• 27 اپریل, 2024

خیانت کی اقسام

اس معاشرے میں کوئی بھی برائی چاہے وہ چھوٹی ہو یا بڑی دوسری برائیوں کو جنم دیتی ہے اور خیانت ایک ایسی برائی ہے جس کے بارے میں ارشاد ہے کہ خیانت کی عادت امانتوں اور فرائض کی ادائیگی میں بھی خیانت کرواتی ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَخُوۡنُوا اللّٰہَ وَالرَّسُوۡلَ وَتَخُوۡنُوۡۤا اَمٰنٰتِکُمۡ وَاَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۲۸﴾

(الانفال: 28)

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ اور (اس کے) رسول سے خیانت نہ کرو ورنہ تم اس کے نتیجہ میں خود اپنی امانتوں سے خیانت کرنے لگو گے جبکہ تم (اس خیانت کو) جانتے ہوگے۔

پس یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خائن نہ ہی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حقوق ادا کرنے والا ہو سکتا ہے، نہ ہی بندوں کے حقوق ادا کرنے والا۔حقوق کی ادائیگی میں خیانت تقویٰ سے دور لے جاتی ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ آدمی خائن بھی ہو اور تقویٰ پر چلنے والا بھی ہو اور حقوق ادا کرنے والا بھی ہو۔

خائن کی تعریف

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 6؍فروری 2004ء میں خیانت کی تعریف بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں:
’’خیانت ایک ایسی برائی ہے جس کا کرنے والا اللہ تعالیٰ اور بندوں دونوں کے حقوق ادا نہ کرنے والا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مختلف پیرایوں میں، مختلف سیاق وسباق کے ساتھ قرآ ن کریم میں مختلف جگہوں پراس کے بارہ میں ارشاد فرمایاہے اور خیانت کرنے والا خائن کہلاتا ہے جس کا مطلب ہے کہ ایسا شخص جس پر اعتماد کیا جائے اور وہ اعتماد کو ٹھیس پہنچائے۔‘‘

(بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

نفس کی خیانت

ایک اور مقام پر بیان ہوتا ہے:

وَلَا تُجَادِلۡ عَنِ الَّذِیۡنَ یَخۡتَانُوۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنۡ کَانَ خَوَّانًا اَثِیۡمًا ﴿۱۰۸﴾ۚۙ

(النساء: 108)

اور ان لوگوں کی طرف سے بحث نہ کر جو اپنے نفسوں سے خیانت کرتے ہیں۔ یقیناً اللہ سخت خیانت کرنے والے گناہگار کو پسند نہیں کرتا۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:
’’وہ بات مانو جس پر عقل اور کانشس کی گواہی ہے اور خدا کی کتابیں اس پر اتفاق رکھتی ہیں۔… زنا نہ کرو، جھوٹ نہ بولو اور بدنظری نہ کرو اور ہر ایک فسق اور فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کی راہوں سے بچو اور نفسانی جوشوں سے مغلوب مت ہو اور پنج وقت نماز ادا کرو کہ انسانی فطرت پر پنج طور پر ہی انقلاب آتے ہیں اور اپنے نبی کریم کے شکر گزار رہو، اُس پر درود بھیجو، کیونکہ وہی ہے جس نے تاریکی کے زمانے کے بعدنئے سرے خدا شناسی کی راہ سکھلائی‘‘۔

(ضمیمہ تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15 صفحہ525)

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں:
’’وَلَا تَکُنۡ لِّلۡخَآئِنِیۡنَ خَصِیۡمًا ﴿۱۰۶﴾ۙ شریر کی طرف سے حمایت کا بیڑا کبھی نہیں اٹھانا چاہیے۔ خائن کی طرف سے بھی جھگڑا نہیں کرنا چاہیے۔ اگر کسی عزیز رشتہ دار کی مصیبت پڑ جاوے۔ تو استغفار بہت پڑھو۔ خداتعالیٰ تمہیں بچالے گا۔‘‘

(ضمیمہ اخبار بدر قادیان 29؍جولائی 1909ء بحوالہ حقائق الفرقان جلد دوم صفحہ56)

مومن خائن نہیں ہوسکتا

ایمان کی نشانی سچائی ہے اور امانت کی ادائیگی ہے۔ اس لئے ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن میں جھوٹ اور خیانت کے علاوہ بری عادتیں ہو سکتی ہیں لیکن ایک مومن میں یہ دو عادتیں نہیں ہو سکتیں۔

