• 20 مئی, 2024

احکام خداوندی (اللہ کے احکام کی حفاظت کرو۔ (الحدیث)) (قسط 75)

احکام خداوندی
اللہ کے احکام کی حفاظت کرو۔ (الحدیث)
قسط 75

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے۔‘‘

(کشتی نوح)

باب ترکہ(حصہ دوم)
کلالہ کے بارے میں حکم

• یَسۡتَفۡتُوۡنَکَ ؕ قُلِ اللّٰہُ یُفۡتِیۡکُمۡ فِی الۡکَلٰلَۃِ ؕ اِنِ امۡرُؤٌا ہَلَکَ لَیۡسَ لَہٗ وَلَدٌ وَّلَہٗۤ اُخۡتٌ فَلَہَا نِصۡفُ مَا تَرَکَ ۚ وَہُوَ یَرِثُہَاۤ اِنۡ لَّمۡ یَکُنۡ لَّہَا وَلَدٌ ؕ فَاِنۡ کَانَتَا اثۡنَتَیۡنِ فَلَہُمَا الثُّلُثٰنِ مِمَّا تَرَکَ ؕ وَاِنۡ کَانُوۡۤا اِخۡوَۃً رِّجَالًا وَّنِسَآءً فَلِلذَّکَرِ مِثۡلُ حَظِّ الۡاُنۡثَیَیۡنِ ؕ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمۡ اَنۡ تَضِلُّوۡا ؕ وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ﴿۱۷۷﴾


(النساء:177)

وہ تجھ سے فتویٰ مانگتے ہیں۔ کہہ دے کہ اللہ تمہیں کلالہ کے بارہ میں فتویٰ دیتا ہے۔ اگر کوئی ایسا مَرد مر جائے جس کی اولاد نہ ہو مگر اس کی بہن ہو تو اس بہن کے لئے جو (ترکہ) اس نے چھوڑا اس کا نصف ہوگا اور وہ اس (بہن) کا (تمام تر) وارث ہوگا اگر اس کے کوئی اولاد نہ ہو اور اگر وہ (بہنیں) دو ہوں تو ان کے لئے اس میں سے دوتہائی ہوگا جو اس نے (ترکہ) چھوڑا اور اگر بہن بھائی مَرد اور عورتیں (ملے جلے) ہوں تو (ہر) مرد کے لئے دو عورتوں کے برابر حصہ ہوگا۔ اللہ تمہارے لئے (بات) کھول کھول کر بیان کرتا ہے کہ مبادا تم گمراہ ہو جاؤ اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے۔

(نوٹ:اس آیت میں کلالہ کی درج ذیل صورتیں بیان ہوئی ہیں)

  1. ایسا مرد جس کی اولاد نہ ہو مگر بہن ہو مر جائے تو اس بہن کو ترکہ میں سے نصف ملے گا۔
  2. اگر بہن مر جائے جس کی اولاد نہ ہو تو بھائی اپنی بہن کے سارے ترکہ کا وارث ہوگا۔
  3. اگر دو بہنیں ہو ں اور وفات یافتہ بھائی کے ترکہ سے دو تہائی اُن کا ہوگا۔
  4. اگر ورثاء میں بہن بھائی ہوں تو مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہوگا۔

• وَاِنۡ کَانَ رَجُلٌ یُّوۡرَثُ کَلٰلَۃً اَوِ امۡرَاَۃٌ وَّلَہٗۤ اَخٌ اَوۡ اُخۡتٌ فَلِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنۡہُمَا السُّدُسُ ۚ فَاِنۡ کَانُوۡۤا اَکۡثَرَ مِنۡ ذٰلِکَ فَہُمۡ شُرَکَآءُ فِی الثُّلُثِ مِنۡۢ بَعۡدِ وَصِیَّۃٍ یُّوۡصٰی بِہَاۤ اَوۡ دَیۡنٍ ۙ غَیۡرَ مُضَآرٍّ ۚ وَصِیَّۃً مِّنَ اللّٰہِ ؕ وَاللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَلِیۡمٌ ﴿ؕ۱۳﴾

(النساء:13)

اور اگر کسی ایسے مرد یا عورت کا ورثہ تقسیم کیا جا رہا ہو جو کلالہ ہو (یعنی نہ اس کے ماں باپ ہوں نہ اولاد) لیکن اس کا بھائی یا بہن ہو تو ان دونوں میں سے ہر ایک کے لئے چھٹا حصہ ہوگا اور اگر وہ (یعنی بہن بھائی) اِس سے زیادہ ہوں تو پھر وہ سب تیسرے حصے میں شریک ہوں گے وصیت کی ادائیگی کے بعد جو کی گئی ہو یا قرض چکانے کے بعد۔ بغیر اس کے کہ کوئی تکلیف میں مبتلا کیا جائے۔ وصیت ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ دائمی علم رکھنے والا (اور) بڑا بُردبار ہے۔

(نوٹ:اس آیت میں کلالہ کی کچھ اور صورتیں بھی بیان ہوئی ہیں جواُوپر والے حکم سے مختلف ہیں)

