• 18 مئی, 2024

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے (قسط 48)

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے
ذاتی تجربات کی روشنی میں
قسط 48

ہفت روزہ پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 13 اگست 2010ء میں صفحہ 15 پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’روحانی موسم بہار لوٹنے کے بابرکت ایام…… صیام رمضان‘‘ خاکسا رکی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔ اس مضمون میں خاکسار نے رمضان کی آمد، صوم کا مطلب، اسلامی اصطلاح میں روزے، سحری کے اوقات، روزوں کی فلاسفی، روزہ نہ رکھنے والوں کے لئے انذار اور مسائل نیز دیگر امور پر قرآن اور احادیث نبویہ حضرت مسیح موعود ؑ کے ارشادات کی روشنی میں بیان کئے گئے۔

نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 13-19 اگست 2010ء میں خاکسار کا مضمون بعنوان ’’روحانی موسم بہار لوٹنے کے بابرکت ایام۔ صیام رمضان‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ نفس مضمون وہی ہے جو اوپر گزر چکا ہے۔

چینو چیمپئن نے اپنی اشاعت 14تا20 اگست 2010ء کی اشاعت میں مختصراً خبر رمضان المبارک کے بارے میں دی ہے۔ ’’ماہ رمضان مسلمانوں کے لئے شروع ہو رہا ہے۔‘‘

اخبار نے لکھا کہ اس ماہ میں مسلمان روزے رکھتے ہیں۔ امام شمشاد ناصر مسجد بیت الحمید نے بتایا کہ رمضان مسلمانوں کی اخلاقی و روحانی حالت سدھارنے کے لئے آتا ہے اس لئے انسان ضبط نفس اور غرباء کی خبرگیری کا سبق بھی سیکھتا ہے۔


ڈیلی بلٹن نے اپنی اشاعت 15اگست 2010ء صفحہ 3 پر رمضان المبارک کے بارے میں یوں خبر دی:

Chino Mosque members remember victoms during Ramadan

’’چینو مسجد کے ممبران (جماعت احمدیہ) رمضان میں ان لوگوں کو یاد رکھیں گے جو مئی کے مہینہ میں لاہور میں شہید ہو گئے یا زخمی ہوئے۔‘‘

اخبار لکھتا ہے کہ احمدی مسلمانوں کے لئے یہ رمضان ہر لحاظ سے بہت اہم ہے۔ چینو کی احمدیہ مسجد جس میں جماعت احمدیہ کی ایک کثیر تعداد عبادت کرتی ہے۔ اس بابرکت مہینہ میں روزے رکھیں گے۔

رمضان جس کا مقصد یہ ہے کہ لوگ خداتعالیٰ کے ساتھ تعلقات بڑھائیں اور اس کے مزید قریب ہوں۔ جماعت احمدیہ کے ممبران اس مرتبہ لاہو رمیں شہید ہونے والے احمدیوں اور ان کی فیملیز اور زخمی لوگوں کو اپنی عبادات اور دعاؤں میں یاد رکھیں گے۔ یہ بات امام شمشاد نے بتائی کہ مئی 2010ء میں جماعت احمدیہ کی دو مساجد پر لاہور پاکستان میں حملہ ہوا جس کے نتیجہ میں 80 لوگ تو موقع پر ہی شہید ہو گئے اور ایک سو سے زائد شدید زخمی ہوئے۔ امسال ہم ان سب کے لئے بہت دعائیں کریں گے۔

اس کے بعد اخبار نے جماعت احمدیہ کے بانی کے بارے میں معلومات لکھی ہیں کہ حضرت مرزا غلام احمد نے قادیان انڈیا سے اس کی بنیاد رکھی۔ جماعت احمدیہ کو بہیمانہ طور پر سفاکی اور ظلموں کا نشانہ پاکستان میں بنایا جارہا ہے صرف ان کے اس عقیدہ کی وجہ سے کہ انہوں نے مرزا غلام احمد کو مانا ہے۔

مبارکہ صادق صاحبہ جو کہ ریجنل لجنہ اماء اللہ کی صدر ہیں نے بتایا کہ جو لوگ شہید ہوئے ہیں یا زخمی ہوئے ہیں ان کے بہت سے رشتہ دار یہاں رہتے ہیں۔ ہمیں افسوس ہے کہ لاہور میں ہماری مساجد پر یہ حملہ ہوا۔ صرف عقیدہ کے اختلاف کی بنیاد پر۔ حالانکہ ہم تو کہتے ہیں کہ محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں اور ہم ہر اس حملہ کا ردعمل یہ ہے کہ ہم صبر کرتے ہیں۔

دی سن نے اپنی اشاعت 15 اگست 2010 صفحہ A6 پر ہماری خبر اس عنوان سے دی ’’چینو مسجد کے ساتھ تعلق رکھنے والے امسال پاکستان میں شہید ہونے والوں کو یاد رکھیں گے‘‘

خبر کا متن قریباً وہی ہے جو اوپر گزر چکا ہے۔

الانتشار العربی نے اپنی اشاعت 19 اگست 2010ء صفحہ 19 پر خاکسار کا مضمون عربی میں، خاکسار کی تصویر کے ساتھ اس عنوان سے شائع کیا کہ ’’ہم رمضان المبارک سے کس طرح فائدہ حاصل کر سکتے ہیں‘‘ نفس مضمون وہی ہے جو اس سے قبل اردو اخبارات کے حوالہ سے پہلے گزر چکا ہے۔

پاکستان نیوز نے اپنی اشاعت 19تا25 اگست 2010ء میں ہمارے خلاف ایک خبر شائع کی ہے جس کا شہ سرخی یہ ہے کہ ’’قادیانی مذہبی آزادی کا غلط استعمال نہ کریں، ناموس رسالتؐ پر جان قربان کرنے والے اب بھی موجود ہیں۔‘‘

یہ خبر اور اس میں جتنے علماء کے نام لئے گئے ہیں اور اس خبر کا متن اس بات کی دلیل ہے کہ ان علماء کے پاس دلائل نہیں ہیں اور نہ ہی وہ دلائل سے بات کر سکتے ہیں، خبر میں بتایا گیا ہے کہ قادیانی امریکہ میں مذہبی آزادی سے (غلط فائدہ) فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

یہ نتیجہ ہے اس بات کا کہ انہیں یہ تکلیف ہے کہ یہاں امریکہ کے اخبارات میں ہمارے مضامین اور خبریں کیوں شائع ہو رہی ہیں۔ جیسا کہ آپ گزشتہ پڑھ چکے ہیں کہ اخبارات میں پورے پورے صفحہ کے اشتہارات شائع ہوئے جس میں حضرت مسیح موعودؑ کی تحریرات شائع ہوئیں۔ آپؑ کے آنے کا مقصد بیان ہوا اور پھر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطبات جمعہ کا خلاصہ شائع کر رہا ہے۔ اس سے یہ علماء بوکھلا گئے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب پاکستان کے آئین میں انہیں شرعی طور پر غیرمسلم قرار دے دیا ہے تو مزید بحث نہیں ہو سکتی (اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ) یہ لوگ تاریخ کو ہی مسخ کر رہے ہیں نہ یہ شرعی فیصلہ تھا اور نہ ہی کسی اسمبلی کو یہ اختیار ہے کہ وہ کسی کے مذہب میں دخل اندازی کرے۔ یہ تو ایک سیاسی فیصلہ تھا۔

اس خبر میں یہ لکھا ہے کہ ’’امام عبداللہ دانش نے کہا کہ لا نبی بعدی نبیؐ کا فرمان ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ اس کے بعد نئے نبی کی بحث ختم ہو جاتی ہے، قاری سیف النبی نے کہا کہ قادیانیوں کو طویل شرعی و قانونی بحث کے بعد کافر قرار دیا گیا ہے اب اس پر ایک نئی بحث کی ضرورت نہیں۔‘‘

نوٹ: ہر دو مولوی حضرات کے بیان میں علمی لحاظ سے اور تاریخی لحاظ سے اور عقیدہ کے لحاظ سے بہت تضاد ہے۔ یہ تو میں صرف خبر لکھ رہا ہوں اس کے تجزیہ کے لئے کئی صفحات درکار ہوں گے۔ یہ ان لوگوں کی جہالت ہے کہ حدیث کے معانی بھی غلط کرتے ہیں اور اپنے ہی عقیدہ کے خلاف بیان کرتے ہیں۔

نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 20 اگست 2010ء صفحہ17 پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’کیا لکھوں کس طرح لکھوں اور کس کے نام لکھوں‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔ اس مضمون میں خاکسار نے لکھا کہ
’’یہ غالباً پہلا موقع ہے کہ جب ساری قوم نے 14 اگست یوم آزادی بڑی سادگی اور دکھے دل کے ساتھ منایا۔ ایک تو ملک سیلاب کی آفت سے دو چار تھا اور سیلاب نے ہر طرف ملک میں تباہ کاریاں مچا رکھی تھیں۔ TV چینل پر ایک خبر بھی تھی کہ سکھر کے علاقہ میں ہندوؤں نے قریباً اڑھائی ہزار لوگوں کے لئے کھانے کا انتظام کیا جاتا تھا۔ اس پر خبر دینے والے نے کیا خوب تبصرہ کیا کہ غیرمسلم تم مسلمانوں کا کتنا خیال کر رہے ہیں۔ تم بھی اپنے بھائیوں کا کچھ خیال کرو۔ مطلب یہ تھا کہ جس طرح اور جس قدر دل کھول کر مسلمانوں کو سیلاب زدگان کے لئے مدد کرنی چاہئے تھی وہ انہوں نے نہیں کی۔ پھر ساتھ ہی یہ بھی خبریں TV کی زینت بن رہی تھیں کہ اس آفت کے موقعہ پر بھی لوگ چوری اور لوٹ کھسوٹ بے دردی سے کر رہے ہیں۔ اس قوم پر پھر کیوں آنسو نہ بہائے جائیں۔ جن کے دلوں میں اپنے ہی بھائیوں کا درد اور غم نہیں۔ ان کے دل پتھر سے بھی سخت ہو چکے ہیں۔ خداتعالیٰ نے پتھروں کی بھی قرآن کریم میں تعریف فرمائی ہے کہ ان سے پانی نکلتا ہے۔ خدا جانے پاکستانیوں کے دل کس چیز کے بنے ہوئے ہیں کہ اس آفت کے وقت میں بھی جبکہ رمضان کا مہینہ بھی ہے۔ لوگوں کو مارنے، کوٹنے، گند اچھالنے، انہیں قتل کرتے، ان کا سامان لوٹنے میں لگے ہوئے ہیں۔

اسی موقعہ پر کراچی میں ایک احمدی ڈاکٹر نجم الحسن صاحب جن کی عمر 38 سال تھی کو نامعلوم افراد نے مذہب (احمدی مسلم) کی بنیاد پر شہید کر دیا۔ یہ ایک نہایت باوقار امن پسند شہری تھے اور انسانیت کی خدمت کرنے والے تھے۔

1974ء میں جماعت احمدیہ کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا گیا پھر 1984ء میں ان کی مذہبی آزادی بالکل ان سے سلب کر لی گئی اور 1984ء سے اب تک مذہبی بنیاد پر جماعت احمدیہ کے کم و بیش 20 ڈاکٹرز کو شہید کر دیا گیا جو اپنی دیانت داری، محنت، حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار تھے اور غرباء کی خدمت کو ایک بڑی نیکی گردانتے تھے۔

اور اپنے اپنے فیلڈز کے ماہر تھے۔ ان 20 ڈاکٹروں میں سے 10 کا تعلق سندھ سے تھا۔ اور یہ سب کچھ ظلم 1984ء کے احمدیوں کے خلاف آرڈیننس کی وجہ سے ہوا۔

پاکستانی کتنی ہی آفتوں سے دوچار ہے لیکن نہ ہی حکومت سمجھتی ہے اور نہ ہی ملاں اور نہ ہی عوام خاکسار نے ایک اور بات کی طرف اس مضمون میں اس طرح توجہ دلائی کہ:

اخبارات میں کالم نویسوں کے تبصرے شائع ہو رہے ہیں جن کو پڑھ کر لگتا ہے کہ وہ کون سی اخلاقی بیماریاں ہیں جو پاکستانیوں میں نہیں پائی جاتیں مثلاً اخبار میں یہ لکھتے ہیں کہ پاکستان میں ہر چیز جعلی ہے۔ کیا یہ مومنوں کی علامت ہے؟

بے ایمانی، لوٹ کھسوٹ، رشوت، یہ سب کچھ خطرناک صورت اختیار کر گئی ہیں۔ کیا یہ سب مسلمانوں کی نشانیاں ہیں؟ قوم لوڈشیڈنگ سے دوچار ہے اور اسکے احتجاج کے طور پر سرکاری عمارتیں، بسوں کو، کاروں کو، جائیدادوں کو جلا دیا جاتا ہے کیا یہ مومنوں کی نشانیاں ہیں؟ اگرہیں تو دکھائیں کہ یہ علامات قرآن میں کس جگہ بیان ہوئی ہیں؟

نوح کے وقت جو پانی کا عذاب آیا وہ کیوں آیا تھا؟
فرعون اور اس کے ساتھی پانی میں کیوں غرق ہوئے!

