• 27 جولائی, 2024

آپ بڑے پاک مقصد کے لئے قادیان جا رہی ہیں

خاکسار نے محترم ایڈیٹر صاحب روزنامہ الفضل آن لائن کو جب قادیان جلسہ سالانہ 2022ء میں شمولیت کے لئے سفر کا آغاز کرتے وقت اطلاع دے کر سفر و حضر میں بخیریت رہنے کے لئے دعا کی درخواست کی تو آپ کے وائس میسج میں یہ فقرہ کہ ’’آپ بڑے پاک مقصد کے لئے قادیان جا رہی ہیں‘‘ بے ساختہ میر ی بچپن سے اب تک کی قادیان سے جڑی ہر یاد کو اس قدر تازہ کر گیا کہ باوجود اس کے کہ میں نے حال ہی میں آپ کو ایک خط لکھا ہے میں پھر آپ کو خط لکھنے بیٹھ گئی۔

انسان جب دنیا میں پیدا ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ رشتوں کو سمجھتا ہے، تعلقات قائم کرتا ہے تو اس کی خوشیوں اور کامیابیوں میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ لیکن جب اس کو سمجھ آتی ہے کہ اس کو ملنے والی ہر خوشی اور ہر کامیابی محض خدا کے فضل سے وابستہ ہے تو پھر شروع ہوتا ہے خدا تعالیٰ سے محبت کا سلسلہ۔

خدا تعالیٰ کی ذات سے آشنائی انسان کو اس مادی دنیا سے غافل کر دیتی ہے اور وہ انسان اپنا تمام وقت خدا کی خوشنودی کی تلاش میں صرف کرنا شروع کر تا ہے اور اسی رضا کے حصول میں کوشاں شخص کی نظر اپنی جب اپنی کمزوریوں پر پڑنا شروع ہوتی ہے تو پھر وہ یکے بعد دیگرے ان کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش میں اپنا وقت صرف کرتا ہے۔

کہتے ہیں محبوب کی ہر چیز سے محبت ہو تی ہے۔ سو یہ سلسلۂ محبت کچھ یوں پروان چڑھنا شروع ہوتا ہے کہ محبت کی ابتدا نبیوں کے سردار حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق پھر آپ کے غلام صادق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم سے محبت سے ہوتی ہے۔ وہ مسیح پاک جس کی تعلیم نے ہر احمدی کو خدا شناسی کا فن سکھا کر خدا سے ملا یا اور پھر خدا نما انسان بنایا۔

اس کے ساتھ ہی سمجھ آتا ہے قادیان آنے کا مقصد۔ قادیان کی اہمیت و احترام کو ایک احمدی سے زیادہ کون سمجھ سکتا ہے۔ مسیح پاک ؑکی مقدس بستی جس میں داخل ہونا خوش نصیبی ہے۔ اس مقدس بستی کا سفر مجھے میرے خاندان کے بزرگوں کی بھی یاد دلاتا ہے۔ جن کی قربانیوں کے ثمرات ہمیں آج تک حاصل ہو رہے ہیں۔

سر فہرست میرے پردادا جان لیفٹیننٹ محمد ایوب خانؓ جنہوں نے 1906ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی اور اپنے خاندان کو احمدیت کا تحفہ دیا۔ آپؓ کی یادگار نمبر 793 بہشتی مقبرہ میں ہے۔ آپؓ کا وصیت نمبر 2892 ہے۔ آپؓ کی وفات 15؍اکتوبر 1956ء کو ہوئی۔

اس کے بعد میرے دادا، صاحب داد خان ؓجو کہ داروغہ تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملاقات و بیعت کے وقت اپنے والد کے ہمراہ محض 6سال کے تھے۔ انہوں نے اپنے والد محترم کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر خود بھی جام احمدیت پیا اور اپنے اہل خانہ کو بھی پلایا۔ کیونکہ اس وقت احمدیت اتنی پروان نہیں چڑھی تھی کہ احمدیوں کے خاندانوں کے درمیان آپس میں رشتے ہو سکیں۔ لہٰذا میرے دادا کی شادی ایک غیر احمدی خاتون سے ہو گئی۔ لیکن جب ان کی تین بیٹیاں غیر احمدی گھرانوں میں بیاہی گئیں اور پھر ان کے خاوندوں نے انہیں ملنے نہ دیا تو دادا نے میرے والد حاجی ظفر عالم خان جو کہ کانپور ٹیکسٹائل مل میں سپر وائیزر تھے۔ ان سے عہد لیا کہ وہ اپنی اور دونوں بہنوں کی شادی احمدی خاندان میں ہی کریں گے۔ جون 1974ء میں میرے والد صاحب کی شادی محمد مجید صولیجہ کی بیٹی حسن پروین سے ہوئی۔ دادا جان کا انتقال 4؍دسمبر 1974ء کو ہوا۔ مرحوم موصی تھے۔ ان کی یادگار نمبر 835 بھی بہشتی مقبرہ میں ہےاور ان کا وصیت نمبر ہے 13814۔

