• 27 اپریل, 2024

محترم میاں عبدالرحیم صاحب دیانت درویش قادیان

بزرگان سلسلہ کی انمول یادیں
محترم میاں عبدالرحیم صاحب دیانت درویش قادیان ولد حضرت میاں فضل محمد صاحب ؓ (ہرسیاں والے)

مبارک ہو تمہیں اس منزل محبوب میں رہنا
وہی ہے تخت گاہ احمدؐ مرسل جہاں تم ہو
تمہاری شانِ درویشی پہ قرباں تاج داری ہے
کہ محبوب خدا کے آستاں کے پاسباں تم ہو

’’کہاں (قادیان) کا رہنا تو ایک قسم کا آستانۂ ایزدی پر رہنا ہے اس حوضِ کوثر سے وہ آبِ حیات ملتا ہے کہ جس کے پینے سے حیات ِ جاودانی نصیب ہوتی ہے جس پر ابد الآباد تک موت ہر گز نہیں آ سکتی‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ463)

تیرہ چودہ سال کی عمر میں اپنے والدین کے ساتھ قادیان ہجرت کرنے والے مکرم میاں عبدالرحیم صاحب کو خدا تعالیٰ نے اپنے فضل واحسان سے نہ صرف زندگی بھر اس دارالامان سے وابستہ رکھا بلکہ وہیں آسودہ خاک ہونے کی لا زوال نعمت بھی عطا فرمائی۔ خوش نصیبی کے دروازے تو پیدائش کے ساتھ ہی کھل گئے تھے آپ کے والد حضرت میاں فضل محمد صاحب ؓ(ہرسیاں والے) اور والدہ حضرت برکت بی بی صاحبہ ؓ دونوں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اصحاب میں شامل تھے۔ دیارِ مسیح کی طرف ہجرت کا ثواب بھی والدین کی قسمت میں تھاجس سے قادیان کی روح پرور فضائیں آپ کو میسر آئیں۔ اور درد و سوز میں ڈوبی دعاؤں میں پرورش پائی یہ سب رب رحمان ورحیم کی عنایات تھیں۔قادیان میں رہائش کی شروعات اس طرح ہوئیں کہ 1917ء میں آپ کے والد ماجدصاحب نے محلہ دارالفضل میں مکان اور دکان تعمیر کرائی۔اسی مکان میں بڑے بیٹوں کی شادیوں کے ساتھ ایک ایک کمرے کا اضافہ ہوتا گیا۔ عبدالرحیم صاحب کے لئے بھی پلاٹ کے جنوب مشرقی کونے میں ایک پختہ کمرہ بنا۔ شادی ہوئی اسی گھر میں پانچ بچے ہوئے پھر دارالفتوح میں اپنا گھر بنا لیا دو بچے وہاں ہوئے اور ایک بیٹا تقسیم برصغیر کے بعد لاہور میں پیدا ہوا۔ تقسیم برصغیر کے وقت قادیان میں رہنا پسند کیا اور حقیقی معنوں میں آویزندۂ درہو گئے اور قادیان سے چمٹ کر بیٹھ گئے۔ عہد درویشی کا سارا عرصہ مسجد مبارک کے سائے میں ایک چھوٹے سے کمرے میں گزاردیا۔ اس کمرے کے درودیوار بول سکتے تو بڑی ایمان افروز اور دل گداز کہانی کہتے وہ تو خاموش ہیں لیکن اُس حجرے کی تنہائیوں میں آپ نے اپنے بچوں کو جو خطوط لکھے اور کچھ اپنی یادداشتیں قلم بند کیں وہ آپ کی خود نوشت آپ بیتی کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے۔ خاکسار نے اسے ذیلی عناوین کے تحت مرتب کیا ہے۔ اس آپ بیتی کی انوکھی بات یہ ہے کہ باپ نے لکھی اور بیٹی نے مرتب کی۔ اورایک خاص بات یہ ہے کہ لکھی بھی خاکسار کی درخواست پر جس کا اظہار آپ نے اپنے ایک مکتوب میں کیا۔

’’اللہ تعالیٰ آپ سب کو اپنی حفظ وامان میں رکھے میں نے باری باری اور خاص کر باری کا نام لے کر دعا کر دی میری بچی باری کا تقاضا کافی اثر پذیر رہا میں نے اس تحریک کو غیبی محرک خیال کر کے اپنے کچھ حالات تحریر کرنے شروع کر دیئے ہیں ایک صد صفحے ہو چکے ہیں دیکھیں آپ تک کیسے پہنچیں گے۔ خیر لکھا ہوگا تو کسی وقت کا م آ جاے گا۔‘‘

(1971-8-8)

ابا جان کا خیال درست نکلا لکھا ہوا بہت کام آیا کیونکہ باپ بیٹی تمام عمر فاصلوں پر ہی رہے ساتھ ساتھ رہنے کا عرصہ بہت ہی کم ہے۔ انہیں تحریروں سے آپ کو جان پہچان سکی۔ آپ نے کئی جگہ لکھا ہے۔ اختصار سے کام لیا ہے صاحب دل ان سے مضامین بلکہ کتابیں بنا سکتے ہیں، میں نے یہ صاحبانِ دل پر ہی چھوڑ دیا ہے اگر اپنے احساسات شامل کرنے لگتی تو سمیٹے نہ جا سکتے تھے۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ درویشان کرام کے حق میں بزرگوں کی دعائیں قبول فرمائے اور اُنہیں اپنے قربِ خاص میں جگہ عطا فرمائے اور یہ دعائیں نسلاً بعد نسلٍ ہمارے حق میں بھی قبول ہوں۔ آمین

زمانۂ درویشی کے پہلے جلسہ کے موقع پر حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓنے فرمایا تھا۔
’’تم لوگ جن کو اس موقع پر قادیان میں رہنے کا موقع ملا ہے اگر نیکی اور تقوٰی اختیار کرو گے تو تاریخ احمدیت میں عزت کے ساتھ یاد کئے جاؤ گے اور آنے والی نسلیں تمہارا نام ادب واحترام سے لیں گی اور تمہارے لئے دعائیں کریں گی اور تم وہ کچھ پاؤ گے جو دوسروں نے نہیں پایا۔ اپنی آنکھیں نیچی رکھو لیکن اپنی نگاہ آسمان کی طرف بلند کرو