حضرت ابو امامہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن میں جھوٹ اور خیانت کے سوا تمام بری عادتیں ہو سکتی ہیں۔

(مسند احمد بن حنبل جلد7 صفحہ397 مسندابو امامۃ الباھلی حدیث نمبر 22523مطبوعہ بیروت 1998ء)

خیانت بھی جھوٹ کی طرح کی برائی ہے۔ کیونکہ خائن ہمیشہ جھوٹا ہوگا اور جھوٹا ہمیشہ خائن ہوگا۔ اصل میں تو یہ دوبڑی برائیاں ہیں اگر یہ نہ ہوں تو دوسری چھوٹی چھوٹی برائیاں ویسے ہی ختم ہو جاتی ہیں اور انسان خود بخود ان کو دُور کر لیتاہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’کسی شخص کے دل میں ایمان اور کفر نیز صدق اور کذب اکٹھے نہیں ہو سکتے اور نہ ہی امانت اور خیانت اکٹھے ہوسکتے ہیں‘‘

(مسند احمد بن حنبل جلد2 صفحہ349 مطبوعہ بیروت)

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اس شخص کو (عندالطلب) امانت لوٹا دو جس نے تمہارے پاس امانت رکھی تھی اور اُس شخص سے بھی خیانت نہ کرو جو تجھ سے خیانت کرتا ہے۔‘‘

(سُنن التّرمذی اَبوَابُ الْبُیُوْع)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ رسول اللہ نے صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہوتا ہے۔ وہ نہ اس کی خیانت کرتا ہے اور نہ اس سے جھوٹ بولتا ہے اور نہ اُسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے۔ ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کی عزت، اس کا مال اور اس کا خون حرام ہے۔ (حضورؐ نے دل کی طرف اشارہ کرکے فرمایا) تقویٰ یہاں ہے۔ کسی شخص کے شر کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔‘‘

(سنن الترمذی کتاب البرّ والصّلۃ)

قرض کی ادائیگی میں بلاوجہ کی تاخیر بھی خیانت ہے

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’فرمایا اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَالۡاِحۡسَانِ وَاِیۡتَآیِٔ ذِی الۡقُرۡبٰی وَیَنۡہٰی (النحل: 91)… مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض لوگ ان امور کی پرواہ نہیں کرتے اور ہماری جماعت میں بھی ایسے لوگ ہیں جو بہت کم توجہ کرتے ہیں، اپنے قرضوں کے ادا کرنے میں۔ یہ عدل کے خلاف ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو ایسے لوگوں کی نماز نہ پڑھتے تھے۔ پس تم میں سے ہر ایک اس بات کو خوب یاد رکھے کہ قرضوں کے ادا کرنے میں سُستی نہیں کرنی چاہئے اور ہر قسم کی خیانت اور بے ایمانی سے دُور بھاگنا چاہئے۔ کیونکہ یہ امرِ الٰہی کے خلاف ہے جو اس نے اس آیت میں دیا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ607 ایڈیشن 1988ء)

پھر حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’اللہ اس شخص کو سرسبزوشاداب رکھے جس نے ہم سے کوئی بات سنی اور اسے اسی طرح آگے پہنچایا کیونکہ بہت سارے ایسے لوگ جنہیں بات پہنچائی جاتی ہے وہ خود سننے والے سے زیادہ اسے یاد رکھنے والے ہوتے ہیں۔ تین امور کے بارہ میں مسلمان کا دل خیانت نہیں کرسکتا اور وہ تین یہ ہیں: خدا تعالیٰ کی خاطر کام میں خلوص نیت، دوسرا ہر مسلمان کے لئے خیرخواہی اور تیسرے جماعت مسلمین کے ساتھ مل کر رہنا۔

(سنن الدارمی المقدمہ باب الاقتداء بالعلماء حدیث نمبر 236مطبوعہ بیروت لبنان 2000ء)

