• 20 مئی, 2024

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے (ذاتی تجربات کی روشنی میں) (قسط82)

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے
ذاتی تجربات کی روشنی میں
قسط82

خدا تعالیٰ کے فضل سےاب خاکسار سال 2012ء میں پریس اور میڈیا سے تعلق اور پیغام حق بجا نے کے سلسلہ میں جو خدمت کی توفیق اور سعادت ملی اس کا ذکر کرتا ہے۔جیسا کہ خاکسار ازیں قبل بھی بتا چکا ہے کہ یہ محض اور محض اللہ تعالیٰ کا فضل اور خلیفہ وقت کی دعائیں اور راہنمائی ہی ہے جس نے ہمیں یہ کامیابیاں عطا فرمائیں اور پریس اور میڈیا جو امریکہ اور یورپ میں کسی کی نہیں سنتا اور نہ کسی پر رحم کھاتا ہے۔ ہمیں ہر موقعہ پر اسلام کی صحیح اور حسین تعلیم کو بیان بیان کرنے اور اسے نشر کرنے اور اشاعت کا موقع ملا۔ جس پر ہم اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر بجا لائیں۔ کم ہے۔

پاکستان ایکسپریس کی اشاعت 20؍ جنوری 2012ء میں صفحہ 13 پر خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ‘‘ہردن چڑھے مبارک ہر شب بخیر گذرے’’ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع ہوا۔ اس کے علاوہ ایک اور تصویر بھی اس مضمون کے ساتھ ایڈیٹر نے شائع کی اور وہ یہ ہے کہ ایک شخص کو قرآن کریم کے صفحات پڑھتے دکھایا ہے۔

اس مضمون میں خاکسار نے سب کو سال 2012ء میں داخل ہونے پر مبارکباد دی ہے اور لوگوں کے رویے کا اظہار بھی کیا ہے کہ لوگ اس سال اچھائی کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے لیکن اس کے لئے خود بھی اچھا بننا پڑتا ہے اور اچھائی کی تلقین بھی کرنی ہوتی ہے۔ صرف اچھا اچھا کہہ دینے سے اچھائی نہیں آجاتی جب تک عمل اچھا نہ ہو۔

اپنے اندر اچھے اخلاق پیدا کرنا۔ اچھی باتیں کرنا۔ اچھے کام بجا لانا اور خود اچھا بننا۔ یہ سب باتیں اچھائی حاصل کرنے کے لئے ضروری ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ارشاد ہے یا تو اچھی باتیں کرو، اور اچھائی کی تلقین کرو، یعنی امر بالمعروف کرو اور نہی عن المنکر کرو۔ اگر ایسا نہ کیا تو خدا تمہیں ہلاک کر کے ایک اور قوم لے آئے گا جو اچھائی کی طرف بلائے گی اور خود بھی اچھے بنیں گے۔

خاکسار نے یہ بتایا کہ جو لوگ مایوس ہوجاتے ہیں۔ مایوسی اچھی بات نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کو چاہیئے کہ قرآن کریم کی اس بات پر عمل کریں جنہوں نے اپنے نفسوں پر زیادتی کی ہے۔ تم خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ اس کے لئے بھی یہ شرط ہے کہ اپنے اندر تبدیلی پیدا کی جائے۔

