• 30 اپریل, 2024

پیارے امام کا پیغام عہدیداران کے نام

پیارے امام کا پیغام عہدیداران کے نام
لوگوں کے حقیقی خادم بن کر ان سے ذاتی تعلقات قائم کریں

ورچوئل ملاقاتوں میں ایک دوست نے عرض کی کہ بعض لوگ جو جماعتی پروگراموں میں کم آتے ہیں ان کوبسا اوقات عہدیداروں سے بے اعتمادی اور ناراضگی ہوتی ہے۔ اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے نہایت اہم نصائح فرمائیں جنکا خلاصہ یہ ہے کہ

  • عہدیدار ہمیشہ سَيِّدَ الْقَوْمِ خَادِمُهُمْ (فیض القدیر حرف سین) کے ارشاد کے مطابق اپنے آپ کو جماعت کا خادم سمجھیں۔
  • کسی شخص کی خوشنودی حاصل کرنے کی بجائے لوگوں کی خدمت کر کے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
  • لوگوں سے ہمیشہ نرمی اور پیار سے بات کریں۔
  • لوگوں کے رازوں کو راز رکھیں۔ اس سے لوگوں میں اعتماد پیدا ہو گا۔
  • تمام احباب جماعت سے رابطہ رکھیں۔حلقے اس لئے بنائے گئے ہیں کہ چار پانچ سو احباب کے ساتھ آسانی سے رابطہ رکھ سکیں۔
  • لوگوں کو سمجھائیں کہ اگر دارالقضا ء کے بارے تحفظات ہیں تو قضاء میں اپیل در اپیل کر سکتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر فیصلہ مان لینا چاہئے یہ تبھی ہو گا جب عہدیداران کے لوگوں سے ذاتی تعلقات ہوں۔ انکے بھائی اور دوست بن کر انکو سمجھائیں گے تو وہ سمجھیں گے۔
  • جہاں تک رشتوں کا تعلق ہے تو احباب جماعت کے ساتھ انکے دوست بن کر کھڑے ہوں اور انکے مسائل حل کرنے کے لئے کوشش کریں۔
  • ذاتی تعلقات سے اعتماد پیدا ہو گا اور لوگوں کے اور جماعت کے بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔

سَيِّدَ الْقَوْمِ خَادِمُهُمْ

ان نصائح کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک عہدیدار کو احباب جماعت کا سچا اور حقیقی ہمدرد بن کر انکی خدمت کے جذبے سے کام کرنا چاہئے۔ انکی پریشانیوں کو دور کرنے کی حتی المقدور کوشش کرنی چاہئے۔ احباب جماعت سے ذاتی تعلقات استوار کرنے چاہئیں۔جیسے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ قوم کا سردار انکا خادم ہوتا ہے۔احباب جماعت کے سچے اور حقیقی خادم بن جائیں۔ اگر تمام عہدیدار حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی اس اہم اور بنیادی نصیحت پر عمل کر لیں تو یقینا ً جملہ مسائل ختم ہو سکتے ہیں۔ جماعت اور زیادہ مضبوط ہو سکتی ہے اور پہلے سے بڑھ کر ترقیات کی طرف گامزن ہو سکتی ہے۔