اگر کسی مرد؍عورت کے نہ ہی ماں باپ ہوں اور نہ ہی اولاد اور اس کا کوئی بھائی یا بہن ہو تو ان دونوں میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہے۔

اگر وہ (بہن، بھائی) زیادہ ہوں تو وہ سب تیسرے حصہ میں شریک ہوں گے۔ یہ تقسیم وصیت اور مرنے والے کے قرض کی ادائیگی کے بعد ہوگی اور اس تقسیم میں کسی کو ضرر پہنچانا مقصود نہیں ہونا چاہئے۔

(ضروری نوٹ:سورۃ النساء کی آیت 177 اور آیت 13میں یہ ذکر تھا کہ اگر کلالہ مرجائے اس کی بہن بھائی ماں کی طرف سے ہو ں تو اُن کو 6/1 یا 3/1 ملے گا۔ لیکن اِس جگہ اُس کلالہ کا ذکر ہے جس کے بہن بھائی ماں اور باپ دونوں کی طرف سے ہوں یا صرف باپ کی طرف سے۔

(تفسیر صغیر صفحہ 139حاشیہ)

وفات سے قبل اپنے مال(ورثہ ) سے
والدین اور اقرباء کے لئے خصوصی وصیت

• کُتِبَ عَلَیۡکُمۡ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الۡمَوۡتُ اِنۡ تَرَکَ خَیۡرَۨا ۚۖ الۡوَصِیَّۃُ لِلۡوَالِدَیۡنِ وَالۡاَقۡرَبِیۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۚ حَقًّا عَلَی الۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۱۸۱﴾

(البقرہ:181)

تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت آئے اگر وہ کوئی مال (ورثہ) چھوڑ رہا ہو تو وہ اپنے والدین کے حق میں اور رشتہ داروں کے حق میں دستور کے مطابق وصیت کرے۔

(نوٹ:حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس آیت کے تحت foot noteمیں تحریر فرمایا ہے کہ یہاں مال کی تقسیم کی وصیت مراد نہیں بلکہ وصیت سے مراد عام تاکید ہے کہ احکام الٰہیہ کے مطابق جائداد تقسیم کی جائے اور اگر مال کا کوئی حصہ صدقہ کرنا ہو تو اس کا اظہار کر دے۔ ان معنوں میں ایک الگ حکم ہے۔)

ورثہ کی تقسیم کے وقت
اقرباء یتامیٰ مساکین کو کچھ حصہ دینے کی ہدایت

وَاِذَا حَضَرَ الۡقِسۡمَۃَ اُولُوا الۡقُرۡبٰی وَالۡیَتٰمٰی وَالۡمَسٰکِیۡنُ فَارۡزُقُوۡہُمۡ مِّنۡہُ وَقُوۡلُوۡا لَہُمۡ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا ﴿۹﴾

(النساء:9)

اور جب (ترکہ کی) تقسیم پر (ایسے) اقرباء(جن کو قواعد کے مطابق حصہ نہیں پہنچتا) اور یتیم اور مسکین بھی آجائیں تو کچھ اس میں سے ان کو بھی دو اور ان سے اچھی بات کہا کرو۔

ورثہ کی تقسیم مرنے والے کی
وصیت اور قرض کی ادائیگی کے بعد ہوگی

مِنۡۢ بَعۡدِ وَصِیَّۃٍ یُّوۡصِیۡ بِہَاۤ اَوۡ دَیۡنٍ

(النساء:12)

وصیت کی ادائیگی کے بعد جو اس نے کی ہو یا قرض چُکانے کے بعد۔

کسی کی وصیت میں تبدیلی کرنا گنا ہ ہے

فَمَنۡۢ بَدَّلَہٗ بَعۡدَمَا سَمِعَہٗ فَاِنَّمَاۤ اِثۡمُہٗ عَلَی الَّذِیۡنَ یُبَدِّلُوۡنَہٗ ؕ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۱۸۲﴾ؕ

(البقرہ:182)

پس جو اُسے اُس کے سُن لینے کے بعد تبدیل کرے تو اس کا گناہ ان ہی پر ہو گا جو اسے تبدیل کرتے ہیں۔ یقینا اللہ بہت سننے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔

وصیت کرنے والے کی غلطی
کی اصلاح کرنا جائزہے

فَمَنۡ خَافَ مِنۡ مُّوۡصٍ جَنَفًا اَوۡ اِثۡمًا فَاَصۡلَحَ بَیۡنَہُمۡ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَیۡہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۸۳﴾


(البقرہ:183)

پس جو کسی موصی سے (اس کے) ناجائز جھکاؤ یا گناہ کے ارتکاب کا خدشہ رکھتا ہو پھر وہ اُن (وارثوں) کے درمیان اصلاح کر دے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ یقیناً اللہ بہت بخشنے والا (اور) باربار رحم کرنے والا ہے۔

(700 احکام خداوندی از حنیف احمد محمودصفحہ530-533)

(صبیحہ محمود۔ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

درخواست دعا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 مارچ 2023