آداب معاشرت
مجلس کے آداب
قسط 9
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا قِیۡلَ لَکُمۡ تَفَسَّحُوۡا فِی الۡمَجٰلِسِ فَافۡسَحُوۡا یَفۡسَحِ اللّٰہُ لَکُمۡ ۚ وَاِذَا قِیۡلَ انۡشُزُوۡا فَانۡشُزُوۡا یَرۡفَعِ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ ۙ وَالَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ دَرَجٰتٍ ؕ وَاللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ ﴿۱۲﴾
(المجادلہ: 12)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تمہیں یہ کہا جائے کہ مجلسوں میں (دوسروں کیلئے) جگہ کھلی کردیا کرو تو کھلی کردیا کرو، اللہ تمہیں کشادگی عطا کرے گا اور جب کہا جائے کہ اُٹھ جاؤ تو اُٹھ جایا کرو۔
ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ فرماتے ہیں:جب تم میں سے کوئی شخص کسی مجلس میں پہنچے تو اُسے سلام کرنا چاہئے، وہاں بیٹھنا چاہے تو بیٹھ جائے اور جب جانے کے لئے کھڑا ہو تو تب بھی سلام کرے، کیونکہ پہلا سلام دوسرے سلام سے زیادہ افضل نہیں ہے۔
(سنن الترمذی، کتاب الاستئذان والآداب عن رسول اللّٰہ)
آپؐ فرماتے ہیں:جب لوگ کسی مجلس میں آ ئیں، ان میں سے اگر کوئی شخص اپنے کسی اور بھائی کو(کھڑا دیکھ کر) بلائے اور اس کے لئے جگہ کشادہ کردے توچاہئے کہ (جو کھڑا ہے) وہ اس کے پاس چلا جائے، کیونکہ یہ اس کی تعظیم وتکریم ہے جو اس کے بھائی نے کی ہے۔ پس چاہئے کہ وہ اس (کے پاس جاکر) بیٹھ جائے۔
(الطیوریات،الجزء الرابع)
آپؐ فرماتے ہیں:جب تم میں سے کوئی شخص کسی مجلس میں پہنچے ، اگر اس کے لئے جگہ کشادہ کردی جائے تو وہ وہاں بیٹھ جائے ، ورنہ کوئی اور خالی جگہ تلاش کرے اور وہاں جاکر بیٹھ جائے۔
(صحیح الجامع الصغیروزیاداتہ، المجلدالأول، حرف الألف)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’بعض دفعہ میں نے دیکھا ہے بعض پڑھے لکھے لوگ بھی پھلانگتے ہوئے آگے آنے کی کوشش کرتے ہیں اُن کو احتیاط کرنی چاہئے۔ جہاں جگہ ملے وہیں بیٹھ جائیں۔ کسی دوسرے کی تکلیف کا باعث نہ بنیں اور جلسے کے دنوں میں کیونکہ رَش ہوتا ہے اس لئے جو پہلے آنے والے ہیں وہ آگے آکر بیٹھ جایا کریں تاکہ پیچھے سے آنے والے آرام سے بیٹھا کریں، بجائے اس کے کہ بیچ میں جگہ خالی ہو اور پھر لوگوں کو پھلانگ کر آنا پڑے۔‘‘
آپؐ نے منع فرمایا کہ کوئی شخص دو آدمیوں کے درمیان ان کی اجازت کے بغیر بیٹھے۔
(صحیح الجامع الصغیر وزیاداتہ، باب المناہی)
آپؐ فرماتے ہیں:جو کوئی اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے اسے چاہئے کہ وہ (مجلس کے دوران)کوئی اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔
(صحیح البخاری،کتاب الأدب)
آپؐ فرماتے ہیں: تم میں سے کوئی کسی شخص کو اس کی جگہ سے نہ اُٹھائے تاکہ وہاں بیٹھ جائے۔
(صحیح مسلم،کتاب السلام)
آپؐ فرماتے ہیں: جو شخص مجلس سے اٹھ کر کہیں جائے اور پھر وہ اپنی جگہ پر واپس آئے تو وہ اس جگہ کا سب سے زیادہ حق دار ہے۔
(صحیح الجامع الصغیر وزیاداتہ،المجلد الأول حرف الألف)
آپؐ فرماتے ہیں: جب کچھ لوگ کسی مجلس میں باتیں کر رہے ہوں اور نہ چاہتے ہوں کہ کوئی اوران کی باتیں سنے ،اس کے باوجود اگرکوئی آکر ان کی باتیں سننے لگ جائے تو قیامت والے دن اس سننے والے کے کان میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالاجائے گا۔
(سنن الترمذی،کتاب اللباس عن رسول اللّٰہ،باب ماجاء فی المصورین)
حضرت علیؓ فرماتے ہیں: مجلس میں کسی معززجگہ کے پانے کے لئے جلدی نہ کر،کیونکہ وہ جگہ جس پر تجھے بٹھایا جاتا ہے اس سے بہترہے جس سے تجھے اٹھا کر نیچے بٹھا دیا جائے۔
(غرر الحکم: 10283)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث فرماتے ہیں:
’’اسلام نے اُٹھنے اور بیٹھنے اور مجالس میں آنے کے آداب سکھائے ہیں۔یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں مگرچھوٹی چھوٹی چیزوں نے ہی اسلامی معاشرہ کو ایک فرقان بنا دیا ہے۔ یہ بظاہر چھوٹی چیزیں نتائج کے لحاظ سے چھوٹی نہیں رہتیں بلکہ زبردست چیزیں بن جاتی ہیں جس پر ایک مسلمان کو،ایک احمدی کوفخر کرنا چاہئے۔‘‘
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
سچے مومن تو وہی ہیں جو اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لائیں اور جب کسی اہم اجتماعی معاملے پر (غور کے لئے) اس کے پاس اکٹھے ہوں تو جب تک اس سے اجازت نہ لے لیں، اٹھ کر نہ جائیں۔ یقینا وہ لوگ جو تجھ سے اجازت لیتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے والے ہیں۔ پس جب وہ تجھ سے اپنے بعض کاموں کی خاطر اجازت لیں تو ان میں سے جسے چاہے اجازت دے دے اور ان کے لئے اللہ سے مغفرت طلب کرتا رہ۔ یقیناً اللہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔
(النور: 63)
ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفی ٰﷺ فرماتے ہیں:تم میں سے جب کوئی اپنے بھائی سے ملنے جائے تو اس وقت تک اس کے پاس سے نہ اٹھے جب تک اس سے اجازت نہ لے لے۔
(الجامع الصحیح، آداب المعاملۃ، الاستیذان)
حضرت واثلۃ بن الخطّابؓ روایت کرتے ہیں آپؐ مسجد میں تشریف فرماتھے کہ ایک صحابیؓ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپؐ نے ان کے لئے جگہ کشادہ کی، تو انہوں نے عرض کی اے اللہ کے رسول! جگہ توکافی کشادہ ہے۔ آپؐ نے فرمایا:یقیناً ایک مسلمان کا حق ہے کہ جب اس کا بھائی اسے دیکھے تو اس کے لئے ذرا کھسک کر جگہ مزید کشادہ کردے۔
(شعب الإیمان مؤلفہ احمد بن الحسین،فصل فی قیام المرء لصاحبہ علی وجہ الإکرام والبر)
حضرت علیؓ روایت بیان کرتے ہیں کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آپؐ کے سامنے کوئی بیٹھا ہو اور آپؐ نے اس کے سامنے ٹانگیں پھیلائی ہوں۔
(بحار الانوار جلد 13صفحہ 236)
آپؐ فرماتے ہیں: مجلس میں فحش کلامی نہ کر، ایسا نہ ہو کہ لوگ تیری بدخلقی کی وجہ سے تجھ سے دوری اختیار کر لیں اورکسی آدمی سے خفیہ طور پر بات نہ کر جب تیرے ساتھ دوسرا آدمی ہو۔
(بحار الانوار:2/354/84)
ان آداب کے علاوہ مندرجہ ذیل امور بھی احادیث سے ثابت ہیں۔ مجلس میں دوسروں کے لئے جگہ کشادہ کرنا ایک آدمی کو اپنے دینی بھائی کے ساتھ محبت میں بڑھاتاہے اور آپؐ نے مجلس میں دوسرے کی بات کاٹنے سے بھی منع فرمایا اور آپؐ نے ہمیں مجلس کے آداب میں یہ بات بھی سکھائی ہے کہ مجالس کی باتیں بطور امانت ہوتی ہیں اگر کوئی مجالس کی باتیں افشاء کرتاہے تویہ خیانت ہے،اس سے بچنا چاہئے۔لیکن ایسی مجالس جس میں کسی کے قتل کرنے کا ارادہ کیا جائے،یا حرام شرم گاہ کو حلال سمجھاجائے،یا کسی کا مال لوٹنے کا پروگرام بنایا جائے اس صورت میں مجالس امانت نہیں ہوتیں۔
یہ بات بھی مجلس کے آداب میں سے ہے کہ کوئی اپنے دانتوں کا خلال مجلس میں بیٹھ کرنہ کرے، اورنہ اپنے ناک میں انگلی ڈالے۔اسی طرح بلغم اور تھوک بھی نہ پھینکے۔
ایسی مجالس میں بیٹھنے سے منع فرمایا ہے جس میں امام کو بُراکہا جائے یا جس میں کسی کی غیبت کی جائے۔ پیاز، لہسن وغیرہ کھا کر مسجد میں جانے سے منع فرمایا گیاہے،اس سے فرشتوں اور انسانوں کو تکلیف ہوتی ہے اور مجلس کے اندرکی ہوئی باتوں کا کفارہ یہ ہے کہ جب آدمی مجلس سے اُٹھنے لگے تو یہ دعا پڑھے:پاک ہے تو اے اللہ !اور اپنی تعریف کے ساتھ میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی شریک نہیں میں تجھ سے بخشش مانگتاہوں اور تیری طرف توبہ کرتے ہوئے جھکتاہوں۔
(صحیح الجامع الصغیر وزیاداتہ)
(حنیف محمود کے قلم سے)