فَلَنُوَ لِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضٰھا،

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے امیر جماعت احمدیہ قادیان مولوی عبدالرحمٰن جٹ صاحب کے نام ایک مکتوب میں تحریر فرمایا۔
’’آپ جیسے جان نثار درویشوں کا وجوداُس شمع کا حکم رکھتا ہے جو ایک وسیع اور تاریک میدان میں اکیلی اور تن تنہا روشن ہو کر دیکھنے والوں کے لئے نور ہدایت کا کام دیتی ہے آپ خلوص ِ نیت اور سچی محبت اور ایک جذبۂ خدمت کے ساتھ قادیان میں ٹھہرے رہیں گے اور اپنے آپ کو احمدیت کا اعلیٰ نمونہ بنائیں گے تو نہ صرف خدا کے حضور میں یہ آپ کی خدمت خاص قدر کی نگاہ سے دیکھی جائے گی بلکہ آنے والی نسلیں بھی آپ کے نمونہ کو فخر کی نظر سے دیکھیں گی‘‘۔

یہ محض اللہ تعالیٰ کافضل و احسان ہے کہ یہ سعادت ہمارے خاندان میں آئی۔ اس رحمانی عطیے کا جس قدر بھی شکر کریں کم ہے۔درویش کی کہانی کو زندہ کرنا بھی ایک طرح اظہار تشکر ہے۔

بزرگان سلسلہ کی انمول یادیں

تحریر: مکرم میاں عبد الرحیم صاحب دیانت درویش

میرا نام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رکھا

اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کی بارش میری پیدائش سے پہلے شروع ہو چکی تھی۔ میرا نام حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے رکھا۔ میں یکم رمضان 1320ھ بروز یکشنبہ 21؍نومبر 1903ء بوقت دس گیارہ بجے رات پیدا ہوا۔ میرے والد حضرت میاں فضل محمد صاحب (ہرسیاں والے) مجھے حضرت اقدس کی خدمت میں لے گئے آپ گورداسپور میں کچہری میں ایک شیشم کے درخت کے نیچے تشریف فرما تھے۔ میرے بڑے بھائی کا نام دریافت فرمایا۔ ابا جان نے عرض کیا عبدالغفور۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے میرا نام عبدالرحیم تجویز فرمایا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کی دو صفات غفور، رحیم کو دو بھائیوں کے ناموں میں یکجا کر دیا۔

میرے دادا جان کی نمازِ جنازہ
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پڑھائی

میرے والد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر کے قادیان سے واپس ہرسیاں آئے تو اپنے والد صاحب کو بیعت کی خبر دینے میں جھجک محسوس ہوئی۔ میرے دادا جان کا نام سندھی خان تھا۔ ایک دن ڈرتے ڈرتے بات کی تمہید کے طور پر کہا۔ سنا ہے قادیان میں کسی نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ دادا جان نے فوراً جواب دیا:
’’اگر ایسا ہوا ہے تو بالکل صحیح ہے دنیا کی ہوا کہہ رہی ہے کہ مہدی کا آنا ضروری ہے۔‘‘ ابا جان نے پوچھا کہ آپ کو کیسے اندازہ ہوا؟ جواب دیا ’’چیونٹیوں کو بارش کا اندازہ ہوا سے ہو جاتا ہے اور وہ اپنے انڈے سنبھالنے لگتی ہیں۔ پورب کی ہوا چلتی ہے تو میں اپنا سامان سمیٹنے لگتا ہوں۔ مجھے موسم کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ کہ اب بارش ہو گی۔ تو کیا میں اتنا نہیں سمجھ سکتا کہ زمانے کی ہوا گندی ہو گئی ہے مسلمان صرف نام کے رہ گئے ہیں نماز تک کی ہوش نہیں۔ مجھے نماز پڑھنے کے لئے گاؤں سے نصف میل دور ایک جوہڑ کے کنارے اینٹوں کی چھوٹی سی مسجد میں جانا پڑتا ہے۔ جو خود میں نے بنائی ہے۔ اُس میں اکیلا ہی نماز پڑھتا ہوں۔ اس حالت کو دیکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ یہی وقت مہدی کی آمد کا ہے۔‘‘

میں دل میں خوش ہوا کہ اب مناسب موقع پر بتا دوں گا مگر اس بات کے جلدی بعد میرے داداجان کا انتقال ہو گیا۔ حضرت ابا جان نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کو اپنے والد صاحب کے انتقال کی خبر دی۔ حضرت اقدس ؑنے دریافت فرمایا کہ
میاں فضل محمد کیا انہوں نے ہمارا پیغام سنا تھا؟ ایمان لائے تھے؟ ابا جان نے ساری تفصیل بتا دی۔ حضرت اقدس ؑنے فرمایا۔
’’وہ احمدی تھے انہوں نے ہمیں مانا تھا آؤہم اُن کی نماز جنازہ پڑھیں۔‘‘

حضرت اقدس ؑکی امامت میں اُس وقت موجود اصحاب کرام ؓ نے میرے دادا کی نماز جنازہ پڑھی۔ بغیر بیعت کے ایمان لانے والوں میں شمار ہونے کی تصدیق خود حضرت مسیح موعود نے فرمائی۔ فالحمدللہ علی ذالک

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے انتقال کے بعد آپ کا چہرہ دیکھنا یاد ہے:
لگتا تھا بہت بڑا واقعہ ہوا ہے۔ بہت لوگ جمع تھے قطا ردر قطار لوگ کھڑے تھے۔ میر ے والد صاحب نے مجھے گود میں لے کر سر سے اونچا کر کے فرمایا تھا کہ یہ مقدس چہرہ دیکھ لو مجھے یاد ہے کہ میں نے آپ ؑ کو دیکھا تھا۔

کام کا آغاز اور حضرت مصلح موعود ؓ
کی دعا سے برکت

1917ء یا 1918ء میں محلہ دارالفضل میں دکان کھولی مگر زیادہ کامیابی کی اُمید نہ تھی اس لئے پھر قادیان کے عین مرکز میں حضرت ڈاکٹر غلام غوث صاحب ؓکے مکان میں، احمدیہ چوک کے جنوبی طرف بازار میں، سامنے والی دکان کرایہ پر لے کر کام شروع کیا۔ ہر کام سیکھنے اور آگے بڑھنے کا بہت شوق تھا۔ مٹھائی بنانے کا کام سیکھا۔ گرمیوں میں سوڈا واٹر اور سردیوں میں مٹھائی فروخت کرتا۔ پھر آئس کریم بنانے کا خیال آیا ایک بڑی مشین خرید لی۔

