• 20 اپریل, 2024

تماشق اور ہاوٴسا احمدی قبائل کی ایمان افروز داستانیں (قسط دوم)

تماشق اور ہاوٴسا احمدی قبائل کی ایمان افروز داستانیں
قسط دوم

وہابی علما کی مزید اندھی مخالفت اور جماعتی ترقیات

ہمارے توروڈی کے مبلغ سلسلہ قریشی صاحب کا ایک روز توروڈی ڈیپارٹمنٹ کے گاوٴں بن جیتی میں تبلیغی پروگرام تھا یہ گائوں بورکینا فاسو بارڈر کے قریب شاہراہ سے 25 کلو میٹر دور جنگل میں واقع ہے۔ گاؤں کے امام صاحب ایک ساتھی سمیت سڑک پر کھڑے ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ گاؤں میں پہنچ کر ہم نے نماز مغرب ادا کی۔ کافی سارے لوگ جمع تھے۔ خاکسار نے تبلیغ شروع کی۔ معلم صاحب لوکل زبان میں ترجمہ کر رہے تھے۔ جب خاکسار آیت وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ کی تفسیر میں حدیث پیش کر رہا تھا۔ قریب کے گاؤں سے آئے ہوئے امام صاحب کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے یہ سب جھوٹ ہے مرزا قادیانی صاحب نعوذ باللّٰہ جھوٹے ہیں اور یہ جماعت کافر ہے اور گالیاں دینا شروع کر دیں۔ میں نے ان کو کہا۔ دیکھیں! اس گاؤں والوں کی دعوت پر ہم یہاں آئے ہیں۔ آپ ہماری بات سن لیں اس کے بعد آپ کو موقع ملے گا۔ آپ سوالات کریں ہم جوابات دیں گے۔اگر آپ کو ہمارا پیغام اچھا لگے تو خوب، نہیں تو رد کر دیں۔ جبر والی تو کوئی بات نہیں ہے۔بہر حال وہ امام اہل حدیث تھا جو قریب کے گاؤں سے اپنے کچھ ساتھیوں کے ہمراہ آیا تھا۔اس کے ساتھی وغیرہ اٹھ کر ادھر ادھر باتیں کرنے لگے۔متعلقہ گائوں کے امام نے ہمیں کہا آپ تھوڑا صبر کریں معاملہ ٹھیک ہو جائے گا۔امام صاحب نے ان سے کہا اگر آپ تبلیغ نہیں سننا چاہتے تو چلے جائیں ہمیں تو سننے دیں۔ 10منٹ کے بعد وہ امام اپنے رفقا کے ہمراہ گالیاں دیتے ہوئے موٹر سائیکلوں پر اپنے گاؤں روانہ ہو گیا۔ متعلقہ گاؤں کے امام صاحب نے بتایا کہ وہ شر پسند امام تھا اور صرف فتنہ پھیلانے کے لیے آیا تھا۔وہ ہمیں بھی روکتا تھا مگر ہم نے اس کی بات نہیں مانی اور آپ کو دعوت دی۔ بہر حال اس کے بعد تمام پروگرام مردو خواتین نے بڑی توجہ سے سنا۔تبلیغ کے ختم ہو نے پر امام صاحب کہنے لگے کہ جو کچھ آپ نے بیان کیا ہے بالکل درست ہے۔ وہ کہنے لگے کافی عرصہ قبل آپ کی جماعت کے مبلغ ناصر احمد سدھو صاحب بورکینا سے ہمارے پاس تشریف لائے تھے۔انہوں نے ہمیں تبلیغ کی مگر پھر رابطہ نہ ہو سکا۔ پھر ہمیں دو کتب نسال الالمعارضین اور القول الصریح ملی۔ ہم دونوں اماموں نے بیٹھ کر لفظ بلفظ پڑھی اور اپنے گاؤں کو بھی خلاصۃً بتائی۔ہم سب ان باتوں سے متفق تھے لیکن پڑھنے کے بعد یہ باتیں آپ کے منہ سے بھی سننا چاہتے تھے۔آج سے ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ اللہ کے فضل سے یہ سارا گاؤں احمدی ہو گیا۔