وقت کی قربانی

یہ کوئی مشکل کام نہیں جو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایاہے کہ احباب جماعت سے دوستانہ تعلقات قائم کریں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ بعض عہدیدار ان نصائح پر کما حقہ عمل پیرا نہیں ہوتے۔ اسکی بہت سی وجوہات میں سے ایک وجہ وقت کی قربانی میں کمی ہے۔ جتنا وقت عہدیداران کو اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں دینا چاہئے اتنا وقت نہیں دیتے یا وقت کا صحیح استعمال نہیں کرتے۔ ظاہر ہے کسی سے تعلقات قائم کرنے کے لئے، دوستی لگانے کے لئے اسکے پاس بار بار جانا ہو گا، اسکی لمبی لمبی باتیں سننی ہوں گی۔ بعض لوگوں کو لمبی بات کرنے کی عادت ہوتی ہے جب تک انکی تمام باتیں نہ سن لی جائیں انکو تسلی نہیں ہوتی۔انکے شکوے شکایتیں بشاشت اور خندہ پیشانی سے سننے ہوں گی، پھر انکے مزاج کے مطابق ان سے ایسا سلوک کرنا ہو گا جس سے ان میں آہستہ آہستہ یہ احساس پیدا ہو جائے کہ یہ عہدیدار انکا سچا خیر خواہ اور ہمدرد ہے۔پھر ان سے دوستانہ تعلق قائم رکھنے کے لئے کبھی انکو دعوت پر بلانا ہو گا کبھی انکی دعوتوں پر وقت نکال کر جانا ہو گا۔ انکی خوشیوں اور غموں میں شریک ہونا ہو گا۔ بہرحال ان مقدس عہدوں کی بجا آوری کے لئے علاوہ دیگر امور کے وقت کی خاصی قربانی دینی ہوتی ہے۔ اگر تمام عہدیدار اتنا وقت قربان کر سکیں گے تو یقینا تمام ذمہ داریوں کو احسن رنگ میں ادا کرنے والے ہوں گے۔

مصروفیات زندگی

آج کا انسان جب صبح اٹھتا ہے تو بہت سے کام،بہت سی فکریں اور بہت سی خواہشات ایک جلوس کی شکل میں اسکے سامنے آ کھڑی ہوتی ہیں۔ اسکےذاتی کام، دفاتر یا کاروبار کے کام، گھریلو ذمہ داریاں، بیوی بچوں کے کام،بہت سے کاموں کی لسٹ ہے جو ہر شخص کی آنکھوں کے سامنے گردش کرتی رہتی ہے۔ بہت سی فکریں ہیں جو اسے دامنگیر رہتی ہیں۔ بہت سی پریشانیاں ہیں جو اسکا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ ایک فکر ختم ہوتی ہے تو دو اور پیدا ہو جاتی ہیں۔ ایک پریشانی دور ہوتی ہے تو دو اور پریشانیاں جنم لے لیتی ہیں۔ پھر انکے ساتھ بہت سی نہ ختم ہونے والی خواہشات ہیں جو اسکے آگے آگے دوڑتی ہیں۔ بذات خود یہ بے جا خواہشات اسکے کاموں اور فکروں میں اضافہ کا موجب بنتی ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے ایک بار صحابہ کو فطرت کا یہ گہرا راز عام فہم انداز میں سمجھانے کے لئے زمین پر ایک مربع نما خانہ بنایا پھر اس کے بیچ سے ایک خط کھینچا جو اس مربع کی حدود کو قطع کرتا ہوا باہر دور تک نکل جاتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ مربع نما خانہ انسان کی زندگی کی حد ہے اس سے وہ باہر نہیں جا سکتا۔بہرحال یہاں موت کا اسے سامنا ہے اور یہ ڈبے کے اندر سے باہر نکلنے والا خط اسکی خواہشات ہیں جو اسکی زندگی سے بھی بہت آگے دور تک نکل جاتی ہیں جن کو وہ کبھی بھی پا نہیں سکتا۔پس ایک دنیا دار شخص ساری زندگی انہی کاموں، فکروں، پریشانیوں کی وجہ سے بے چینی سے زندگی گزارتا ہے اور خواہشات کے پیچھے بھاگتے ہوئےزندگی بھر سرگرداں رہتا ہے۔ قرآن کریم نے اسے سراب کا نام دیا گیا ہے (نور:40) پیاسا اسے پانی سمجھ کر ساری زندگی اسکے پیچھے بھاگتا ہے مگر اسے پانی نہیں ملتا۔ پھر بڑی حسرتوں کو سینے میں لئے ہوئے دنیا سے کوچ کر جاتا ہے۔

دوقسم کے عہدیدار

جماعت میں دو قسم کے عہدیدار ہوتے ہیں۔ ایک قسم عہدیداروں کی اللہ تعالیٰ کے فضل سے دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والے ہیں وہ اپنے کاموں، اپنی فکروں اور اپنی خواہشات پر سلسلہ کے کاموں، سلسلہ کی فکروں اور سلسلہ کی خواہشات کو مقدم رکھتے ہیں۔ وہی جماعت کا حقیقی سرمایہ ہیں۔ یہ وہ انصار اللہ ہیں جن پر دن رات اللہ تعالیٰ کے فضل بارش کی طرح برستے ہیں۔ انکی زندگی بھی کامیاب اور انکا انجام بھی بامراد۔ ایسے وجودوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی صداقت کے لئے بطور ایک نشان پیش کیا ہے۔

شیطانی وساوس

دوسری قسم کے عہدیدار وہ ہوتے ہیں جو ابھی اس مقام پر نہیں پہنچے ہوتے کہ اپنی نفسانی خواہشات کو کلی طور پر مار سکیں اور حقیقی طور پر دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہوں۔ وہ سلسلہ کے کام بھی کرتے ہیں لیکن جب بھی وہ کوئی کام کرنے لگتے ہیں، شیطانی وساوس انہیں گھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تمہارا ضروری کام ہے اسے پہلے کر لو، سلسلہ کا کام بھی کر لینا،اتنی جلدی بھی کیا ہے۔ یہ تمہاری فکر بہت اہم ہے اگر اسے دور نہ کیا تو نقصان ہو جائے گا اس لئے پہلے اسے دور کرو سلسلہ کا کام تو بعد میں بھی ہو جائے گا۔ اس طرح کبھی وہ ان وساوس کو جھٹک کر سلسلہ کا کام کرتے ہیں کبھی ان وساوس سے مرعوب ہو کر سلسلہ کے کام کو موخر کر دیتے ہیں اور اپنے کاموں میں جُت جاتے ہیں۔ جائزہ لینے پر ہمیشہ دیکھا گیا ہے کہ ایسے لوگوں کی نہ فکریں ختم ہونے کا نام لیتی ہیں، نہ ہی پریشانیاں انکا پیچھا چھوڑتی ہیں۔بہت سی بلاؤں میں وہ گرفتار رہتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے ؟ اس لئے کہ شیطان اسے ایسا کرنے سے روکتا ہے۔ شیطان آرام دہ اور پرسکون زندگی کا دشمن ہے وہ نہیں چاہتا کہ اللہ کے فضل کسی پر موسلا دھار بارش کی طرح نازل ہوں۔ وہ نہیں چاہتا کہ کوئی شخص دیکھتے ہی دیکھتے اللہ کے اولیاء اللہ میں شامل ہو جائے۔اسے گوارہ نہیں کہ کوئی بندہ جلد جلد اللہ کے قرب میں بلند سے بلند مقام حاصل کر سکے۔ وہ نہیں پسند کرتا کہ بندوں کے کاموں کا اللہ کفیل بن جائے۔ بندوں کی فکروں اور پریشانیوں کو اللہ سنبھال لے۔ وہ نہیں چاہتا کہ بندوں کا اللہ مددگار اور دوست بن جائے بلکہ شیطان کا تو کام ہی بندے کو اللہ سے دور کرنا ہے۔ اس لئے وہ سلسلہ کا کام کرنے میں ہمیشہ رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔

اِنِّیْ مُعِیْنٌ مَنْ اَرَادَ اِعَانَتَکَ

یہ مضمون قرآن، حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام میں بھرا پڑا ہے کہ جو شخص اللہ کی طرف ایک قدم بڑھاتا ہے اللہ اسکی طرف دو قدم بڑھاتا ہے۔جو اللہ کی طرف چل کے جاتا ہے اللہ اسکی طرف دوڑ کے آتاہے۔جو اللہ کی خاطر اسکے دین کا مدد گار بن جاتا ہے اللہ اسکا مدد گار بن جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا کہ میں اسکا مدد گار بن جاتا ہوں جو تیری نصرت اور اعانت کا ارادہ کرے۔ گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کی تکمیل کے لئے جو شخص بھی اپنے دل میں نیت باندھ لے اور ارادہ کر لے اسی وقت اللہ اسکا مددگار بن جاتا ہے۔ جو اس مقدس فریضہ کی ادائیگی کے لئے جدو جہد کرتا ہے اللہ اسکا مددگار، اسکا خدمتگار بن جاتا ہے۔ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فکریں اپنی فکروں پر ہاوی کر لیتا ہے اللہ اسکی فکریں مٹا دیتا ہے۔ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پریشانیوں کو اپنے دل میں محسوس کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسکی پریشانیاں دور کر دیتا ہے۔ احادیث میں آتا ہے وَمَنْ كَانَ فِي حَاجَةِ أَخِيهِ كَانَ اللّٰهُ فِي حَاجَتِهِ، وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ كُرْبَةً، فَرَّجَ اللّٰهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرُبَاتِ يَوْمِ القِيَامَةِ (بخاری کتاب المظالم بَابٌ: لاَ يَظْلِمُ المُسْلِمُ) کہ جو کوئی اپنے بھائی کی کوئی ضرورت پوری کرتا ہے، اسکے کام آتا ہے اللہ تعالیٰ اسکی ضروریات اسکی حاجتیں پوری کرتا ہے۔ جو کوئی اپنے مسلمان بھائی کی کوئی تکلیف دور کر تا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اسکی تکلیفیں دور فرما دے گا۔ ذرا غور کریں کسی بھی شخص کے کام آنے کا اتنا بڑا اجر ہے۔ کسی بھی مسلمان کی پریشانیاں دور کرنے کا اتنا زیادہ ثواب ہے کہ اللہ تعالیٰ اسکے کام کرنے لگ جاتا ہے اور دنیا میں ہی نہیں بلکہ قیامت کے روز بھی اسکی پریشانیاں اور فکریں سب دور کر دے گا۔ تو جس کو اللہ تعالیٰ نے امام مہدی اور مسیح الزمان بنا کر بھیجا اور جو خلیفۃ المسیح آج اسکے مسند پر رونق افروز ہیں جو شخص ان مقدس ہستیوں کے کام کرتا ہے، انکی فکریں دور کرتا ہے،انکی پریشانیاں دور کرنے کی کوشش میں رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کس قدر اسکے کام آئے گا،کس قدر اسکی تکلیفیں اور پریشانیاں دور کرے گا۔ یقیناً یقیناً آسمان سے فرشتے قطار در قطار نازل ہوں گے جو اس بندے کی خدمت پر مامور کئے جائیں گے۔ اس پر اللہ کے بے پایاں فضلوں اور رحمتوں کی بارشیں برسیں گیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی پیار بھری نظریں پڑیں گیں۔ وہ اللہ کے دوستوں اور مقربین میں جگہ پائے گا۔ دیکھیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کتنی عظیم خوشخبری ہمیں سنائی۔

قرب پانے کامیدان خالی ہے

آپ فرماتے ہیں۔ ’’تمہیں خوشخبری ہو کہ قرب پانے کا میدان خالی ہے۔ ہر ایک قوم دنیا سے پیار کر رہی ہے۔ اور وہ بات جس سے خدا راضی ہو اس کی طرف دنیا کی توجہ نہیں۔ وہ لوگ جو پورے زور سے اس دروازہ میں داخل ہونا چاہتے ہیں ان کے لیے موقعہ ہے کہ اپنے جوہر دکھلائیں اور خدا سے خاص انعام پاویں‘‘

(الوصیت، روحانی خزائن جلد20 صفحہ308-309)

