے اور اپنی روزمرہ کی زندگی میں اپنانا چاہیے۔ جس سے ان کی اپنی اصلاح بھی ہوگی اور دنیا کی بھی امن کی راہ کھلے گی۔

امام شمشاد ناصر نے اس موقع پر قرآن کریم کی دعائیں بڑی خوش الحانی سے پڑھ کر سنائیں اور اس موقع پر اپنی دعاؤں کے بعد انہوں نے مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام بانیٔ جماعت احمدیہ کی کتاب سے ایک اقتباس بھی سنایا جس میں انہوں نے قبولیت دعا اور دعا کے بارے فرمایا تھا۔ مثلاً ایک حوالہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ ظالم کی دعا قبول نہیں کرتا۔ اس موقع پر دوسرے عیسائی مذاہب کے لیڈروں نے بھی تقاریر کیں۔

ہفت روزہ نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 4-10؍نومبر 2011ء میں صفحہ12 پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’تیری خیر شام و سحر مانگتا ہوں‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔ یہ مضمون اوپر بیان ہوچکا ہے۔

ہفت روزہ پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 4؍نومبر 2011ء میں صفحہ 7 پر 6 تصاویر کے ساتھ خبر شائع کی ہے جس کا عنوان ہے۔

’’چینو کیلی فورنیا میں جماعت احمدیہ کے زیر اہتمام دعائیہ ناشتہ‘‘۔ ’’بین المذاہب ناشتے میں امام شمشاد احمد ناصر نے ابتدائی عیسائیوں کا ذکر کیا‘‘

تصاویر میں میئر اپ لینڈ، اپ لینڈ کے پاسٹر، ربائی اور خاکسار تقاریر کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ دو تصاویر سامعین کی ہیں ناشتے کے ٹیبل پر بیٹھے ہیں۔ خبر کا متن یہ ہے:۔
کیلی فورنیا (پ ر) جماعت احمدیہ کے زیر اہتمام گذشتہ ہفتے 16 واں بین المذاہب ناشتے کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف مذاہب کے 120 افراد شریک ہوئے۔ ناشتہ سے قبل مختلف مذاہب کےعلما نے اپنی اپنی دعائیں کیں جبکہ اپ لینڈ کے فرسٹ یونائیٹڈ میتھوڈسٹ چرچ کے پادری جم رھوڈس نے ناشتہ میں برکت کی دعا کی۔ تعارفی کلمات میری لی رھوڈس نے ادا کئے اور ان کے بعد اپ لینڈ کے میئر نے اپنے بچوں کی بیماری کے واقعات سنائے………امام شمشاد احمد ناصر جو جماعت احمدیہ کے نمائندہ ہیں نے قرآن کریم کی ایک سورة مع ترجمہ پڑھی انہوں نے کہا کہ اس سورت کا تعلق ان ابتدائی عیسائیوں سے ہے جو اپنی جانیں بچانے کے لئے روم کے زیر زمین تہہ خانوں میں جا چھپے تھے اور جہاں وہ اللہ تعالیٰ سے رحم کی دعا کرتے تھے۔ آخر میں مار یور یوین نے کچھ دعائیہ نظمیں پڑھیں۔

چینو چیمپئن نے اپنی اشاعت 5؍نومبر 2011ء میں صفحہ B-5 پر ایک مختصر سی خبر اس عنوان سے شائع کی ’’حج کی تقریب اختتام پذیر ہوگئی‘‘ (مراد عید الاضحیہ ہے)۔ اخبار نے خبر میں لکھا کہ احمدیہ مسلمہ جماعت عید الاضحیہ کی تقریب منا رہی ہے۔ یہ اتوار کے روز صبح دس بجے ہوگی۔ مسجد بیت الحمید میں جو کہ چینو کیلی فورنیا میں واقع ہے جس میں نماز کے بعد امام شمشاد خطبہ دیں گے اور بعد میں ریفریشمنٹ بھی سب کو دی جائے گی۔