وہابی مولوی کی مخالفت
اور خدائی تائید کا حیرت انگیز نشان

یہ فروری 2014ء کی بات ہے مارادی ریجن میں نو مبائع امام حضرات کی ٹریننگ کلاس میں 10 امام حضرات کے ساتھ ایک گاؤں wagona کے چیف بھی حاضر تھے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ امام صاحب کی بجائے خود کیوں حاضر ہوئے ہیں یہ کلاس تو امام حضرات کی ٹریننگ کے لئے ہے تو انہوں نے بتایا کہ میں جانتا ہوں۔ کل رات جب میں نے امام صاحب کو کلاس میں شامل ہونے کا پیغام دیا تو اس نے انکار کردیا اور بتایا کہ مجھے شہر کے وہابی علمانے بتایا ہے کہ احمدی کافر ہیں کہتے ہیں مجھے بڑی حیرانی ہوئی اور دکھ بھی ہوا کہ احمدی کافر کیسے ہو سکتے ہیں ؟ اور یہ کہ اگر یہ کافر ہیں تو ان کو گاؤں میں تبلیغ کرنے کی اجازت تومیں نے دی تھی اس لئے میں تو ڈبل کافر ہو گیا۔ اس لئے رات کو بہت دعا کی اور اللہ سے راہنمائی کی دعا کرتے ہوئےسو گیا۔ انہوں نے حلفیہ بیان کیا کہ رات میں نے خواب میں دیکھا کہ پہلے میرے گھر میں آسمان سے ستارے اتر آئے ہیں اور پھر ان کے پیچھے پیچھے چاند۔ میں ان کو پاس سے دیکھ رہا ہوں مگر ان میں روشنی نہیں ہے اور پھراچانک آسمان سے ایک سفید کپڑوں میں ملبوس ایک انتہائی نورانی شخصیت میرے گھر میں اترتی ہے اور اس کے گھر میں داخل ہوتے ہی ستارے اور چاند حیرت انگیز طور پر روشن ہو گئے اور سارا گھر روشنیوں سے جگمگا اٹھا اور میرے دل میں یہ بات زور سے داخل ہوگئی کہ یہ تو احمدیوں کی کوئی شخصیت ہے اور میں آگے بڑھ کر ان سے سوال کرتا ہوں کہ آپ احمدیوں کے مربی ہیں یا خلیفہ؟ اور میری آنکھ کھل گئی۔ خاکسار نے ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے احمدیت کا البم دکھا یا تو انہوں نے فوری طور پر اپنی انگلی حضرت اقدس خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی فوٹو پر رکھ دی اور بار بار قسمیں کھا کر بتانے لگےکہ انہیں کو میں نے اپنے گھر میں آسمان سے اترتے دیکھا تھا اور انہیں کی آمد سے میرا سارا گھر روشن ہو گیا تھا۔ جماعت احمدیہ کی سچائی کے بارے میں پہلے اگر مجھے کچھ شک بھی تھا تو وہ بھی آج دور ہو گیا ہے۔

یہ دسمبر 2013ء کی بات ہے، دسمبر کے شروع میں ہم نے ایک گاؤں sawa samea (سوا سامعا) میں تبلیغ کی۔ اس کے بعدان کے 8 رکنی وفدکو مارادی مشن ہاؤس بلا کر مزید 2 دن جماعت کا تفصیلی تعارف کروایا۔ mta اور پیارے آقا کی پوری دنیا میں پھیلی تبلیغی اور تربیتی مصروفیات پر مبنی جہاد سے متعارف کروایا۔ پھراسی دوران جلسہ سالانہ نائیجرآگیا اس میں بھی ان کو شمولیت کی دعوت دی۔ اس گائو ں کا وفد نیامی دارلحکومت میں جلسہ میں شامل ہوا۔ اسی گاؤں سے تعلق رکھنے والی ایک فیملی جو نیامی میں رہائش پذیر تھی ان کو جب پتہ چلا تو وہ رات کو آکر اس وفد کو اپنے گھر دعوت کے بہانے لے گئے اور وہاں پر اپنے بڑے امام صاحب کو بھی بلوایا ہو ا تھا۔ یہاں اس نے پورا زور لگا کر ثابت کرنے کی کوشش کی کہ احمدی تو کافر ہیں اور آپ کہاں پھنس گئے ہیں فوراً توبہ کریں ہم آپ کی مسجد بھی بنا کر دیں گے۔