عہدیداروں کی خوش بختی

پس عہدیداروں پر یہ اللہ تعالیٰ کابہت بڑا احسان ہے جس پر اگر وہ ساری زندگی سر بسجود شکریہ ادا کرتے گزار دیں تب بھی حق ادا نہیں ہو سکتا کہ انکو اس آخرین کی جماعت کی قیادت سونپی گئی ہے۔وہ مسیح و مہدی جس کی دنیا ہزاروں سال سے منتظر تھی۔ مسلمان صدیوں سے جسکی راہ تک رہے تھے۔ جس کو نبی کریم ﷺ نے سلام بھیجا۔ جسکے مددگاروں میں شامل ہونے کا حکم دیا۔ ہم کتنے خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں نہ صرف اسکی جماعت میں شامل کیا بلکہ اسکی عظیم روحانی فوج کے ایک چھوٹے سے حصہ کی قیادت سونپی۔ اس پر ہم جتنا بھی اسکا شکر ادا کریں کم ہے۔ ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے اس میدان میں لا اتارا ہے جو اسکے قرب کا میدان ہے جس میں سوائے ہمارے اور کوئی نہیں۔ گویا وہ خدا جس کو پانے کے لئے گذشتہ زمانوں میں لوگ جنگلوں میں جا کر کئی کئی سالوں کا چلہ کاٹتے،راتوں کو جاگتے، ہزاروں جتن کرتے، ہزاروں مصیبتیں اٹھاتے تب اللہ تعالیٰ کا چہرہ دیکھتے وہ خدا تو گویا آسمان سے اتر کر ہمارے دروزاے پر آ کھڑا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے ہم پوری محبت اخلاص اور وفا کے ساتھ یہ دروزاہ کھولیں اور اسکا استقبال کریں۔

ہم سے تو صرف یہ تقاضا کیا گیا ہے کہ ہم ان مقدس عہدوں کی پاسداری کے لئے روزانہ کچھ وقت نکالیں۔ اپنے ضروری کام کرنے سے ہمیں کسی نے نہیں روکا۔ لیکن اپنے ضروری کاموں میں سب سے ضروری کام ہمیں جماعتی ذمہ داری کو بنانا ہوگا۔ اپنی فکروں میں سب سے بڑی فکر ہمیں ان ذمہ داریوں کو کما حقہ بجا لانے کی فکر اپنے اوپر سوار کرنی ہو گی۔ تب دیکھیں کس طرح ہماری زندگیوں میں انقلاب برپا ہو گا۔جہاں جماعت زیادہ مضبوط اور مستحکم ہو گی اور ترقی کی رفتار تیز سے تیز تر ہوتی چلی جائے گی وہاں ہم اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کے فضل موسلا دھار بارش کی طرح برستے ہوئے دیکھیں گے۔ ہمارے سارے ذاتی کام آسان ہوتے چلے جائیں گے۔ ہماری ساری فکریں ختم ہو جائیں گیں انکو اللہ تعالیٰ کے فرشتے اٹھا لیں گے ہماری پریشانیاں دور کر دی جائیں گیں۔ پس یہ کتنا نفع بخش سودا ہے۔ دنیا بھی ہمارے پیچھے دوڑی چلی آئے گی اور آخرت میں بھی ہم سرخرو ہوں گے۔ بہت سی بے چینیوں سے، بہت سی مصیبتوں سے بہت سی آفات سے اللہ ہمیں بچائے گا۔ اور ان راہوں سے ہماری مدد کرے گا جس کا ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ ہم اسکی پیار بھری نظروں کے نیچے ہوں گے اور اسکے فضلوں اور رحمتوں اور برکتوں کے وارث بنیں گے۔یقیناً ہمارا خدا سب سے بڑھ کر وفا کرنے والا ہے۔ وہ اپنے وعدوں کو پورا کرنے والا سچا خدا ہے۔ کمی ہے تو ہماری طرف سے۔ سستی ہے تو ہماری طرف سے۔