آئس کریم بنانے کا خیال آنے کی وجہ یہ تھی کہ ایک دن نمازِ ظہر کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے فرمایا کہ ہندو ملائی برف بیچنے کے لئے زور زور سے آوازیں لگاتے ہیں جس سے نماز میں خلل ہوتا ہے۔ پھر حضور نے ملائی برف خریدنے سے منع فرمایا تاکہ بیچنے والے اُدھر کا رُخ کرنا چھوڑ دیں میں نے دل میں ارادہ کیا کہ میں یہ کام کروں گا اور نماز کے وقت کا خیال رکھوں گا۔ لاہور سے آئس کریم بنانے والی مشین خرید لایا اور دارالفضل میں تعلیم الاسلام ہائی اسکول اور بیت نور کے سامنے دکان لی۔ دکان کا افتتاح اس طرح کیا کہ حضور کی دعوت کی خوب اچھی لذیذ آئس کریم بنا کر پیش کی حضور نے فرمایا۔
’’پنجاب میں سب سے پہلے اس کام کو کرنے والے احمدی مسلمان آپ ہیں‘‘

کام میں برکت کے لئے دعا بھی کروائی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس قدر برکت ہوئی کہ حدِّ بیان سے باہر ہے۔ جس قدر شکر کروں کم ہے۔

(ڈاکٹر سیّد غلام غوث صاحب کی دکان کرایہ پر لے کر سولہ سال کام کیا پھر اس کے بالکل سامنے مسجد مبارک چوک میں حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کی دکان کرایہ پر لے کر کام کیا۔ تاوفات یہ دکان آپ کے پاس رہی قریباً 46سال۔

حضرت مصلح موعودؓ کا انداز تلطف

۱۔ایک بار کھیل میں حضور کے مدِّمقابل ٹیم میں شامل تھا۔ حضور سے بال چھیننے میں جھجک گیا تو حضور نے فرمایا۔
’’میاں اگر لحاظ کرو گے تو کھیل نہ سکو گے۔‘‘

۲۔ ایک دفعہ گرمیوں میں آپ کا بلاوا ملا میں کام کر رہا تھا۔ اُسی طرح اُٹھا اور چل دیا خیال تھا کہ دروازے پر کوئی ملازم آئے گا حضور کا پیغام دے جائے گا وہاں پہنچا تو حضور خود دروازے پر تشریف لے آئے۔ اپنی حالت کا خیال کر کے گھبرا گیا منہ سے بات نہ نکل رہی تھی حضور نے بھی اندازہ لگا لیا بڑی شفقت سے فرمایا۔

میاں! آپ نے چھ بوتلیں بھیجیں اور میری خوشنودی کی خاطر زیادہ ایسنس ڈال دیا اب چھ کم ایسنس کے ساتھ بنا کر بھیجیں۔

حضور ہمیشہ مجھے میاں یا میاں عبد الرحیم کہہ کر بلاتے تھے۔

۳۔ یہ واقعہ اُن دنوں کا ہے جب مستریوں کا فتنہ شروع ہوا تھا عبدالکریم اور مستری فضل کریم نے سلسلے سے بگاڑ پیدا کر لیا تھا۔ قادیان میں سردار تیندر سنگھ تھانیدار متعین تھا چوکی ہوزری میں ہوتی تھی۔ ہوزری دارالفتوح میں شیخ نور احمد صاحب کے مکان میں ہوا کرتی تھی۔ ایک دن صبح ہی ایک سپاہی مجھے ملا اور کہا کہ
بھائی جی آپ کو سردار صاحب بُلاتے ہیں۔ میں نے پوچھا کیا کام ہے تو اس نے کہا مجھے معلوم نہیں۔ سردار صاحب کے پاس پہنچا تو اُس نے کہا
’’میاں عبدالرحیم آپ مستریوں کا سامان اُٹھا کر لے گئے ہیں‘‘

میں نے جواب دیا ابھی تو میں یہاں آپ کے پاس ہوں۔ آپ میرے گھر چلے جاویں اور تلاشی لے لیں اگر سامان برآمد ہو تو بات کریں۔ وہ سوچ میں پڑ گیا قلم منہ میں ڈال کر بیٹھ گیا پھر کہا اچھا آپ جائیں اگر ضرورت ہوئی تو پھر بُلا لیں گے۔ اس اثناء میں کسی نے حضور کو بتا دیا کہ میاں عبدالرحیم کو تھانیدار نے بلایا ہے۔ آپ نے اُسی وقت اپنے پرائیوٹ سیکریٹری جناب عبدالرحیم صاحب دردؔ کو بھیجا کہ جا کر معلوم کریں کیا بات ہوئی ہے۔ روزانہ نت نئے واقعات ہوا کرتے تھے مگر جماعت کے ایک عاجز فرد کے لئے آپ کا اس طرح فکر کرنا اچھا لگا اور میں نے ایک روحانی سرور کے ساتھ دل سے حضور کو دعائیں دیں۔

۴۔ حضور کی ذرّہ نوازی کا ایک واقعہ ذہن میں آ رہا ہے۔ میری عادت تھی کہ حضور جب کہیں باہر سے قادیان تشریف لاتے ضرور استقبال کے لئے حاضر ہوتا۔ ایک دفعہ میں شدید بیمار تھا حضور دھرم سالہ یا غالباً منالی سے واپس تشریف لا رہے تھے۔ استقبال کے لئے نہ جا سکنے کا ملال مجھے بستر پر کھا رہا تھا۔ میری اس حالت پر خدا تعالیٰ نے رحم کھایا اور شفا دی مگر بے حد نقاہت تھی خان صاحب کی کوٹھی تک پہنچا جماعت کے کافی احباب وہاں جمع تھے امیر مقامی حضرت مولوی شیر علی صاحب بھی وہاں کھڑے تھے میرے پاس سائیکل تھا۔ (اس وقت قادیان میں مَیں تیسرا تھا جس کے پاس سائیکل تھا غربت اور سادگی کے اُس زمانے میں سائیکل بھی قابل ذکر نمایاں چیز تھی۔) امیر صاحب نے فرمایا میاں دیر ہو رہی ہے جا کر پتہ کرو حضور کب تک تشریف لائیں گے۔

امیر صاحب کو میری بیماری کا غالباً علم نہیں تھا۔ مگراُن کے اس طرح فرمانے سے جسم میں توانائی محسوس ہوئی۔ سائیکل پر بیٹھا نہر سے آگے سٹھیالی کے پل سے کوئی دو میل دور تھا کہ کار نظر آ گئی۔ حضور کے ڈرائیور مکرم قریشی نذیر احمد صاحب پسر مکرم قریشی محمد عامل صاحب کی رومی ٹوپی سے پہچان لیا۔ کہ کار حضور کی ہی ہے۔ اطلاع دینے کی خاطر سائیکل موڑا اور تیزی سے چلانے لگا۔ مگر کار کی رفتار کا مقابلہ کرنا مشکل تھا۔ نذیر احمد صاحب نے بتایا کہ حضور نے اس طرح سائیکل موڑ کر تیز چلانے والے کے متعلق پوچھا کہ یہ کون ہے۔