والد محترم ہماری پیدائش سے لے کر تاحیات ہمیں ہر سال قادیان دارالامان کی مقدس بستی میں جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لئے لاتے رہے اور والدہ صاحبہ والد کی وفات کے بعد ریٹائرمنٹ سے دو سال قبل استعفیٰ دےکر مکمل طور پر قادیان میں رہائش پذیر ہوئیں۔

والدہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے شہر کی آرام دہ زندگی کو چھوڑ کر نہایت سادگی اور کفایت شعار ی سے قادیان میں زندگی بسر کی تاکہ میری پانچوں بچیاں قادیان آتی جاتی رہیں۔

والد صاحب جب فوت ہوئے تو اس وقت صرف ہم دو بہنوں کی شادیاں ہوئیں تھیں اور تین بہنیں پڑھ رہی تھیں۔ والدہ کے کندھوں پر بڑی بھاری ذمہ داری تھی سب نے کہاکہ والد مرحوم کی تدفین کانپور میں ہی کروا دیجیے۔ قادیان جانے میں کافی خرچ ہوگا اور بچیوں کا ساتھ ہے۔لیکن والدہ نے کہا۔ نہیں! میرے شوہر نے مجھ سے اور میں نے ان سے وعدہ لیا تھا کہ تدفین بہشتی مقبرہ میں ہو۔ لہٰذا انتظام کروائیں بچیوں کی قسمت کا خدا ان کو دے گا اور والدہ کے فیصلہ کو عمل کا جامہ پہنانے کے لیے میں اور میری چھوٹی بہن سعدیہ، میرے ماموں محمد معید صولیجہ کچھ احمدی افراد جن میں سے ایک عرفان خان صاحب جو اب میرے سب سے چھوٹے بہنوئی ہیں۔ہم سب والد کی میت کو لے کر قادیان کے سفر پر نکل پڑے۔ والد صاحب صدر جماعت اور امیر جماعت کانپور بھی رہے تھے۔ ان کی دور صدارت میں مشن ہاؤس میں ٹین شیڈ تھا اور وہ ہمیں جماعت کی ترقی کے لئے مالی قربانی کے حوالے سے سمجھایا کرتے تھے۔

ان کی چھوٹی بہن یعنی ہماری پھوپھی ثروت جبیں مرحومہ جو کہ بہت سال تک صدر لجنہ کانپور بھی رہیں ہیں۔ غیر شادی شدہ تھیں۔ ان کا انتقال والد کے انتقال کے ایک سال بعد ہوا۔ تو بھی والدہ صاحبہ نے نہایت ہمت اورانصاف سے فیصلہ لیا اور ان کی تدفین بھی خود بہشتی مقبرہ قادیان میں کروائی۔

والد صاحب حاجی ظفر عالم خان کا وصیت نمبر ہے14494 اور آپ کا انتقال 13؍مارچ 2003ء کو ہوا۔

میرے نانا محمد مجید صولیجہ مرحوم چپلوں کا کاروبار کرتے تھے۔ ان کے چھوٹے بھائی کو سفر کے دوران احمدیت کے بارے میں علم ہوا تو ان دونوں نے وہیں سے قادیان کا رخ کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی کو سمجھ کر بیعت کی اور اپنے تمام خاندان کے قطعہ تعلق کی بھی پرواہ نہ کی اور اپنے سبھی بچوں، ایک بیٹااور سات بیٹیوں کی شادیاں احمدی گھرانوں میں کیں۔ جب کہ میری نانی مرحومہ نے ان کی زندگی میں وصیت نہیں کی تھی مگر ان کی وفات کے بعد وصیت کی اور ان کی تدفین بھی بہشتی مقبرہ میں ہی ہوئی ہے۔

قادیان کا سفر مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام، آپ ؑکے خلفاء، آپ کے صحابہ ؓکے ساتھ میرے خاندان کےان سبھی بزرگان کی قربانیوں کی بھی یاد دلاتا ہے۔ ان کے لئے دل کی گہرائیوں سے دعائیں نکلتی ہیں کہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے ہمارے لئے اس بیش بہا خزانے کو چنا۔ اس کی آبیاری کی اور ہمارے دلوں میں اس کی محبت کو اس قدر بٹھایا کہ ہم بھی اس سے فائدہ حاصل کرنے والے ہوئے۔یہ محض ہمارے بزرگوں کی دعاؤں کا پھل ہے۔اللہ تعالیٰ ان سبھی کو اجر عظیم عطا فرمائے۔آمین

(فوزیہ گل۔ جےپور، راجستھان انڈیا)

پچھلا پڑھیں

کیوں نہ جائیں ہم ان سب پے قرباں

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی