• 20 مئی, 2024

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ (اور ایک آفاقی عالم، متکلم اور ادیب) (قسط 3)  

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ 
اور ایک آفاقی عالم، متکلم اور ادیب
قسط 3

تحقیق اور ترتیب مواد

خاکسار نے متعدد مرتبہ خود مشاہدہ کیا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ تحقیق و تدقیق کے دوران بعض اوقات زیرتحقیق مسئلہ پر جمع شدہ مواد کو ابتداء میں بکھیر دیتے تھے۔پھر اس کے ہر حصّے کو جدا جدا کر کے اس کی گہرائی اور تفصیل کو پرکھ کر پھر اسے اپنی مطلوبہ ترتیب کے ساتھ مجتمع فرماتے تھے۔شروع میں محسوس ہوتا کہ ہر پہلوالگ الگ سا ہے۔ لیکن ذرا آگے بڑھنے سے واضح ہوتا چلا جاتا کہ تسلسل بھی اس طرح قائم ہوتا چلا جارہا ہے کہ ہر سمت سے دلیل منضبط ہوتی چلی جاتی ہے۔ حتّٰی کہ بغیر کوئی پہلو تشنہ چھوڑے اور ترتیب قربان کئے، غالب منطق، بالغ دلیل اور واضح مفہوم کے ساتھ اصل اور مرکزی مدّعا روشن ہو جاتا ہے۔

دیگر تصنیفات کی طرح جلسہ سالانہ 1985ء کے موقع پرحضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کا خطاب بھی جو برموضوع ‘‘عرفان ختم نبوّت’’جو کتابی شکل میں بھی شائع شدہ ہے، آپؒ کی اسی طرزِ تحقیق و ترتیب کا آئینہ دار ہے۔یوں توجماعت میں ہر دور کے لٹریچر میں مسئلہ ختم نبو ّت پر بڑی جامع اورمبسوط بحثیں کی گئی ہیں۔اس مسئلے پر گہرے، دقیق اور ناقابل ردّ دلائل سے لدے ہوئے مضامین، کتب اور رسائل موجود ہیں۔مگر حقیقت یہ ہے کہ آپؒ نے اپنے مذکورہ بالا خطاب میں اس مسئلہ کے مختلف زاویوں اور پہلوؤں کوہر جہت میں رکھ کر اور سننے والے یا پڑھنے والے کو ہر سمت میں لے جا کر ہرپُرحقیقت منظر دکھایاہے اور پھر اسے آخر میں اپنے ساتھ لاکر حقیقی نتیجہ تک پہنچایا ہے۔علم وتحقیق کا یہ ایک اچھوتارہنما انداز ہے جو آپؒ کوجناب الٰہی سے عطا ہوا ہے۔اس یکتا اسلوب کی خوبصورتی یہ بھی ہے کہ آپؒ نے سامع یا قاری کو اِدھر اُدھر لیجانے اور واپس نتیجہ تک لانے میں اس کے فکر اور سوچ کونہ ذرّہ بھر بکھرنے دیا ہے نہ الجھنے۔

حضورؒ کی تحقیق و تصنیف کا ایک رنگ یہ بھی ہے کہ آپؒ خود کو کسی مصنّف کے رحجانات و نظریات وغیرہ سے کلّیۃً آزاد کرکے دلائل و حقائق کو اپنے اُس فہم و ادراک اور فراست کے ترازو میں تولتے تھے جس کے دھاگے علم و عرفان الٰہی سے منسلک تھے۔لہٰذا اس تحقیق کا رُخ ہمیشہ درست سمت میں ٹھوس منطقی نتیجہ تک پہنچتا تھا۔یہ نتیجہ خواہ مروّجہ خیالات سے مختلف یا مخالف بھی ہوتا تو بھی صحیح ہوتا تھا۔یعنی آپؒ ایک فرستادہ اور کامل ماہرفن ہونے کی وجہ سے اس کے جملہ زاویوں پر جامع نظر رکھتے تھے۔

حضورؒ تحقیق و تدقیق کو اس کی آخری حدوں کوچھوتے تھے۔ آپؒ بلا تصدیق نقل در نقل یا حوالہ درحوالہ اقتباس درج کرنے کو ناپسندفرماتے تھے۔گو آپؒ کی ابتدائی کتب میں بھی کسی ایک دو جگہ بامرِ مجبوری ایسا ہوا ہے مگرآپؒ فرماتے تھے کہ درحقیقت یہ اہل علم کا اسلوب نہیں۔ اصل کتاب سے براہِ راست اصل عبارت درج کرنی چاہئے۔

آپؒ اکثر اپنے خدداد علم اورعرفان کی بناء پربات شروع ہوتے ہی اس کی کنہ کو پا لیتے تھے۔بلکہ بسا اوقات مواد اور تحقیق کے موجود ہوتے ہوئے بھی اپنا ایساالگ مؤقف اختیار فرماتے تھے کہ جملہ مواد اس زاویہٴ مؤقف کی تائید کرنے لگتا تھا۔آیت کریمہ ’’تِلۡکَ الرُّسُلُ فَضَّلۡنَا بَعۡضَہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ ۘ مِنۡہُمۡ مَّنۡ کَلَّمَ اللّٰہُ ….‘‘ (البقرہ:254) میں مِنۡہُمۡ کے بعد وقف کی صورت میں انبیاءؑ کی ایک دوسرے سے جزوی اور کلّی فضیلتوں اور امتیازات کا ذکر اور’’وَاِنۡ مِّنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤۡمِنَنَّ بِہٖ قَبۡلَ مَوۡتِہٖ‘‘ (النساء:160)میں اہل کتاب کے ہرفرقہ یافریق میں سے حضرت عیسیٰ ں پر ایمان لانے کی حقیقت کا بیان نیز ’’وَعَزَّزناَ بِثٰلِث‘‘ (یٰسٓ:51) میں مذکورثالث نبی کے بارہ میں مؤقف، اسی طرح فرعون مصر کا غرقابی کے بعد زندہ رہنااور ایک عرصے تک حکومت کرنا، نیز حضرت یحيٰ علیہ السلام کی زندگی و شہادت کی بحث وغیرہ اور دیگرکئی امور ہیں جن میں آپؒ کا مؤقف نور عرفان پر قائم اور ممتازہے۔ یہ بحثیں آپؒ کی قرآن کلاسوں اور دروس القرآن کی کلاسوں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔

مذاہب اسلام کا علم تو اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے آپؒ کو انتہاء کا عطا فرمایا تھا۔آپؒ نے مختلف اسلامی مکاتب فکر کا بھی خوب مطالعہ کیا۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہبِ عالم، مثلاً یہودیت، عیسائیت، ہندو مت، بدھ مت، کنفیوشن ازم، تاؤ ازم، شینٹو ازم، رزتشتی مذہب، سکھ ازم اور قدیم ابورجنی تعلیمات وغیرہ کا بھی آپؒ نے مطالعہ کیا۔اسی طرح کمیونزم اور سوشلزم نیز ان کی مختلف ذیلی تحریکات وغیرہ کے فلسفے کو بھی تفصیل کے ساتھ پرکھا۔علم الادیان کے ساتھ علم الابدان کے جتنے بھی شعبے آپؒ کے لئے ممکن ہوئے، آپؒ نے مطالعہ کئے۔ مثلاً سائنس کے مختلف شعبے، سیاستِ ملکی و عالمی، تاریخِ اُمم، جغرافیہ وجغرافیائی تغیّرات، موسموں کے اثرات و تغّیر و تبدّل، مشرقی و مغربی اور یونانی فلسفہ وغیرہ، علم نفسیات، علم و عملِ تنویم یا ہپناٹزم، علم اشراق یا ٹیلی پیتھی، تحت الشعور اور لاشعور کے مختلف تجارب، علم فلکیات کے متعدد شعبے اور لا محدود وسعتوں کا ادراک، ابتدائے حیات و ارتقائے حیات کے فلسفے اور علوم، ارضی اور غیر ارضی حیات ومخلوقات، عضویاتی نظام اور اس کا ارتقاء، سمتوں کی حقیقت، علم غیب کی حقیقت، طوفانوں، تباہیوں اور امراض وغیرہ کی وجوہات، زمینی مخلوق کا مستقبل، وغیرہ وغیرہ بے شمارعلوم پر آپؒ کاعلم انتہائی جامع تھا۔ان کے ساتھ قرآن کریم کا تجزیہ یااس کی تصدیق و حکمیت آپؒ کے علم کو حتمیّت عطا کرتی تھی اورآپؒ کے بیان کو سچا اور قطعی بناتی تھی۔ اگر یہ کہا جائے کہ جس طرح آپؒ کے منصب خلافت کا دائرہ پورے عالم پر محیط تھا اسی طرح آپؒ کا علم بھی افق تا افق تھا تو اس میں ایک ذرّہ بھربھی مبالغہ نہ ہوگا۔آپؒ کی جملہ تصنیفات عموماً اور معرکہ آراء تصنیف ‘‘الہام، عقل، علم اور سچائی’’خصوصاًاس پر شاہد ِ ناطق ہیں۔ آپؒ کے علم کی وسعتوں اورذخائر علوم پردسترس کا ذکر کرتے ہوئے مشہور ماہر امراض قلب مکرّم ڈاکٹر سیّد نور الحسن نوری صاحب تحریر فرماتے ہیں:
’’اب آپ اسی سے اندازہ لگالیں جو اگر ظاہری طورپر دیکھا جائے توخاکسار نے کارڈیا لوجی کی لندن میں تعلیم حاصل کی اس پر بہت زیادہ کام بھی کیا۔ لیکن اس موضوع پر حضورؒ سے بات ہوتی تو حضوؒ ر اس تفصیل سے اس موضوع پر بات کرتے تھے کہ حیرت ہوتی تھی۔خصوصاً میری فیلڈاینجیوگرافی اوراینجیوپلاسٹی ہے۔ بارہ تیرہ سا ل پہلے کی بات ہے۔ جب اینجیو پلاسٹی بالکل آغازپر تھی تو حضورؒ نے اس کے بارہ میں مجھے روشنی دی تو میرا interestاس بارہ میں شروع ہوا۔‘‘

ایسا ہمیشہ ہوتا تھا کہ آپؒ سے پہلی مرتبہ ملاقات کرنے والے غیر از جماعت خواص کا خیال ہوتاکہ یہ کوئی عام مذہبی لیڈر ہے جو ایک مخصوص ذہن و خیال، محدود علم و فکر، عالمی تقاضوں اور حالات سے لا تعلق اور بے خبر ہے۔لیکن جب گفتگو کا سلسلہ شروع ہوتا تو حضورؒ ان کو انہی کے مخصوص متعلّقہ مضمون کے بارہ میں اتنی گہرائی میں جا کربتاتے کہ وہ حیران رہ جاتے کہ اس شخص کو اتنا علم کہا ں سے آیا ہے اور ملاقات کے بعد اپنے خیالات کا اظہار اس طرح سے کرتے کہ ہمیں اپنے مضمون پر خود اتنا عبور نہیں تھا جتناآپؒ نے اس کے بارے میں بتایاہے۔

جب حضورؒ کے علمی تفوّق اور رسائی پر نظر جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپؒ آج کی دنیا میں علم وعرفان کا ایک سرچشمہ تھے۔ آپؒ کے دینی اور روحانی علم کے بارے میں ایک عالم گواہ ہے کہ وہ اپنی ذات میں علوم ظاہری و باطنی کاایک خزانہ تھے۔ مگر ہر طبقۂ فکر کے لوگوں کے لئے یہ بات نہایت حیران کن تھی کہ مروّجہ دنیاوی علوم میں بلامبالغہ کوئی ایسا میدان، ایسا موضوع یا مضمون نہیں تھاجس میں آپؒ کو سیر حاصل دسترس نہ تھی۔ مثلاًٹیلی ویژن اور سیٹلائٹ انڈسٹری خالصۃً انجنئیرنگ سے متعلق ایک سائنس ہے۔ آپؒ اس کے تمام پہلوؤں کوبھی تفصیل اور گہرائی میں سمجھتے تھے۔چنانچہ نہایت ٹیکنیکل معاملات میں بھی آپؒ ماہرین فنّ سے ہمیشہ دوقدم آگے ہی ہوتے تھے۔ایک مرتبہ آپؒ نے ڈش انٹینا پر سیٹلائٹ سگنل کو ریسیو کرنے کے مکمل تکنیکی عمل اور Parabola کے مفہوم کو باقاعدہ خاکہ بنا کرکام کرنے والوں کواس طرح سمجھایا جیسے کوئی اعلیٰ ڈگری یافتہ ماہر انجینئر سمجھا سکتا ہے۔