قریشی صاحب ہمارے پڑوس میں رہتے تھے اچھی طرح پہچانتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ عبدالرحیم ہے۔ حضور نے فرمایا۔ کار کی رفتار کم کر لیں۔

قریشی صاحب نے بتایا کہ مجھ پر اس ذرہ نوازی کا بہت اثر ہوا۔ ایک چھوٹا سا لطیفہ بھی ہو گیا۔ جب میں واپس آیا تو امیر صاحب نے پوچھا کیا خبر ہے؟ تو جلدی سے میرے منہ سے نکلا۔

حضور ٹھیکری والے کی جماعت سے مباحثہ کر رہے ہیں۔

دراصل مجھے مصافحہ کہنا تھا۔ میری بدحواسی پر سب ہنس دئیے۔

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی شفقتیں

1۔ میرا طریق تھا کہ جب دکان پر کوئی مشہور خاص چیز تیار ہوتی تو گاہکوں کی آگاہی کے لئے بورڈ پر چاک سے اشتہار لکھ دیتا۔ اشتہار کے لئے اللہ تعالیٰ مجھے دلچسپ اچھوتے جملے سمجھاتا۔ اس طرح نہ صرف میری تیار کی ہوئی چیزیں مشہور ہوئیں۔ میرے بورڈ پر اشتہار بھی گاہکوں کو روک لیتے، کئی یادگار واقعات ہوئے۔

ایک دن دکان کے بورڈ پر میں نے چاک سے لکھا ’’ہمارا دعویٰ ہے کہ فالودہ ہم سے بہتر کوئی نہیں بنا سکتا‘‘ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدصاحبؓ وہاں سے گزرے حسبِ معمول میرے بورڈ کو پڑھا اور اپنے دفتر چلے گئے۔ پھر مجھے دفتر میں بلایا۔ اپنے پاس بٹھایا اور فرمایا:
’’میاں! بعض الفاظ مخصوص ہوتے ہیں۔‘‘

میں سمجھ گیا کیونکہ میرے دل میں بھی کھٹک ہوئی تھی واپس آ کر اوپر کے الفاظ ’’ہمارا دعویٰ ہے‘‘ مٹا دئیے۔ سبحان اللہ ادب اور احترام سکھانے کا کیسا پُرحکمت طریقہ تھا۔

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ قمر الانبیاء میری نوجوانی کی عمر سے اچھی طرح جانتے اور بہت شفقت فرماتے۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ بلا کر فرمایا: ’’میاں آپ صاحب اولاد ہیں جائیداد بنانے کی طرف توجہ دیں‘‘ چنانچہ میں نے آپ کے فرمان سے پس انداز کرنا شروع کیا اور کافی جائیداد بنالی۔

2۔میں جس دکان میں کام کرتا تھا وہ حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کی ملکیت تھی۔ مختار حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ مرحوم مغفور تھے۔ ایک دفعہ دُکان کے کرایہ پر بات ہو رہی تھی جو مجھے زیادہ لگ رہا تھا، پہلے کم تھا پھر چھ روپے ہو گیا تھا۔ آپ نے مجھے سمجھایا کہ کرایہ مناسب ہے۔ آپ کے سمجھانے کا انداز بہت اچھا تھا۔ فرمایا اگر آپ کو کرایہ زیادہ لگ رہا ہے تو نیلام کر دیتے ہیں جو زیادہ کرایہ دے اُس کو دے دیں گے، اب اڈّا بن جانے کی وجہ سے بہت زیادہ کرایہ مل سکتا ہے اور میاں میں جانتا ہوں آپ کو خدا نے ایسا دماغ عطا کیا ہے کہ اگر ایک بورڈ تحریر کریں (بطور اشتہار) تو شہر کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک آپ کے پُرلطف و جذب بورڈ پڑھنے لوگ آ جاتے ہیں جس سے بِکری میں ماشااللہ اضافہ ہوتا ہے۔ اس طرح مجھے بورڈ لکھنے پر داد بھی مل گئی۔

3۔میری اہلیہ صاحبہ نے بیان کیا کہ ربوہ کے ابتدائی زمانے کی بات ہے ایک رات دس بجے کے قریب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایک خادم کے ہمراہ ہمارے گھر تشریف لائے اور ایک لحاف دے کر فرمایا کہ مجھے فرصت نہیں ملی اب خیال آیا کہ بچے سردی میں نہ سوئے ہوں۔ سبحان اللہ کس قدر اپنی ذمہ داری کا احساس تھا کہ ایک غریب آدمی کی ذمہ داری خدا نے مجھ پر ڈالی ہے کوتاہی نہ ہو۔ اس چھوٹے سے واقعہ کے کئی پہلو ہیں۔ ابھی ربوہ پوری طرح آباد نہ ہوا تھا۔ راستے خراب تھے، اندھیرا تھا۔ ہاتھ میں لیمپ لے کر مخلوق خدا کی عملی ہمدردی کے لئے نکلے۔ میرے بیوی بچوں کا اس قدر خیال رکھنے پر دل سے دُعا نکلتی ہے۔ بچوں کی شادیوں میں آپ سے مشورہ کیا جاتا۔ آپ دلچسپی لیتے۔ شادیوں کے انتظامات کی نگرانی فرماتے اور سب سے بڑی بات بنفس نفیس شریک ہو کر دُعائوں سے باپ کی طرح رُخصت فرماتے۔

جس قدر ہم نے آپ کے طفیل آرام پایا اللہ تعالیٰ وہاں اُن کو کئی گنا بڑھ کر آرام پہنچائے اور ہمیں بھی ان مبارک ہستیوں کے طفیل اپنی ذرہ نوازی سے معاف فرما کر ستّاری کی چادر میں چھپا لے اور مقامِ قرب عطا فرمائے، آمین۔

4۔ میں اپنے خطوط آپ ہی کی معرفت بھیجا کرتا تھا۔ میرے بیوی بچے بھی مجھے بھیجنے کے لئے خط آپ کو دیتے تھے۔ ایک دفعہ آپ نے میری اہلیہ سے فرمایا:-
’’میں تو آپ کا ڈاکیہ ہوں‘‘۔

ہمارے خاندان کے پاس آپ کے متعدد خطوط کے قیمتی خزانے ہیں۔ ان میں اپنائیت کی جو خوشبو ہے اس کی ایک جھلک دیکھئے:

مکرم میاں عبدالرحیم صاحب درویش سوڈا واٹر فیکٹری

’’کل اچانک آپ کا خط موصول ہوا جس میں عزیز میاں ناصر احمد کے بچہ کی پیدائش پر مبارکباد لکھی تھی۔ جزاکم اللہ خیراً۔ میں نے عزیز میاں ناصر احمد والا خط اُنہیں بھجوا دیا ہے اور حضرت اماں جان والا اُن کی خدمت میں بھجوا دیا ہے۔

عجیب اتفاق ہے کہ جس دن آپ کا یہ خط آیا اسی دن میں یہ خیال کر رہا تھا کہ ایک عرصہ سے آپ کا خط نہیں آیا۔‘‘

(1950۔3۔23)

’’لاہور میں الحمدللہ خیریت ہے آپ کے بچے کبھی کبھی ملتے رہتے ہیں اور خیریت سے ہیں۔ رمضان میں جو تعلیم القرآن کلاس لجنہ کی زیرنگرانی جاری ہوئی تھی۔ اس میں آپ کی دونوں لڑکیاں شامل ہوئی تھیں۔ اور خدا کے فضل سے دونوں پاس ہو گئی ہیں۔

آپ کے والد صاحب اب کافی ضعیف ہو چکے ہیں اور قادیان کے کانوائے کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ میں خیال کرتا ہوں کہ اُن کے لئے یہی بابرکت ہے کہ اپنے بقیہ ایام زندگی قادیان میں گزاریں اور دعاؤں اور نوافل کے پروگرام میں حصہ لیں۔

میری طرف سے سب دوستوں کو سلام پہنچا دیں۔‘‘

مرزا بشیر احمد

5۔ ابتدائی درویشی کے زمانے میں مکرم جناب حفیظ خان صاحب ویرووال والے قادیان تشریف لائے تو میں نے اُن کے ہاتھ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ؓکے لئے لنگرخانہ کی روٹیاں اور دارالحمید کی لوکاٹ تحفۃً بھجوائی۔ ساتھ رقعہ لکھا کہ تبرک قبول فرما کر دُعائوں سے نوازیں اور کچھ میرے گھر میں اپنے ہاتھ سے بھجوا دیں۔اُن کے لئے دُہرا تبرک ہو گا۔ حضرت میاں صاحب کا بہت اچھا جواب ملا۔ آپ نے لکھا: ’’چند روٹیاں اور تھوڑی لوکاٹ آپ کے گھر بھجوا دی ہیں، کچھ لوکاٹ راستہ میں خراب ہوئیں کچھ بارڈر والوں نے تبرک سمجھ کر رکھ لی۔ جو کچھ حصے میں آیا بھجوا دیا۔ تبرک میں مقدار کا سوال نہیں ہوتا‘‘۔

سبحان اللہ کیا علم و معرفت کا نکتہ ہے۔ آپ نے میرے اہلِ خانہ کو تبرک بھجواتے وقت جو مکتوب تحریر فرمایا وہ بھی ہمارے پاس محفوظ ہے۔

عزیزہ مکرمہ امۃاللطیف صاحبہ

امید ہے آپ کی والدہ صاحبہ خیریت کے ساتھ ربوہ واپس پہنچ چکی ہوں گی۔ کل شام کو عبدالحفیظ خاں صاحب جو دو دن کے پرمٹ پر قادیان گئے تھے، واپس پہنچے ہیں۔ ان کے ہاتھ آپ کے والد صاحب نے تین روٹیاں لنگرخانہ کی اور کچھ لوکاٹ اور ایک دیگچی اور کچھ کپڑے بھجوائے ہیں۔ روٹیاں میں نے احتیاطاً خشک کرالی ہیں تاکہ بُس نہ جائیں اور زیادہ دیر تک رہ سکیں۔ میں حامل ہٰذا کے ہاتھ آپ کو لوکاٹ اور روٹیاں بھجوا رہا ہوں۔ باقی چیزیں عبدالحفیظ صاحب چند دن تک خود اپنے ساتھ لائیں گے۔ شاید ایک دو کپڑے غلام قادر صاحب و عطاء اللہ صاحب ولدسراج الدین صاحب مؤذن کے بھی ہیں۔ بہرحال یہ سب چیزیں عبدالحفیظ خاں صاحب کے پاس ہی ہیں وہی آپ کو پہنچائیں گے۔ میں صرف تین عدد روٹیاں اور کچھ لوکاٹ بھجوا رہا ہوں۔ لوکاٹ کچھ زیادہ تھے۔ مگر بارڈر پر اکثر روک لیا گیا۔ تفصیل غالباً آپ کے والد صاحب نے بھی آپ کو لکھ دی ہو گی۔

والسلام
مرزا بشیر احمد
1950۔5۔3

6۔ 1951ء میں مَیں نے ایک خواب دیکھا کہ ہم سب درویش ہرسیاں اور دیال گڑھ کے درمیان ایک مستطیل کمرے کے اردگرد خالی میدان میں جمع ہیں۔ وہاں شور ہو رہا ہے۔ اچانک لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ آ رہے ہیں اور بڑے ذوق و شوق سے استقبال کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ میں کمرہ کے مشرق کی طرف یعنی ہرسیاں کی طرف کھڑا ہوں۔ اتنے میں کمرہ کے جنوبی حصہ سے (جو کمرہ کی پشت ہے) مشرقی دیوارکے ساتھ جو بالکل میرے سامنے ہے مہاراجہ رنجیت سنگھ آگئے۔ زرق برق شاہانہ لباس پر ہیرے جواہر لگے ہوئے۔ سلمہ ستارہ سے اَٹا ہوا لباس پہنے ہوئے میرے سامنے آ گئے۔ میں کہتا ہوں کہ حضرت میاں صاحب ہم تودرویش ہیں میرے ایک ہاتھ میں مٹی کا پیالہ ہے جس میں لنگر کی دال ہے اور دوسرے میں لنگر کی روٹی تب میں نے دیکھا کہ وہ شاہانہ لباس میں ملبوس حضرت مرزا ناصر احمد صاحب ہیں اور میرے ساتھ لنگر خانے کا کھانا کھانے کو بیٹھ گئے ہیں۔میں نے یہ خواب اپنے محسن حضرت میاں بشیر احمد صاحبؓ کو تحریر کیا اور آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے حضور پیش کر دی۔ حضورؓ نے اپنے دستِ بارک سے اُس پر نوٹ تحریرفرمایا:
’’رنجیت کے معنیٰ فاتح کے ہوتے ہیں۔‘‘

حضرت قمرالانبیاءؓ نے اپنے دستِ مبارک سے مجھے یہ سب نقل کر کے بھیج دیا جو اب تک میرے پاس محفوظ ہے اور میری ساری جائیداد سے قیمتی ہے۔