پاکستان ٹائمز نے اپنی اشاعت 16؍نومبر 2011ء میں خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’سنت ابراہیمی کی ادائیگی میں مشکلات اور ان کا حل‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔ اس مضمون میں خاکسار نے قارئین کی توجہ بعض ضروری امور کی طرف مبذول کرائی ہے۔ خاکسار نے لکھا:۔
امسال (2011ء) خدا تعالیٰ کے فضل سے عالم اسلام نے عید الاضحی کی تقریب بڑے جوش و جذبہ سے منائی اور ایک خبر کے مطابق 3 ملین سے زائد لوگوں نے حج کا فریضہ ادا کیا۔ اس عید کا تعلق تو حج سے ہے اور دوسرے ان قربانیوں سے بھی ہے جو حضرت ابراہیمؑ، حضرت اسماعیلؑ اور حضرت ہاجرہؑ نے کیں۔ گویا پورے خاندان نے قربانیاں خدا کے حضور پیش کیں۔ پھر حضرت ابراہیم ؑکی دعاؤں سے بنی اسرائیل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ قربانیوں کا ایک نیا اسلوب دنیا نے سیکھا۔

ان قربانیوں کو تو ویسے ہی ایک مسلمان کو ہر روز یاد رکھنا چاہیے لیکن حج کے دنوں میں اور عید کے دن یہ قربانیاں ایک الگ رنگ پیدا کرتی ہیں پھر حضرت مسیح موعودؑ کا اقتباس لکھا گیا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں:۔ ’’اور یہ کام ہمارے دین میں ان کاموں میں شمار کیا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کے قرب کا موجب ہوتے ہیں……… اس وجہ سے ان ذبح ہونے والے جانوروں کا نام قربانی رکھا گیا ہے کیوں کہ حدیثوں میں آیا ہے کہ یہ قربانیاں خدا تعالیٰ کے قرب اور صدقات کا موجب ہیں۔‘‘

(خطبہ الہامیہ)

قربانیوں کا اصل مقصد خدا تعالیٰ کا قرب ہے اور یہ قربانیاں اس کا موجب بن جاتی ہیں اور بننا بھی چاہیے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہی فرمایا ہے کہ یہ قربانیاں متقین کی ہی قبول کی جاتی ہیں۔