بارہا ایسابھی ہوتا تھا کہ کسی فن یا علم کا کوئی ماہر کوئی پیچیدہ معاملہ لے کر بڑی مفصّل اور مکمّل تیاری کے ساتھ حضورؒ کی خدمت میں پیش ہوا۔ظاہر ہے کہ غلام ہونے کی وجہ سے کم مائیگی کایہ خیال بھی ساتھ ہوتاتھا کہ شاید مد ّعا صحیح بیان نہ ہو پائے۔مگر حضورؒ نے ابتدائی چند الفاظ میں ہی سارے معاملے کو یوں بھانپ لیا کہ حاصل مطلب نکتہ خود ہی بیان فرما دیا اور بغیر کسی مزید تفصیل کے یوں ہدایت فرمائی کہ اس مسئلے کا اس سے زیادہ مناسب دیگر حل ممکن نہ تھا۔

جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے کہ آپؒ اپنے دور کے منفردصاحب طرز ادیب و مصنف تھے۔آپؒ کا قلم اردو ادب اوراس کے محاوروں کے گہرے رازوں سے شناسا اور حق و صداقت کی روشنائی سے منو ّر تھا۔آپؒ سچے تھے، جو لکھتے تھے، سچ لکھتے تھے۔ اس کے عقب میں جوسچا جذبہ کار فرما تھا، آپؒ نے ایک مرتبہ اس کا اظہار یوں فرمایا کہ

’’بچپن میں جب حضرت مسیح موعودؑ کا لٹریچر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کے دفاع میں پڑھا کرتا تھا تو میں خدا تعالیٰ سے دعا کیا کرتا تھا کہ اے خدا! جس طرح حضرت مسیح موعودؑ اپنے آقا اور مطاع حضرت محمدؐ کی عزت کی حفاظت میں سینہ سپرہوجاتے ہیں مجھے بھی یہ توفیق دے کہ میں حضرت مسیح موعودؑ کے دفاع میں اسی طرح کروں۔ مجھے یقین ہے کہ خدا تعالیٰ نے میری دعاؤں کو قبول کیا اور میں جو بھی کہتا ہوں آپ کی مدافعت اوردفاع میں کہتا ہوں۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل29؍اگست تا 4؍ستمبر1997ء)

خدمت ِ اسلام کے لئے مضطرب آرزؤں اورسیماب پا خواہشوں سے بھرے ہوئے اس نابغہ ٔ روزگار برگزیدہ ادیب کی یہ تحریریں ملاحظہ ہوں۔ان پر کسی تبصرے کی ضرورت نہیں لیکن جب آپ یہ تحریریں پڑھیں گے توآپ یہ حقیقت تسلیم کئے بغیر نہیں رہیں گے کہ جہاں آپؒ کا قلم ہوس اقتدار و اختیارسلطنت میں غرق ایک اندھے لکھاری کی زہرناک تحریروں کو عقلی و نقلی دلائل نیز منطق کے موافق و مخالف دھاروں سے کاٹتاچلا جاتا ہے وہاں وہ بار بار اپنے محسن آقاو مولیٰ حضرت محمد مصطفی ٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جذبات عشق وغیرت میں بھی ڈوب ڈوب جاتا ہے اور درد نہاں کی روشنائی سے لبریز ہو کرسینۂ قرطاس پرحقیقت و عرفان کے وہ موتی بکھیرتا ہے کہ جنہیں ابدی سچائیاں اور لازوال حقیقتیں چوم چوم لیتی ہیں۔مثلاً سچائی یہ ہے کہ حضرت رسول اکرم ؐ نے کبھی اشاعت اسلام کی غرض سے تلوار نہیں اُٹھائی اور آپؐ کی کوئی ایک جنگ بھی جارحانہ نہیں تھی۔چنانچہ اسلام پھیلا ہے تو محض آپؐ کی روحانی اور اخلاقی قوّتوں سے، آپؐ کی پاکیزہ سیرت کے جلووں سے، آپؐ کی پاک تعلیم کے حسن سے، آپؐ کے پیغام کی غالب سچّائی سے اور درحقیقت اللہ میں فنا ہو کر کی گئی اندھیری راتوں کی عرش بوس دعاؤں سے۔مگر جب اس سچائی کو ایک مسلمان مصنّف ہی اپنے ظالمانہ تبر سے کاٹنا چاہتا ہے تو آپؒ اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس کی حفاظت کے لئے ایک غیرت مند بیتاب دل کے ساتھ اپنے آقا مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں ڈوبے ہوئے قلم سے دفاع کرتے ہوئے یوں رقمطراز ہوتے ہیں کہ:
’’ظلم کی انتہاء یہ ہے کہ بعض مسلمان ’’رہنما‘‘ جبرو تشدّد کے نظریہ کو صرف اپنے تک ہی محدود نہیں رکھتے بلکہ ہمارے پاک آقاؐ کو بھی اُس میں ملو ّث کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اُسؐ کے دین اور اُسؐ کی قوّت قدسیہ کو بھی اپنے کھوکھلے دلائل اور کِرم خوردہ قو ّتوں کی طرح ایسا کمزور جانتے ہیں کہ گویا اگر تلوار اُس کے قبضۂ قدرت میں نہ ہوتی تو وہ کبھی بھی وہ عظیم رُوحانی تبدیلی پیدا نہ کر سکتا جو عرب سے پھوٹنے والے اُس روحانیت کے سر چشمہ نے چند سالوں میں کر کے دکھادی تھی۔ اُن کے نزدیک اُس مظلوم نبیؐ کی دفاعی جنگیں محض اپنے مذہب کو پھیلانے کے لئے ایک جارحانہ اقدام تھا اور اُس کی مکّی زندگی کا دَور محض ایک ناطاقتی کی دلیل تھی۔ چنانچہ جماعت ِ اسلامی کے امیر مولوی مودودیؔ نہایت و اشگاف الفاظ میں رقمطراز ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 13 برس تک عرب کو اسلام کی دعوت دیتے رہے وعظ و تلقین کا جو مؤثر انداز ہو سکتا تھا اُسے اختیارکیا۔مضبوط دلائل دیئے، واضح حُجّتیں پیش کیں، فصاحت و بلاغت اور زورِ خطابت سے دلوں کو گرمایا۔ اللہ کی جانب سے محیر العقول معجزے دکھائے۔ اپنے اخلاق اور پاک زندگی سے نیکی کا بہترین نمونہ پیش کیا اور کوئی ذریعہ ایسا نہ چھوڑا جو حق کے اظہار و اثبات کے لئے مفید ہو سکتا تھا لیکن آپ کی قوم نے آفتاب کی طرح آپ کی صداقت کے روشن ہوجانے کے باوجود آپ کی دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیا……..لیکن جب وعظ و تلقین کی ناکامی کے بعد داعی ٔ اسلام نے ہاتھ میں تلوار لی………تو دلوں سے رفتہ رفتہ بَدی و شرارت کا زنگ چھوٹنے لگا۔ طبیعتوں سے فاسد مادّے خود بخود نکل گئے۔ روحوں کی کثافتیں دُور ہو گئیں اور صرف یہی نہیں کہ آنکھوں سے پردہ ہٹ کر حق کا نور صاف عیاں ہو گیا بلکہ گردنوں میں وہ سختی اور سروں میں وہ نخوت بھی باقی نہیں رہی جو ظہورِ حق کے بعد انسان کو اس کے آگے جھُکنے سے باز رکھتی ہے۔