خاکسار نے بتایا کہ مجھے ایک چرچ جانے کا اتفاق ہوا انہوں نے ایک انٹرفیتھ میٹنگ بلائی ہوئی تھی۔ اس میٹنگ کا عنوان تھا ‘‘مذہب یا کلچر میں کون ایک دوسرے پر اثرانداز ہورہا ہے؟’’اس مضمون پر دیگر مذاہب والوں میں سے کسی نے بھی مذہب کے بارے میں کچھ نہیں بتایا سب نے کلچر پرہی زور دیا۔ خاکسار نے اپنی باری پر بتایا کہ مذہب خدا کی طرف سے آتا ہے اور مذہب کی غرض و غائیت انسان کا خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا ہے اور جو مذہب اس غرض کو پورا نہیں کرتا وہ خدا کی طرف سے نہیں ہوسکتا۔ خدا جب چاہتا ہے تو نبی بھیجتا ہے اور اس نے آکر ہی لوگوں کو بُرے کلچر سے نکالنا ہوتا ہے اور جب نبی ایسا کرتا ہے تو لوگ اس کی مخالفت شروع کر دیتے ہیں۔ قرآن ان باتوں سے بھرا پڑا ہے۔ لوگ نبیوں کی بات کیوں نہ مانتے تھے کیوں کہ وہ کہتے تھے کہ ہم اپنے باپ دادا کی روایات پر قائم ہیں تو نبی نے آکر ان سے وہ کلچر ختم کرانا ہوتا ہے اور ایک نئے کلچر کی بنیاد رکھنی ہوتی ہے۔ جس کا تصادم مذہب کے ساتھ نہ ہو بلکہ وہ مذہب کے تابع ہو۔ مذہب خدا کی طرف سے ہوتا ہے اور کلچر انسان خود بناتے ہیں۔ کلچر کو تو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ مذہب کو نہیں۔ اس لئے کلچر کو مذہب کے تابع ہونا چاہیئے۔ خاکسار نے اس ضمن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال پیش کی کہ آپؐ کی بعثت سے پہلے عربوں کی کیا حالت تھی وہ کس قسم کے کلچر میں تھے۔ پانچ وقت تو شراب پیتے تھے۔ ہر قسم کی برائیاں تھیں جنہیں وہ نیکیاں خیال کرتے تھے۔ پس ایسے کلچر اور ماحول میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خدا کی طرف بلایا۔ صرف عبادت الٰہی کی طرف توجہ دلائی۔ چنانچہ جب شراب کی مناہی کا حکم آیا تو سب نے دل و جان سے اس حکم پر عمل کیا۔

اس کے بعدخاکسار نے حاضرین کو اسلامی پردے کے بارے میں بتایا اور حیاء کی تعلیم بیان کی اس ضمن میں عورت کے ساتھ ہاتھ ملانے کا بھی بیان ہوا۔ آخر میں خاکسار نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا ایک اقتباس بھی لکھا ہے کہ ’’پس اگر کوئی شخص اپنے ایمان میں نشوونما کا مادہ نہیں رکھتا بلکہ اس کا ایمان مردہ ہے۔ تو اس پر اعمال صالحہ کے طیب اشجار بار آورہونے کی کیا امید ہوسکتی ہے۔‘‘

پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 20؍ جنوری 2012ء میں صفحہ 7 پر ایک مختصراً خبر اس عنوان سے دی

’’چینو، کیلی فورنیا میں انٹرفیتھ میٹنگ‘‘

چینو، کیلی فورنیا۔ (پ ر) ‘‘گذشتہ ہفتہ چینو کے ایک چرچ کی خاتون پادری ریورنڈ جان چیز نے ایک انٹرفیتھ میٹنگ کا اہتمام کیا جس میں مسجد بیت الحمید کے امام شمشاد اور ان کے دیگر ساتھیوں کو مدعوکیا گیا تھا۔ میٹنگ کا موضوع تھا مذہب اور کلچر کس طرح ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ میٹنگ میں بدھ، عیسائی اور یہودی بھی شامل تھے۔ امام شمشاد نے اس موقعہ پر اپنی تقریرمیں کہا کہ مذہب خدا کی طرف سے آتا ہے جب کہ کلچر انسان خود بناتا ہے۔ کلچر میں تبدیلیاں حالات کے مطابق ہوتی رہتی ہیں یہی کلچر جب بگڑ جاتا ہے تو انسان کو خدا سے دور لے جاتا ہے۔

ہفت روزہ نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 20؍ جنوری 2012ء میں صفحہ 12 پرخاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’ہر دن چڑھے مبارک ہر شب بخیر گذرے‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔ اس مضمون کا خلاصہ گذشتہ اخبار کے حوالہ سےپہلے گذر چکاہے۔

پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 27؍ جنوری 2012ء میں صفحہ 13 پر خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’موجودہ بحران کا اسلامی حل ‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔ خاکسار نے لکھا دنیا کا کوئی ملک بھی اس وقت امن میں نہیں ہے کہیں معاشی و اقتصادی بدامنی ہے تو کہیں سیاسی بدامنی اور اگر کسی کو کہیں کچھ بن نہیں پاتا تو مذہبی منافرت پھیلانے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں۔ ہر قوم اپنے اپنے مفادات کے پیچھے دوڑ رہی ہے۔ حرص نے شدت اختیار کر لی ہے امیر امیر تر بننے کی کوشش میں ہے اور غریب بے چارہ پِس رہا ہے۔ غربت و افلاس نے ہر جگہ ڈیرے ڈال رکھے ہیں لوٹ کھسوٹ، قتل و غارت، بے ایمانی اور رشوت کا دور دورہ ہے۔ خدا خوفی کانام و نشان تک نہیں ہے۔ انسانیت کا قتل بڑے بہیمانہ انداز میں ہورہا ہے۔ انسانوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک ہو رہا ہے۔ خواتین اور بچوں کے ساتھ زیادتی اور ان کا قتل بھی اب عام بات ہوگئی ہے۔ جس طرف بھی نگاہ اٹھائیں، نگاہیں شرم سے جھک جاتی ہیں۔ لیکن اس قسم کی حرکتیں کرنے والوں کو ذرا بھی شرم محسوس نہیں ہوتی۔ بے حسی نے پوری طرح معاشرہ کو جکڑ لیا ہے۔ شرم کے پردے چاک ہوگئے ہیں۔

اسلامی تعلیم میں اب بھی کرن امید کی ہے۔ فلاح اور کامیابی کے دروازے خدا کے حضور اب بھی کھلے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ان حالات کے بارے میں بھی ہمارے پیارے آقا سرور کائنات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ آخری زمانے میں یہ سب کچھ ہوگا۔ ایک حدیث میں ہے کہ صحابہ اور تبع تابعین کے بعد جھوٹ رواج پاجائے گا اور بلاوجہ قسمیں کھائی جائیں گی۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ جب لوگ ظلم و فسوق و فجور میں بڑھ جائیں گے اور کوئی ان کو روکنے نہ ہوگا تو خدا کا عذاب ان پر نازل ہوگا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ یہ بھی فرمایا کہ ایک لشکر اپنے گناہوں کی وجہ سے ہلاک ہوگا۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ امانت چھن جائے گی۔ صحابہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کیا ہم ہلاک ہوجائیں گے باوجود اس کے کہ ہم میں بھی نیک بندے ہوں گے۔

آپؐ نے فرمایا کہ ہاں جب فسق و فجور غالب آجائے گا۔ پھر آپ نے یہ بھی فرمایا کہ آخری زمانے کی علامات میں سے یہ بھی ہے کہ لوگ قرآن پڑھیں گے مگر قرآن ان کے حلق سے نیچے نہ اترتے گا۔ آپؐ نے یہ بھی نصیحت فرمائی تھی کہ میرے بعد کافر نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردن زنی (قتل) کرنے لگو۔ یہ وہ علامات ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری زمانے کے بارے میں فرمائی ہیں اور ان سب باتوں کا ظہور ہوچکا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی آپ نے یہ خوشخبری بھی امت کو دی کہ ایسے وقت میں امام مہدی مبعوث ہوں گے اس وقت تم ‘‘بالجماعۃ’’ کے ساتھ ہوجانا یعنی جماعت کو لازم پکڑنا اور فتنوں میں حصہ نہ لینا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں تو یہ امام المہدی کیوں آئیں گے؟ کیا قرآن شریف مکمل شریعت نہیں ہے۔ یہ بات تو مسلمانوں کے مروجہ عقیدہ کے خلاف ہوگی۔

پھر جب پاکستان کے آئین اور قانون کو دیکھتے ہیں تو اس میں بھی بالکل کسی کی گنجائش نہیں ہے۔ ہر ایک کا آنا محال ہے اور آنے کا دروازہ تو بالکل کسی کی گنجائش نہیں ہے۔ ہر ایک کا آنا محال ہے اور آنے کا دروازہ تو بالکل آئین نے بند کر دیا ہے۔ اگر وہ کسی اور ملک میں آجائیں تو پاکستان کا ویزا لینا مشکل ہوگا انہیں۔ اگر پاکستان چلے گئے تو 3سال قید ہوگی اور جرمانہ الگ۔

