• 18 مئی, 2024

’’یہ امر جو ہے کہ سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں، جمع کرو عَلیٰ دِیْنٍ وَاحِدٍ۔ یہ ایک خاص قسم کا امر ہے۔‘‘ (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
یہ الہام جو ہے اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’یہ امر جو ہے کہ سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں، جمع کرو عَلیٰ دِیْنٍ وَاحِدٍ۔ یہ ایک خاص قسم کا امر ہے۔ احکام اور امر دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک شرعی رنگ میں ہوتے ہیں جیسے نماز پڑھو، زکوۃ دو، خون نہ کرو وغیرہ۔ اس قسم کے اوامر میں ایک پیشگوئی بھی ہوتی ہے کہ گویا بعض ایسے بھی ہوں گے جو اس کی خلاف ورزی کریں گے‘‘۔ یہ حکم جو ہیں یہ حکم تو ہیں لیکن یہ ایسے حکم ہیں جن میں چھپی ہوئی یہ پیشگوئی بھی ہوتی ہے کہ ایسے لوگ ہوں گے جو یہ نہیں کریں گے اس لئے حکم دیا کہ کرو۔ خاص توجہ دلائی گئی ہے۔ فرمایا کہ ’’جیسے یہود کو کہا گیا کہ توریت کو محرف مبدل نہ کرنا۔ یہ بتاتا تھا کہ بعض اُن میں سے کریں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ غرض یہ امر شرعی ہے اور یہ اصطلاحِ شریعت ہے‘‘۔ فرمایا ’’دوسرا امر کَونی ہوتا ہے اور یہ احکام اور امر قضا و قدر کے رنگ میں ہوتے ہیں، جیسے قُلْنَا یٰنَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلٰمًا عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ (الانبیاء: 70)۔ (کہ ہم نے کہا اے آگ! تو ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی بن جا ابراہیم علیہ السلام پر)۔ اور وہ پورے طور پر وقوع میں آ گیا‘‘۔ (اسی طرح ہو گیا)۔ ’’اور یہ امر جو میرے اس الہام میں ہے یہ بھی اس قسم کا ہی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ مسلمانانِ روئے زمین عَلیٰ دِیْنٍِ وَاحِدٍ جمع ہوں اور وہ ہو کر رہیں گے۔ ہاں اس سے یہ مرادنہیں ہے کہ اِن میں کوئی قسم کا بھی اختلاف نہ رہے۔ اختلاف بھی رہے گا مگر وہ ایسا ہو گا جو قابلِ ذکر اور قابلِ لحاظ نہیں‘‘۔

(ملفوظات جلدنمبر4 صفحہ569,570)