عرب کی طرح دوسرے ممالک نے بھی جو اسلام کو اس سُرعت سے قبول کیا کہ ایک صدی کے اندر چوتھائی دنیا مسلمان ہوگئی تو اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ اسلام کی تلوار نے اُن پردوں کو چاک کر دیا جو دلوں پر پڑے ہوئے تھے۔‘‘

(’’الجہادفی الاسلام‘‘ باب چہارم:اشاعتِ اسلام اور تلوار صفحہ 173-174 ادارہ ترجمان القرآن لمیٹڈ اردو بازار لاہور)

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ ﴿۱۵۷﴾ؕ یعنی وہ گندہ اور سخت بہیمانہ الزام جو اسلام کے اشدّ ترین متعصب دشمنوں کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک ذات پر لگایا جاتا تھا جسے یورپ کے یا وَہ گو مستشرقین گزشتہ صدی تک عیسائی دنیا میں اُچھالتے رہے اور اسلام سے دلوں کو متنفّر کرتے رہے وہ آج خود ایک مسلمان ‘‘رہنما’’ کی طرف سے اس مقدّس رسولؐ کی پاک ذات پر لگایا جا رہا ہے ایک ایسے راہنما کی طرف سے جسے ‘‘مزاج شناس رسولؐ ’’ ہونے کا دعویٰ ہے۔ گو الفاظ کو میٹھا بنانے کی کوشش کی گئی ہے، گو تلوار کی اِ س مزعومہ فتح کو پُر شوکت بنا کر دکھانے کی کوشش کی گئی ہے مگر گولی وہی کڑوی اور ناپاک اور زہریلی گولی ہے جو اسلام کے دشمنوں کی طرف سے رسول اللہؐ کی طرف پھینکی جاتی تھی۔ یہ وہی پتھر ہے جو اس سے پہلے جارجؔ سیل اور سمتھؔ اور ڈوزیؔ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر پھینکا تھا اور وہی الزام ہے جو مسٹر گاندھی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اُس وقت لگایا تھا جب وہ اسلام کی تعلیم سے ابھی پوری طرح آشنا نہیں تھے اور محض دشمنانِ اسلام کی کہی ہوئی باتوں کو سُن کر یہ تأ ثر قائم کر لیا تھا۔ چنانچہ مسٹر گاندھی ؔ کے الفاظ میں:
’’ اسلام ایسے ماحول میں پیدا ہوا جس کی فیصلہ کُن طاقت پہلے بھی تلوار تھی اور آج بھی تلوار ہے۔‘‘
اور ڈوزیؔ کہتا ہے کہ:
’’ محمدؐ کے جرنیل ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرے میں قرآن لے کر تلقین کرتے تھے۔‘‘

اور سمتھ کو دعویٰ ہے کہ جرنیلوں کا کیا سوال، خود

’’ آپؐ ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرے میں قرآن لے کر مختلف اقوام کے پاس جاتے ہیں۔‘‘

اور جارج ؔسیل یہ فیصلہ دیتا ہے کہ:
’’ جب آپؐ کی جمعیت بڑھ گئی تو آپؐ نے دعویٰ کیا کہ مجھے ان پر حملہ کرنے اور بزورِ شمشیربُت پرستی مٹا کر دین حق قائم کرنے کی اجازت منجانب اللہ مل گئی ہے۔‘‘