ادھر جب انجیل پڑھو اور عیسائیوں کے عقائد دیکھو تو لکھا ہے کہ مسیح نے کہا جب میں دوبارہ آؤں گا تو میرا آنا رات کو چوروں کی مانند ہوگا۔ اگر ان کی بعثت اس طرح مخفی ہوگئی تو لوگ کس طرح ان کو آسمان سے اترتا دیکھیں گے۔ چنانچہ مان لیتے ہیں وہ آئیں گے لیکن کب آئیں گے، امت تو اب کس قدر کرپٹ ہوچکی ہے۔ آنے والے نے کب آنا ہے؟

اس کے بعد خاکسار نے چند قرآنی آیات نقل کی ہیں کہ مثلاً سورہ ہود کی یہ آیت۔ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور میں یقیناً اس کی طرف سے نذیر یعنی نبی اور ہوشیار کرنے والا ہوں اور پھر بشیر بھی ہوں یعنی خوشخبری دینے والا بھی اور یہ کہ تم خدا سے استغفار کرو اور توبہ کرو اور رجوع کرو۔

یہ بحران جس کا اوپر ذکر گذر چکا ہے کا اصل سبب خدا سے دُوری ہے۔ اس کی عبادت سے غفلت کا نتیجہ ہے اور یہ کہ انسان اپنے مقصد پیدائش کو بھول چکا ہے۔ پس مخلوق کو دوبارہ خدا کی طرف آنا ہوگا۔ گناہوں سے معافی، توبہ اور رجوع کرنا ہوگا۔ اگر یہ نہیں تو پھر نہ نجات ہو گی بلکہ بحران ہی بحران رہیں گے۔ عبادت میں صرف نماز ہی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے ہر حکم کی تعمیل ہے۔ جب تک یہ نہ ہوگا راہ نجات نہیں ہے۔

ہفت روزہ نیویارک عوام نے بھی اپنی اشاعت 27؍ جنوری تا 2؍ فروری 2012ء میں صفحہ 12 پر خاکسار کا مندرجہ بالا مضمون ’’موجودہ بحران کا اسلامی حل‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔ خلاصہ اوپر گزر چکا ہے۔

انڈیا ویسٹ نے اپنی اشاعت 27؍ جنوری 2012ء میں صفحہ26 Bپر ہماری ایک خبر شائع کی ہے۔ جس میں ایک کلرڈ تصویر بھی دی گئی ہے۔ تصویر میں خاکسار کے ساتھ برادرعلیم ہیں اور چرچ میں قرآن کریم کی آیت پر تبصرہ کیا جارہا ہے۔ خبر کی تفصیل یہ ہے کہ ان لینڈ ویلی میں ایک انٹر فیتھ میٹنگ میں مذہب اور کلچر پر پروگرام۔ اس خبر کی تفصیل بھی پہلے گذر چکی ہے۔

ویسٹ سائیڈ سٹوری نیوز پیپر نے اپنی اشاعت 2؍ فروری 2012ء میں صفحہ 8 پر ¼صفحہ پر ہمارا تبلیغی اشتہار شائع کیا۔ اشتہار کی ہیڈ لائن یہ ہے:‘‘مسیح موعود حضرت مرزا غلام احمد آف قادیان۔ بانیٔ جماعت احمدیہ’’ درمیان میں حضور علیہ السلام کی تصویر ہے۔ اس کے بعد ایک طرف یہ لکھا گیا ہے کہ جو شخص مسلمان ہونا چاہتا ہے۔ اسے کلمہ طیبہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کا اقرار کرنا ہوتا ہے اور احمدیہ مسلم کمیونٹی میں شمولیت کے لئے دس شرائط بیعت ہیں۔ شرط نمبر 5، شرط نمبر 6 اور شرط نمبر 7 کو لکھا گیا ہے۔