پس اس الہام کی جو وضاحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی ہے یہ ہمیں خوشخبری دیتی ہے کہ یہ امر اللہ تعالیٰ کے کَونی امر میں سے ہے۔ یعنی جس کے بارے میں خدا تعالیٰ جب کُنْ کہتا ہے (جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب مَیں کُنْ کہوں تو وہ ہو جاتا ہے) تو وہ ہو جاتی ہے۔ تو یہ وہ امر ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے کُنْ کہہ دیا۔ کُنْ کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کُنْ کہا اور فوری ہو جائے گا، جب اعلان ہوا تو ساتھ شروع ہو گیا۔ بلکہ قانونِ قدرت کے تحت جو عرصہ درکار ہے وہ لگتا ہے یا اللہ تعالیٰ کی حکمت کے تحت جتنا عرصہ لگنا ہے وہ لگتا ہے۔ لیکن نتیجہ ضرور اس کے حق میں ظاہر ہوتا ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کے کُنْ کہنے سے جب بچے کی پیدائش کی بنیاد پڑتی ہے تو ہر جانور یا انسان کو جتنا عرصہ اُس بچے کی پیدائش میں قانونِ قدرت کے مطابق لگنا ہے وہ لگتا ہے۔ یہ نہیں ہو جاتا کہ کُنْ ہوا اور ایک دو دن میں یا دو منٹ میں بچہ پیدا ہو جائے۔ جتنا عرصہ لگنا ہے وہ لگتا ہے اور یہ سب کچھ پراسس (Process) جو ہوتا ہے وہ اللہ کے کُنْ سے ہی ہوتا ہے۔ پس یہاں بھی کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے یہ لکھ چھوڑا ہے کہ مسلمان دینِ واحد پر جمع ہوں گے، اور وہ پراسس (Process) شروع ہو چکا ہے۔ اور آہستہ آہستہ مسلمانوں میں سے بھی اور مسلمانوں کے ہر فرقے میں سے لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہو رہے ہیں۔ اس لئے اس پریشانی کی ضرورت نہیں کہ مسلمان ملکوں میں سے بعض ملکوں میں تو ہم احمدیوں سے تیسرے درجہ کے شہریوں کا سلوک کیا جاتا ہے تو اُن میں سے مسلمان ہمارے اندرکس طرح شامل ہوں گے؟ یا اِن ملکوں کے مسلمان کس طرح ہم میں شامل ہوں گے؟ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ تقدیر ہے، اس طرح ہو گا اور ان شاء اللہ ضرور ہو گا۔ ہمیں بیشک آج تکلیفیں پہنچائی جا رہی ہیں، مسلمانوں کی طرف سے ہی تکلیفیں پہنچائی جا رہی ہیں لیکن ان شاء اللہ تعالیٰ انہی میں سے قطراتِ محبت بھی ٹپکیں گے اور ان شاء اللہ ہم دیکھیں گے۔ پس جو کمزور طبع لوگ ہیں وہ بھی اس یقین پر اور اس ایمان پر قائم رہیں اور جن میں دنیا داری ہے یا اُن کو دنیا داری نے کچھ حد تک گھیر رکھا ہے وہ بھی اس بات کو یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے غالب آنا ہے۔ اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ ہم کہیں بھی، کسی بھی جگہ مداہنت دکھائیں، کمزوری دکھائیں یا شرمائیں یا مخالفین کی مخالفتوں سے پریشان ہوں کہ پتہ نہیں اگر ہم نے اپنے ایمان کا اظہار کر دیا تو ہمارے ساتھ کیا سلوک ہو گا؟ یہ تکلیفیں تو ہوتی ہیں اور ایک مومن تو ایسی تکلیفوں کو سُوئی کی چبھن سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ ان سُوئیاں چبھونے والوں سے خوفزدہ ہو کر ہم اپنے کام بندنہیں کر سکتے، ہم اپنے ایمان کو چھپا نہیں سکتے۔ پاکستان کے احمدیوں کی اکثریت بلکہ ننانوے اعشاریہ نو نو (99.99) فیصد تو مخالفتوں کی شدید آندھیوں کے باوجود ان کا بڑی جوانمردی سے مقابلہ کر رہے ہیں اور پاکستان کے احمدیوں اور انڈونیشیا کے احمدیوں اور جہاں بھی جماعت کے خلاف مخالفتوں کے طوفان کھڑے کئے جاتے ہیں وہاں کے احمدیوں کی قربانیاں ہی ہیں جو دنیا میں نئے نئے تبلیغی راستے بھی کھول رہی ہیں اور ان شاء اللہ تعالیٰ ایک دن مسلم دنیا بھی اور غیر مسلم دنیا بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ تعلق جوڑ کر ہی امتِ واحدہ کا نظارہ پیش کرے گی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا۔ اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنے سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے‘‘۔

(تجلیات الہٰیہ روحانی خزائن جلدنمبر20 صفحہ409)

پس یہ زبر دست بشارت ہے جو اصل میں اسلام کے دنیا پر غالب آنے سے تعلق رکھتی ہے۔ پس ہمارا کام یہ ہے کہ اپنے ایمانوں میں مزید پختگی پیدا کرتے چلے جائیں۔ اپنی عبادتوں کو سنوارتے چلے جائیں۔ اپنے تعلق باللہ کو بڑھاتے چلے جائیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے جو اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا کام ہونا ہے اور ہو رہا ہے اُس میں آپؑ کے ممد و معاون بنتے چلے جائیں تا کہ ہم اور ہماری نسلیں ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والی بنتی رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

(خطبہ جمعہ 13؍ مئی 2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 مئی 2021