مکرم میاں عبدالرحیم صاحب درویش

آپ کا پوسٹ کارڈ … جس میں آپ نے اپنی ایک خواب لکھی تھی سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں بغرض ملاحظہ بھجوایا گیا۔ اس پر حضور ایدہ اللہ نے مندرجہ ذیل ارشاد نوٹ کر کے ارسال فرمایا ہے کہ :
’’رنجیت سنگھ کے معنیٰ فاتح کے ہیں‘‘

اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور حافظ و ناصر ہو۔

والسلام
مرزا بشیر احمد
1951۔2۔11

7۔ حضرت صاحبزادہ صاحب کی غریب پروری اور شفقت کا ایک عجیب واقعہ لکھ رہا ہوں۔ قادیان میں شیرا پونچھی بیمار ہوا۔ یہ ایک درویش تھا۔ بغرض علاج لاہور بھجوا دیا گیا مگر وہ جانبر نہ ہو سکا۔ مکرم حافظ محمد اعظم صاحب کی معرفت لاہور کی جماعت نے تجہیز و تکفین کے لئے ربوہ بھیجا۔ اُن دنوں مَیں ربوہ میں تھا۔آپ نے مجھے گلے لگا کر اتنی اپنائیت سے افسوس کیا کہ الفاظ سے بیان نہیں ہو سکتا۔ آپ نے اس سے پہلے علاج اور خبر گیری پر اس طرح توجہ مرکوز رکھی تھی جیسے آپ کو اور کوئی کام ہی نہیں ہے۔ پھر جنازہ آیا تو آپ نے کندھا دیا اور ہم سے اس طرح سلوک کیا جیسے اُس کے عزیز رشتہ دار ہوں۔ اللہ تعالیٰ حضرت میاں صاحب کو جزائےخیر عطا فرمائے۔ اعلیٰ علیین میں جگہ دے۔ شیرا پونچھی بڑا خوش نصیب نکلا۔ حضرت قمرالانبیاءؓ کے کندھوں پر سفر آخرت کیا۔ مولا کریم مغفرت کا سلوک فرمائے۔ آمین۔

ایک دفعہ میں ربوہ گیا۔ حضرت صاحبزادہ صاحب سے ملنے کے لئے گیا۔ آپ خدمتِ درویشاں کے ناظر تھے مگر باپ سے بڑھ کر شفیق حقیقی محبت کرنے والے تھے۔ مجھے پاس بٹھا کر درویشوں کے حالات پوچھے۔ پھر پوچھا کہ آج کل کس قدر درویش ربوہ آئے ہوئے ہیں۔ میں نے نام بہ نام بتایا۔آپ نے فرمایا:
’’میں نے کوشش کی تھی کہ درویش اپنے رشتہ داروں سے مل لیا کریں مگر اُن کو تو بھڑکی ہی لگ گئی ہے، کثرت سے یہاں رہنے لگ گئے ہیں۔‘‘

8۔ میں ایک دفعہ لدھیانہ گیا۔ لدھیانہ میں ایک لائبریری تھی جس میں میونسپل کمشنر پادری ویری کی کتب تھیں۔ وہ دینِ حق اور احمدیت کا شدید دشمن تھا۔ ہندوئوں نے کتب کو تلف کرنے کے لئے فروخت کر دیا جو سینکڑوں من وزنی تھیں۔ میں نے قریباً دو بوری کتابیں چھانٹ لیں۔ ان میں دوکتب کا ذکر کرتا ہوں۔ ایک تو انجیل تھی جو 1826ء کی شائع شدہ تھی۔ ایک اہل حدیث کا وہ پرچہ تھا اصل والا جو علماء اکثر ہمارے خلاف پیش کیا کرتے ہیں۔ میں نے قادیان آ کر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے نام تحریر کیا کہ جماعت کے کام آنے والا لٹریچر لدھیانہ میں فروخت ہو رہا ہے۔ مثال کے طور پر اسی انجیل کا حوالہ دیا۔ آپ کا جواب آیا کہ اگر اتنی پرانی انجیل ہے تو میرے لئے بھی خرید لیں۔ میں نے اس خط کو نعمت غیر مترقبہ خیال کیا اور بذریعہ رجسٹرڈ پارسل کتاب بھجوا دی۔ آپ کا دعاؤں اور شکریہ کا خط ملا جس پر اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر کیا۔

9۔ 1962ء میں نادانستگی کی ایک غلطی کے خمیازے میں شدیدپریشانی اٹھانی پڑی۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے خط لکھ کر سارے حالات دریافت فرمائے۔ مگر کسی وجہ سے دفتر سے جواب دینے میں تاخیر ہو گئی۔ میری اہلیہ کو میرا خط ملا تو فکرمند ہوئی اور قادیان آنے کے ارادہ سے میاں صاحب کے پاس اجازت کے لئے گئی۔ میاں صاحب نے فرمایا کہ میں نے خط لکھا ہوا ہے۔ حالات سے آگاہی ہو تو پھر جانا۔ چند دن کے بعد وہ پھر اجازت کے لئے گئی تو میاں صاحب نے فرمایا کہ اب تو آپ کو جانا ہی چاہیے۔ نیز فرمایا کہ اُن سے کہہ دیں کہ مَیں میاں عبدالرحیم کو جانتا ہوں۔ وہ بہت مخلص ہے۔ سہواً منہ سے غلط نعرہ نکلا ہے۔ یہ بھی کہیں کہ اُن کے کیس کے لئے یہاں لڑیں، وہاں لڑیں، اوپر لڑیں مگر اس کو قادیان سے باہر نہ بھیجیں اور اگر باہر بھیجنا ہے تو میرا بندہ مجھے واپس بھیج دیں۔

میری اہلیہ نے آ کر یہ پیغام دیا تب ہم سے یہ بَلا ٹلی۔ جب حکومت کی طرف سے باز پرس ہوئی تو میں نے جو حقیقت تھی کہہ دی کہ بالارادہ نہیں سہواً غلط نعرہ لگا دیا۔ ایک لمبی کہانی ہے ابتلائوں اور پریشانیوں کی۔ جائیداد کسٹوڈین والوں نے پہلے ہی ضبط کر لی تھی۔ 1962ء سے ضبط شدہ پاسپورٹ بھی 1968ء میں دیا وہ بھی ایک ماہ کے لئے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایااور حالات درست ہوئے۔حیرت ہے کہ ایک کمزور سے آدمی کے سہواً نعرہ لگانے سے اس قدر کھلبلی مچی۔

اس سلسلہ میں یہ لطیفہ بھی قابل ذکر ہے کہ حضرت مرزا طاہر احمدصاحب خلیفۃالمسیح الرابعؒ قادیان تشریف لائے۔ جب میں نے ان کو یہ سارا واقعہ سنایا تو وہ سن کر بہت محظوظ ہوئے اور کہنے لگے کہ اس پر مجھے پہلوان والا لطیفہ یاد آرہا ہے۔ کہتے ہیں کہ کوئی اونچا لمبا شہ زور پہلوان اپنی ٹنڈ پر مکھن ملے پورے روایتی انداز میں چلتا جا رہا تھا۔ اتفاق سے پیچھے کوئی بونا جا رہا تھا۔ پہلوان کی ٹنڈ دیکھ کر اس کا جی چاہا کہ اس پر زور سے ٹھونگا لگا دے مگر ڈر بھی لگتا تھا …… دو تین دفعہ پہلوان کے پاس جا کر واپس آ جاتا مگر آخر آنکھیں بند کر کے پورا زور لگا کر چھلانگ لگائی اور پہلوان کے سر پر زور کا ٹھونگا لگا دیا۔ پہلوان نے مڑ کر دیکھا تو اسے بہت غصہ آیا۔ بونے کو زمین پر گرا کر اوپر پاؤں رکھ کر مارنے لگا تو بونے نے کہا کہ اب اگر تم مجھے مار بھی دو تو تمہیں وہ مزا نہیں آئے گا جو مجھے سر پر ٹھونگا مارنے کا آیا ہے۔

حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ
کے ہاں ذکر خیر

خاکسار کے بورڈکی تحریر کا ذکر حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کے گھر میں بھی ہوتا تھا۔ یہ بات مکرم سید فضل شاہ صاحب (سکنہ نواں پنڈ) نے بتائی۔ آپ حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کے خاص خدمت گزار تھے۔ کھانا بہت مہارت سے پکاتے تھے۔ بہت پرخلوص، دیانتدار اور نرم طبیعت کے مالک تھے۔ آپ نے ایک دفعہ مجھے بتایا کہ بھائی ایک عجیب بات ہے۔ جب بھی کسی دعوت پر احباب اکٹھے ہوتے ہیں حضرت میاں صاحب یہ بات ضرور دہراتے ہیں کہ ہمارے میاں عبدالرحیم صاحب کو خدا نے عجیب ملکہ بخشا ہے۔ جب بھی کوئی چیز بناتے ہیں اُس کی اس اندازمیں تعریف بورڈ پر تحریر کرتے ہیں کہ لُطف آ جاتا ہے، ہر بار نئے سے نیا فقرہ دلکش الفاظ ہوتے ہیں۔ یاد آنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کھانے پرکوئی نہ کوئی چیز آپ کی بھجوائی ہوئی ضرور ہوتی ہے۔ آئس کریم تو قریباً روزانہ ایک سیر بچوں کے لئے منگوائی جاتی ہے۔

مکرم سید فضل شاہ صاحب کی ایک اور بات یاد آئی۔ ایک دفعہ حضرت نواب محمد علی صاحبؓ کو اپنے باغ کے آم کوٹلے بھجوانے تھے۔ میں پندرہ سولہ سال کا تھا۔ میری والدہ صاحبہ سے آپ نے فرمایا کہ میاں عبدالرحیم کو بھجوا دیں۔ گھوڑے پر بٹالہ جا کر آم بِلٹی کر آئے۔ مکرم فضل شاہ صاحب کو ساتھ بھیجا۔ ہم راتوں رات بٹالہ گئے۔ علی الصبح بلٹی کر کے واپس قادیان دس بجے کے قریب پہنچ گئے۔ ہماری زندگی کو خدا تعالیٰ نے کیسے کیسے بزرگوں سے جوڑ دیا۔ یہ سب اُس کا احسان ہے۔ اُس کا جتنا بھی شکر کریں کم ہے۔ یہ میری خوش نصیبی ہے کہ معمولی سے ہُنر کی کہاں کہاں قدر ہوئی۔ الحمدللہ۔

حضرت سیّدہ اُم طاہر صاحبہؓ میری دکان پر

یوں ہوا کہ آپ نے حضرت ولی اللہ شاہ صاحب کے ساتھ میری دکان پر سوڈا واٹر پیا۔ حضرت سیّدہ نے فرمایا: ’’سوڈا واٹر توا س کا اچھا ہے۔‘‘

شاہ صاحب نے قدرے تیزی سے کہا:
خود بھی اچھے ہیں ان کا سوڈا واٹر بھی اچھا ہے۔ اور یہ بات میں آپ کا بھائی ہونے کے ناتے سے نہیں بلکہ بحیثیت ناظر امور عامہ کہتا ہوں۔

حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعٰیل صاحبؓ
کا حسنِ سلوک

حضرت میر صاحب خاکسار سے دوستانہ بلکہ برادرانہ سلوک رکھتے تھے۔ باوجود ہر لحاظ سے بلند مرتبہ ہونے کے آپ کے مزاج میں خاکساری اور دوست نوازی تھی۔ مجھے جب کوئی فیصلہ کرنا ہوتا توآپ سے مشورہ کرتا۔ آپ کئی طرح میرے شریک حال رہے۔ جب بھی آپ کی یاد آتی ہے تواللہ تعالیٰ سے دُعا کرتا ہوں کہ مولیٰ کریم! میرے محسن سے احسان کا سلوک کرنا۔ ان گنت واقعات ہیں۔ مثال کے طور پر میرے بورڈ پڑھ کر کئی پہلو سے خوش ہونا۔ ایک دفعہ عید کا دن تھا۔ میں نے بورڈ پر لکھا:
’’لو بیٹا ایک روپیہ، آج عید ہے عبدالرحیم سے گلاب جامن لے آئو‘‘

حضرت میر صاحب پڑھ کر بہت ہنسے۔ دادِ تحسین عطا کی۔ پھر فرمایا کہ آپ کے پاس ایک روپیہ ہے؟ میں نے روپیہ نکال کر پیش کر دیا۔ آپ نے روپے کانوٹ فریم کی کیل پر ٹانگ کر فرمایا:
’’میاں عبدالرحیم اب آپ کا بورڈ ہر جہت سے مکمل اور مؤثر ہو گیا ہے‘‘

اب سوچتا ہوں کہ کہاں میں اور کہاں یہ عالم فاضل ہستیاں۔ زندگی کیسی پرلُطف گزری ہے۔

حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحب ؓکی غریب نوازی اور معجزانہ مسیحائی کا ایک واقعہ ہے۔ میری اہلیہ آمنہ بیگم کی بہن مکرمہ مہر بی بی صا حبہ ڈیریانوالہ ضلع سیالکوٹ میں رہتی تھیں۔ ان کا جبڑا اپنی جگہ سے ہل گیاتھا۔ زیادہ ہنسنے یا اُباسی لینے میں منہ جو کھلا تو کھلا رہ گیا۔ بے حد تکلیف تھی۔ وہ لوگ اُنہیں سیالکوٹ نارووال وغیرہ میں دکھاتے رہے مگر فائدہ نہ ہوا۔ میں نے حضرت میر صاحب سے ذکر کیا تو فرمایا کہ 48گھنٹے میں ٹھیک ہو جائے تو اچھا ہوتا ہے بعد میں تو خطرہ ہوتا ہے کہ درست ہو یا نہ ہو۔ پھر فرمایا کہ اچھا اُس کو اپنی دکان (واقعہ احمدیہ چوک) میں لے آئیں۔ میں حضرت اماں جانؓ سے ملنے جا رہا ہوں اُن کو دیکھ بھی لوں گا۔ میں نے یہی کیا۔ وہ اندر بیٹھی تھیں۔ نماز کا وقت ہوا تومیں نے مسجد کا رُخ کیا۔ اتنے میں حضرت میر صاحب تشریف لے آئے اورمجھے آوازیں دیں۔ میں موجود نہ تھا اور مریضہ بول نہ سکتی تھی۔ اس لئے جواب نہ ملا۔ آپ واپس چلے گئے۔ میں نے آپ سے صورت حال عرض کی تو فرمایا کہ میرے مکان ’’الصفہ‘‘ لے آئیں۔ آپ نے اپنے شمالی صحن میں باغ میں بٹھایا۔ اب دیکھئے اُن کاطریقۂ علاج۔ ایک دوپٹہ لے کر دونوں ہاتھوں پر لپیٹ کر جبڑے کو اچانک ایک جھٹکا دیا۔ جبڑا اپنی جگہ پر فٹ ہو گیا۔ آپ نے پوچھا کہ اب ٹھیک ہے؟ بول سکتی ہو؟ اُس نے بول کر جواب دیا ’’جی‘‘ آپ نے بولنے سے منع فرمایا اور وہی دوپٹہ ٹھوڑی کے نیچے سے چکر دے کر سر پر باندھ دیا اور فرمایا دو دِن تک یہ بالکل بات نہ کریں۔ ایک کٹورے میں چمچ رکھ دیں۔ جب ضرورت ہو بجا کر کسی کو بلا لیں۔ اللہ کا کرم دیکھئے کہ مریضہ بالکل ٹھیک ہو گئیں۔

اسی طرح میرا بچہ عزیزم عبدالباسط آٹھ سال کا ہوا تو شدید بیمار ہوگیا۔ ٹائیفائیڈ، بخار اورنمونیہ ہو گیا۔ مکرم ڈاکٹر بھائی محمود صاحب اور مکرم ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کا علاج کروایا مگر شامتِ اعمال بیماری طول پکڑتی گئی۔ میں از حد پریشان تھا۔ میرا بچہ بہت خوش الحانی سے قرآن پاک پڑھتا تھا۔ میں یہی واسطہ دے کر اُس کی زندگی مانگتا۔ حضور کو بار بار دُعاکے لئے لکھتا ۔کبھی بیت میں روزے داروں کو دُعا کی درخواست کرتا۔ کبھی دکان کے بورڈ پر دردمندانہ دُعا کی اپیل لکھتا۔ میں اپنے محسن اور دِلی دوست حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب کے پاس گیا۔ آپ گھروں پہ آ کر مریض نہ دیکھتے تھے۔ آپ نےفرمایا کہ بچے کو ہسپتال لے جائیں میں وہیں آ کر دیکھتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا اور دوا میں شفا رکھی تھی …… بفضل الٰہی بچہ صحت یاب ہوا اور مربی سلسلہ بن کر ساری زندگی خدمتِ دین میں گزاری۔ اللہ تعالیٰ اس طرح بھی دُعائیں سنتا ہے۔

حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ

حضرت میر محمد اسحق صاحب ؓبالعمو م بڑے جلسوں اور مناظروں کے مہتمم و منتظم ہوتے تھے۔ جلسہ کے اعلان سے بھی قبل اس کے متعلق بتا دیا کرتے تھے۔ موٹر، بس وغیرہ میں سفر کرنے سے آپ کوفت محسوس کرتے اس لئے مجھے فرماتے کہ ہم ٹانگے میں جائیں گے۔ اسی تعلق سے آپ مجھے ’’رفیقِ سفر‘‘ کے نام سے یاد فرماتے۔

حضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ کا شادی کاتحفہ

1948ء کے ابتدائی دنوں کی بات ہے۔ ایک صاحب نے بتایا کہ ایک سکھ کے پاس سلسلہ کی کچھ کتابیں ہیں جو وہ فروخت کرنا چاہتا ہے مگر اُس کا پتہ جو بتایا وہاں جانا بہت خطرناک تھا۔ میں نے معذرت کی اور کہا کہ کتب یہاں لے آئیں، میں خرید لوں گا۔ مگر وہ سکھ (جو آج کل حضرت میاں بشیر احمد کے فارم (Farm) پر بطور منیجر حکومت کی طرف سے مقرر ہے) نہ مانا۔ کسی نہ کسی طرح وہاں پہنچا تو کتابیں دیکھ دیکھ کر عجیب ملے جلے جذبات کی کوئی حد نہ رہی۔ وہ کتابیں حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کی کوٹھی سے لائی ہوئی معلوم ہوتی تھیں۔ میں نے سوچا کہ ان کو ہر قیمت پر خریدنا ہے۔ وہ سکھ بڑا ہشیار تھابھانپ گیا اور مروّجہ قیمت سے دس گنا زیادہ قیمت بتائی۔ میں نے بھی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے اُس کو منہ مانگی قیمت ساٹھ روپے ادا کر کے خرید لیں۔ اُن میں ایک بخاری شریف تھی۔ خوبصورت مجلد، سنہری نام لکھا ہوا تھا جو لجنہ اماء اللہ قادیان نے محترمہ بی بی ناصرہ بیگم (بنت حضرت مصلح موعودؓ) کی شادی خانہ آبادی کی تقریب سعید کے موقع پر تحفۃً دیا تھا۔ کیا یہ کتابیں ردّی میں جانے کے قابل تھیں؟ میں کیسے گوارا کر سکتا تھا کہ اُن سے ہاتھ کھینچ لوں کہ قیمت زیادہ ہے اور وہ ردّی میں بیچ دیتا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ توفیق بھی دی کہ یہ کتب مکرم سیٹھ محمد اعظم صاحب کے ہاتھ عزیزہ محترمہ کو بھجوا دیں۔ تسلّی بھی کر لی تھی کہ حفاظت سے کتب اُن تک پہنچ گئی ہیں جو میری طمانیت کا باعث ہوا۔

(امۃ الباری ناصر- امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 جون 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 جون 2021