خاکسار نے لکھا کہ عید کے دن صبح کو جو TV کھولا تو قریباً سب پاکستانی چینل مہنگائی کا رونا رورہے تھے اور قریباً ہر چینل سے یہ آواز آرہی تھی کہ ’’سنت ابراہیمی کی ادائیگی میں مشکلات‘‘ یعنی مہنگائی اتنی ہے کہ سنت ابراہیمی کو ادا کرنا ناممکن ہورہا ہے اور وجہ یہ کہ بکرے، گائیں، بھیڑیں سبھی جانور اتنے مہنگے داموں سے فروخت ہورہے ہیں کہ خریدنے والے کی استطاعت سے بات باہر ہوگئی ہے اور لوگ جیبوں میں پیسے ڈالے حیرت سے ادھر ادھر گھوم رہے ہیں۔ ٹی وی والے مختلف لوگوں سے انٹرویوز بھی لے رہے تھے جو ساتھ کے ساتھ نشر ہو رہے تھے۔ گاہکوں سے بھی اور جانور بیچنے والوں سے بھی۔ واقعی مہنگائی بہت ہے اور لوگ خریداری سے معذور نظر آرہے تھے۔ اس پر مجھے یہ خیال بڑی شدت سے آیا کہ مسلمان صرف ایک بات کو ہی سنت ابراہیمی خیال کرتے ہیں اور وہ یہ کہ عید کے دن بکری، بھیڑ، گائے وغیرہ ذبح کی جائیں حالانکہ قرآن کریم میں حضرت ابراہیمؑ، حضرت اسماعیلؑ اور حضرت ہاجرہؑ کی اور بھی بہت سی باتیں بیان ہوئی ہیں انہیں بھی مدنظر رکھنا چاہیے وہ بھی آپ ہی کی سنت ہیں اور یہ ’’سنت‘‘ بھی اتنی ہی ضروری ہیں جتنی کہ قربانی کرنا۔ اگر قربانی نہ بھی ہو سکے تب بھی دوسری باتوں کو نظر اندازہ نہیں کیا جاسکتا جن کا ذکر قرآن کریم کی سورۃ الحج، سورة ابراہیم، سورة مریم اور سورة الصافات میں ہے۔ اس سلسلہ میں اول بات جو دیکھنی ضروری ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مشن کیا تھا۔ سب سے اہم مشن آپ کا خدا تعالیٰ کی توحید اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کا قیام۔ اس کے لئے سورة الحج کی آیت 27 پڑھیں۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے خالص توحید کے قیام کی طرف توجہ دلائی۔ شرک سے منع کیا اور عبادت کے قیام کی طرف توجہ دلائی۔ حضرت ابراہیمؑ نے اپنے بزرگوں کے بت بھی توڑ دیئے تھے۔ اس لئے یہ بھی سنت ابراہیمی ہے کہ اپنے دلوں کو بتوں سے پاک اور صاف کیا جائے کیوں کہ دلوں میں ہزاروں ایسے بت چھپے ہوتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سےآنے سے روکتے ہیں۔ پاکستان میں بزرگوں کے مزاروں پر جا کر دیکھ لیں آپ کو واضح شرک نظر آجائے گا۔ ان کی قبروں پر سجدہ کیا جاتا ہے اور صاحبِ قبر سے مرادات مانگی جاتی ہیں۔ یہ سب شرک اور بت ہی تو ہیں۔

اگر دلوں میں یہ بت ہوں اور انسان صرف بکرا خرید کر اس کے گلے پر چھری پھیر دے اور کہے کہ میں نے سنت ابراہیمی پوری کر دی ہے تو غلط ہوگا۔ اس سنت سے قبل اپنی خواہشات اپنی مرادات جو شرک کی طرف لے جارہی ہیں ان پر چھری پھیرنی پڑے گی۔ اگر خواہشات کے بت اسی طرح دل میں ہیں اور خدا کے دین کو مقدم نہیں کیا گیا تو یہ قربانی کسی کام کی نہیں۔ ؎

جسم کو مل مل کے دھونا یہ تو کچھ مشکل نہیں
دل کو جو دھووے وہی ہے پاک نزدِ کردگار

کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے (22:38) یاد رکھو کہ ان قربانیوں کے گوشت اور خون ہرگز اللہ تک نہیں پہنچتے۔ لیکن تمہارے دل کا تقویٰ اللہ تک پہنچتا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے حضرت اسماعیلؑ کی بہت اعلیٰ تربیت کی انہیں باخدا انسان بنایا اور پھر اس خواب کا ذکر قرآن مجید میں ہے جس کی بنا پر آپ اپنے پیارے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو قربان کرنے کے لئے تیار ہوگئے تھے اور جب حضرت ابراہیمؑ نے وہ خواب اپنے بیٹے کو سنائی تو انہوں نے کہا کہ اے میرے باپ وہی کر جس کا تجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ملاہے۔ تو ان شاء اللّٰہ مجھےاپنے ایمان پر قائم رہنے والا دیکھے گا۔ یہ جواب کیا شاندار اور اعلیٰ جواب ہے۔ جب تک انسان کے دل میں خدا کی عظمت اس کی محبت اور وحدانیت نہ ہو ایسا جواب ہرگز نہیں دیا جاسکتا۔ پس یہ اعلیٰ تربیت کا نتیجہ تھا۔