انصاف کے تقاضے نہ پورا کرنا بھی خیانت ہے

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس بارے میں فرماتے ہیں۔
’’اب پہلی بات جواس میں بیان کی گئی ہے… کہ جو کام تم اللہ تعالیٰ کی خاطر کر رہے ہو اس میں ہمیشہ خلوص نیت ہونا چاہئے۔ جماعتی عہدے جو تمہیں دیے جاتے ہیں انہیں نیک نیتی کے ساتھ بجا لاؤ۔ صرف عہدے رکھنے کی خواہش نہ رکھو بلکہ اس خدمت کا جوحق ہے وہ ادا کرو۔ ایک تو خود اپنی پوری استعدادوں کے ساتھ اس خدمت کو سرانجام دو۔ دوسرے اس عہدے کا صحیح استعما ل بھی کرو۔ یہ نہ ہو کہ تمہارے عزیزوں اور رشتہ داروں کے لئے اور اصول ہوں، ان سے نرمی کا سلوک ہو اور غیروں سے مختلف سلوک ہو، ان پر تمام قواعد لاگو ہو رہے ہوں۔ ایساکرنا بھی خیانت ہے۔

عہدے کا غلط استعمال بھی خیانت ہے

پھر اس عہدے کی وجہ سے تم یا تمہارے عزیز کوئی ناجائز فائدہ اٹھانے والے نہ ہوں۔ مثلاً یہ بھی ہوتا ہے کہ چندوں کی رقوم اکٹھی کرتے ہیں۔ تو بہتر یہی ہے کہ ساتھ کے ساتھ جماعت کے اکاؤنٹ میں بھجوائی جاتی رہیں۔ یہ نہیں کہ ایک لمبا عرصہ رقوم اپنے اکاؤنٹ میں رکھ کر فائدہ اٹھاتے رہے۔ اگر امیر نے یامرکزنے نہیں پوچھا تو اس وقت تک فائدہ اٹھاتے رہے۔ یہ بالکل غلط طریقہ ہے اور اگر کبھی مرکز پوچھ لے تو کہہ دیا کہ ہم نے یہ رقم ادا کرنی تھی مگر بہانے بازی کی کہ یہ ہوگیا اس لئے ادا نہیں کرسکے۔ تو غلط بیانی اور خیانت دونوں کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں۔ شیطان چونکہ انسان کے ساتھ لگا ہواہے اس لئے ایسے مواقع پیدا ہی نہ ہونے چاہییں اور ان سے بچنا چاہیے۔

نظام جماعت کی پابندی نہ کرنا بھی خیانت ہے

پھر یہ ہے کہ اپنے بھائیوں کے کام آؤ، ان کے حقوق ادا کرو۔ پھر یہ بھی یاد رکھو کہ نظام جماعت کے ساتھ ہمیشہ چمٹے رہو، نظام کی پوری پابندی کرو۔ کسی بات پر اعتراض پیدا ہوتا ہے تو پھر آہستہ آہستہ وہ اعتراض انسان کو بہت دورتک لے جاتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ عہدے داروں سے بڑھ کر نظام تک اور پھر نظام سے بڑھ کر خلافت تک یہ اعتراض چلے جاتے ہیں۔ اس لئے اگر یہ کرو گے تویہ بھی خیانت ہے۔

پوشیدہ سازش بھی خیانت ہے

ایک اقتباس ہے علامہ شبلی نعمانی کاخیانت کے بارہ میں کہتے ہیں:۔
’’خیانت کے ایک معنی یہ ہیں کہ کسی جماعت میں شامل ہوکر خود اسی جماعت کو جڑ سے اکھاڑنے کی فکر میں لگے رہنا، چنانچہ منافقین جو دل میں کچھ رکھتے تھے اور زبان سے کچھ کہتے تھے، وہ ہمیشہ اسلام کے خلاف چھپی سازشوں میں لگے رہتے تھے مگر ان کی یہ چال کارگر نہیں ہوتی تھی اور ہمیشہ اس کا بھید کھل جاتا تھا۔ فرمایا وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلٰی خَآئِنَۃٍ (مائدہ: 3) اور ہمیشہ تو خبر پاتا رہتا ہے اُن کی ایک خیانت کی۔ یعنی ان کی کسی نہ کسی خیانت کی خبر رسول کو ملتی ہی رہتی ہے۔‘‘

غلط مشورہ بھی خیانت کے زمرے میں آتا ہے

پھر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے میری طرف ایسی جھوٹی بات منسوب کی جو مَیں نے نہیں کہی، تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے اور جس سے اس کے مسلمان بھائی نے کوئی مشورہ طلب کیا تو اس نے بغیر رشد کے مشورہ دیا تو اِس نے اُس سے خیانت کی۔

