• 25 اپریل, 2024

رشتہ ناطہ کے بڑھتے ہوئے مسا ئل اور ان کا حل

رشتہ ناطہ کے مسائل مختلف وجوہات کی بناءپر بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں۔پہلے ایک نظر ان بیٹیوں/بیٹوں کے حال پر ڈالتے ہیں جو ٹھکرائے جانے کی تکلیف اور کرب سے گزرتے ہیں ۔

ایک خاتون نے بتایا کہ بیرونِ ملک سے کچھ خواتین میری بیٹی کے رشتہ کے سلسلہ میں آئیں اور میری بیٹی کے سامنے اس کے چہرے کے عیب (جو کہ اس نے خود نہیں بنایا) بتانے لگ گئیں (تفصیل لکھنے کی میرا قلم طاقت نہیں رکھتا)۔

ایک اور خاتون نے بتایا کہ ان کی بیٹی کا رشتہ دیکھنے والی نے بیٹی کے سامنے اس کا قد پوچھا۔پھر وہ کہنے لگیں کہ کہ یہ دیکھنے میں تو چھوٹی لگتی ہے ۔پھر وہ اس لڑکی کو اپنے ساتھ کھڑی کرکے اپنا اور اس کے قد کاموازنہ کرنے لگ گئیں۔اب ایک لمحہ کے لئے اس بچی کے دکھ کا اندازہ لگائیےکہ اس پر کیا بیتی ہوگی؟ میں نے اس خاتون سے کہا کہ آپ کو ان سے کہنا چاہئے تھا کہ اگلا رشتہ جب وہ کسی کے گھر میں دیکھنے جائیں تو ساتھ ماپنے والا فیتہ بھی لے کر جائیں۔

پھر ایک رشتہ دیکھنے والی خاتون نے ایک گھر جا کر بچی کے سامنےہی اسکو اسکے زیادہ وزن ہونے کا احساس دلایا۔پھر ایک خاتون نے بتایا کہ رشتہ دیکھنے والی لڑکے کی ماں نے میری بیٹی کے سامنے ہیں اس کو اسکی گہری رنگت کا طعنہ دیا۔اسکے بعد کتنی مدت تک میری بیٹی کسی رشتہ دیکھنے والوں کے سامنے نہیں آئی۔
اسی طرح ایک لڑکے کی والدہ نے بتایا کہ مجھے ایک بچی پسند تھی مگر اس کی والدہ نے صرف اس وجہ سےانکار کر دیا کہ میرے بیٹے کا قد اسکی بیٹی جتنا تھا ۔اور کہا کہ مجھے تو اپنی بیٹی سے کم ازکم 4۔5 انچ لمبے قد والا لڑکا چاہئے۔

ایک لڑکی کی بہن نے بتایا کہ ان کو ایک لڑکی اپنے بھائی کے لئے پسند آئی مگر لڑکی والوں نے یہ کہ کر انکار کردیا کہ چونکہ ہماری ذات فلاں فلاں ہے اس لئے ہم غیر ذات میں رشتہ نہیں کرینگے۔

ان تکلیف دہ باتوں کی تو ایک لمبی لسٹ ہے ۔مگر مجھے یہ سب مطالبات سن کر لگا کہ جیسے بچوں کی مائیں بہنیں رشتہ دیکھنے نہیں بلکہ کسی شادی بازار میں شاپنگ کر رہی ہوںکہ انکو بہو یا داماد اتنے فٹ لمبا (نہ کچھ کم نہ زیادہ)، اتنا سمارٹ ،خوبصورت اور صاف رنگ والا ہی چاہئے۔

لگتا ہے جیسے ہم نے جیتے جاگتے انسانوں کو بھی بے جان مادی اشیاء کی طرح اپنی مرضی کے ترازوؤں میں تولنا شروع کردیا ہے۔رشتہ طے کرتے وقت پسند ناپسند کا سب کو حق ہے۔ رشتہ دیکھتے وقت پوشیدہ طور پر ساری معلومات حاصل کریں مگر خداتعالیٰ کی بنائی ہوئی مخلوق پر کسی قسم کا اعتراض کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے ۔ہمارے لئے ہمارے پیارے نبی سید و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا یہ ارشاد مشعلِ راہ ہونا چاہئے:

لَقَدْ قُلْتِ كَلِمَةً, لَوْ مُزِجَتْ بِمَآءِ الْبَحْرِ لَمَزَجَتْهُ

(ابو داؤدكِتَابُ الْأَدَبِ بَابٌ فِي الْغِيبَةِ حدیث: 4875)

ترجمہ :تم نے ایسا کلمہ کہا ہے کہ اگر اسے سمندر میں ملا دیا جائے تو کڑوا ہو جائے ۔

حضرت عائشہؓ نے اپنی سب سے چھوٹی انگلی دکھا کرحضرت صفیہؓ کو ان کے چھوٹے قد کی طرف اشارہ کرتے ہوئےچھوٹے قد والی کا طعنہ دیا۔ آنحضرتﷺ کو جب پتا چلا تو آپﷺ بہت ناراض ہوئے۔ اور اس وقت آپ نے مندرجہ بالا ارشاد فرمایا۔

یہ ہمارے لئے بے حد فکر اور خداتعالیٰ سے ڈرنے کا مقام ہے۔دنیا داری کی اس رنگ،ذات پات،قدو قامت اور ظاہری شکل وصورت کی دوڑ میں ہم بھاگے جا رہےہیں ۔ رسولِ کریمﷺ کا یہ مبارک ارشاد رشتہ ڈھونڈتے وقت شاید ہم بھول جاتے ہیں، یا اسکو ترجیح نہیں دیتے:
ترجمہ: ’’تو دیندار عورت کوترجیح دے. اللہ تیرا بھلا کرے اور تجھے دین دار عو رت حاصل ہو۔‘‘

(صحیح بخاری كِتَابُ النِّكَاحِ)

ان مسائل کا حل

گھر اللہ تعالیٰ کے رحم و فضل اور تقویٰ سے بستے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے زند گی نام ہی وقت پر صحیح فیصلہ کر نے کا ہے۔ کسی بھی منزل پر پہنچنا ہو تو راستہ صیح معلوم ہوگا تو منزل پر پہنچیں گے۔ یعنی اگر منزل کراچی کی ہو اور ہم سفر پشاور کی طرف شروع کردیں تو ہم پشاور ہی پہنچیں گے کراچی نہیں۔ پہلے ہم یہ طے کر لیں کہ ہمیں کیا چاہئے؟ خدا تعالیٰ کی رضا یا دنیا داری۔ کامیاب عائلی زندگی کی کلید توہمارے پیارے آقا حضر ت محمدؐ 14سو سال پہلے بتا گئے کہ تو دین دار عورت کو تر جیح دے۔نیکی وتقویٰ کے مضامین صرف اجلاسوں ،میٹنگز یا تربیتی سیمینارز میں پڑھنے کے لئے نہیں ہیں بلکہ رشتہ ناطہ جوڑتے وقت تقویٰ کا اصل مفہوم سامنے رکھنا چاہئے۔ہر وقت خدا تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے۔ رشتہ دیکھتے وقت، رشتہ کرتے وقت سے لیکر عملی زندگی شروع ہوجانے کے بعد بھی ساری زندگی تقویٰ کو ہی مدِ نظر رکھیں گے تو گھر جنت نظیر بن سکتے ہیں ۔نکاح کے موقع پر پڑھی جانے والی 4مبارک آیات میں 5بار تقویٰ کا ذکر آیا ہے۔

کسی لڑکی یا لڑکے کو اسکی ظاہری شکل وصورت یا قد و قامت میں نقص نکال کر (جوکہ خداتعالیٰ کی تخلیق ہے)لوگوں کے سامنے بیان کرنا گناہ ہے۔خداتعالیٰ تو بہت مہربان ہے اور اپنی ساری مخلوق سے بہت محبت کرتا ہے۔دوسروں کا اس طرح دل دکھانا خداتعالیٰ کو ناراض کرتا ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا یَسۡخَرۡ قَوۡمٌ مِّنۡ قَوۡمٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا خَیۡرًا مِّنۡہُمۡ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنۡ نِّسَآءٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُنَّ خَیۡرًا مِّنۡہُنَّ ۚ وَ لَا تَلۡمِزُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ

(سورۃ الحجرات:12)

ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو! (تم میں سے) کوئی قوم کسی قوم پر تمسخر نہ کرے۔ ممکن ہے وہ ان سے بہتر ہوجائیں۔اور نہ عورتیں عورتوں سے (تمسخر کریں)۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوجائیں۔ اور اپنے لوگوں پر عیب مت لگایا کرو ۔

ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ نے تو 1400سال پہلے ہمیں کامیاب ازدواجی زندگی کا نسخہ بتا د یا۔

آپﷺ فرماتے ہیں:
کسی عورت سے نکاح چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ یعنی اس کے مال کی وجہ سے اور اس کے خاندانی شرف کی وجہ سے اور اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے اور تو دیندار عورت سے نکاح کرکے کامیابی حاصل کر۔

(صحیح بخاری كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ الأَكْفَاءِ فِي الدِّينِ حدیث: 5090)

اگر ہم رشتے کے وقت مال کو مد نظر رکھیں تو پھر تو کسی امیر کی اولاد ناخوش نہیں ہو نی چاہیے۔

اب اگر خاندان یاحسب ونسب معیار ہے تو اللہ کا یہ ارشاد سامنے رہے:
’’ہم نے تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بلا شبہ اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔‘‘ (سورت الحجرات: 14)

کیونکہ جب اس عارضی دنیا کا اختتام ہو گا تو قبر کی مٹی ایک ہی رنگ کی ہو گی۔ اس پر تو کسی کے حسب و نسب یا جائیدادوں کی تختی نہیں ہو گی۔

اگر ظاہری حسن و خوبصورتی معیار ہے تو انسان کی تو اتنی وقعت ہے کہ اس کو اگلے لمحے کا نہیں پتہ۔ اگر اسکو شدید سر درد ہی ہو جائے تو وہ بستر سے نہیں اٹھ سکتا۔ یہ اللہ کا فضل ہی ہو تا ہےکہ وہ اسکو شفاء دیتا ہے۔ انسان تو اپنی ذات میں اتنا کمزور ہے کہ لمحہ لمحہ خدا تعالیٰ کے رحم کا محتاج ہے۔

اب آخر میں دین داری آتی ہے۔ نیک ماں کی گود سے نیک نسلیں پلتی ہیں۔

پھر آپﷺ نے فرمایا

إِنَّمَا الدُّنْيَا مَتَاعٌ، وَلَيْسَ مِنْ مَتَاعِ الدُّنْيَا شَيْءٌ أَفْضَلَ مِنَ الْمَرْأَةِ الصَّالِحَةِ

(ابنِ ماجہ کتاب النکاح)

ترجمہ: دنیا تو سامانِ زیست ہےاور نیک عورت سے بڑھ کر کوئی سامانِ زیست نہیں۔

آپﷺ نے تو مؤمن کی یہ نشانی بتائی ہے کہ وہ اپنی زبان اور ہاتھ سے کسی کو دکھ نہیں دیتا۔

حضرت عبداللہ بن عمر ؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے منبر پر کھڑے ہوکر بآوازِ بلند فرمایا
اے اسلام لانے والے زبانی لوگوں کی جماعت ان کے دلوں تک ایمان نہیں پہنچاہے! مسلمانوں کو تکلیف مت دو، ان کو عارمت دلاؤ اور ان کے عیب نہ تلاش کرو، اس لیے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیب ڈھونڈتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کا عیب ڈھونڈتا ہے ، اور اللہ تعالیٰ جس کے عیب ڈھونڈتاہے ، اسے رسوا و ذلیل کردیتا ہے، اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندرہو۔

(جامع ترمذی أَبْوَابُ البِرِّ وَالصِّلَةِ حدیث: 2032)

حضرت اقدس مسیحِ موعود ؑ فرماتے ہیں
انسان کی تمام روحانی خوبصورتی تقویٰ کی تمام باریک راہوں پر قدم مارنا ہے ۔تقویٰ کی باریک راہیں روحانی خوبصورتی کے لطیف نقوش اور خوشنما خط وخال ہیں ۔اور ظاہر ہے کہ خداتعالیٰ کی امانتوں اور ایمانی عہدوں کی حتی الوسع رعایت کرنا اور سر سے پیر تک جتنے قویٰ اور اعضاء ہیں جن میں ظاہری طور پر آنکھیں اور کان اور ہاتھ اور پیر اور دوسرے اعضاء ہیں اور باطنی طور پر دل اور دوسری قوتیں اور اخلاق ہیں ان کو جہاں تک طاقت ہو ٹھیک ٹھیک محلِ ضرورت پر استعمال کرنا اور ناجائز مواضع سے روکنا اور ان کے پوشیدہ حملوں سے متنبہ رہنا اور اسی کے مقابل پر حقوق العباد کا بھی لحاظ رکھنا یہ وہ طریق ہے کہ انسان کی تمام روحانی خوبصورتی اس سے وابستہ ہے ۔اور خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیا ہے ۔چنانچہ لِبَاسُ التقْویٰ قرآن کریم کا لفظ ہے۔یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے۔اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان خدا کی تما م امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تما م امانتوں اور عہد کی حتی الوسع رعایت رکھے۔ یعنی ان کے دقیق در دقیق پہلوؤں پر تابمقدور کاربند ہوجائے۔

(براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد نمبر21 صفحہ210.209)

ایک اور جگہ حضرت اقدس مسیحِ موعود ؑ فرماتے ہیں

ہمیں اس یار سے تقویٰ عطا ہے
نہ یہ ہم سے کہ احسانِ خدا ہے
کرو کوشش اگر صدق و صفا ہے
کہ یہ حاصل ہو جو شرطِ لقا ہے
ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے
اگر یہ جڑھ رہی سب کچھ رہا ہے
ڈرو یارو کہ وہ بینا خدا ہے
اگر سوچو یہی دارالجزاء ہے
مجھے تقویٰ سے اس نے یہ جزا دی
فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَخْزَالْاَعَادِیْ

ہمارے پیارے آقاسیّدنا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایَّدہُ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہمیں مسلسل اپنے جائزے لینے کی طرف توجہ دلا رہے ہیں اور آپ مسلسل رشتہ ناطہ کرتے وقت دعاوں سے کام لیتے ہوئے ’’دین داری‘‘ کو مقدم رکھنے کی تلقین فرما رہے ہیں آپ کے خطبات میں رشتہ ناطہ و عائلی مسائل کے تمام حل موجود ہیں۔ خصو صاً آپ کے جلسہ سالانہ کے خطبات خوا وہ جلسہ سالانہ جر منی ۲۰۱۷ کے موقعہ پر لجنہ سے خطاب ہو یا جلسہ سالانہ یوکے ۲۰۱۸ کے موقعہ پر لجنہ سےخطاب ہویا آپکا کسی بھی جلسہ پر لجنہ سے خطاب ہو ان میں تمام عائلی مسائل کے حل موجود ہیں) اگر ہم نیک نیتی سے آپ کے ہر ارشاد کی مکمل اطاعت کریں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے نا صرف رشتہ ناطہ بلکہ ہر طرح کے مسائل ٹھیک ہوجائیں۔

کیونکہ اچھے رشتوں کے مسائل، عائلی مسائل، تفکرات، ھم وغم ۔۔۔ دیگر سب دکھ درد کا حل، اطاعت ِخلافت میں ہے۔ جو کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے عافیت، ترقی، امن وسلامتی اور رحمتوں وبرکتوں کا تعویذ ہے۔

آپ فرماتے ہیں
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو تمام مومنوں کو یہ فرما رہے ہیں کہ ایک لڑی میں پروئے جانے کے بعد تم ایک دوسرے کی تکلیف کو محسوس کرو۔ میاں بیوی کا بندھن تو اس سے بھی آگے قدم ہے۔ اس سے بھی زیادہ مضبوط بندھن ہے۔ یہ تو ایک معاہدہ ہے جس میں خدا کو گواہ ٹھہرا کر تم یہ اقرار کرتے ہو کہ ہم تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کریں گے۔ تم اس اقرار کے ساتھ ان کے لئے اپنے عہدو پیمان کر رہے ہوتے ہو کہ تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے ہم ہر وقت اس فکر میں رہیں گے کہ ہم کن کن نیکیوں کو آگے بھیجنے والے ہیں۔ وہ کون سی نیکیاں ہیں جو ہماری آئندہ زندگی میں کام آئیں گی۔ ہمارے مرنے کے بعد ہمارے درجات کی بلندی کے کام بھی آئیں۔ ہماری نسلوں کو نیکیوں پر قائم رکھنے کے کام بھی آئیں۔ اللہ تعالیٰ کی اس وارننگ کے نیچے یہ عہد و پیمان کر رہے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ خبیر ہے۔ جو کچھ تم اپنی زندگی میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ کرو گے یا کر رہے ہو گے دنیا سے تو چھپا سکتے ہو لیکن خداتعالیٰ کی ذات سے نہیں چھپا سکتے۔ وہ تو ہر چیز کو جانتا ہے۔ دلوں کا حال بھی جاننے والا ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 24؍ جون 2005ء)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان مبارک نصائح پر کما حقہ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

٭…٭…٭

(ایم رحمٰن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 اپریل 2021