امام صاحب نے واپس مارادی مشن ہاؤس آکر اس ملاقات کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ میں نے وہابیوں کے امام صاحب کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ کی اس مخالفانہ تقریر کے بعد جماعت احمدیہ کی سچائی کے بارے میں پہلے اگر مجھے کچھ شک بھی تھا تو وہ بھی آج دور ہو گیا ہے۔ کیونکہ میں جب سے یہاں آیا ہوں آپ کو گالی دیتے سنا ہے اور میں جب تک وہاں جلسہ گاہ میں رہا احمدیوں کو قرآن سناتے سنا اور میں آپ کو کہتا ہوں کہ اگر ساری دنیا کے مسلمان احمدی ہو جائیں یا کم از کم احمدیوں جیسے ہو جائیں تو دنیا میں فوری فوری امن آجائے گا۔ وہابی مولوی صاحب نے اِس پر پینترا بدلا اور کہا کہ اچھا اگر احمدیت نہیں چھوڑنی نہ چھوڑو لیکن گاؤں پہنچ کر میرا یہی پیغام اپنے گاؤں والوں تک پہنچا دینا۔ وہ کہتے ہیں واپس گاؤں پہنچ کر میں نے حسبِ وعدہ وہابی مولوی صاحب کا پیغام گاؤں والوں کودیا تو ان سب کا جواب یہی تھا کہ ہمیں صرف احمدیت کا محبت بھرا رستہ چاہیے ناں کہ وہابیت کا گالیوں والا راستہ۔ امام صاحب نے بتایا کہ مجھے سارے گاؤں والوں نے بھجوایا ہے وہ بیعت کرنا چاہتے ہیں آپ ہمیں بیعت فارم دے دیں۔ چنانچہ ان کو بیعت فارم دے دیے گئے جسے وہ پر کر کے اللہ کے فضل سے جماعت میں شامل ہوگئے ہیں۔ اب یہ گاوٴں ایک مخلص جماعت ہے۔

اگر احمدیت سچی ہے تو آج اللہ بارش برسائے

یہ اکتوبر 2010ء کی بات ہے مارادی ریجن کے مبلغ قریشی صاحب بتاتے ہیں کہ 24؍اکتوبر 2010ء کو ایک دیہات جس کا نام (گڑھیں سامی) ہے میں عقیقہ کی ایک تقریب تھی۔ اس عقیقہ پر بہت سے وہابی مولوی بھی شامل ہونے کے لئے آئے ہوئے تھےاور چونکہ اس دیہات کے امام صاحب ہمارے ایک تبلیغی پرو گرام میں شامل ہوئے تھے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ احمدیت کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور انہوں نے تمہیں پیسے دے کر اپنی طرف مائل کر لیا ہے، اس پر ان امام صاحب جن کا نام معلم یعقوب ہے نے انہیں جواب دیا کہ جب ہم مارادی گئے تو انہوں نے ہمیں کوئی ایسی بات نہیں کہی جو قرآن و حدیث سے باہر ہو اور انہوں نے ہمیں امام مہدی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کی آمد کا پیغام دیا ہے اور اگر تم کہتے ہوکہ میں احمدیوں کے ہاتھوں بک گیا ہوں تو پھر میں کہتا ہوں کہ اگر یہ مہدی سچا ہے تو اللہ تعالیٰ آج با رش برسائے اور ہم سب کو اس کی سچائی کا نشان دکھائے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیا رے مہدی کی صداقت ظاہر کرنے کے لئے اسی شام اس پو رے علاقے میں میلوں تک بارش برسائی اور ارد گرد کے جتنے دیہاتوں کے امام اور احباب اس پروگرام میں شامل تھے سب کے دیہاتوں تک بارش پہنچائی اور 80 ملی میٹر ریکارڈ بارش ہوئی جب کہ نائیجر میں 15؍ستمبر تک بارشوں کا موسم ختم ہو جاتا ہے۔چنانچہ ان امام صاحب نے اسی شام ہمارے مشن ہاؤس فون کیا او رہمارے معلم کو یہ سارا واقعہ بیان کرنے کے بعد کہا کہ ہم پر اللہ تعالیٰ نے احمدیت کی سچائی ظاہر کردی ہے میں آج سے احمدیت میں داخلے کا اعلان کرتا ہوں اور میں مرتے دم تک احمدیت پر قائم ر ہنے کا عہد کرتا ہوں اور انہوں نے ہمارے معلم صاحب کو صبح اپنے گاؤں آنے کی دعوت دی کہ وہ آکر سب لوگوں کو احمدیت کا تفصیلی پیغام دیں، چنانچہ اگلے دن تبلیغ کے بعد سارے گائوں نے احمدیت میں شمولیت کا اعلان کیا۔ الحمد للّٰہ

شہدائے لاہور کے خون کی برکت نائیجر میں

یہ 20؍جون 2010ء کی بات ہے ہم لوگ اماموں کے ایک بڑےوفد کے ساتھ سر کاکی گاؤں میں پہنچے ہوئے تھے، رات گائوں میں تبلیغ کی اور رات ا سی گاؤں میں قیام کیا صبح جب ہم نے گاؤں والوں سے واپسی کی اجازت چاہی تو انہوں نے ہمیں رکنے کے لئے کہا اور بتایا کہ بارش کا موسم شروع ہوچکا ہے اور ارد گرد کے دیہاتوں میں لوگوں کی فصلیں اگنےکے بعد قریباً ایک فٹ تک پہنچ چکی ہیں اور ہمارے یہاں اب تک ایک بھی بارش نہیں ہوئی اور ہم نے اب تک بیج بھی نہیں لگایا اس لئے ہم نے بڑے امام کو دعوت دی ہے کہ وہ آکر دعا کروائے اور ہم چاہتے ہیں کہ آپ بھی اس دعا میں شامل ہوں۔چنانچہ گاؤں سے باہر کھلی جگہ پر سب لوگ اکھٹے ہو گئے تو خاکسار نے بڑے اما م صاحب سے پوچھا کہ وہ کیسے دعاکروائیں گے انہوں نے کہا کہ پہلے ہم قرآن کریم کی تلاوت کریں گے اور پھر ہاتھ اٹھا کر دعا کریں گے۔اس پر خاکسار نے ان سے کہا کہ ہمیں وہ طریق اختیار کرنا چاہئے جو کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا یعنی نماز استسقا اور اگر آپ اجازت دیں تومیں نماز استسقا پڑھا سکتا ہوں کیو نکہ یہ امام صاحب نیک فطرت انسان تھے چنانچہ انہوں نے خاکسار کو نماز پڑھانے کی اجازت دے دی چنانچہ خاکسار نے پہلے سب لوگوں کو نماز کا طریق بتایا اور نمازپڑھائی اوراس دوران دعا کی کہ اے پروردگار! میں انتہائی گناہ گار تیرا عاجز بندہ ہوں لیکن مجھے تیرے بھیجے ہوئے امام مہدی اور مسیح موعود پر کامل اور پختہ یقین ہے اور اسی امام مہدی کا پیغام لے کر آج ہم یہاں پہنچے ہیں تو نے ہمیں اپنے فضل سے یہ موقع عطا فرمایا ہے اور اگر تو اپنے خاص فضل سے آج یہاں بارش برسا دے تو یہ ان کے لئے قبول حق کا ایک نشان ہو جائے گا اور یہ نشان تیرے مسیح ومہدی پر ایمان لانے کا باعث ہو سکتا ہے یا اللہ جس طرح ہمارے احمدی بھائی لاہور میں شہید ہوئے ہیں تو ان کی قربانیوں کے نتیجے میں یہ نشان دکھاتے ہوئے ہمیں یہاں پر سینکڑوں ہزاروں احمدی عطا فرما آمین۔ نماز کے بعد دعا کروائی اور پھر خاکسار نے گاؤں کے تمام لوگوں کو زیادہ سے زیادہ استغفار کرنے کی تلقین کی، چنانچہ جب ہم وہاں سے روانہ ہوئے تو چلچلاتی دھوپ تھی اور بارش کے کوئی آثارنہ تھے اس کے بعد مزید دو دیہاتوں میں تبلیغ کی اور را ت کو گھر واپس پہنچا اوررات اچانک شدید بارش ہوئی چنانچہ صبح ہی صبح معلم صاحب نے اطلاع دی کہ اس گاؤں اور ارد گرد رات بھر بارش ہوتی رہی اوراس پر بڑے امام نے کہا ہے کہ ہم نے امام مہدی کی صداقت کا معجزہ دیکھاہے اور آج سے ہم سب احمدیت پر ایمان لاتے ہیں اور اس طرح اس