خلیفہ وقت کی مثال

اپنے خلیفہ کی طرف دیکھیں۔ جس نے اپنی ذات کو درمیان سے مٹا دیا ہے۔ اسکی سوچ ہماری بہتری کے لئے، اسکی فکریں ہماری فکروں کو دور کرنے کے لئے، اسکی خواہشات ہماری ترقیات کے لئے اور اسکی تمنائیں ہماری کامیابیوں کے لئے وقف ہو چکی ہیں۔ اسکے شب روز کے مجاہدات جماعت کی ترقیات اور بنی نو ع انسان کی فلاح و بہبود کے لئے وقف ہو چکے ہیں۔ اسی لئے آج وہ دنیا میں سب سے زیادہ محبوب خدا ہے۔ سب سے زیادہ اللہ کا نور اسکے وجود باجود پر برس رہا ہے۔ سب سے زیادہ اللہ اسکی تائید و نصرت فرما رہا ہے۔ سب سے زیادہ دعائیں اسکی قبول ہوتی ہیں۔ سب سے زیادہ زندہ نشانات اسی کے ذریعہ دنیا بھر میں ظاہر ہو رہے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کے نشانوں میں سے ایک زندہ نشان بن چکا ہے۔ پس ہم بھی جس قدر اسکی پیروی کریں گے۔ جس قدر اسکے کاموں میں اسکا سہارہ بنیں گے۔جس قدر اسکی فکریں سمیٹنے والے ہوں گے۔ جس قدر اسکی خواہشات کی تکمیل کے لئے کوشاں ہو ں گے۔ جس قدر اسکے مطیع و فرمانبردار ہوں گے۔جس قدر اسکے لئے دعائیں کرنے والے ہوں گے۔ جس قدر اسکے ارشاد ات کے مطابق اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے والے ہوں گے اسی قدر ہمارے وجود پر بھی ویسی ہی برکتیں نازل ہوں گی، ویسے ہی فضل برسیں گے۔ ہم سے بھی اللہ اسی نسبت سے پیار کرے گا۔

آج نظام خلافت کا جھنڈا عہدیداروں کے ہاتھ میں ہے

اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی قیادت میں نظام جماعت ساری دنیا میں فعال ہے۔ ہر جماعت کا عہدیدار خواہ وہ اطفال کی سطح پر ہویا ناصرات کی سطح پر ہو، خدام کی سطح پر ہو یا انصار کی سطح پر ہویا لجنہ کا عہدیدار ہو۔ وہ صدارت کی عاملہ کا ممبر ہو یا امارت کی، وہ ملکی عہدیدار ہو یا مرکزی، تمام عہدیدار نظام جماعت کا حصہ ہیں۔ ہر ایک کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ نظام جماعت کی مضبوطی اور استحکام کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لائے، ہر عہدیدار کے ہاتھ میں نظام جماعت کا جھنڈا ہے جسکی سربلندی کے لئے اس نے تن من دھن کی بازی لگا دینی ہے۔

یاد کریں وہ وقت جب خیبر کے میدان میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں صبح یہ جھنڈا اس کو دوں گا جس سے اللہ اور اسکے رسول محبت کرتے ہیں۔