اِن سب دشمنانِ اسلام کی آوازوں کو سنیے اور پھر مولوی مودودیؔ کی مندرجہ بالا عبارت کا مطالعہ کیجئے۔ کیا یہ بعینہٖ وہی الزام نہیں جو اِس سے پہلے بیسیوں دشمنان اسلام نے رسولِ معصوم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر لگایا تھا، بلکہ اس سے بھی زیادہ خطرناک اور اس سے بھی زیادہ آپؐ کی قوّتِ قدسیہ پر حملہ کرنے والا۔ آپ دشمنانِ اسلام کی عبارتیں پڑھ کر دیکھ لیجئے کہیں بھی آپ کو آنحضرت اکی قوّتِ قدسیہ کی مزعومہ کمزوری اور معجزات کی ناطاقتی کا ایسا ہولناک نقشہ نظر نہیں آئے گا جیسا مولوی مودودیؔ نے کھینچا ہے۔ یعنی آپؐ کی مسلسل تیرہ سال کی دعوتِ اسلام تو دلوں کو فتح کرنے سے قاصر رہی مگر تلوار اور جبروت نے دلوں کو فتح کر لیا۔ وعظ و تلقین کے مؤثر سے مؤثر انداز تو صحرائی ہواؤں کی نذر ہو گئے مگر نیزوں کی اَنی نے دلوں کی گہرائیوں تک اسلام پہنچادیا۔ آپؐ کے ‘‘مضبوط دلائل’’ تو عقلِ انسانی میں جاگزیں نہ ہو سکے مگر گُرزوں کی مار خَودوں کو توڑ کر اُن کی عقلوں کو قائل کر گئی۔ واضح بحثیں اُن کی قو ّت استدلال کو متاثر نہ کر سکیں مگر گھوڑوں کی ٹاپوں نے ان کو اسلام کی صداقتوں کے تمام راز سمجھادئیے۔ فصاحت بلاغت بے کار گئی اور زور خطابت دلوں کو اِس درجہ گرمانہ سکا کہ اسلام کا نور اُن کے دلوں میں چمک اٹھتا حتّٰی کہ خود عرش کے خدا کی طرف سے ظاہر ہونے والے محّیرالعقول مُعجزے بھی خائب و خاسر رہے اور ایک ادنیٰ سی پاک تبدیلی بھی پیدا نہ کر سکے لیکن………..‘‘جب داعیٔ اسلام نے ہاتھ میں تلوار لی………..’’ اِنَّا للّٰہ وَ اِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُون۔ کِس قدر مضحکہ خیز ہے یہ تصوّر اور کیسے تحقیر آمیز الفاظ ہیں کہ جن کو پڑھ کر رونا آتا ہے کہ یہ ایک ‘‘اسلامی راہنما’’ کے قلم سے نکلے ہیں جو رسولؐ کی محبت کا دعویدار ہے۔ مولوی کے اِن الفاظ کو پڑھئے اور ‘‘میزان الحق’’ کے کینہ توز مصنّف پادری فنڈرؔکے ان الفاظ کا مطالعہ کیجئے:
‘‘ اب حضرت محمدؐ تیرہ سال تک نرمی و مہربانی کے وسائل سے اپنے دین کی اشاعت میں کوشش کر چکے تھے……. لہٰذا اب سے آنحضرتؐ ‘‘اَلنّبی بالسیف’’ کہلائے یعنی نبیٔ تیغ زن بن گئے اور اس وقت سے اسلام کی مضبوط ترین و کار گردلیل تلوار ہی قرار پائی۔’’

(میزان الحق صفحہ 468)

‘‘ اگر ہم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے تابعین کے چال چلن پر غور کریں تو ایسا معلوم ہو گا کہ اب وہ خیال کرنے لگ گئے تھے کہ عقبہ کے موضوع و مقبول اخلاقی قواعد کی پابندی اُن کے لئے ضروری نہ تھی۔ اب خدا اُن سے فقط یہی ایک بات طلب کرتا تھا کہ اللہ کی راہ میں لڑیں اور تیغ و تیر اور خنجر و شمشیر سے قتل پر قتل کرتے رہیں۔’’

(میزان الحق صفحہ 499)

اور اس کے بعد یہ مصنف مسیحؑ کی مظلومی کا بڑے فخر سے نعوذ باللہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مزعومہ جبر کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے لکھتا ہے:
‘‘آپ کو خدا وند یسوع مسیح کلمۃ اللہ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بن عبد اللہ میں سے ایک کو پسند کرنا ہے۔

یا تو اُس کو پسند کرنا ہے جو نیکی کرتا پھرا یا اُس کو جو ’’النّبی بالسیف‘‘ کہلاتا ہے۔‘‘

(تتمہ، میزان الحق)

پھر مولوی مودودیؔ کی تائید میں ایک اور اسلام دشمن مسٹر ہنریؔ کوپی کے مندرجہ ذیل الفاظ پڑھئے:
‘‘…اور اپنی نبوّت کے تیرھویں سال آپ نے اِس امر کا اظہار کیا کہ خدا نے مجھ کو نہ صرف بغرض مدافعت جنگ کرنے کی اجازت دی ہے بلکہ اپنا دین بزورشمشیر پھیلانے کی بھی اجازت دی ہے۔’’

(اہلِ عرب کی سپین کی تاریخ از ہنریکوپی جلد اوّل صفحہ39
مطبوعہ بوسٹن۔ ماخوذ از ‘‘مقدمہ تحقیق الجہاد’’ صفحہ31)

اور ڈاکٹر اے سپرنگر کے یہ الفاظ پڑھیے جو مولوی مودودی کی ہم خیالی میں اِس رائے کا اظہار کرتے ہیں:
‘‘اب پیغمبر (صلعم) نے فتنہ کے دفع کرنے کے لئے اپنے دشمنوں سے جنگ کرنے کا قانون خدا کے نام سے شائع کیا اور اس وقت سے یہ قاعدہ آپ کے (نعوذ باللّٰہ) خونی مذہب کا نعرۂ جنگ ہو گیا۔’’

وہ دشمنانِ اسلام جو آنحضورؐکے شدید ترین معاندین میں شمار ہوتے ہیں۔ بُغض و عناد سے جن کے سینے کھولتے ہیں۔جو نفرت کی آگ میں جلتے ہیں اگر وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جبر کا الزام لگائیں تو تعجب نہیں۔ غم تو بہت ہوتا ہے مگر تعجب نہیں۔ ہاں تعجب ان پر ہے اورحیف اُن پر جو اس معصوم اور مظلوم رسولؐ کی پیروی کا دَم بھر کر بھی آپؐ کی مقدس ذات پر بربریت کا الزام لگانے کی جسارت کرتے ہیں۔

