• 5 مئی, 2024

پاکیزگی اور معرفت، تقویٰ میں ترقی کرنے سے بڑھتے ہیں

پہلی بات توایمان کی ہے۔ ایمان کی باتیں تو ثابت ہو جاتی ہیں۔ پھر اگر مزید معرفت حاصل کرنی ہے تو تقویٰ میں ترقی کرنی ہو گی۔ جوں جوں تقویٰ میں ترقی کرتا جائے گا مزید پاک ہو تا چلا جائے گا۔ قرآن کریم کا عرفان حاصل ہوتا چلا جائے گا۔ پس قرآن کریم ان لوگوں کو جو دور کھڑے اس تعلیم کو دیکھ رہے ہیں اور اپنے بغضوں اور کینوں کی وجہ سے قریب آنا بھی نہیں چاہتے۔ بلکہ دوسروں کو ورغلانے پر بھی تلے ہوئے ہیں۔ شیطان کا کردار جو اس نے کہاتھا کہ میں ہر راہ سے آؤں گا، ان لوگوں نے تووہ اختیار کیا ہوا ہے۔

پس قرآن کو سمجھنے کے لئے پہلے پاک دل ہونے کی بھی ضرورت ہے اور اس پاکی میں پھر انسان آگے بڑھتا جاتا ہے۔ اگر پاک دل ہوں گے تو پھر کچھ سمجھ آئے گی۔ پھر مزید عرفان حاصل کرنے کے لئے مزید تقویٰ میں ترقی کرنے کی ضرورت ہے۔ تو ایک انسان کا قرآن کریم سمجھنے کے لئے یہ معیار ہے۔ اب دیکھیں! وہ خاتون بھی تھیں جس کا میں نے ذکر کیا ہے کہ قرآن کا ترجمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئیں۔ پتہ نہیں اس نے ترجمہ کس کا پڑھا تھا۔ کس حد تک وہ صحیح تھا لیکن بہرحال اس کے دل پر اثر ہوا۔ پس قرآن کریم کو سمجھنے کے لئے پاک دل ہونا اور اس میں چھپے ہوئے موتیوں کو تلاش کرنا ضروری ہے۔ قریب آ کر دیکھنا بھی ضروری ہے لیکن اگر ان پادری صاحب کی طرح صرف اعتراض کے رنگ میں دیکھے گا تو پھر اسے کچھ نظر نہیں آئے گا۔ و ہ اس جاہل کی طرح ہے جو ستاروں کو دور سے دیکھ کر انہیں چھوٹا سا چمکتا ہوا نقطہ سمجھتا ہے۔ ایسے بے عقل لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرمادیا ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم ایسے حاسدوں، بغضوں اور کینوں سے بھرے ہوؤں اور ظالموں کو سوائے گھاٹے کے کسی چیز میں نہیں بڑھاتی۔ اس میں اگر شفاہے تو مومنین کے لئے ہے۔ اگر اس میں کوئی تعلیم ہے اور سبق ہے تو مومنین کے لئے ہے۔ اگر ان سے کوئی فیض پاتا ہے تو پاک دل مومن فیض پاتا ہے یا وہ فیض پانے کی کوشش کرتا ہے جو خالی الذہن ہو کر پھر اس کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ اگر اس سے کوئی اپنی روحانی میل دور کرتا ہے تو پاک دل مومن کرتا ہے۔

(خطبہ جمعہ 29؍ فروری 2008ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 مارچ 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