سب سے نیچے’’ محبت سب کے لئے، نفرت کسی سے نہیں‘‘ اور مسجد بیت الحمید چینو کا ایڈریس ہے اور دوسری طرف جماعت احمدیہ کے بارے میں ہے کہ 1889ء میں قائم ہوئی۔ امریکہ میں جماعت 1921ء میں قائم ہوئی اور ریڈیو پرواگراموں کی تفصیل ہے کہ کب نشر ہو تا ہے۔

نیویارک عوام نے اپنی شاعت 3تا 9؍ فروری 2012ء میں صفحہ 12 پر خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ‘‘انسان اور شیطان’’شائع کیا ہے۔ اس مضمون میں خاکسار نے بتایا ہے کہ ہم لاکھ جرم کر کے بھی انسان ہی رہے۔ ابلیس ایک جرم سے شیطان ہوگیا۔ خاکسار نے لکھا کہ اس مضمون میں چند لطائف بیان کرتا ہوں۔ شائد یہ حقیقت ہی ہوں جسے پڑھ کر قاری اندازہ لگا سکے گا کہ واقعۃً معاشرے کی یہی تصویر ابھر رہی ہےیا نہیں۔ یہ ایک رسالے سے لئے گئے ہیں۔

پہلا لطیفہ:ایک شخص بال کٹوانے حجام کی دکان پر گیا۔ جب وہ کرسی پر بیٹھاتو حجام نے تازہ اخبار پکڑا دیا۔ وہ شخص بولا کہ میں اخبار نہیں پڑھوں گا کیوں کہ میں اخبار سے الرجک ہو ں۔ کیوں کہ اس میں چوری، ڈکیتی اور قتل و غارت کی خبریں ہوتی ہیں جسے پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ حجام کہنے لگا کہ اسی لئے تو اخبار دیا ہے۔

دوسرا لطیفہ:کہتے ہیں کہ ایک دفعہ پاکستانی وزیر قانون اور افغانی وزیر ایک دوسرے سے ملے۔ پاکستانی وزیر نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ میرے پاس وزارت قانون کا عہدہ ہے۔ افغانی وزیر بولا کہ میں ریلوے کا وزیر ہوں۔ پاکستانی وزیر نے کہا کہ افغانستان میں تو ریلوے ہے ہی نہیں آپ کیسے وزیر بن گئے؟ افغانی وزیر نے جواب دیا آپ کے ملک میں تو سرے سے قانون ہی موجود نہیں پھر بھی آپ وزیر ہیں۔ اسی طرح میں بھی افغانستان میں ریلوے کا وزیر ہوں۔

خاکسار نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے اخبار میں لکھا کہ اس لطیفہ پر تو مجھے چنداں کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ وطن عزیز میں قانون کی حکومت ہے یا دہشت گردی کی اور سب خبروں کا منبع ایک ہی ہے یعنی لاقانونیت اور دہشت گردی۔ دہشت گردی کا پتہ بھی لگ جائے پھر بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے معذور ہوجاتے ہیں بلکہ عدالتوں کے ججز کو عدالتی فیصلہ سنانے کے بعد چھپنا پڑتا ہے اور بعض صورتوں میں ملک سے ہی فرار ہونا پڑتا ہے۔ کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ ان کا اپنا بنایا ہوا قانون بھی انہیں صحیح فیصلہ کی وجہ سے بچا نہ سکے گا۔

ایک اور لطیفہ:ایک ایس پی (SP)صاحب گھر پر تھے ان کی بیگم کار پر شاپنگ کرنے بازار گئیں۔ واپسی پر انہیں معلوم ہوا کہ ان کے ہاتھ کی گھڑی غائب ہے۔ بیگم نے SPصاحب سے کہا تم بھی عجیب حاکم ہو بازار میں کسی نے میرے ہاتھ سے گھڑی اتار لی ہے! SP صاحب نے اسی وقت تھانے میں فون کیا اور تھانے دار کو سخت لہجہ میں بُرا بھلا کہا کہ میری بیگم کی گھڑی بازار میں کسی نے اتار لی ہے۔ گھڑی فوراً برآمد کرو۔ ایک گھنٹے بعد ایس پی صاحب اسی کار میں بیٹھ کر باہر جانے لگے تو اس نے دیکھا کہ گھڑی گاڑی میں گری پڑی ہوئی ہے۔ ایس پی صاحب نے گھڑی بیگم کو دے دی اور تھانے دار کو فون کیا کوئی بات نہیں گھڑی مل گئی ہے۔ تھانے دار نے جواب دیا میں نے گھڑی برآمد بھی کر لی ہے اور آدمی کا چالان بھی کر دیا ہے اور اسے حوالات میں بند کیا جاچکا ہے۔ اب سر بتائیں میں کیا کروں۔ مزید کیا حکم ہے؟

کیا ایسے ہی ہوتا ہے؟ بالکل ایسے ہی ہوتا ہے بعض پروگراموں سے اس کی سو فی صد تصدیق ہوجاتی ہے کہ بعض مجرم بے گناہ جیلوں میں پڑے ہیں اور ان پر کوئی مقدمہ بھی نہیں ہوتا۔ صرف ذاتی دشمنی یا بعض اوقات افسران بالا سے دوستی کی وجہ سے کسی کو حوالات میں بند کر دیا جاتا ہے۔ انصاف زبانوں پر ہے لیکن ایوانوں اور ایمانوں میں نہیں۔

اس مضمون کا آخری لطیفہ:آوارہ کتوں کے خلاف بلدیہ کی مہم زوروں پر تھی ایک صاحب اپنے کتے کو نہلانے کے لئے نکلے تو ایک پولیس نے انہیں روک لیا اور پوچھا کیا آپ نے کتے کا لائسنس بنوا لیا ہے؟ وہ صاحب بولے نہیں۔ اس نے ابھی ڈرائیونگ نہیں سیکھی۔

یہ لطائف خاکسار نے ایک رسالے سے لئے ہیں۔ دراصل یہ لطائف نہیں، حقیقت حال ہے۔ ہمارے معاشرہ کی۔ لیجئے اسی مضمون کے آخر پر خاکسار نے چند احادیث بھی لکھی تھیں۔

ظلم سے بچو:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ظلم سے بچو کیوں کہ قیامت کے دن ظلم تاریکیاں بن کر سامنے آئے گا۔

ایک صحابی رو رہے تھے۔ رونے کا سبب یہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اپنی امت کے بارہ میں شرک اور مخفی خواہشات سے ڈرتا ہوں۔

ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ میری امت کا مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ، زکوٰۃ وغیرہ اعمال لے کر آئے گا لیکن اس نے کسی کو گالی دی ہوگی۔ کسی پر تہمت لگائی ہوگی۔ کسی کا مال کھایا ہوگا اور کسی کا ناحق خون بہایا ہوگا اور کسی کو مارا ہوگا۔ پس ان مظلوموں کو ان کی نیکیاں دے دی جائیں گی۔ یہاں تک کہ اگر ان کے حقوق ادا کرنے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہوجائیں گی تو ان کے گناہ اس کے ذمہ ڈال دیئے جائیں گے اور اس طرح جنت کی بجائے اسے دوزخ میں ڈال دیا جائے۔ یہی شخص دراصل مفلس ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔ ’’یاد رکھوکہ وہ دین خدا کی طرف سے نہیں ہوسکتا جس میں انسانی ہمدردی نہیں۔ خدا نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ زمین پر رحم کرو تا آسمان سے تم پر رحم کیا جائے‘‘

پس ہماری یہ دعا ہے کہ

شیطان کی حکومت مٹ جائے اس جہاں سے
حاکم تمام دنیا پہ میرا مصطفیٰؐ ہو

چینو چیمپئن نے اپنی اشاعت 4تا 10؍ فروری 2012ء میں صفحہ B5 پر ہماری ایک خبر تصویر کے ساتھ شائع کی ہے۔ تصویر کے نیچے لکھا ہے۔ امام شمشاد ناصر آف احمدیہ مسلم کمیونٹی سٹیٹ سینیٹر گلوریا نیگریٹ State Set, Gloria Negrete Mecleoudکو اسلامی لٹریچر دے رہیں۔خبر کا عنوان ہے۔ ’’مسجد میں لائف آف محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کا پروگرام۔‘‘

قریباً 450 احمدی مسلم مرد و خواتین بچے۔ مہمانوں کے ساتھ خصوصاًسیرالیون مغربی افریقہ سے تعلق رکھنے والے احمدیہ مسلم کمیونٹی کی مسجد میں اکٹھے ہوئے اور لائف آف محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر پروگرام کیا گیا۔

سٹیٹ سینیٹر گلوریا نیگریٹ اورسیرالیون سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے بھی اسی پروگرام میں تقاریر کیں۔ اس موقعہ پر مسجد بیت الحمید چینو کے امام سید شمشاد ناصر نے سٹیٹ سینیٹر کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ سے متعلق ایک کتاب دی جو جماعت احمدیہ کے پانچویں خلیفہ کی ہے۔

الاخبار نے اپنی اشاعت 8؍ فروری 2012ء میں صفحہ 9 پر حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ایک خطبہ جمعہ کا خلاصہ حضور انور کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔ حضور نے اس خطبہ جمعہ میں سورہ آل عمران کی آیات 115-116 اور ان کا ترجمہ سنایا۔

یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَیَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَیَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَیُسَارِعُوۡنَ فِی الۡخَیۡرٰتِ ؕ وَاُولٰٓئِکَ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۱۱۵﴾ وَمَا یَفۡعَلُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ فَلَنۡ یُّکۡفَرُوۡہُ ؕ وَاللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِالۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۱۱۶﴾

(آل عمران:115-116)

ترجمہ:وہ اللہ پر اور آنے والے دن پر ایمان رکھتے ہیں اور نیکی کی ہدایت کرتے ہیں اور بدی سے روکتے ہیں اور نیک کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھتے ہیں اور یہ لوگ نیکوں میں سے ہیں اور جو نیکی بھی وہ کریں اس کی ناقدری نہیں کی جائے گی اور اللہ متقیوں کو خوب جانتا ہے۔

حضور نے فرمایا کہ اس آیت میں مومنوں کی علامات ہیں۔ کہ وہ نیکیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں اور اصلاح نفس کے لئے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی وہ باتیں ہی جو انسان کو نیک بناتی ہیں اور یہ ایمانی قوت کی علامت ہیں اور انہی سے انسان کو زندگی میں کامیابی حاصل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کو بھی یہی اعمال محبوب ہیں اور ایسے نیک اعمال کرنے والوں کی نیکیوں کو کبھی خدا تعالیٰ ضائع نہیں کرتا اور یہ کہ اللہ تعالیٰ تو غیب اور حاضر سب چیزوں کو جانتا ہے اور یہ کہ انسان کی نیت میں کیا ہے۔ یعنی وہ نیتوں کے بھید سے بھی خوب واقف ہے۔

ہم خوش قسمت ہیں اور خدا تعالیٰ نے ہم پر یہ احسان کیا ہے کہ جو اس زمانے میں مسیح موعود کو بھیجا کہ جس نے آکر فساد، ظلم اور فتنوں کو دور کرنا ہے۔ ہم آپ پر ایمان لائے ہیں۔ اس لئے ہمیں ایسے نیکی کے عمل کرنے میں جلدی کرنی چاہئے جس سے کہ ہمارے اعمال میں ترقی ہو اور ایمان میں ترقی ہو۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اسی امر کی طرف بار بار توجہ دلائی ہے کہ جب انسان قرب خداوندی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ تو اسے اپنے نفس کا محاسبہ کرنا چاہیئے۔

حضور نے اپنے خطبہ میں اس آیت کی بھی تلاوت فرمائی وَجَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ حضور نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے کہ آپ کے ماننے والے دوسروں پر ہمیشہ غالب رہیں گے۔ ان شاء اللّٰہ۔

آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اقتباس اور تعلیم بھی سنائی کہ جس میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہمارے اقوال اور افعال ایک جیسے ہونے چاہئیں۔ ان میں ہرگز تضاد نہیں ہونا چاہیئے اور ہمارے افعال قیل وقال اور ریاکاری سے پاک ہونے چاہئیں جو کہ ہم اور ہمارے غیر میں ایک واضح فرق کر کے دکھائے۔

اگر کسی کے دل میں ناپاکی ہے تو وہ قبول کے لائق نہیں ہے اور نہ ایسے شخص کی کوئی قیمت ہے اور اگر ہمارے افراد بھی ایسے ہوں کہ وہ کہتے کچھ ہوں اور ان کے دلوں میں کچھ اور ہے۔ تو ان کی عاقبت محمود نہیں ہوسکتی۔

حضرت مسیح موعودؑ نے متقی کی ایک علامت یہ بھی بیان فرمائی ہے کہ وہ مسکینی اور فقر کی حالت میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ آپؑ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ توبہ کا اثر اس دنیوی زندگی پر بھی پڑنا ہے۔ جو شخص اپنی آخرت ٹھیک کرنا چاہتا ہے۔ اسے چاہیئے کہ وہ یہ دعا بھی کثرت سے پڑھے۔ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّفِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرہ:202)

حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے عبادت کی طرف خصوصیت کے ساتھ توجہ دلائی اور ایک خدا کی عبادت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ مومن حقیقی وہی ہے۔ جس کی توجہ کلیۃً اللہ تعالیٰ کی طرف ہو اور اس بات کی تعلیم اور تربیت وہ خود اور اپنے بچوں اور بیوی کی بھی کرے تا سب موحد بن جائیں۔

الانتشار العربی نے اپنی اشاعت 9؍ فروری 2012ء میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبہ جمعہ کا خلاصہ حضور انور کی تصویر کے ساتھ شائع فرمایا۔ یہ خلاصہ ’’علامات المومنین‘‘ کے تحت لگایا گیا ہے۔ جو اوپر دوسرے اخبار کے حوالہ سے پہلے گزر چکا ہے۔

الاخبار نے اپنے انگریزی سیکشن میں 8؍ فروری 2012ء میں صفحہ 21 پر ہماری ایک خبر اس عنوان سے شائع کی ہے۔ ’’450 شاملین نے سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے پروگرام میں احمدیہ مسجد چینو میں شرکت‘‘

چینو، کیلی فورنیا۔ 450 احمدی مسلمان مردو خواتین اور مہمانوں نے 29؍ جنوری 2012ء کو مسجد بیت الحمید چینو میں سیرت النبی (صلی اللہ علیہ وسلم )کے ایک پروگرام میں شرکت کی۔ میٹنگ کا آغاز 11 بجے ہوا اور ایک بجے ختم ہوئی۔ کیلی فورنیا کی سٹیٹ نمائندہ گلوریا نے بھی اس میں شرکت کی اور کیلی فورنیا میں سیرالیون مغربی افریقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے بھی اسی جلسہ سیرت النبی میں شرکت کی۔ جلسہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا آغاز تلاوت قرآن کریم اور ترجمہ سے ہوا۔ اس کے بعد مدح شان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں نظم پڑھی گئی۔ کالج کے ایک طالب علم عثمان مظفر صدیقی نے پہلی تقریر کی۔ تقریر کا عنوان تھا ‘‘آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اعلیٰ اخلاق کے عمدہ نمونے’’ جس میں مقرر نے آپ کی صبر کی طاقت اور قوت برداشت صفات کا ذکر کیا۔ ان کے بعد رمضان جٹالہ صاحب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور اسوہ برائے عائلی زندگی۔ ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک پر تقریر کی۔ ناصرات نے بھی ایک نظم پڑھی۔ ڈاکٹر احسن خان صاحب نے ‘‘صلح حدیبیہ’’ پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی۔ نیز فتح مکہ کے واقعات پیش کئے۔ سٹیٹ کے نمائندہ نے بھی اس موقعہ پر مختصر سا خطاب کیا اور انہیں اس جلسہ میں شامل ہونے کی دعوت پر شکریہ کہا۔

(مولانا سید شمشاد احمد ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 مارچ 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