پس اس سنت ابراہیمی پر بھی عمل کر کے اپنے بچوں کی اعلیٰ تربیت کرنی چاہیے اور ان کے دلوں میں بھی اللہ کی محبت، اس کی وحدانیت پیدا کرنی چاہیے۔ تاکہ پھر ایسے لوگ معاشرہ میں تو کل والے بن جائیں گے جس سے معاشرہ کی بے ایمانی دور ہوگی۔

پھر آپ کی ایک اور سنت کا قرآن مجید میں یوں ذکر ہے۔ اے میرے خدا میں نے اپنی اولاد کو وادیٔ غیر ذی زرع میں اس لئے چھوڑا ہے تا وہ عمدگی سے نماز ادا کریں۔

اب سب کو معلوم ہے کہ وہ کیسی جگہ تھی جہاں پانی اور زندگی، خوراک کا نام ونشان نہ تھا۔ لیکن عبادت الٰہی، نماز کے قیام کے لئے یہ ساری قربانی سب نے دی۔ اس سنت ابراہیمی کی طرف بھی تو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر آپ ان سنتوں کو زندہ رکھیں گے تب بکرے والی قربانی بھی مقبول ہوگی۔ اگر یہ سنتیں زندہ نہ ہوئیں تو صرف خون بہا دینے سے کیا حاصل ہوگا؟

خاکسار نے ملفوظات سے نماز کی ادائیگی کے لئے حضرت مسیح موعودؑ کا حوالہ بھی درج کیا۔ جس میں آپ نے ایک نواب کا ذکر فرمایا ہے کہ وہ صبح کی نماز کے لئے نہ اٹھتا تھا ایک دن مولوی سے وعظ سنا اس پر نواب نے اپنے خادم سے کہا کہ صبح نماز کے لئے جگا دینا۔ وہ بے چارا جگاتا رہا اور نواب صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے۔ جب خادم نے بار بار جگایا تو اس کی شامت آئی اور نواب نے اسے مارا پیٹا۔ کہ جب ایک دفعہ کہنے سے نہ اٹھا تو تجھے سمجھ آجانی چاہیے تھی کہ ابھی نہ اٹھوں گا۔ حالانکہ خود خادم سے کہا تھا کہ نماز کے لئے جگا دینا۔

اس کے ساتھ ہی ایک کہاوت اور بھی لکھی جو حضرت مسیح موعودؑ نے ہی بیان فرمائی ہے کہ ہارون الرشید کی ایک کنیز تھی ایک دن اس نے جو بادشاہ کے کمرے میں بستر کو صاف کیا تو اسے وہ بستر گدگدا، ملائم اور خوشبوؤں سے معطر پایا۔ اس کے دل میں بھی خیال آیا کہ میں اس پر لیٹ کر دیکھوں۔ وہ لیٹی تو اسے نیند آگئی۔ جب بادشاہ آیا تو اسے سوتا پا کر اس پر ناراض ہوا اور تازیانہ کی سزا دی۔ وہ کنیز روتی بھی جاتی اور ہنستی بھی جاتی تھی۔ بادشاہ نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ روتی تو اس لئے ہوں کہ ضربوں سے درد ہوتی ہے اور ہنستی اس لئے ہوں کہ میں اس بستر پر چند لمحہ سوئی تو مجھے یہ سزا ملی اور جو اس پر ہمیشہ سوتے ہیں ان کو خدا معلوم کہ کس قدر عذاب بھگتنا پڑے گا۔

پس غفلت سے آنکھ کھولئے۔ خدا پر اپنا بھی اور اولاد کا بھی کامل یقین و توکل پیدا کریں ایسا ایمان جو ابراہیم علیہ السلام نے پیدا کیا اور اپنی عبادتوں کے معیار کو بھی اعلیٰ بنائیں۔

(مولانا سید شمشاد احمد ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

کیوں نہ جائیں ہم ان سب پے قرباں

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی