• 24 اپریل, 2024

حضرت خان محمد یحیٰ خان صاحب رضی اللہ عنہ

حضرت خان محمد یحیٰ خان صاحب رضی اللہ عنہ
آف شاہ آباد ضلع ہردوئی (اتر پردیش انڈیا)

حضرت خان محمدیحیٰ خان صاحب رضی اللہ عنہ شاہ آباد ضلع ہردوئی (بھارت) کے رہنے والے تھے اور حضرت حکیم انوار حسین خان صاحب رضی اللہ عنہ یکے از 313 رفقاء احمد (وفات: 27؍جولائی 1931ء مدفون بہشتی مقبرہ قادیان) کے بیٹے تھے۔ آپ کے والد صاحب نے 1892ء میں بیعت کر لی تھی جبکہ آپؓ کی پیدائش 1894ء میں ہوئی۔ اس لحاظ سے آپ پیدائشی احمدی تھے۔ 1904ء میں آپ کے والد صاحب نے آپ کو تعلیم کے لیے قادیان بھیج دیا ۔ اسی موقع پر آپ نے پہلی دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کا شرف پایا۔آپ اپنی روایات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’میرے والد صاحب مرحوم حکیم مولوی انوار حسین خان صاحب سکنہ شاہ آباد ضلع ہردوئی یو۔پی …. دیوبند کے دستار بند مولوی تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مہمان نوازی کا یہ واقعہ اکثر سنایا کرتے تھے کہ میں پہلی مرتبہ قادیان دارالامان 1892ء میں آیا تھا اور اس وقت مہمان گول کمرہ میں ٹھہرا کرتے تھے۔ میں بھی وہیں ٹھہرا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی ساتھ ہی کھانا تناول فرمایا کرتے تھے اور کھانا کھاتے کھاتے اٹھ کر اندر تشریف لے جاتے اور کبھی چٹنی کبھی اچار لے کر آتے کہ آپ کو مرغوب ہوگا۔ غرض کہ کھانا خود بہت کم کھاتے اورمہمانوں کی خاطر زیادہ کیا کرتے تھے۔

1902ء میں میرے بڑے بھائی عبدالغفار خان کو تعلیم کی غرض سے دارالامان بھیجا اور اس کے بعد 1904ء میں جب بڑے بھائی صاحب گرمی کی رخصتیں ختم کرنے کے بعد واپس آنے لگے تومجھے بھی بھیج دیا اور اس کے بعد میرے منجھلے بھائی عبدالستار خان کو۔ میں جب قادیان آیا اس وقت میری عمر دس(10) سال کی تھی اور بورڈ ران میں سب سے چھوٹا تھا۔ والد صاحب مرحوم جب کبھی قادیان آتے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اطلاع ہوتی تو حضور حافظ حامد علی صاحب مرحوم کو بھیج کر بلوا لیتے۔ میں بھی والد صاحب کے ہمراہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوتا۔ ان دنوں اکثر حضور مسجد مبارک کی بغلی کوٹھڑی جہاں ام المومنین اید ھااللہ کا راستہ ہے یا مسجد میں ملاقات فرمایا کرتے تھے اور وہاں کے علماء اور اعزا کی مخالفت کا حال دریافت فرماتے رہتے۔

حضرت ام المومنین ایدھا اللہ تعالیٰ کو کسی کام کی ضرورت پیش آتی تو ہم چھوٹے بچے بورڈنگ تعلیم الاسلام کے جو ان دنوں مدرسہ احمدیہ میں ہوا کرتے تھے، کام کرنے کی خاطر شوق سے آجاتے۔ مجھے یاد ہے کہ اکثر حضرت مسیح موعود علیہ السلا م ہم بچوں کے متعلق دریافت فرماتے: یہ کون ہے؟ اور وہ کون ہے؟ خاکسار کے متعلق ایک مرتبہ دریافت فرمایا تو حضرت ام المومنین ایدھا اللہ بنصرہ العزیز نے فرمایا: انوار حسین صاحب آموں والے کے لڑکے ہیں تو فرمانے لگے کہ اس کو کہو کہ بیٹھ جائے اور کام نہ کرے۔ مجھے بٹھا دیا اور دوسرے لڑکے کام کرتے رہے۔ایک مرتبہ حضور بہلی پر گورداسپور مقدمہ کی تاریخ پر جارہے تھے اور ہم بورڈران بھی دور تک ہمراہ پہنچانے کے لئے جارہے تھے۔ میں حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے ساتھ جو میرے ہم عمر ہیں کھیلتا جارہا تھا۔ وہ بہلی میں تشریف رکھتے تھے اور میں ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ راستہ میں جو آک پڑتے ان کے پھول توڑ کر ان کو دیتا جن کو دبانے سے پٹاخے چلتے۔ پھر اور توڑ کر دیتا۔ جب ہم اور کچھ دور پہنچے تو حضور نے ایک گنے کا ٹکڑا مجھے دیا اور فرمایا لو پیاس لگ گئی ہوگی۔ میں نے چوس لیا۔ پھر کچھ فاصلے پر پہنچ کر فرمایا:اب بچے واپس چلے جائیں۔ تھک جاویں گے۔ ہم رخصت ہوکر واپس آگئے۔ اسی طرح ایک مرتبہ ہم حضور کے ہمراہ نہر تک گئے اور رمضان کا مہینہ تھا۔ پیاس لگی ہوئی تھی ۔حضور کو معلوم ہوگیا کہ بعض چھوٹے بچوں کا روزہ ہے۔ تو حضور نے فرمایا: ان کا روزہ تڑوا دو۔ بچوں کا روزہ نہیں ہوتا۔ اس حکم پر ہم نے نہر سے خوب پانی پی کر پیاس بجھائی اور حضور سے رخصت ہوکر قادیان واپس چلے آئے۔

باہر سے اکثر احباب تشریف لاتے تھے اور خوردہ کے خواہش مند ہوا کرتے تھے۔ چونکہ بورڈ ران میں سے میں چھوٹا تھا اور اندر جایا کرتا تھا۔ احباب کے ذکر کرنے پر خوردہ لانے کے لئے تیار ہوجایا کرتا تھا۔ کھانے کا وقت ہوا تو ام المومنین ایدھا اللہ بنصرہ تعالیٰ سے عرض کرنے پر خوردہ مل گیا۔ کھانے کا وقت نہ ہوا تو بھی حضور خوردہ کی خواہش پر ازراہ شفقت روٹی منگوا کر اس میں سے ایک لقمہ کھا کر بقیہ دے دیا کرتے تھے جو میں خوشی خوشی لاکر ان دوستوں کو دے دیا کرتا تھا جنہوں نے مانگا ہوتا تھا۔

(رجسٹر روایات صحابہ نمبر3 صفحہ139 تا 140)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نےاپنے دور خلافت میں آپ کو قادیان بلانے کا ارادہ کیا جس کے متعلق تاریخ احمدیت میں حضورؓ کا ایک مکتوب اور تفصیل یوں درج ہے:
’’عزیز مکرم! السلام علیکم۔ آپ کے دونوں خط ملے۔ بوجہ سفر کے جواب نہیں لکھ سکا۔ میں نے آپ کو اس لیے خط لکھا تھا کہ احمدیہ ایجنسی کے لیے تجویز تھی کہ ایجنٹ مقرر کر کے کام کو وسیع کیا جائے۔ میں چاہتا تھا کہ اگر ہوسکے تو آپ کو یہاں بلوا لوں۔ ایک اور کام بھی تھا جس کے متعلق امید تھی کہ جلد شروع ہوجائے گا۔ چونکہ آپ کی ایک دفعہ کی گفتگو سے مجھے معلوم ہوا تھاکہ آپ کو تجارت سے دلچسپی ہے، میں نے آپ کو خط لکھ دیالیکن فی الحال وہ تجاویز عملی صورت اختیار کرنے سے رہ گئی ہیں اس لئے جب پھر موقعہ ہوا مَیں آپ کو لکھوں گا۔ ان شاء اللہ۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں آپ اس کام کو اچھی طرح کرسکتے ہیں۔والدہ عبدالمنان کی بیماری کے لمبا ہونے سے افسوس ہوا۔ اللہ تعالیٰ ان کو شفا عطا فرمائے اور سب خیریت ہے۔ والسلام خاکسار مرزا محمود احمد‘‘

تاہم حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے آپ کو جلد ہی قادیان بلا لیا اور آپ بعض خصوصی خدمات بجا لانے لگے۔ حضورؓ کی ذاتی لائبریری کا انتظام، ڈاک کے ضروری کاغذات اور اخبارات کے تراشوں کی حفاظت، حضور کے سفروں کے انتظامات اور بعض دوسرے اہم فرائض آپ کے سپرد ہوتے تھے۔ آپ کا شمار حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے خاص خدام میں ہوتا تھا۔ آپ وجیہ، خوش شکل، باذوق، زندہ دل اور غایت درجہ مستعد اور فرض شناس تھے۔

(تاریخ احمدیت جلد ہشتم صفحہ193)

آپ نے مؤرخہ 21؍ستمبر 1940ء کو وفات پائی جس پر اخبار الفضل نے لکھا:
’’نہایت افسوس کے ساتھ لکھا جاتا ہے کہ محمد یحیٰ خان صاحب کارکن دفتر پرائیویٹ سیکرٹری حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ لمبی بیماری کے بعد کل بعمر 46 سال وفات پاگئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ مرحوم موصی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے صحابی تھے۔ حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے جنازہ پڑھایا۔ مرحوم بہشتی مقبرہ میں دفن کیے گئے۔‘‘

(الفضل 24؍ستمبر 1940ء صفحہ2)

آپ کی شادی حضرت سید عزیز الرحمٰن صاحب رضی اللہ عنہ آف بریلی کی بیٹی حضرت فاطمہ بانو صاحبہ (ولادت: 1899ء۔ وفات: 28؍مئی 1976ء مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ) سے ہوئی۔ اس طرح آپ حضرت مولانا عبدالرحیم نیر صاحبؓ اور حضرت قاضی محمد عبداللہ بھٹی صاحبؓ کے ہم زلف تھے۔ آپ کے ایک بیٹے مکرم عبداللطیف صاحب عرف ننھا قصر خلافت ربوہ میں کام کرتے تھے۔ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لَہٗ وَ ارْحَمْہٗ۔

(نوٹ: آپ کی تصویر محترم ایڈمرل سہیل خان صاحب حال مقیم ٹورانٹو نے مہیا کی ہے۔ فجزاہ اللہ احسن الجزاء۔)

(غلام مصباح بلوچ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 اپریل 2021