مولوی مودودی کے نزدیک نہ کبھی پہلے اسلام میں یہ طاقت تھی کہ محض اپنے حسن و جمال سے تلوار کی مدد کے بغیر دلوں کو فتح کرسکے اور نہ آج یہ طاقت ہے۔ چنانچہ اپنے رسالہ ‘‘حقیقت الجہاد’’ میں رقمطراز ہیں:
‘‘کوئی ایک مملکت بھی اپنے اصول و مَسلک کے مطابق پوری طرح عمل نہیں کر سکتی جب تک کہ ہمسایہ ملک میں بھی وہی اصول و مَسلک نہ رائج ہو جائے۔ لہٰذا مسلم پارٹی کے لئے اصلاح عمومی اور تحفّظ خودی دونوں کی خاطر یہ ناگزیر ہے کہ کسی ایک خطّہ میں اسلامی نظام حکومت قائم کرنے پر اکتفاء نہ کرے بلکہ جہاں تک اس کی قو ّتیں ساتھ دیں اس نظام کو تمام اطراف میں وسیع کرنے کی کوشش کرے۔ وہ ایک طرف اپنے افکار و نظریات کو دنیا میں پھیلائے گی اور تمام ممالک کے باشندوں کو دعوت دے گی کہ اس مَسلک کو قبول کریں جس میں اُن کے لئے حقیقی فلاح مضمر ہے۔ دوسری طرف اگر اس میں طاقت ہو گی وہ لڑ کر غیر اسلامی حکومتوں کو مٹا دے گی اور اُن کی جگہ اسلامی حکومت قائم کرے گی۔’’

اس عبارت کو جناب مولوی صاحب کی پہلی عبارت کے ساتھ ملا کر پڑھنے سے بے اختیار گاندھی جی کی یہ رائے ذہن میں اُبھر آتی ہے کہ:
‘‘اسلام ایسے ماحول میں پیدا ہوا ہے کہ اُس کی فیصلہ کن طاقت پہلے بھی تلوار تھی اور آج بھی تلوار ہے۔’’

اور آنحضرتؐ اس مصنوعی خیالی تصویر کی طرف دھیان منتقل ہو جاتا ہے جو واشنگٹن اِرونگ نے اپنی مصنّفہ ‘‘سیرتِ محمد’’صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے ہی صفحہ پرچسپاں کی ہے اور جس میں آنحضرت اکو ایک ہاتھ میں تلوار لئے اور ایک ہاتھ میں قرآن لئے ہوئے دکھایا گیا ہے اور معاً دل میں یہ یقین پیدا ہو جاتا ہے کہ مولوی کے نزدیک بھی اسلام اور اس کے مقدس رسولؐ کا تصو ّر واشنگٹن اِرونگ کے تصور سے کچھ مختلف نہیں ہے۔

پس ایک طرف تو یہ مسلمان ‘‘عالم’’ ہے کہ دنیا کے معصوم ترین نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اشد ترین مخالفین کا ہم نوا ہو کر ظلم اور تعدّی اور جبر اور بغاوت کے الزام لگا رہا ہے اور دوسری طرف ہمیں بے شمار ایسے انصاف پسند غیر مسلم مفکرین کا گروہ نظر آتا ہے جو باوجود شدید اختلاف کے یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا دین ہر گز تلوار کے زور سے نہیں پھیلا بلکہ اپنے ظاہری و باطنی حسن اور عظیم اخلاقی قو ّت کے زور سے دلوں پر فتحیاب ہوا ۔ چنانچہ مولوی اور معاندین اسلام کے محرّرہ بالا اقتباسات کے بعد بے محل نہ ہو گا کہ ہم بعض انصاف پسند غیر مسلموں کی رائے بھی پیش کردیں۔ یہ سب کے سب اسلام کے حامی و مد ّاح نہیں ہیں بلکہ بعض ایسے بھی ہیں کہ خفیف سے خفیف موقع سے فائدہ اُٹھا کر بھی اسلام پر حملہ کرنے سے نہیں چُوکے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دفاعی جنگوں پر گہری تنقیدی نظر ڈالنے کے بعد اُنہیں بے اختیار یہ تسلیم کرنا پڑا کہ:
‘‘اکثر متعصب مخالفینِ اسلام خصوصاً گمراہ کُن پروپیگنڈا کرنے اور ملک میں آتشِ فتنہ و فساد کے بھڑکانے والے کہا کرتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ جاکر طاقت و قو ّت حاصل کر کے اپنی اِس بناوٹی تعلیم رحم و مروّت کو باقی نہ رکھ سکے اپنی زندگی کے اہم مقصود (طلب دنیا حکومت و مرتبہ، مال و دولت وغیرہ) کے حصول کے لئے بڑے زور کے ساتھ تلوار وقوّت کا استعمال کیا بلکہ ایک خونی پیغمبر بن کر دنیا میں تباہی و بربادی مچائی اور اپنے اس بناوٹی صبرو ضبط کے معیار سے گِرگئے۔ لیکن یہ ان کو تاہ بین مخالفوں کی (جن کو خواہ مخواہ کا بُغض اسلام اور مسلمانوں سے ہے) تنگ نظری اور پکشپات رُوپی اگیان (جانبداری، طرفداری۔ ناقل)کا پردہ جو اُن کی نگاہوں پر پڑا ہوا ہے اور بجائے نور کے نار۔ حُسن کے قبح۔ اچھائی کے بُرائی ہی تلاش کرتے رہتے ہیں اور ہر ایک خوبی کے اعلیٰ مرتبہ و تعلیم کو ایسی بُری شکل و صورت میں پیش کرتے ہیں جن سے ان کی بد باطنی اور سیاہ قلبی کا بخوبی پتہ چلتا ہے۔’’

(دنیا کا ہادیٔ اعظم غیروں کی نظر میں، صفحہ57)

یہ اِقتباس ایک غیر مسلم مقرر جناب پنڈت گیا نیندر صاحب دیو شرما شاستری کی ایک تقریر سے لیا گیا ہے جو انہوں نے 1928ء میں رسول اللہؐ کی سیرت پر گورکھ پور میں فرمائی تھی۔ کچھ آگے چل کر یہی پنڈت صاحبِ اسلام کی فیصلہ کُن طاقت کے بارہ میں اپنی تحقیق کا خلاصہ ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں:
‘‘مخالفین اندھے ہیں۔ اُن کو نظر نہیں آتا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار رحم و مروّت تھی۔ دوستی اور درگزر تھی جو مخالفین پر پورے طور پر کار گر ہوتی اور اُن کے قلب کو پاک و صاف کر کے مثل آئینہ بنا دیتی جس کی کاٹ اِس مادی تلوار سے بڑی زبردست اور تیز ہوتی۔’’

(دنیا کا ہادیٔ اعظمؐ غیروں کی نظر میں، صفحہ61)

اِس اقتباس کے بعد کسی رائے زنی یا موازنہ کی ضرورت نہیں رہتی۔ مگر دل سے بے اختیار یہ آہ نکل جاتی ہے کہ کاش مولوی مودودی اپنے ‘‘آقاؐ ’’ کے بارہ میں اتنے ہی انصاف سے کام لیتے جتنا کرشنؑ کے ایک غلام نے لیا ہے۔ ایک نہیں بلکہ بیسیوں حضرت کرشنؑ کے غلاموں نے جب تاریخِ اسلام پر غور کیا تو ہمارے آقاؐ کی بے پناہ قو ّتِ حسن و احسان کو محسوس کیا اور یہ کہے بغیر اُن سے بن نہ پڑی کہ:
‘‘لوگ کہتے ہیں کہ اسلام شمشیر کے زور سے پھیلا مگر ہم اُن کی اِس رائے سے موافقت کا اظہار نہیں کر سکتے کیونکہ زبردستی سے جو چیز پھیلائی جاتی ہے وہ جلدی ظالم سے واپس لے لی جاتی ہے (تعجب ہے کہ مولوی کی نظر’’مزاج شناسِ نبوّت‘‘ انسانی فطرت کے اِس ظاہر و باہر نکتہ کو بھی پا نہ سکی۔ ناقل)اگراسلام کی اشاعت ظلم کے ذریعہ ہوئی ہوتی تو آج اسلام کا نام نشان بھی باقی نہ رہتا۔ لیکن نہیں۔ ایسا نہیں ہے بلکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسلام دن بدن ترقی پر ہے۔ کیوں؟ اِ س لئے کہ بانیٴ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر رُوحانی شکتی تھی۔ منش ماتر (بنی نوع انسان)کے لئے پریم تھا۔ اُس کے اندر محبت اور رحم کا پاک جذبہ کام کر رہا تھا۔ نیک خیالات اُس کی رہنمائی کرتے تھے۔‘‘

(از قلم ایڈیٹر ’’سَت اُپدیشن‘‘ لاہور مؤ رخہ7؍ جولائی 1915ء ماخوذ از ’’برگزیدہ رسولؐ غیروں میں مقبول، صفحہ 12-13)

مگر مولوی صاحب پھر بھی مُصِر ہیں کہ اسلام کی فیصلہ کن طاقت کا راز آپ کے روحانی اعجاز میں نہیں بلکہ تلوار میں مُضمر تھا۔ حَیف! صدحَیف!! کہ آپؐ کی مقدس زندگی کا وہ معجزہ جو ایک غالی آریہ کی نظر سے بھی اوجھل نہ رہ سکا مولوی کی ’’پُر بصیرت آنکھ‘‘ اُسے دیکھنے سے محروم رہ گئی۔ ’’آریہ مسافر‘‘ کی اسلام دشمنی سے کون واقف نہیں ہے۔ یہ آریہ مذہب کا وہ ترجمان ہے جو ہمیشہ اسلام کی مخالفت پرکمر بستہ رہا مگر جب اس کے ایک مقالہ نویس نے رسول ا للہؐ کے غلبہ کی وجوہ پر غور کیا تو تلوار کی قوت کے الزام کو ایک فرسودہ اور بے بنیاد اِتّہام کے طور پر ٹھکرا دیا اور آپ کے غلبہ کی وجہ محض یہ قرار دینے پر مجبور ہو گیا کہ آپ کی زندگی ایک مجسم معجزہ تھی چنانچہ وہ لکھتا ہے اور انسانی فطرت کی یہ کیسی سچّی اور پاک گواہی ہے کہ:
’’وہ شخص جس نے قریش کو ایمان کا جام شہادت پلایا ایک معجزہ تھا…….اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایک معجزہ نہ ہوتی تو کون ہم کو ولید (غالباًخالد بن ولیدؓ مراد ہیں۔ناقل) کی بے غرضانہ خدمات سے مستفید کرتا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جوش ایمان کا دریا موجزن کیا اور عرب کی جنگلی آبادی کو ایک واحد خدا کا پرستار بنایا۔‘‘

(’’آریہ مسافر‘‘ اکتوبر 1913ء صفحہ2-3 بحوالہ ’’برگزیدہ رسولؐ غیروں میں مقبول‘‘ صفحہ24)

پھر لاہور میں ہونے والے آریہ سماج کے ایک جلسہ میں پروفیسر رام دیو صاحب سابق پروفیسر گوروکل کانگڑی و ایڈیٹر ویدک میگزین نے ہمارے آقا و مولا محمدعربیؐ پر لگائے جانے والے اس مکروہ اتہام کو غلط قرار دیتے ہوئے کہ آپؐ نے اسلام تلوار سے پھیلایا تھا ان الفاظ میں اپنی تحقیق کا اظہار کیا:
’’لیکن مدینہ میں بیٹھے ہوئے محمد صاحب صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن میں جادو کی بجلی بھر دی۔ وہ بجلی جو انسانوں کو دیوتا بنادیتی ہے……اور یہ غلط ہے کہ اسلام محض تلوار سے پھیلا ہے۔ یہ امرِ واقعہ ہے کہ اشاعت اسلام کے لئے کبھی تلوار نہیں اُٹھائی گئی۔ اگر مذہب تلوار سے پھیل سکتا ہے تو آج کوئی پھیلا کر دکھائے۔‘‘

(اخبار’’پرکاش‘‘بحوالہ ’’برگزیدہ رسولؐ غیروں میں مقبول‘‘ صفحہ 11)

