• 19 اپریل, 2024

حضرت مسیح موعودؑکے اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے آپ کی عزت قائم ہوئی

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے آپ کی عزت قائم ہوئی۔ اس کے بالمقابل ہماری جماعت کے کتنے دوست ہیں جو غصے کے موقع پر اپنے نفس پر قابو رکھتے ہیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھو کہ ایسے شدید دشمن کے صحیح واقعات سے بھی اُس کی تذلیل گوارا نہیں کرتے مگر ہمارے دوست جوش میں آ کر گالیاں دینے بلکہ مارنے پیٹنے لگ جاتے ہیں۔ حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ:

؏ رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے

پس ہماری جماعت کو ایک طرف تو یہ اعلیٰ اخلاق اپنے اندر پیدا کرنے چاہئیں اور دوسری طرف بدی سے پوری پوری نفرت کرنی چاہئے۔ ایسی ہی نفرت جیسی حضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دکھائی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام میں بھی یہ دونوں نظارے پائے جاتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن ایک سمویا ہوا انسان ہے اور پھر واقعہ بیان کیا کہ پنڈت لیکھرام کو آپ نے سلام کا جواب نہیں دیا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اُس نے زبان درازی کی تھی۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی رحم ہے کہ اپنے متعلق جو بات ہو رہی ہے اُس میں فرمایا کہ نہیں۔ ایسا کام نہیں کرنا جس سے مولوی محمد حسین صاحب کوذلت کا سامنا کرنا پڑے۔ آپ فرماتے ہیں کہ یاد رکھو کہ جو شخص اپنی اولاد کو نیک اخلاق نہیں سکھاتا وہ نہ صرف یہ کہ اپنی اولاد سے دشمنی کرتا ہے بلکہ سلسلہ سے بھی دشمنی کرتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمنی کرتا ہے اور خدا سے دشمنی کرتا ہے۔

آپ نے فرمایا کہ مَیں بہت ساری نصیحتیں کرتا رہتا ہوں، خطبات دیتا رہتا ہوں، اور یہ سلسلہ تو ہر دور میں چلتا ہے، تمام خلفاء نے دیئے، دیتے رہے ہیں، مَیں بھی دیتا ہوں۔ آپ مثال اس کی دیتے ہیں کہ جب تک خطبات چلتے رہتے ہیں، کچھ نہ کچھ اثر رہتا ہے اور جب خطبات کا سلسلہ بند ہوتا ہے یا پھر کچھ عرصے بعد وہ اثر ختم ہو جاتا ہے۔ آپ نے اس کی مثال دی کہ ایک کھلونا ہوتا ہے جس کا نام ہے jack in the box۔ وہ باکس کے اندر ایک لچکدار گڈا ہوتا ہے۔ جب ڈھکنا بند کر دیں تو وہ اندر بند ہو جاتا ہے۔ ڈھکنا کھولو تو پھر اچھل کے باہر آ جاتا ہے۔ تو یہی حال ان لوگوں کا ہے جن کو نصیحت کرتے رہو، کرتے رہو، کچھ عرصہ اثررہتا ہے اور جب نصیحت بند ہوتی ہے تو پھر وہ اُسی طرح اچھل کے باہر آ جاتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ خدا نے کسی کو اتنا وقت نہیں دیا کہ ایسے وعظ کر سکے کہ مستقل چلتے چلے جائیں۔ اصل چیز یہی ہے کہ انسان مومن بنے، پھر یہ سلسلہ ختم ہو جاتا ہے۔ کیونکہ یہ کشمکش اُسی وقت تک کے لئے ہے جب تک ایمان نہ ہو۔

پس جب توجہ دلائی جائے تو اُس کو غور سے سننے کے بعد پھر اُس کو عملی زندگی کا حصہ بنانا چاہئے اور یہی جماعت کی ترقی کا راز ہے اور یہی چیز جو ہے انسان کو صحیح عبد بناتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں پس ضرورت اس امر کی ہے کہ جماعت محسوس کرے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیج کر اللہ تعالیٰ نے اُن پر بڑی ذمہ داری ڈالی ہے۔ انسان کے اندر کمزوریاں خواہ پہاڑ کے برابر ہوں، اگر وہ چھوڑنے کا ارادہ کر لے تو کچھ مشکل نہیں۔ حضرت مسیح علیہ السلام کا مشہور مقولہ ہے کہ اگر تمہارے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو تو تم پہاڑ کو اُن کی جگہوں سے ہٹا سکتے ہو۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ گناہ خواہ پہاڑ کے برابر ہوں، انسان کے اندر ایمان اگر رَتّی برابر بھی ہے تو وہ ان پہاڑوں کو اُڑا سکتا ہے۔ جس دن مومن ارادہ کر لے تو اس کے راستہ میں کوئی روک نہیں رہتی۔ وہ سب روکیں دور ہو جاتی ہیں۔ فرمایا کہ اس وقت مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ دوست اپنی اپنی اولادوں کی اور جماعت کے دوسرے نوجوانوں کی اصلاح کریں۔ اپنی اصلاح کریں۔ جھوٹ، چوری، دغا، فریب، دھوکہ، بدمعاملگی، غیبت وغیرہ بدعادات ترک کر دیں۔ حتی کہ اُن کے ساتھ معاملہ کرنے والا محسوس کرے کہ یہ بڑے اچھے لوگ ہیں اور اچھی طرح یاد رکھو کہ اس نعمت کے دوبارہ آنے میں تیرہ سو سال کا عرصہ لگا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ سے ہمیں ملی۔ اگر ہم نے اس کی قدر نہ کی اور پھر تیرہ سو سال پر یہ جا پڑی تو اُس وقت تک آنے والی تمام نسلوں کی لعنتیں ہم پر پڑتی رہیں گی۔ اس لئے کوشش کرو کہ اپنی تمام نیکیاں اپنی اولادوں کو دو اور پھر وہ آگے دیں اور وہ آگے اپنی اولادوں کو دیں اور یہ امانت اتنے لمبے عرصے تک محفوظ چلی جائے کہ ہزاروں سالوں تک ہمیں اس کا ثواب ملتا جائے۔ کیونکہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو نیکی کسی شخص کے ذریعہ سے قائم ہو، وہ جب تک دنیا میں قائم رہے اور جتنے لوگ اُسے اختیار کرتے جائیں اُن سب کا ثواب اُس شخص کے نام لکھا جاتا ہے۔ پس جو بدلہ ملتا ہے وہ بھی بڑا ہے اور امانت بھی اپنی ذات میں بہت بڑی ہے۔ اس طرف ہمیں توجہ دینی چاہئے۔

(الفضل 26؍اگست 1936ء بحوالہ خطباتِ محمود جلد 17 صفحہ 547-559)
(خطبہ جمعہ 29؍ نومبر 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

درخواست دعا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 مارچ 2023