(مسند احمد بن حنبل جلد3 صفحہ244 مسند ابی ھریرۃ حدیث نمبر 8249 مطبوعہ بیروت 1998ء)

یعنی اگر تمام چیزوں کو سامنے رکھتے ہوئے صحیح رنگ میں مشورہ نہیں دیا تو یہ خیانت ہے۔ پس بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب دوسرے ان پر اعتبار کرتے ہیں، ان سے مشورہ طلب کرتے ہیں تو ان کو صحیح مشورے نہیں دیتے۔ امانت کا حق تو یہ ہے کہ اگر واضح طور پر کسی بات کا علم نہیں تو معذرت کر لیں اور اگر کسی بہتر مشورہ دینے والے کا پتا ہو تو اس کا پتہ بتا دیا جائے، اس طرف رہنمائی کر دی جائے۔

خیانت باطن کو خراب کردیتی ہے

بعض دفعہ جان بوجھ کرغلط طریقے سے غلط مشورہ دے دیا جاتاہے تو یہ بھی خیانت ہے تاکہ کسی کو نقصان پہنچ جائے۔ یہ بالکل نہیں ہونا چاہیے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا ما نگا کرتے تھے۔ اے میرے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں بھوک سے جس کا اوڑھنا بچھونا بہت برا ہے اور میں پناہ مانگتا ہوں خیانت سے کیونکہ یہ اندرونے کو خراب کردیتی ہے یا اس کی چاہت برے نتائج پیدا کرتی ہے۔

(نسائی کتاب الاستعاذة باب الاستعاذہ من الخیانۃ)

خائن اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں کرسکتا

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ خائن اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں کرسکتا۔

(کشتی ٔ نوح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ13)

پھر آپ نے فرمایا: جو شخص بدنظری سے اور خیانت سے، رشوت سے اور ہر ایک ناجائز تصرف سے تو بہ نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ … ہر ایک مرد جو بیوی سے یا بیوی خاوند سے خیانت سے پیش آتی ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ18-19)

پھر آپؑ عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’خیانت نہ کرو۔ گِلہ نہ کرو۔ ایک عورت دوسری عورت یا مرد پر بہتان نہ لگاوے۔‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ81)

مجالس کی امانت میں خیانت

بعض عورتوں کو عادت ہوتی ہے کہ ہمدرد بن کر دوسری کسی شریف عورت کے گھر جاتی ہیں، اس سے باتیں نکلواتی ہیں، دوستیاں قائم کر تی ہیں اور پھر مجلسوں میں بیان کرتی پھرتی ہیں۔ تو اس قسم کے لوگ چاہے مرد ہوں یا عورت (عورتوں کو زیادہ عادت ہوتی ہے) وہ بھی مجالس کی امانت میں خیانت کرنے والے ہوتے ہیں۔ ہر احمدی کو ان باتوں سے بھی اپنے آپ کو بچاکر رکھنا چاہیے۔

’’خدا کے واحد ماننے کے ساتھ یہ لازم ہے کہ اس کی مخلوق کی حق تلفی نہ کی جاوے۔ جو شخص اپنے بھائی کا حق تلف کرتاہے اور اس کی خیانت کرتا ہے وہ لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا قائل نہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد5 حاشیہ صفحہ91 ایڈیشن 1988ء)

چندوں میں خیانت

پھر آپ نے چندوں کے بارہ میں فرمایا:
’’ہم یہ ہرگز نہیں کہتے کہ ماہواری روپے ہی ضرور دو، ہم تو یہ کہتے ہیں کہ معاہدہ کرکے دو جس میں کبھی فرق نہ آوے۔ صحابہ کرامؓ کو پہلے ہی سکھایا گیا تھا لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْن (آل عمران: 93)۔ اس میں چندہ دینے اور مال صرف کرنے کی تاکید اور اشارہ ہے۔ یہ معاہدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاہدہ ہوتا ہے اس کو نباہنا چاہئے۔ اس کے برخلاف کرنے میں خیانت ہوا کرتی ہے۔ کوئی کسی ادنیٰ درجہ کے نواب کی خیانت کرکے اس کے سامنے نہیں ہوسکتا تو احکم الحاکمین کی خیانت کرکے کِس طرح سے اپنا چہرہ دکھلا سکتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ361 ایڈیشن 1988ء)