اور وہ بھی اللہ اور اسکے رسول سے محبت کرتا ہے تو تمام سننے والے صحابہ نے بڑی بے چینی سے وہ لمحات گزارے ہر ایک کے دل سے یہ تمنا اٹھ رہی تھی کہ اے کاش یہ جھنڈا مجھے مل جائے۔ آج خداتعالیٰ نے یہ جھنڈا اپنی اپنی سطح پر ان عہدیداروں کے سپرد کیا ہے۔ اور یہ توقع رکھی ہے کہ اسکو گرنے نہیں دینا۔ دیکھیں ان صحابہ نے اس جھنڈے کو ہمیشہ سربلند رکھا اگر میدان جہاد میں کسی کے ہاتھ کٹ گئے تو اس نے اپنے ٹنڈے ہاتھوں سے اسے سینے سے لگا لیا، اپنے دانتوں سے پکڑ لیا اور گرنے نہ دیا۔ آج ہم نے بھی اس جھنڈے کو گرنے نہیں دینا اسے بلند رکھنا ہے۔ اس جھنڈے کا بلند کرنا کیا ہے؟ یہی کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو خوب ادا کرنے والے ہوں۔ اپنے کاموں کو پیچھے کر کے پہلے اس عہدے کی وجہ سے جو ذمہ داریاں ہم پر پڑی ہیں انکو ادا کرنے والے ہوں۔ اپنی فکروں اور پریشانیوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے سلسلہ کی فکروں، خلیفہ وقت کی فکروں کو اٹھانے والے ہوں اپنی پریشانیوں کو پیچھے کر کے انکی پریشانیوں کو اپنے دل و دماغ میں سمیٹنے والے ہوں اور اس کے لئے دن رات کام کرنے والے ہوں۔ اپنی خواہشات کو مٹاتے ہوئے سلسلہ کی ترقی اور خلافت کےا ستحکام کی خواہش کو ہر وقت سامنے رکھتے ہوئے جدوجہد کرنے والے ہوں۔ تو یقینا ً یہ مقدس جھنڈا بلند سے بلند تر ہوتا چلا جائے گا۔ جنگوں کے وقت بہت ضروری ہو ا کرتا ہے کہ آپس کے اتحاد اور اتفاق کو مزید مضبوط کیا جائے۔ اور ہر قسم کی بے اعتمادی اور بے چینی کو دور کر کے بنیان مرصوص بنا جائے۔ پس بہت ضروری ہے کہ ہم حضرت امیر المومنین کی ان پاکیزہ نصائح پر عمل کرتے ہوئے تمام احباب جماعت خصوصا ً اپنے کمزورں کو اپنے ساتھ ملائیں ان سے تعلقات استوار کریں، انکے اطمینان کے لئے انکی پریشانیاں اٹھالیں، انکے دکھ درد میں شریک ہوں تاکہ انکا اعتماد بحال ہو۔تا وہ بھی فعال وجود بن کر مسیح محمدی کے سرسبز درخت کی سرسبز شاخیں بن جائیں۔

یاد رکھیں یہ آخری زمانہ ہے۔ اسکے بعد اور کوئی زمانہ نہیں ہے۔ آغاز دنیا سے لے کر اختتام تک شیطانی طاقتوں اور رحمانی طاقتوں کے درمیان ہونے والی جنگوں میں یہ شیطان کی آخری جنگ ہے۔ ازل سے یہ مقدر تھا کہ اس مقدس جنگ میں تمام شیطانی قوتیں پامال کر دی جائیں گیں۔ تمام شیطانی طاقتیں خاک میں ملا دی جائیں گیں۔ تمام شیطانی فوجیں شکست کھاجائیں گی۔ لیکن یہ کیسے ہو گا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’سچائی کی فتح ہو گی۔ اور اسلام کے لئے پھر اس تازگی اور روشنی کا دن آئے گا۔ جو پہلے وقتوں میں آ چکا ہے۔ اور وہ آفتاب اپنے پورے کمال کے ساتھ پھر چڑھے گاجیسا کہ پہلے چڑھ چکا ہے۔ لیکن ابھی ایسا نہیں۔ ضرور ہے کہ آسمان اسے چڑھنے سے روکے رہے جب تک کہ محنت اور جانفشانی سے ہمارے جگر خون نہ ہو جائیں اور ہم سارے آراموں کو اسکے ظہور کے لئے نہ کھو دیں۔ اور اعزاز اسلام کے لئے ساری ذلتیں قبول نہ کریں۔اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے وہ کیا ہے؟ ہمارا اسی راہ میں مرنا یہی موت ہے جس پر اسلام کی زندگی، مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خدا کی تجلی موقوف ہے اور یہی وہ چیز ہے جسکا دوسرے لفظوں میں نام اسلام ہے‘‘

(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ10-11)

ہمیں سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا یہ شعر ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ

ہم تو جس طرح بنے کام کئے جاتے ہیں
آپ کے وقت میں یہ سلسلہ بدنام نہ ہو

(در عجم)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 مارچ 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