اس آخری فقرہ میں کیسی لازوال سچّائی بھری ہوئی ہے ’’اگر مذہب تلوار سے پھیل سکتا ہے تو آج کوئی پھیلا کردکھا دے۔ ‘‘ہمارے مقدّس آقا صلی اللہ علیہ وسلم پر جبر کا الزام لگانے والوں کے لئے لمحۂ فکریہ اور چیلنج ہے اور مجھے قَسم ہے اُس ذات کی جس نے مذہب کو پیدا کیا کہ جب سے سلسلہ ٔنبو ّت جاری ہوا ہے نہ کبھی پہلے کسی جابر متشد ّد نے اس چیلنج کا جواب دیا نہ آج دے سکتا ہے نہ کبھی آئندہ دے سکے گا اور ایک مودودی نہیں پچاس کروڑ مودودی بھی مِل کر کوشش کریں تب بھی ایک انسان کے دل سے بھی تلوار کی قو ّت سے اُس کا مذہب نکال نہیں سکتے۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاءؑ اس بات کے گواہ ہیں کہ اُن کے مخالفین کی طرف مذہب کو بزور تبدیل کرانے کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار مرتبہ تلوار اُٹھا ئی گئی مگر ہر بار خائب و خاسر رہی۔ وہ ہاتھ شل ہو گئے اور وہ تلواریں ٹوٹ گئیں اور مذہب اُن کے سائے تلے بے خوف پھیلتا اور پھولتا اور پھلتا رہا۔

پھر ان سب نبیوں کے سردارؐ کے کب شایاں تھا کہ اس معصوم گروہ کے کامیاب طریقہ ٔتبلیغ کو چھوڑ کر ناکام ظالموں کا وطیرہ اختیار کرتے۔نہیں۔ ایسا مت کہو کہ یہ میرے آقاؐ پر توڑے جانے والے سب ظلموں سے زیادہ ظلم ہے اور ایسا صریح ظلم ہے کہ غیر بھی بے اختیار پُکار اُٹھے کہ نہیں ہوا ۔ چنانچہ موسیو اوجین کلوفل نے آپؐ سے متعلق لکھا:
’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام دنیا کو فتح کرنا اور اسلام کا بول بالا کرنا چاہا مگر غیر مذاہب والوں پر کسی قِسم کا جبر و ستم کرنا روا نہیں رکھا۔ اُن کو مذہب اور رائے کی آزادی عطاء کی اور اُن کے تمدّنی حقوق قائم رکھے۔‘‘

(’’اسلام اور علمائے فرنگ‘‘ صفحہ9 بحوالہ ’’برگزیدہ رسولؐ غیروں میں مقبول‘‘ صفحہ11)

مسٹر گاندھی کو بھی جن کی فراست بڑی گہری تھی مزید تحقیق کے بعد آخر اپنی اُس رائے کو تبدیل کرنا پڑا جس کا اُوپر ذکر کیا گیا ہے اور اپنے اخبار ’’ینگ انڈیا‘‘ کی ایک اشاعت میں یہ تسلیم کرنا پڑا کہ:
’’مَیں جوں جوں اِس حیرت انگیز مذہب کا مطالعہ کرتا ہوں حقیقت مجھ پر آشکارا ہوتی جاتی ہے کہ اسلام کی شوکت تلوار پر مبنی نہیں۔‘‘

اور ڈاکٹر ڈی۔ ڈبلیو۔ لائٹز نے بھی خود قرآن ہی سے اِس الزام کی تردید میں ایک مضبوط استدلال کرتے ہوئے لکھا:
’’فی الواقع اُن لوگوں کی تمام دلیلیں گِر جاتی ہیں جو محض اِس بات پر قائم ہیں کہ جہاد کا مقصد تلوار کے ذریعہ سے اسلام کا پھیلانا تھا کیونکہ بخلاف اِس کے سورہ حج میں صاف لکھا ہے کہ ’’جہاد کا مدّعا مسجدوں اور گرجاؤں اور یہودیوں کی عبادت گاہوں اور زاہدوں اور عابدوں (تپشیروں) کی خانقاہوں (تپسّیا شالاؤں) کو بربادی سے محفوظ رکھنا ہے۔‘‘

(ایشیا ٹک کوارٹرلی ریویو‘‘ اکتوبر1886ء)

پس تلوار کے زور سے اسلام پھیلانے کا الزام لگانے والوں سے مَیں خود قرآن ہی کے الفاظ میں پوچھتا ہوں اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ اَمۡ عَلٰی قُلُوۡبٍ اَقۡفَالُہَا ﴿۲۵﴾ (محمد:25)’’کیا وہ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ یا دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں!‘‘

مگر مولوی کو کون سمجھائے کہ وہ اس دعویٰ پر مُصِر ہیں اور ببانگ دُہل مصر ہیں اور فنڈرؔ اور سیلؔ اور ہنریؔ کوپی اور سمتھؔ اور ڈوزیؔ اور سپرنگرؔ کی ہمنوائی میں مُصِر ہیں اِس اعلان پر کہ:
’’یہی پالیسی تھی جس پر رسول اللہؐ نے اور آپؐ کے بعد خلفائے راشدین نے عمل کیا۔ عرب جہاں مسلم پارٹی پیدا ہوئی تھی سب سے پہلے اطراف کے ممالک کو اپنے اصول اور مسلک کی طرف دعوت دی مگر اِس کاانتظار نہ کیا کہ یہ دعوت قبول کی جاتی ہے یا نہیں بلکہ قوت حاصل کرتے ہی رومی سلطنت سے تصادم شروع کردیا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابو بکرؓ پارٹی کے لیڈر ہوئے تو انہوں نے رُوم اور ایران دونوں کی غیر اسلامی حکومتوں پر حملہ کیا اور حضرت عمرؓ نے اس حملہ کو کامیابی کے آخری مراحل تک پہنچا دیا۔‘‘

(حقیقتِ جہاد صفحہ65)

(ہادی علی چوہدری۔ نائب امیر جماعت احمدیہ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

درخواست دعا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 مارچ 2023