گاؤں سےایک ہزار ایک سو اٹھارہ (1,118) بیعتیں ہوئیں الحمدللّٰہ علیٰ ذالک اور مزید یہ کہ اس امام نے ہمارے معلم سے کہا کہ وہ آئے تا کہ وہ اس کے ساتھ اپنے ما تحت تمام دیہاتوں میں جاکر لوگوں کو امام مہدی کی آمد کا پیغام دے چنانچہ ہمارے معلم سلیمان صاحب اور یہ امام 48کلو میٹر دور امام صاحب کے آبائی گاؤں پہنچے اور وہاں ان امام صاحب نے گزشتہ واقعہ کا ذکرکر کے وہاں کے لوگوں کو احمدیت کا پیغام دیتے ہوئے کہا کہ اگر تم میری بات پر یقین کرو تو میں تمہیں کہتا ہوں کہ یہاں پر بھی دو دن کے اندر بار ش ہو گی چنانچہ اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و کرم کے ساتھ اس نے اپنے بھیجے ہوئے امام مہدی کی صداقت ظاہر کرنے کے لئے اگلے روز اس گاؤں میں بھی اپنی رحمت کی موسلا دھار بارش برسائی جو ان لوگوں کے لئے احمدیت کی صداقت کا نشان ثابت ہوئی ا ور جہاں اس طرح امام صاحب کے ایمان کو مزید تقویت پہنچی وہاں دو بار بارش کا یہ واقعہ ہمارے ازدیاد ایمان کا با عث بھی ہوا۔ ثمّ الحمدللّٰہ علیٰ ذالک۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’پس کیا حال ہے ان کا جب ایسی حالت میں مریں گے کیا ان کے تیردان میں کوئی تیر باقی رہ گیا ہے؟ یا ان کے دلوں میں کوئی خصومت باقی ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ خدا نے ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور اب تو ایک حرکت مذبوحی ہے۔ کیا نہیں دیکھتے کہ کیسے وہ وقتاً فوقتاً لاجواب کیے جاتے ہیں اور ہر ایک سال باجود متکبرانہ رقص کے ذلیل کئے جاتے ہیں اور ان کے بادل بغیر پانی کے نکلے اور ان کے برگزیدہ لئیم ثابت ہوئے اور ان کی روشنی اندھیرا اور ان کے دل بے عقل اور بے ادب ثابت ہوگئے۔ پس کس نشان پر اس کے بعد ایمان لائیں گے۔ کیا میرے خدا نے مجھے اس محل پر نہیں اتارا جو مرادیابی کا محل ہے اور مجھے بیقراریوں کی آگ سے خوشی کی آسائش تک پہنچایا اور میری تائید کی اور میری مدد کی اور ہر ایک جو میری ذلت چاہتا تھا اس کو ذلیل کیا اور مجھے عید دکھلائی اور وعدوں کو پورا کیا اور ہر ایک آنکھ کھولنے والے کیلئے فتح کو دکھلا دیا اور کیونکر اور کہاں کے قصہ کو لپیٹ دیا اور منکروں پر حجت پوری کر دی۔ پس اس خدا کی تعریف ہے کہ بغیر میری تدبیر کے میرے لئے کافی ہوگیا اور مجھ میں اور میرے مخالفوں اور دوستوں اور دشمنوں میں ایک امر فارق پیدا کردیا۔‘‘

(روحانی خزائن جلد12 صفحہ191)

(اصغر علی بھٹی۔ سابق مبلغ بر کینا فاسو)

پچھلا پڑھیں

کیوں نہ جائیں ہم ان سب پے قرباں

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی