• 26 اپریل, 2024

وقت ہی نہیں ملتا

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ نےوقف زندگی کی نہایت مفیدوبابرکت تحریک شروع فرمائی تو جماعت نے عجب والہانہ انداز میں قربانی کی شاندار مثالیں قائم کرتے ہوئے اپنے بچوں اور نوجوانوں کو ہر قسم کے دنیوی فوائد کو نظر انداز کرتے ہوئے خدمت دین کے لئے پیش کر دیا۔ ابتدائی واقفین زندگی کی خوش قسمتی و سعادت میں کیا شک ہو سکتاہے۔ انہوں نے آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے عمدہ روایات قائم کرتےہوئے اپنی زبان سےہی نہیں اپنے عمل سےیہ دکھا دیا کہ مشکلات و تکالیف خدمت دین کے رستہ میں روک نہیں بن سکتیں۔ سچا جذبہ اور محنت و لگن کامیابی کی ضمانت اور خداتعالیٰ کے فضل کو حاصل کرنے کا ذریعہ بن جاتاہے۔

ابتدائی واقفین کویہ سعادت بھی حاصل ہوئی کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ کی ہدایت کےمطابق وہ بڑی باقاعدگی اورپابندی سے اپنے روزانہ معمولات کی رپورٹ یا ڈائری حضورکی خدمت میں پیش کرتےتھے۔ان کی ڈائری میں یہ امربھی شامل ہوتاتھاکہ صبح کس وقت جاگے اور اس کے بعد حوائج ضروریہ سےفراغت میں کتنا وقت لگا اور اس کے بعد معمول کے کام کتنے بجے شروع کئے۔ اس ابتدائی تربیت کا مقصدیہ تھاکہ واقف زندگی کویہ احساس ہوجائے کہ اس نے دن رات میں کوئی وقت بھی ضائع نہیں کرنا۔ بعض اوقات دیکھنے میں آتاہے کہ انسان بغیر سوچے سمجھےعادتاً اپنا وقت صحیح مفید اور Productive کاموں میں لگانےکی بجائےاس قیمتی متاع کوجوایک دفعہ ہاتھ سے نکل جانے کے بعد کبھی کسی قیمت پرواپس نہیں مل سکتی بلاوجہ سستی میں ہی ضائع کردیتاہے۔اس کی بجائے اگر ہم اپنا وقت سوچ سمجھ کر مفیداورضروری کاموں میں خرچ کریں تواس میں حیرت انگیز طورپر برکت پڑجائے گی اوریہ کہنے کی نوبت بہت کم آئے گی کہ:

’’..کیا کیا جائے۔ کام بہت ہے۔ وقت ہی نہیں ملتا..‘‘

عام طور پر یہ مشکل ان لوگوں کو پیش آتی ہے جو اپنے وقت کے استعمال میں پوری طرح محتاط نہیں ہیں۔ مثال کے طور پرایک شخص صبح سویرے اٹھ کراپنےمعمولات شروع کرتاہے۔بسترپرکروٹیں بدلتے ہوئے وقت ضائع نہیں کرتا۔غسلخانہ میں بھی ضرورت سےزیادہ وقت نہیں لگاتا۔ اسےاپنی اس اچھی عادت کی وجہ سےصرف یہی نہیں کہ نوافل، نماز، تلاوت وغیرہ کےلئےبہت کافی وقت مل جائے گابلکہ یہ امراسےاچھی صحت کی نعمت سے بھی مالامال کردےگا۔اس کاایک اور بہت بڑافائدہ یہ بھی ہوگا کہ اسےاپنےبیوی بچوں کےساتھ گزارنے کے لئے بہت اچھاوقت مل جائےگاجس میں بہت سے خاندانی اور تربیتی مسائل خودبخود حل ہوتے چلے جائیں گے۔ میاں بیوی کےتعلقات کی بہتری اور بچوں کی شخصیت میں نکھار اور عمدگی بھی آجائے گی۔ اس کے برعکس اگرکوئی شخص صبح اٹھنے میں دیر کرتا ہے اور سستی کی وجہ سے بستر میں کروٹیں لیتا رہتا ہے وہ یہ احساس ہی نہیں کرتا کہ اس طرح وہ اپنی زندگی کے کتنے قیمتی لمحات ضائع کر رہا ہے۔ وہ دیرسے اٹھنے کی وجہ سے نوافل ،نماز، تلاوت بلکہ غسل اور وضو وغیرہ ضروری امور کو پورا وقت نہیں دے سکے گا بہت ممکن ہے کہ جلدی جلدی یہ سب کام کرنےکی وجہ سے وہ اپنے بیوی بچوں کو وہ توجہ اور پیار دینے کی بجائے گھبراہٹ اور جھنجلاہٹ میں ان پر اپنا غصہ اتارنے کی کوشش کرے۔ اس طرح پیارومحبت اور افہام وتفہیم کی بجائے باہم تعلقات میں سردمہری بلکہ ناراضگی وغیرہ راہ پالیں اوریہ ساری نحوست صرف اس وجہ سے ہوگی کہ وقت کا صحیح استعمال نہیں کیا گیا۔ اگر خاتون خانہ بھی ملازمت یا اپنے کام پر جاتی ہو تو جلد اٹھنا اور وقت کاخیال رکھنا اور زیادہ ضروری ہوجائےگا۔

ان مصروفیات کایہ مطلب نہیں ہےکہ انسان قیلولہ یاتفریح میں وقت نہ لگائےبلکہ ضروری ہوگا کہ ان کو بھی باقاعدگی اور نظم وضبط سے کیا جائے۔ نیند اور تفریح اپنی جگہ ضروری ہے مگرہمیں یہ ضرورعلم ہونا چاہئےکہ ہم نیندیا تفریح کےنام پراپناوقت فضول ضائع نہ کریں۔ دنیا میں کامیاب زندگی گزارنے والےوہی لوگ ہوئے ہیں جواپنےوقت کی قدروقیمت کو سمجھتے ہوئے اسے عمدگی سے استعمال کرتے ہیں۔

(الفضل انٹرنیشنل 26 مارچ 2004)

٭…٭…٭

(عبدالباسط شاہد مربی سلسلہ۔ یو کے)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 اپریل 2021