آنکھ میں اشک نہ اس طرح اتارا کرتے
بس میں ہوتا تو محبت سے کنارہ کرتے
خامشی سے تری دنیا سے نکل جاتے ہم
اتنے بیزار تھے ہم سے تو اشارہ کرتے
صرف اک خواب تو آنکھوں میں کہیں رکھ دیتے
صرف اک پل تو کسی روز ہمارا کرتے
باندھ رکھا ہے ہمیں پھول سی زنجیروں نے
ورنہ اے عشق! تجھے ہم بھی دوبارہ کرتے
تو ہمیں سبز تو رکھتا کسی گل موسم میں
ہم ترے ساتھ خزاؤں میں گذارہ کرتے
شاخِ لرزیدہ تھا ہر شخص تری بستی کا
تھامتے کس کو بھلا کس کو سہارا کرتے
ایک آنسو سے کہاں غم کا مداواہ ہو گا
رونے والے کسی دریا کو پکارا کرتے
گم ہوا جاتا ہے منزل کا نشاں منظر سے
اے نظر! بول کہ کس طرح نظارہ کرتے
تم دیاؔ! میری طرح جلنے کی جرأت کرتی
‘‘تیرہ بختی میں تمہیں لوگ پکارا کرتے’’
(دیا جیم۔ فجی)