(خطبہ جمعہ 6؍فروری 2004ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

دوسروں کے مال پر تصرف بھی خیانت ہے

غزوۂ خیبر کے موقع پر یہود شکست کے بعد پسپا ہوئے۔ مسلمانوں کو طویل محاصرہ کے بعد فتح عطا ہوئی۔ بعض مسلمانوں نے جو کئی دنوں سے فاقہ سے تھے یہود کے مال مویشی پر غنیمت کے طور پر قبضہ کر کے کچھ جانور ذبح کئے اور ان کا گوشت پکنے کے لئے آگ پر چڑھادیا۔ نبی کریم کو خبر ہوئی تو رسول کریم نے اسے سخت ناپسند فرمایا کہ مال غنیمت میں باضابطہ تقسیم سے پہلے یوں تصرف کیوں کیا گیااور اسے آپؐ نے خیانت پر محمول فرمایا۔ آپؐ نے صحابہ کو امانت کا سبق دینے کے لئے گوشت سے بھرے وہ سب دیگچے اور ہنڈیاں الٹوادیں پھر صحابہؓ کے مابین خود جانور تقسیم فرمائے اور ہر دس آدمیوں کو ایک بکری دی گئی۔دوسری روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ اموال پر زبردستی قبضہ جائز نہیں۔

(مسند احمد جلد4 صفحہ88)

افواہ پھیلانا خیانت کے مترادف ہے

معاشرہ میں رہنے والے ہر انسان کا حق ہے کہ اسے درست معلومات تک رسائی ہو۔ جبکہ افواہ پھیلانے والا اس بنیادی حق کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے اور دوسروں کے حقوق میں دخل اندازی کر کے بددیانتی اور خیانت کا مرتکب ہوتا ہے۔ حدیث مبارکہ ہے:
’’یہ بہت بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے ایک بات بیان کرو جسے وہ تو سچ جانے اورتم خود اس سے جھوٹ کہو۔‘‘

اس سے بڑی خیانت اور کیا ہوگی کہ لوگ آپ کی بات کوسچ سمجھ رہے ہوں جبکہ وہ بے بنیاد ہو۔ ایسا کر کے ہم اپنی بددیانتی پر مہر لگاتے اور دوسروں کی تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔

خیانت کی دیگر صورتیں

لجنہ اماء اللہ برطانیہ کے نیشنل سالانہ اجتماع 2008ء کے موقع پر سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’پھر خیانت ہے۔ یہ ایک بہت بڑی برائی ہے۔ جو عُہدیدار ہیں ان کا اپنے عہدوں کا صحیح استعمال نہ کرنا، یہ خیانت ہے۔ راز کو راز نہ رکھنا، یہ خیانت ہے۔ ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے ہیں وہاں کسی کے متعلق بات سن کے اس کو آگے پھیلا دینا، یہ خیانت ہے۔ باریکی میں جا کر اگر اپنے جائزے لیں تو تمام برائیوں سے پاک ہونے کی جب ہم کوشش کریں گے تو ایک ایسا حسین معاشرہ ابھر کر سامنے آئے گا جس میں ہر طرف پیار اور محبت بکھری ہو گی۔ تمام لڑائیاں اور رنجشیں ختم ہو چکی ہوں گی۔ پس یہ خوبیاں ہیں جو ہم نے اپنے اندر پیدا کرنی ہیں۔ جب اس طرح ہم کریں گے تبھی ہم امانت کا صحیح حق ادا کرنے والے ہوں گے، جو ہمارے سپرد کی گئی ہیں اور پھر یہی باتیں جو ہیں وہ ایمان میں بھی کامل کرتی ہیں اور ایمان کامل ہو گا تو تبھی آپ حقیقی باندیاں اور لونڈیاں کہلائیں گی، تبھی اللہ تعالیٰ کی حقیقی لجنہ کہلائیں گی۔‘‘

اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی مومن بننے اور ہر قسم کی خیانت سے بچنے کی توفیق دے۔ آمین

(درثمین احمد۔جرمنی)

پچھلا پڑھیں

کیوں نہ جائیں ہم ان سب پے قرباں

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی