• 19 اپریل, 2024

عربی زبان کا مقام دنیا کی دوسری زبانوں میں

نوٹ:
یہ مضمون حضرت مصلح موعودؓ کی عربی زبان کی فضیلت پر غیرمطبوعہ نوٹس،رسالہ موازنہ مذاہب جنوری 2012ء میں شائع ہوئے تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ کےاس قیمتی تبرک کو ادارہ روزنامہ الفضل لندن آن لائن اُن کے شکریہ کےساتھ شائع کررہا ہے۔

(ایڈیٹر)

زبان کا فائده

  1. اظہار خیالات
  2. نیز قوی اخلاق کا دیباچہ جیسے شعر۔
  3. قومی تاریخ یعنی مختلف ممالک سے تعلقات مختلف اقوام سے تعلقات مختلف ادوارذہنی ترقی مذہبی اخلاقی اصلاحات مدنی اقتصادی علمی ترقی کے احوال میرا مضمون اس وقت عربی زبان کی تیسری شق کی نسبت۔

زبان کے متعلق مختلف نظریئے:

  1. دنیا میں کئی زبانیں ہیں۔
  2. دنیا کی زبانوں میں سے ایک ماں ہے باقی بیٹیاں۔
  3. ماں تو ضرور ہے لیکن وہ موجود نہیں موجودہ زبانوں کی…. سنسکرت عربی یا کوئی زبان یا زبانیں اس کی بیٹیاں ہیں۔

میں دوسرے نظریے کا مؤید ہوں۔

پھر زبان کے بننے کے متعلق مختلف نظریئے ہیں۔

  1. زبان الہامی ہے۔
  2. زبان انسان نے بنائی ہے

میں اول الذکر کو درست سمجھتا ہوں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا مگر میرے نزدیک الہامی زبان کے یہ معنے ہر گز نہیں کہ مثلاً عربی اپنی موجودہ شکل میں کسی شخص کو الہام ہو گئی تھی۔ اگر انسان جس نے زبان سے فائدہ اٹھانا تھا اس حالت سے متغیر ہو گیا جس میں وہ پیدا ہوا تھا بلکہ اسلامی اور سائنٹفک نقطۂ نگاہ سے ترقی کر گیا اگر نباتات نے دھاتوں کی صورت اختیار کرلی ہے جیسے کہ پتھر کا کوئلہ اور بعض نے سینکڑوں نئی اقسام کی شکلیں اختیار کر لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ زبان اسی صورت میں رہی ہو جس میں وہ نازل ہوئی اور اس نے کوئی ترقی نہ کی ہو۔ اگر ابتدائی آدم نے ترقی کر کے محمد ﷺ کی صورت اختیار کی تو آدمی عربی اور محمدی ﷺ عربی میں فرق کیوں نہ ہو۔

یاد رکھنا چاہئے کہ یہ امر زبان کے الہامی ہونے کے منافی نہیں جس طرح باغبان اگر کدو کی نئی شکلیں بناوے آموں کی نئی اقسام ایجاد کرے تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ کدو اور آم خدا کے بنائے ہوئے نہیں۔
یہ کہ الہام نے کیا بتایا اور کس قدر بتایا آگے مضمون سے معلوم ہو گا۔ میں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ عربی زبان کو الہامی اور اس کی وجہ سے ام الالسنہ کہنے کا موجب میرا عقیدہ نہیں بلکہ زبردست شواہد ہیں جو خود عربی زبان میں موجود ہیں۔

عربی اور عرب کے معنے

عَربَ البئرُ کَثْرَ ماءُہ الرَّجُلُ فَصَحَ بَعْدَ لُكْنَةَ فی لسانہِ اَعْرَبَ الشّئ اَبَانَہ كلامهٗ حَسَّنَہٗ وَ اَفْصَحَ وَ لَمْ يُلْحِنْ بالكلام بَيّنَه العرب مِن الماء الكثير الصافی رَجْلٌ عَرْبَانٌ فصيح اللسان الْعَرَبَة النهر الشديد الجَرْي

پس عربی وہ زبان ہے جس میں مادوں کی کثرت ہو اور جس کے الفاظ مسمّٰی کی حقیقت کو ظاہر کرنے والے ہوں۔ عربی زبان کے متعلق عام طور پر یورپین مؤرخ یہ بتاتے ہیں کہ سامی زبانوں میں سے یہ نئی زبان ہے چنانچہ انسائیکلوپیڈیا برٹینکا نے نئے ایڈیشن میں اسے پانچ سو سال قبل مسیح کا قرار دیا ہے لیکن یہ درست نہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ میرا مضمون زیادہ سہل ہو جائے گا اگر اسے میں دو حصوں میں تقسیم کر دوں۔

  1. عربی کا مقام سامی زبانوں میں۔
  2. غیر سامی زبانوں میں۔

اس کا فائدہ۔ سامی زبانوں کا اشتراک واضح ہے فیصلہ ہوسکتا ہے۔

سام ابن نوح کی طرف منسوب کر کے سامی کہلاتے ہیں اور مؤرخوں کے نزدیک عربی، عبرانی، سریانی، حبشہ، فنیقی، اُشوری اور آرامی زبان بولنے والے لوگ سامی ہیں۔ حبشہ سے مراد افریقی زبان بولنے والے نہیں بلکہ فرات اور نیل کے درمیان کے تمام علاقہ کو پرانے زمانہ میں ایتھوپیا کہتے تھے یعنی حبشہ اور یمن کی قدیم زبان۔ یا اس کے مقابل افریقہ کا علاقہ جو اب …کہلا تا ہے زبان حبشی کہلاتی تھی۔ ان زبانوں میں شدید اتحاد پایا جاتا ہے بلکہ لہجہ اور محاورہ کو نکال دیں تو زبان اسی فیصد ایک ہی ہوجاتی ہے۔

مثال عبرانی زبان کا فقرہ :ایلی ایلی لما سبقتانی
عربی:الهی الهى لما سبقتنی

سُریانی اور عبرانی جن کا وجود پایا جاتا ہے انہیں دیکھیں تو ضمائر تک ایک ہیں مثلاً

متکلممخاطبغائب
عربیانا۔تُ۔یانتَ۔تَ۔کَھُوَ۔ہُ
سریانیانا۔ت۔یانت۔ت۔کھُوَ۔ہِ
عبرانیاَنْکیْ۔تی۔یأتہ۔تَ۔کَھُوَا۔ھو

اسی طرح باقی ضمائر کا حال ہے۔

اتحاد کے بتانے کے بعد میں بتاتا ہوں کہ مندرجہ ذیل دلائل ثابت کرتے ہیں کہ عربی زبان ہی اصل زبان ہے۔

(1) سپرنگر ونکلر۔ شریڈر جرمن علماء اور رابرٹسن سمتھ انگریز محقق نے سامی زبانوں کا مقابلہ کر کے فیصلہ کیا ہے کہ عربی اصلی زبان کے زیادہ مشابہ ہے بہ نسبت دوسری زبانوں کے۔

(2) مصر میں عصر حدیدی سے پہلے عربوں کے نشان پائے جاتے ہیں مثلاً ان کے قدیم آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عرب کو ارض مقدس کہتے تھے اسی طرح وہ اسے آرض الآلهه کہتے تھے یعنی معبودوں کی زمین۔ مصر کے قدیم ترین بت کا نام فتاح ہے جو عربی نام ہے یعنے کشائش کرنے والا۔ مصر قدیم کی تاریخ قدیم ترین تاریخوں میں سے ہے۔

(العرب قبل الاسلام صفحہ 2 بحوالہ king)

اس میں عرض کو ارض مقدس قرار دینا اور اس کی زبان میں اپنے بڑے بت کا نام رکھنا بتاتا ہے کہ عرب قدیم سے مہذب ہے اور اس کے ساتھ ہمیں ماننا پڑے گا کہ ان کی زبان قدیم سے عالمی زبان تھی یہ وہ زمانہ ہے جبکہ عبرانی سریانی زبانوں کا پتہ بھی نہ تھا۔ مصری لوگ سامیوں کو شاسو کہتے تھے جس کےمعنے مؤرخ کہتے ہیں کہ ان کی زبان میں بدو کے ہیں جس سے ثابت ہے کہ اس زمانہ میں سامی عرب کا ہی دوسرا نام تھا۔ مگر میرے نزدیک یہ درست نہیں کہ شاسو مصری لفظ ہے کیونکہ یہ لفظ عربی میں موجود ہے۔ عربی میں شصی ایک لفظ ہے جس کے معنے اونچا ہونے کے ہیں اور شاس ایک لفظ ہے جس کے معنے ہیں تکبر سے دیکھا یا بہادر ہوا۔ اور شوس لمبے آدمیوں کو کہتے ہیں۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ مصری لوگ عربوں کو خاص طور پر بہادر سمجھتے تھے اور بادیہ کی وجہ سے ان تک پہنچنا مشکل بھی خیال کرتے تھے اور شاید ارض مقدسہ کے رہنے والے سمجھ کر عرب اپنے آپ کو بڑا بھی کہتے ہوں جیسے آج بڑا سمجھتے ہیں پس ان معنوں سے وہ شاصو یاشاسو کہلاتے تھے۔

(العرب قبل الاسلام ص55)

بہر حال اس نام سے ظاہر ہے کہ سامی لوگ جو منبع ہیں سب عبری سریانی قوموں کا اصل میں عرب ہی تھے۔

(3) سامیوں کے علاوہ سب سے قدیم نام جو سامی قوموں ہی سے کسی کو حاصل ہوا ہے وہ آرامی کا ہے اس کی وجہ تسمیہ یہ بتائی جاتی ہے کہ جب سامی جو جزیره عرب کے اوپر کے حصے میں رہتے تھے عراق کے قریب خیمہ زن ہوئے تو انہیں سے بعض شہروں میں آباد ہو گئے اور وہ لوگ اپنے بدوی بھائیوں کو آرامی کہتے تھے جس کے معنے ہیں پہاڑ میں رہنے والے لوگ۔ اور جو قومیں دجلہ اور فرات کے درمیان رہتی تھیں وہ انہیں عموروی کہتی تھیں یعنی غرب میں رہنے والے لوگ۔ ان واقعات سے ظاہر ہے کہ وہ لوگ عرب ہی تھے اور ان کی زبان عجمی وغیرہ سے مل کر اگر کچھ بدل گئی ہو تو بھی وہ عربی ہی تھی پس اس سے بھی عربی ہی کی قدامت ثابت ہوتی ہے۔

قرآن کریم میں بھی اِرَمَ کا ذکر عربی اقوام ہی کیا ہے فرماتا ہے إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ

(الفجر:8)

عربی میں اَرِم اور اِرَم ان پتھروں کو کہتے ہیں جو بےآبوگیاہ جنگلوں میں راستہ دکھانے کے لئے گاڑ دیئے جاویں اسی طرح اَرم الارض کے معنے ہیں زمین کو بالکل اجاڑ دیا۔

ایسے ملک میں رہنے والے ہمیشہ بدوی ہوتے ہیں کیونکہ پانی سبزی کی تلاش انہیں مجبور کرتی ہے کہ ایک جگہ نہ ٹکیں اور اکٹھے نہ رہیں۔ پس ان معنوں سے آرامی اور عربی معنوں کے لحاظ سے ایک ہی چیز بنتے ہیں۔ اشتقاق کے لحاظ سے بھی یہ درست ہے کیونکہ ہمزہ اور م،ع اور ب سے بدلتے ہیں۔ نیز تاریخ سے ثابت ہے کہ بھی ان لوگوں کو عریبی بھی کہا جاتا تھا۔

(العرب قبل الاسلام صفحہ49)

(4) برسوس نامی ایک کلدانی نے چار سو سال قبل مسیح سوریا کے بادشاہ کے لئے ایک تاریخ لکھی ہے۔ اس میں وہ عراق کی سامی حکومت کو حکومت عرب کے نام سے موسوم کرتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سامی قوموں کی سب سے قدیم ترقی عربی ترقی تھی۔

(5) سامی زبان اور عربی زبان میں اس قدر اشتراک ہے کہ اور کسی زبان میں نہیں پایا جاتا۔ مثلاً (الف) سامی زبان میں رفع نصب اور جر تینوں پائے جاتے ہیں حالانکہ دوسری سامی زبانوں میں یہ امر نہیں پایا جاتا خواہ نئی ہوں یا پرانی اور اگر پایا جاتا ہے تو نامکمل۔

(ب)۔ سامی زبانوں میں تنوین کا وجود بھی ہے گو ’’م‘‘ کے ساتھ۔

(ج)۔ علامة جمع سامی زبان کا بھی ’’وِن‘‘ سے ہے گو عبرانی یم سریانی ین زبانوں میں یم اب ین سے ہے۔

(د)۔ افعال کی شکل بالکل عربی صیغوں سے ملتی ہے۔ بہت معمولی فرق ہے جو ضمنی زبانوں میں ہو جایا کرتا ہے۔

(ہ)۔ بعض الفاظ جن میں عربی اور عبرانی سریانی میں فرق ہو گیا ہے یعنے بعض حروف اڑ گئے ہیں انہیں سامی اور عربی سے اتحاد ہے مثلاً انف اور عنب میں سے عبرانی اور سریانی میں ان اڑ گیا ہے لیکن سامی اور عربی میں موجودگی یہ بہت بڑا ثبوت عربی کے پرانا ہونے کا ہے۔

خصوصاً جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ تاریخ سے ثابت ہے کہ سریانی اور کلدانی سامی زبان سے نکلی ہیں لیکن باوجود اس کے سامی کو ان امور میں عربی سے مشابہت ہے اور ان سے نہیں۔

(6) اگر غور کیا جائے تو سامی اور عربی کا فرق بالکل ویسا معلوم ہوتا ہے جیسا کہ آج کل کلامی عربی اور کتابی عربی میں ہے وہی لہجہ اور ڈھیلا پن ہے جو جدید زبان میں ہے مثلاً ساموابی (ابی سام) شَمسوا ایلونا – الشمس الٰهنا۔ اکثرنام بھی سامی زبان کے شکلاً و معناً عربی نام ہیں۔

(7) سامریوں نے اپنے شہر ان جگہوں پر بنائے تھے کہ جہاں سے وہ آسانی سے عرب کی طرف جا سکیں حالانکہ علاقہ کی خوبصورتی کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں ایرانی طرف شہر آباد کرنے چاہئے تھے۔

(8) عرب کی قدیم تاریخ میں عرب قوم کو سام ابن ارم کی نسل سے بتایا جاتا ہے۔

غرض ایک طرف سے تاریخ بتاتی ہے کہ سامی نسلوں میں سے سب سے پرانی تہذیب سامیوں کی ہے سریانی عبرانی کلدانی سب اس سے نکلی ہیں اور عرب کہتے ہیں کہ وہ سامی ہیں۔ دوسری طرف سامی زبان اور عربی زبان کا اتحاد صاف بتاتا ہے کہ سامی عربی یا کسی قدر متغیر عربی تھی۔ پس ان امور سے ثابت ہے کہ سامی زبانوں میں سے عربی سے قدیم زبان ہے اور جن مؤرخوں نے اسے حديث العهد قرار دیا ہے انہوں نے غلطی کی ہے۔

اس امر کو ثابت کرنے کے بعد کہ سامی زبانوں میں شدید اتحاد ہے اور وہ اپنی بناوٹ سے ثابت کرتی ہیں کہ کسی ایک منبع سے وہ نکلی ہیں اور یہ ثابت کر کے کہ عربی ان زبانوں میں سے سب سے پرانی اور سب سے زیادہ اپنے قواعد کو محفوظ رکھنے والی ہے اب میں عربی زبان کا مقام دوسری زبانوں کے مقابلے میں بتاتا ہوں۔

سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ کیا غیر سامی زبانوں کو آپس میں اور پھر سامی زبانوں سے کوئی ایسا اشتراک ہے کہ ہم یہ دعویٰ کر سکیں کہ وہ ضرور ایک منبع سے نکلی ہوئی ہیں۔

مگر پیشتر اس کے کہ میں اشتراک کے متعلق کچھ کہوں دو باتوں کو واضح کر دینا چاہتا ہوں۔

1۔ محض لغات میں اشتراک زبانوں کو متحد الاصل ثابت نہیں کرتا کیونکہ (الف) بوجہ مختلف ممالک کے مخصوص جمادات نباتات و حیوانات اور مظاہر قدرت کے فرعی زبانیں بھی بعض الفاظ ایجاد کرنے پر مجبور ہیں اور مادری زبان وہ لفظ ان سے عاریتاً لینے پر مجبور ہے پس ان الفاظ کا اشتراک نہ متحد الاصل ہونا دلالت کرتا ہے نہ ایک کو ماں اور دوسری کو فرع ثابت کرتا ہے۔

(ب) ہر قوم اپنے ارتقاء کے بعد ہی بعض ایجادات کرتی ہے اور بعض اصطلاحات وضع کرتی ہے ان ایجادات اور اصطلاحات کو سب قومیں آپس میں تبادلہ کر لیتی ہیں ان کا اشتراک بھی تعلق باہمی کو ثابت کرتا ہے مگر ایک کا ماں ہونا اور ایک کا فرع ہونا ثابت نہیں کرتا اور نہ متحدالاصل ہونا ثابت کرتا ہے۔

(ج) اگر ایک ضروری لفظ بھی لغت میں عاریتاً لیا گیا ہو مگر اس کا ہم معنی لفظ موجود ہو تو بھی اتحاد اصل پر دلالت نہیں کرتا جیسے اردو میں مادر برادر إن لاء کے الفاظ۔ پس اشتراک کے لئے ضروری ہے کہ ان الفاظ میں ہو جو اصولی ہیں اور جن کے بغیر کوئی قوم گزارا کر ہی نہیں سکتی اور جن میں مشترک لفظوں کے سوا دوسرے لفظ جو اشتراک ظاہر نہ کرتے ہوں موجود نہ ہوں یا اگر دوسرے لفظ ہوں تو سب اشتراک ظاہر کرتے ہوں۔

(2) جہاں غلط طریق اشتراک سے بچنا ضروری ہے وہاں غلط اختلاف سے بھی ہوشیار رہنا ضروری ہے۔ بعض جگہ پر اتحاد ہوتا ہے لیکن بظاہر اتحاد نہیں معلوم ہو تا۔ کیونکہ (الف) زبانوں کی بیماریوں (ب) آب و ہوا کے اثر (ج) قریب المخرج حروف کے غلط سماع سے حروف آپس میں بدلتے رہتے ہیں اور بعض دفعہ کئی کئی تغیر یکے بعد دیگرے ہوتے چلے جاتے ہیں اس سے متاثر نہیں ہونا چاہئے بعض جگہ دوسرے گرامری قواعد کے سبب سے اصل لفظ بھی دوسرے حروف میں چھپ جاتا ہے۔ اسے نکالے بغیر اشتراک ثابت نہیں ہو سکتا۔ پس اشتراک معلوم کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ انسان ان اصول کو یاد رکھے جو اختلاف السنہ کا موجب ہیں۔ جب اختلاف ایک ہی زبان میں آہستہ آہستہ پیدا ہو جاتا ہے تو دوسرے حالات میں جا کر لفظ میں کیوں اختلاف نہ پیدا ہو جائے گا۔پس گرد و غبار کا صاف کرنا ضروری ہو تا ہے۔

اس تمہید کے بعد میں چند الفاظ اشتراك السنہ کے ثبوت کے لئے لیتا ہوں۔

لفظ۔میں ضمیر واحد متکلم

عربی:انا۔ سنسکرت اہم ahom
مگیار:(Magyar) ہنگرین زبان) این۔ چینی۔ نگو
تبتی:گناگنو۔ نیپال کی چار زبانوں میں گنا ایسٹرن فرنٹیئر بنگال آن۔
سنٹرل انڈیا کی چھ زبانوں میں: انن۔ ان انا اور انو
جنوبی انڈیا کی پانچ زبانوں میں: آن۔ این۔آن۔ آنو اور آنے کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ یورپ و ایشیا کی ایک سو چالیس زبانوں میں سے نوے فیصدی میں نا کا لفظ کسی نہ کسی صورت میں استعمال ہوتا ہے۔

تو

عربی:انت۔سنسکرت:نَوَم
ایشیا یورپ کی ایک سو چوالیس زبانوں میں اس لفظ کے لئے یا ’’ن۔ا‘‘ کا مرکب استعمال ہوتا ہے یا ’’ت‘‘ بعض دوسرے لفظوں سے ساٹھ فیصدی ’’ن۔ا‘‘ ہے اور پچیس فیصدی ’’ت‘‘۔ عربی میں دونوں جمع ہیں اس لئے دونوں ہی اس تائید میں ہیں۔ خود سنسکرت کا تَوَم بھی اصل میں ’’تَوَن‘‘ ہے۔ الٹا کر ’’ونت‘‘ بنا ہے۔

یہ

سنسکرت اوام عربی هٰذا
مگیاراز – جارجین از۔ تبت دو۔ دی۔ اودی۔ نیپال یا نارتھ ویسٹرن بنگال۔ ایتھو۔ ایتھی۔ایدانگ۔ برمن۔ دین۔ تھی۔ سنٹرل انڈیا او۔ اوا۔

ساتھ

سنسکرت بِھس۔ عربی ب۔ دون۔ عند۔ انگریزی بائی۔ لاطینی Per براہوی این۔ جنوبی ہند کی چھ زبانوں میں اند یا انده سیام تو (جو دون بن سکتا ہے) ایسٹ بنگال ڈونگ۔ چائنیز ٹانگ۔

میں

عربی فی۔ نیپال کی بارہ زبانوں میں بھی پی یا بی کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔

ایک

عربی – واحد احد۔ وِتر۔ سنسکرت ایکا۔ چونکہ کاف ح سے بدلتی ہے یہ ایحا ہوا یہ احد سے مشابہ ہے۔
ایسٹرن بنگال ۔ ایترو جو وتر سے ہے دوسری زبان آخت احد سنٹرل انڈیا وکٹ جو واحد ہے دوسری زبان میں بھی اکٹ جو احد ہے۔
جنوبی ہند کی چھ زبانوں میں واندے آندے بولتے ہیں جو قواعد کے مطابق واحد احد بنتےہیں۔

باپ

عربی اب ۔ سنسکرت یتری پتا۔چین آپا۔ پالا۔ تبتی زبانوں میں تین میں آیا ہے جو اب ہی ہے۔ نیپال میں سوائے ایک کے باقی سب میں آپا آبا یا وا اپنا باپو وغیرہ ہے۔
N . E. بنگال كذالك- آبا آیا بقیہ علاقوں میں پایا۔ بھایا۔ با سے لفظ بنتا ہے۔
سیام۔ پا۔ پھا۔ پو۔ سنٹرل انڈیا با اَبا۔ آبا وغیرہ۔
فرانسیسی Pere – لا طینی Pater انگریزی فادر

ماں

عربی۔ ام۔ سنسکرت ماتری۔ چینی زبانوں کی کثرت میں آما۔ نیپال آما۔ یا ایما یا آمو۔ بنگال ما۔ آما۔ ایما۔ سیام – می۔ مو۔ سنٹرل انڈیا ما اما۔ مائی۔ ایانگ یہ بھی ایاما ہے۔ ان الفاظ سے صاف ثابت ہے کہ اشتراک بہت نمایاں ہے اور ایسے الفاظ میں ہے جو مختلف ملکوں کی خصوصیات اور ارتقاء سے تعلق نہیں رکھتے۔ اشتراک کے اصول کو اگر مدنظر رکھا جائے اور ابدال کے قواعد کو استعال کیا جائے تو اکثر لفظوں میں اشتراک ثابت ہو جائے گا۔
اس کے بعد اب یہ سوال ہوتا ہے کہ اس اشتراک کی موجودگی میں کون سی زبان دوسری زبانوں کے لئے منبع تسلیم کی جا سکتی ہے یا کوئی بھی نہیں کی جا سکتی۔
میرا جواب یہ ہے کہ عربی منبع قرار دی جا سکتی ہے بلکہ اس کی تائید میں اس قدر ثبوت ہیں کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔

اس کے ثبوت

الف

1۔ اس زبان میں بہت وسعت ہے اور تمام انسانی بیماریوں کا لحاظ رکھا گیا ہے یعنی ہر تم کے نقص والا انسان اس کے ذریعہ سے بے تکلف بول سکتا ہے لطیفہ

امر امیر الامراء ان يتحفرا بئرٌ في الطريق يشرب منه الصادر و الوَارِدُ حكم حاكم الحكام ان يُقلَبَ القليب في السبيل لينفع منه الصادی و البادی

بے نقطے کے بعض نے تفاسیر لکھ دی ہیں گویا ہر ضرورت اس میں موجود ہے۔ باء۔ اس میں وسعت کے لئے اعلیٰ درجہ کا سامان موجود ہے ابواب مزید فیہ۔

قواعد مصادر۔ افضل التفضیل۔ صفت شبہ اوزان مبالغہ۔ مصدر میمی۔ ظرف مکان ظرف زمان اسم آلہ قواعد تصغير۔ نسبت و غیره قواعد تعدیہ۔

2۔ اس کے تمام قواعد فلسفیانہ اور اصول کے مطابق ہیں ثلاثی رباعی زیر کیوں آئی زبر کیوں آئی اعلال۔ ادّغام ۔ عوض ابدال وغیرہ ہر اک قاعدہ کے ماتحت ہے۔

اس کی بناوٹ اپنے اندر خود فلسفیانہ رنگ رکھتی ہے اپنے الفاظ کے اجزاء خود معنے رکھتے ہیں یعنی الف حرکات باء حروف الف ج ترتیب حروف د۔مصاحبت حروف اس کی بنیاد لفظ نہیں حرف ہیں۔ اور حرکات حرکات کی مثال معمولی اختلاف حرکات سے مشابہ معنے پیدا کر دیئے جاتے ہیں جیسے خَلق و خُلُق۔ ایک جسم پر اور دوسرا اخلاق پر اور لطف یہ ہے کہ خلق کا لام ساکن ہے اور خُلق کا لام مرفوع ہے جس میں حرکت مزید کی طرف اشارہ ہے۔ رِقْم رُقم (جسے اردو میں ہم رقم کہتے ہیں) کہ رُقم رِقم کے تعلق سے پیدا ہوتا ہے۔ اَثَر۔ نشان اُثُر نشان زخم الاُثْرَة – المَکْرَمَةُ – المتوارثَة – الْبَرد سردی البَرَدُ اولے ژالے الْبُرد کُرنا کپڑا جو سردی کو دور کرنے کے لئے پہنا جائے۔ زَبَد-زَبَدَۃ۔ جھاگ میل۔ زُبْدَۃْ زُبَدْمکھن۔

جرم قطع جرم گنہ ۔ اور یہ سب تغير معنی اصول کے ماتحت ہے۔ عربی میں اخلاق و سیٔات کی لطیف تشریح ہے ہر قسم کے اخلاق و سیٔات بیان ہوئے ہیں عربی کے….

3۔ اس کے اسماء اپنے اندر معنے رکھتے ہیں اور مسمّٰی کے خواص پر دلالت کرتے ہیں۔ پس غیر زبانوں کے لفظوں کو بدل کر اور لفظ رکھ دیئے جاویں تو کوئی حرج نہیں لیکن عربی کے لفظ نہیں بدل سکتے۔

دوسری زبانوں میں اسماء اصل ہیں یا اسماء اور افعال مستقل ہیں الا ماشاء اللہ عربی زبان میں جذبات اصل ہیں اور ان کے ماتحت اسماء و افعال ہیں اور یہی حقیقت ہے پہلے حواس اور آثار پیدا ہوتے ہیں ان کے مطابق نام رکھے جاتے ہیں اسی کی طرف اشارہ ہے قرآن کریم میں وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ورنہ یوں ہی علامت کے طور پر اگر نام رکھنا ہوتا تو فرشتے بھی نام رکھ سکتے تھے جو لفظ چاہتے بولتے جاتے۔

امثلہ

پہلی مثال خود نام کے لفظ کی ہی لے لو۔ اسم کا لفظ عربی زبان کے قواعد کے لحاظ سےس م و سے بنا ہے جس کے معنے بلندی اور ارتفاع کے ہیں پس اسم کے معنے ہوئے کہ وہ بات جس سے دوسرے وجودوں سے ممتاز ہوتا ہے پس نام عربی زبان کے مطابق اسی لفظ کے ساتھ رکھنا چاہئے جو اس چیز کے لئے مابہ الامتیاز ہو۔ اور دوسری مثال اب کی ہے اب اصل ا ب و سے ہے یہ تین حرف عربی میں جمع ہوتے ہیں تو ان کے عجیب معنے پیدا ہوتے ہیں یعنی ایک چیز کی طرف جھکنا بھی اور ساتھ اس کے اس سے۔۔۔ بھی ہونا چنانچہ اس کے دو مشتقات اَوْب اور وأب میں رجوع اور خوف اور حیاء کے ملنے پائے جاتے ہیں پس اب کے معنے ہوۓ وہ وجود جس کی طرف رجوع بھی کیا جاتا ہے لیکن ساتھ ہی ایک حد تک حیاء اور خوف کا پہلو بھی شامل ہوتا ہے اور باپ کا مقام بچے کے لئے ایسا ہی ہوتا ہے کہ وہ اپنی ضرورتوں کے لئے اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے لیکن ماں کے مقابلہ اس سے کسی قدر خائف بھی ہوتا ہے اور اس سے سوال میں نسبتاً حياء بھی کرتا ہے۔

تیسرا لفظ ام یعنے ماں کا ہے ام م کے معنے عربی زبان میں کسی کی طرف رجوع کرنے کے ہوتے ہیں اور اپنے طریق پر چلانے کے ہوتے ہیں ان معنوں کے رو سے ام کے یہ معنے ہوئے کہ جس کی طرف بچہ بار بار لوٹتا ہے۔ اور جو بچہ کے اخلاق اور عادات کی بنیاد رکھتی ہے اب دیکھو کیسا لطیف نام ماں کا ہے باپ کی طرح یہاں خوف و حیاء کا دخل نہیں اور اخلاق کی بنیاد کا ذکر کر کے بتایا ہے کہ ماؤں کی درستی سے اولاد کی درستی ہو سکتی ہے۔

چوتھا لفظ میں پانی کا لیتا ہوں کہ اس پر حیات کا مدار ہے عربی میں پانی کو ماء کہتے ہیں عربی قواعد کے لحاظ سے یہ اصل میں م و ہ سے بنا ہے چنانچہ جب اس کی جمع کرتے ہیں تو میاہ کہتے ہیں۔ اب ہم دیکھتے ہیں تو م وہ کے معنے عربی میں مل جانے اور رونق اور حسن کے ہیں۔ پس ماء کے معنے ہوئے دوسری اشیاء سے مل جانے والی اور ان میں رونق اور حسن پیدا کر دینے والی شے۔ اب دیکھو یہ کیسی اعلیٰ تعریف پانی کی ہے پانی کس طرح دوسری اشیاء میں اپنے وجود کو گم کر دیتا ہے اور پھر کس طرح ان کی رونق اور حسن کے بڑھانے کا موجب ہوتا ہے۔

پانچواں لفظ کھانا ہے کھانے کو عربی میں طَعَام کہتے ہیں اور ط ع م کے معنے ذائقہ اور پیٹ بھرنے کے ہوتے ہیں پس طعام کے معنے ہوئے وہ چیز جس کا ذائقہ اچھا ہو اور جسے انسان کا جسم بطور غذا استعمال کر سکے اور اس سے سیر ہو سکے۔

6۔ انسان یہ ا ن س میں سے نکلا ہے جس کے معنے محبت کے اور دوسری شے سے لگاؤکے ہیں اور ان تثنیہ کے لئے ہے پس اس کے معنے ہوئے کہ وہ وجود جو دوسروں سے مل کر کام کرنے کا میلان رکھتا ہے۔ یعنے مدنی الطبع ہے اور ان نے بتایا کہ انسان کا یہ میلان دو قسم کا ہے ایک خالق کے لئے اور ایک مخلوق کے لئے ہمیشہ دوجستجوئیں ہمیشہ اس کے دل میں رہتی ہیں ایک بنی نوع انسان کے ملنے کی اور ایک خالق سے تعلق کی۔

7۔ دنیا میں جو کچھ نظر آتا ہے اس کے ہر فرد کا نام عربی میں شئے ہے۔ خواہ بڑی سے بڑی ہو خواہ چھوٹی سے چھوئی شئے کے معنے ہیں چاہی گئی اور اس کے دو معنے ہیں (1) ہر ایک چیز چاہی گئی ہے یعنے کسی بالا ہستی نے اسے پیدا کیا ہے (2) اور دوسرے یہ کہ ہر ایک چیز جو دنیا میں نظر آتی ہے اس کی خواہش کی گئی ہے یعنی وہ کسی نہ کسی ضرورت کو پورا کرتی ہے کوئی چیز بے فائدہ نہیں۔ دیکھو اس طرح کل کائنات کو ایک طرف تو ایک خالق کی طرف منسوب کیا ہے دوسری طرف تمام کائنات کے مخفی فوائد کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔

8۔ سماء.. س م و سے ہے جس کے معنے بلندی کے ہیں پس اس کے معنے ہوئے کہ جو چیز میں اپنے سے اوپر نظر آتی ہے چنانچہ اسی نسبت سے عرب چھت کو بھی اور بادل کو بھی سماء کہہ دیتے ہیں۔

9۔ ارْض۔ ارض کے معنے عربی زبان میں (اَرَضَ۔ اَرْضا) کثرت سے روئیدگی کے پیدا ہونے کے اور خوبصورتی اور پھیلاؤ کے ہیں پس ارض کے معنے ہوئے ایک خوبصورت…زمین جو خوب پھیلی ہوئی ہے اور اس میں سے قسم قسم کی روئیدگی نکلتی ہے۔

10۔ عربی زبان میں انسانی فطرت اور طبیعات کی باریکیوں کو بیان کیا گیا ہے پیشتر اس کے کہ فلسفیوں نے ان پر سے پردہ اٹھایا

مثلاً میں اس حقیقت کو لیتا ہوں جو اس زمانہ میں ماہرین نفسیات کے لئے معمہ بنے رہے ہیں اور جس پر فروڈ کو سائیکوانیلی سس کا نظریہ ایجاد کرنا پڑا ہے۔

وہ شجاعت ہے عام طور پر بہادری کے یہ معنے سمجھتے ہیں کہ وہ شخص ڈرتا نہیں حالانکہ صرف نہ ڈرنا اعلیٰ صفت نہیں بعض دفعہ وہ نقص ہو سکتا ہے قلت متاثر انسان کو نڈر بنا سکتا ہے ڈر تو کسی چیز کی قیمت کو پہچان کر اس کی حفاظت کے شدید احساس کا نام ہے جب مقابلہ سے نہ بچا سکے بھاگ کر اسے بچائے جب اپنی طاقت کے اندازہ کی غلطی کی وجہ سے یا حفاظت کا خیال جاتا رہ کر صرف خوف باقی رہ جائے تو یہ عیب کہلاتا ہے ورنہ کوئی عیب نہیں۔ اس نکتہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے جنگ میں شیل شاک کی بیماری ہوتی تھی۔ لوگ ایک طرف اپنی جان کا خوف رکھتے تھے دوسری طرف ملک کی خدمت کا خیال تھا اپنے خوف کو چھپاتے تھے اور حب وطن کے خلاف سمجھتےتھے حالانکہ عام آدمی کے نزدیک یہ مرتبہ عزت کا مرتبہ ہے نتیجہ اس اندرونی جنگ کا بیماری پیدا ہونا تھا۔ عربی نے اس فرق کو سمجھا ہے اور شجاعت کے مختلف مدارج قرار دیتے ہیں جو یہ ہیں۔

شجاع۔ جو خوف کو محسوس کرے لیکن خوف سے مغلوب نہ ہو اور اپنے فرض کو ترک نہ کرے۔

مُتَهَوِّر۔ جو بےعقلی سے حملہ کرے اور اس کا خیال نہ رکھے کہ نتیجہ کیا ہو گا۔

گویا اوّل الذکر وہ ہے جس کے سامنے اس کے مقصد کا حصول بہ حسن تدبیر ہے اور ثانی الذکر وہ جو مقصد بھی اور حسن تدبیر بھی بھول جاتا ہے اور صرف ہلاکت دشمن اس کا مقصود رہ جاتا ہے جسے اندھا دھند کہتے ہیں۔

شجاع کے بعد… ہے کہ اس کے دل کی مضبوطی ایسی ہو کہ خطرہ اسے متفکر ہی نہیں کرتا۔

اگر وہ شجاعت میں اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ دشمن کے پاس خود پہنچتا ہے گو احتیاط برتتے ہوئے تو وہ حَلبَس ہے۔

بعض لوگ نیچر سے خائف ہوتے ہیں مثلاً رات سے ڈرتے ہیں گو آدمیوں سے نہیں جو محض نیچر سے نہ ڈرے وہ مِخْشَف ہے۔

جب اس کے چہرے سے نڈر ہونا پایا جائے اور مخالفت پر اسے غصہ آجائے گو تہور کی طرح عقل نہ ماری جائے تو وہ باسِل ہے۔

جب جرأت کے ساتھ جسمانی طاقت اور ہنر بھی ہو جس کی وجہ سے دشمن سے انسان مأمون ہو جائے تو وہ بَطَلٌ ہے۔

دیکھو کس طرح شجاعت کے مدارج اور باریک فرق بتائے ہیں اور اس اندرونی خلش سے محفوظ کر دیا ہے جو شیل شاک کہلاتی ہے۔

اسی طرح بزدلی کے مدارج بتائے ہیں۔

(1) جبان۔ جس پر خوف غالب آجائے لیکن وہ خوف کا مقابلہ کرتا ہو
(2) مغهور– جو بزدل ہو لیکن بوجہ خفقان وغیره بیماریوں کے یہ قابل ملامت نہیں
(3) وَرِعٌ۔ ضَرِعٌ جس کا دل اور جسم دونوں کمزور ہوں اور اس وجہ سے بزدل ہو۔جبان کے بعد مستومِل ہے جو بزدلی کا مقابلہ نہ کرتا ہو اور ہتھیار پھینک چکا ہو۔

پھر تحديه ہے کہ ظاہر جسم پر رعشہ طاری ہو جائے۔ پھر هجْهَاج ہے کہ خوف دیکھا اور بھاگ پڑے ظاہری وقار دکھانے کی بھی ہمت نہ رہے۔

اس کے بعد ھِرْدَبّہ ہے کہ خوف سے ہاتھ پاؤں پھول جائیں اور سب قویٰ محمل ہو کر موت کے کنارے جا لگے۔

سخاوت اور بخل

بخیل جو مال دیتے ہوئے تنگی محسوس کرے پھر مُسُك جو مال قبضہ سے نکلنے نہ دے لَخِرٌ کہ جب مال جائے تو اس کے دل کو سخت صدمہ پہنچے۔

پھر شَحِیْحٌ جو بخل کے ساتھ حریص بھی ہو صرف اپنے مال کو روکنا نہ چاہے بلکہ دوسرے کے مال کو بھی چھینا چاہے

پھر فَاحِشٌ جو اپنے بخل پر پردہ ڈالنے کی کوشش نہ کر سکے
پھر حِلِزٌّ یعنے ایسا بخیل جو اپنی سب قوتوں کو بخل کے لئے لگا دے حلز کے معنے کپڑے اڑس کر تیار ہو جانے کے ہوتے ہیں۔
سَخِی :مُتَسَخِّی جو دل کا سخی نہ ہو مگر عملاً سخی بننے کی کوشش کرے۔

2۔ سخی جس کا دل سخاوت پر برا نہ منائے۔

اَرْیَحی۔ جس کا دل سخاوت پر خوش ہو۔

4۔ الکریم جو سخاوت ایسے موقع پر کرے جب اس کا کوئی نفع اس میں پوشیدہ نہ ہو۔

5۔ العيداق جو سخاوت کرتے ہوئے حسن خلق سے بھی پیش آئے۔

دماغی قابلیت

دماغی قابلیت کے لحاظ سے مندرجہ ذیل لفظ قابل غور ہیں۔

1۔ شک جب کسی امر میں فیصلہ نہ کر سکے۔

2۔ جب ایک طرف دلیل کا پہلو غالب ہو اور اس کا تتبع کرے ظن ہے۔

3۔ وہم جب دلیل کے مغلوب پہلو کی طرف راجع ہو وہم ہے۔

4۔ ریب جب تک انسان کے عمل پر اثر ڈال دے۔

5۔ بری تحریک یا دماغی خرابی سے جو خیال پیدا ہو وہ وَسواس یا وَسْوسَہ ہے۔ پھر تصدیق ہے یقین ہے ایمان ہے۔

(باء) اس کے حروف آگے پیچھے ہو کر متشارك معنے دیتے ہیں جس سے صاف معلوم ہو تا ہے کہ علاوه حرکات کے مقام حروف بھی حکمت سے خالی نہیں۔

مثالیں

1۔ شوب معنے ہیں ملا دینے کے شاب اللَّبن بالماء وشب اس کی جمع اوشاب ہے۔ اس کے معنے ہیں اخلاطٌ من الناس۔ و بش سے اوباش اخلاط الناس بوش القوم المختلطين من قبائل شتى ايضا طعام من حنطة و عدس و لطّیّن و يجعل فی التنور۔

حفت الحية كان لجلاها صوت عند مشيها۔ فحت الحية أردت آن صوتها كان من فمهان جلاها۔ صرف تین لئے جاویں۔

3۔ طعم۔ کھا لیا۔ اعطتم الرجل ہلاک ہوا۔ طمع لینے کی خواہش۔ عمطه عرضه عابه و لامه معطه الشعر بال نوچ لئے۔ مطعہ اكله بمقدم النامه سب ہی لے لینے اور جذب کر لینے کے معنے ہیں۔

(ج) اگر متشارك معنے نہ ہوں تو بھی ایک حروف کے لفظ میں ایک اصولی معنے مشترک پائے جاتے ہیں جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ معنے حروف سے پیدا ہوئے ہیں نہ کہ الفاظ سے۔

مثال۔ ج رب حفاظت و اصلاح کے معنے دیتا ہے۔

جبر اصلاح اور جبر- رجل مجرب جو مختلف حالات میں سے گزر کر دھوکا کھانے سے محفوظ ہو گیا ہو۔

جرَاب کیو نکہ وہ روپیہ کو محفوظ رکھتی ہے۔

بُجْرَۃٌ ناف کیونکہ اسے زندگی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔

برج کیونکہ اس سے حفاظت ہوتی ہے۔

برج آنکھ کی سفیدی جو اچھی ہو آنکھ کی صحت پر دلالت کرتی ہے۔

رَجَبَتُ الرَّجل اذا قَوَّيته و عظّمتَ اَمْرَه رجبه درخت کے نیچے جو ٹیک لگاتے ہیں حفاظت کیلئے۔

2۔ ب ش ر۔ کژت و اختلاف کے ملنے پائے جاتے ہیں۔

البشر انسان جو مختلف القوی ہوتا ہے اور جس کے منہ پر احساسات سے رنگ بدلتے ہیں۔
البَشَارَۃ۔ وہ خبر جس سے چہرہ کا رنگ بدل جائے گو عام طور پر اچھی خبر کے لئے ہے۔
مكَانٌ اَبْرشٌ۔ کثیر النبات مختلف الألوان شَرِتَ رَوِي معنے تازگی آ گئی۔
الشبر العطية شبره مالا ۔ آعطاه آزبش الشجر اورق آخرین واخرج ثمره ارض ربشاء كثيرة العشب مختلفه الوانها ۔ الربشۃ اختلاف اللون۔

3۔ س م ل نرمی اور سہولت کے معنے دیتا ہے اور چیز کو کھینچ لینے اور سخت کرنے کے بھی ہیں۔ اضداد س سے ہے۔

سمل پرانے اونی کپڑے کو کہتے ہیں کیونکہ اوپر سے رواں اڑ کر کچھ نرم ہو جاتا ہے۔
سمل بینهم أضلع سمل فلان بالقول نرم زم باتیں کہی۔ مَسَلَ۔ پانی نال میں چلا یعنی نرمی سے۔
سلم سلامتی سُلَّم سیڑ ھی جس کے ذریعہ سے آسانی سے اوپر چڑھ جاتا ہے۔
مُلِسَ۔ نرم ہو گیا۔ اور ملس الرجل بلسانه دا هنه و تملقمہ
لمس
۔ چھوا۔ تلاش کی اللميس المرأة البيئة اللمس۔
لسَم
۔ ذاق۔ چکھی بھی اچھی چیز جاتی ہے لَسمَ سَکَتَ حياء
چونکہ اس کے معنے ضد کے ہیں اور کھیچنے اور سخت کرنے کے بھی ہیں اس لئے اب ہم ان معنوں کو دیکھتے ہیں۔

ملس الشئ قه و استأصله
إمتسل السيف سُلّه
سمل عینہ فقأها
سلمتہ الحَیَّۃ لَدَعْتہ ۔السَّلم
کیکر کی قسم کا درخت جو لعاب کھینچ لیتا ہے۔ Stringent لمس شعاع يكاد يلمس البصراي يذهب به
لَسِمَ۔ سلَت عَیًّا
۔ گویا طاقت سلب ہوگئی

اگر تین حروف میں سے ایک حرف کی جگہ اس کا مشابہ حرف بدل جائے تو معنوں میں خفيف تغیر پیدا ہو جاتا ہے اور اصل معنے بھی قائم رہتے ہیں یہ بھی ثبوت ہےکہ معانی حروف میں ہیں نہ کہ الفاظ میں۔

مثالیں

(الف) ایک لفظ میں تغیر کی مثالیں۔
أزالشّیء اضاف بعضه إلى بعض۔ فلاناً عليه حمله عليہ هَزّ الشَئ هَرّلَه۔هَزّ من عطف فلانٍ هَيّجَه لِلعَمَلِ
اس میں صرف فرق یہ ہے کہ أزّ زیادہ ہے معنوں میں کیونکہ ھمزہ ہ سے زیادہ قوی ہے۔

جرف الشیء ذهب به کله او مطه جلف الظفر إستأصله

رمقمه اطال النظر اليه رمك بالمكان اَقام به

صبح ضرب حديدا على حديد فصوتا صبح صاح و جلب نفرعه من شئی أخافه

سدع الشئ بالشئ صدمه صدع الشئ شقه و لم يفترق
(ب) زیادہ الفاظ میں تغیر کی مثالیں۔

کبھی یہ تغیر کئی الفاظ میں چلا جاتا ہے جیسے

شَتَّ۔ متفرق ہو گیا۔ شَتَرَ۔ قَطَعَ – شطر قطع في نصفين۔
اس کے بعد یہ دوسرا تغير قبول کرتا ہے اور شدََّ بن جاتا ہے اس کے معنے ہی جماعت سے علیحدہ ہو گیا حدیث میں ہے مَن شُذَّ شُذَّ پھر شَطَّه ہو جاتا ہے جس کے معنی ہیں حق سے علیحدہ ہو گیا۔
پھر شَظَّه ہو جاتا ہے جس کے معنے ہیں قوم میں تفرقہ ڈال دیا۔

قَثَّ الثوب۔قَدّہ۔ باء قَثَّ الشجر اسۡتاصله۔

ج- قَدَّ الشّيۡءَ قَطَعَه مستاصلا ۔ قَطَعَه شَقَّه طولاً۔
ہ۔قَصَّ الشیءقطفہ
و۔قَضَّ الشئ ثَقَبَه وَدَقَّهُ
ز۔ قَطَّهُ القلم قطع رأسه عرضا في برۡیِه

پھر بعض دفعہ دو حرف متقارب سے بدل کر معنے پیدا کرتے ہیں کبھی تینوں بدل کر بھی قریب المعنیٰ رہتے ہیں۔ اس کے فلسفیانہ ہونے پر لُنڈی کی شہادت صفحہ30۔31

اب سب امور کا نتیجہ کہ عربی کی تخلیق حرکات اور حروف اور ترتیب حروف سے ہے اور یہ امر یا تو (1) فلسفی کر سکتے ہیں مگر اس فرض کے ساتھ مانا پڑے گا کہ یہ زبان نہایت قریب زمانہ میں بنی ہے اور یہ غلط ہے کہ سب زبانوں پر اس کا اثر موجود ہے اور یا یہ ماننا پڑے گا کہ اس کے اصول انسان کو شروع دنیا میں الہاماً بتائے گئے تھےیا پھر جس طرح خدا تعالیٰ کا پیدا کرده انسان ترقی کرتا گیا یہ خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ زبان بھی ترقی کرتی گئی۔ دوسری زبانیں اس سے ہی نکلیں اور جب وہ جدا ہوئیں اصول کو بھول گئیں۔

(رسالہ موازنہ مذاہب جنوری2012ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 اپریل 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 اپریل 2020