مجھے افسوس کے ساتھ یہ سطور لکھنا پڑ رہی ہیں۔ میں خود پاکستانی ہوں۔ مجھے پاکستان سے محبت ہے اور جب میں پاکستان کا ایک ایسا حال دیکھتا ہوں کہ مذہبی لیڈروں نے سیاستدانوں کے سر پر سوار ہو کر پاکستان کے لئے آئین اور پاکستان کے مزاج کا حلیہ ہی بگاڑ دیا ہے تو دل خون کے آنسور روتا ہے۔

خاکسار نے اس کے بعد 28 مئی 2010ء میں لاہور میں 2احمدیہ مساجد پر حملے کے بارے میں لکھا ہے کہ کیا قوم یہ سانحہ بھول گئی ہے۔ ہر وقت جب ملک میں احمدیوں کے خلاف جھوٹ بول کر نفرت پھیلائی جاتی ہے کہ احمدی رسول خدا ﷺ کو نہیں مانتے وغیرہ اور یہ لوگ واجب القتل ہیں تو جاہل لوگ ان باتوں کے زیر اثر احمدیوں کا قتل عام کرتے ہیں۔

خاکسار نے پھر 14 اگست کے حوالہ سے بتایا کہ قائد اعظم کے مطابق جو قانون انہوں نے بنایا تھا اس کو اپنائیں ہر ایک کے ساتھ مساویانہ سلوک اور برتاؤ کریں۔ ہر ایک کو مذہبی آزادی دیں۔ قائد اعظم نے بھی کسی کے ہاتھ میں مسلمان یا غیرمسلم کا سرٹیفکیٹ نہیں تھمایا تھا بلکہ کہا تھا کہ یہ انسان اور خدا کا معاملہ ہے حکومت کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ بے شک ہندو اپنے مندر جائے عیسائی اپنے گرجا میں جائے، مسلمان اپنی مسجد میں جائے۔ ریاست کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کے بعد خاکسار نے لکھا کہ یہ ممالک جنہیں مغربی ممالک کہا جاتا ہے۔ ان میں خداتعالیٰ نے بڑی فراست دی ہے، انہوں نے اسلام کے اکثر قوانین اپنائے ہوئے ہیں اور ہر ایک کو مذہبی آزادی دی ہوئی ہے۔

گراؤنڈ زیرو کے نزدیک مسجد تعمیر کرنے کے بارے میں سب جانتے ہیں۔ کیا یہ ان عیسائیوں کا حوصلہ ہے کہ انہوں نے اجازت دی۔ یہ واقعہ کسی اسلامی ملک میں نہیں ہو سکتا۔ نہ ہی کسی اسلامی مملکت میں ایسا حوصلہ ہے کہ وہ ایسا کرنے کی اجازت دے۔ ہجرت حبشہ بھی جب ہوئی تو وہ بھی عیسائی بادشاہ ہی تھا جس نے مسلمانوں کو پناہ دی تھی۔ پس آئیے 14 اگست کے حوالہ سے خدا سے دعا کریں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور اپنی کوتاہیوں پر آنسو بہائیں۔

پاکستان ایکسپریس نے بھی اپنی اشاعت 20 اگست 2010ء میں خاکسار کا مضمون بعنوان ’’کیا لکھوں کس طرح لکھوں اور کس کے نام لکھوں؟‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ نفس مضمون وہی ہے جو اوپر گزر چکا ہے۔

پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 27 اگست 2010ء صفحہ15 پر خاکسار کا مضمون بعنوان رمضان المبارک اور ’’قبولیت دعا‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ پورے صفحہ پر شائع کیا ہے۔

اس مضمون میں رمضان کے حوالہ اور برکات سے قبولیتِ دعا پر روشنی ڈالی گئی ہےاور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ’’انی قریب‘‘ کے معانی اور شرائط کو بیان کیا گیا ہے پھر قبولیتِ دعا کے 7 طریق حضرت مصلح موعود کے حوالہ سے بیان کئے گئے ہیں۔ پہلا طریق فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ میں بیان ہوا ہے کہ پہلے خود شریعت کے احکامات کے مطابق کام کرو۔ (2) وَلۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ مجھ پر ایمان لائیں۔ (3) جب کوئی اہم معاملہ درپیش ہو تو کسی کا دکھ اور درد کم کرنے کی اور اسکی مدد کی کوشش کرو کیونکہ جو خدا کے بندوں پر رحم کرتا ہے خدا اس پر رحم کرتا ہے۔ (4) دعا سے پہلے خدا تعالیٰ کی حمد و ثنا اور تعریف سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ کا ورد کرے۔ (5) اس کے بعد آنحضرت ﷺ پر درود شریف بھیجے۔ (6) دعا کرنے سے قبل انسان خود بھی پاک صاف ہو اور اپنے کپڑوں کو بھی پاک صاف کرے۔ کیونکہ تمام عبادتوں کے لئے صفائی شرط ہے۔ (7) اللہ تعالیٰ کے حضور اپنا مدعا بیان کرنے سے قبل وہ دعائیں کریں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہوں۔ یعنی دین اسلام کی برتری، خداتعالیٰ کا جلال و قدرت ظاہر ہونے کے لئے۔ پھر اپنی حاجات بیان کرے۔

اس کے بعد قبولیت دعا کے اوقات کا بیان ہے مثلاً تہجد یا قیام لیل کا وقت قبولیت دعا کا بہترین وقت ہے۔ احادیث میں اس کا ذکر ہے۔ دوسرا اہم وقت افطاری کا وقت ہے۔ تیسرا وقت آذان سے اقامت تک کا وقت ہے۔ چوتھے احادیث میں ہے۔ تین اشخاص کی دعا قبول ہوتی ہے۔ امام عادل کی۔ روزہ دار کی اور مظلوم کی دعا۔

جمعہ کا دن بھی ایک ایسی گھڑی ہے جس میں قبولیت دعا ہوتی ہے۔

پھر یہ بھی اس مضمون میں ذکر کیا گیا ہے کہ دعا قبول کیوں نہیں ہوتی اور سب سے آخرمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا برکات الدعا اور دیگر کتب سے حوالہ جات ہیں مبارک تم جب کہ دعا کرنے میں کبھی ماند نہیں ہوتے…… دعا کرنے والوں کو خدا معجزہ دکھائے گا اور مانگنے والوں کو ایک نعمت دی جائے گی۔ دعا خدا سے آتی ہے اور خدا کی طرف ہی جاتی ہے۔

نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 27 اگست تا 2 ستمبر 2010ء صفحہ 10 پر پورے صفحہ پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’رمضان المبارک اور قبولیتِ دعا‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ نفس مضمون وہی ہے جو اوپر گزر چکا ہے۔

ویسٹ سائڈ سٹوری نیوز پیپر نے اپنی اشاعت 2 ستمبر 2010ء صفحہ 8 پر ¼ صفحہ پر ہمارا اشتہار شائع کیا ہے۔ اس اشتہار میں سب سے اوپر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر ہے۔

اور جلی حروف میں یہ لکھا ہے کہ

‘‘I am the Light of Dark Age’’

کہ ’’اس تاریکی کے زمانے کا میں نور ہوں‘‘۔ نیچے آپ کا نام اور جماعت احمدیہ کا تعارف۔ محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں۔ نیز مسجد بیت الحمید میں پانچوں نمازوں کے اوقات، سنڈے کلاس، درس اور دیگر پروگراموں نیز لٹریچر اور معلومات حاصل کرنے کے لئے۔ فون نمبرز اور ایڈریس دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مسجد بیت الحمید چینو کا ایڈریس بھی دیا گیا ہے۔ ویب سائٹ اور فری ٹول نمبر I-800-WHY-ISLAM بھی دیا گیا ہے۔

الانتشار العربی نے اپنی عربی سیکشن میں یکم ستمبر 2010ء صفحہ 19 کی اشاعت میں حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبہ جمعہ کا خلاصہ حضور انور کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ جس کا عنوان اخبار نے ’’اَلطَّرِیْقُ الْمُسْتَقِیْمُ‘‘ دیا ہے۔

اس خطبہ جمعہ کے خلاصہ میں اخبار لکھتا ہے کہ
جماعت احمدیہ عالمگیر کے روحانی پیشوا مرزا مسرور احمد نے اپنے خطبہ جمعہ میں اَلصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ تشریح فرمائی کہ اِہۡدِنَا کے معانی ہیں کہ خداتعالیٰ ہمیں صحیح اور سیدھا طریق دکھائے اور دوسرے معانی ہیں خداتعالیٰ ہمیں اس سیدھے رستہ پر چلائے اور اس کی راہنمائی فرمائےاور تیسرے معانی ہیں کہ ہمیں توفیق دے کہ اول سے لے کر آخر تک اپنی زندگی کے آخری سانس تک اس راستے پر چلتے رہیں۔

حضرت الامام مرز امسرور احمد نے بتایا کہ یہ دعا ہمیشہ کرتے رہنے چاہئے اور اپنی تمام استعدادوں اور کوششوں سے ہر وقت سیدھے رستے کے اصول اور اس پر چلنے کی فکر میں لگے رہنا چاہئے اور یہ کہ پھر خداتعالیٰ سے دعا کے ذیعہ اس کے لئے مدد بھی مانگتے رہنا چاہئے۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے جن کو انسان گن بھی نہیں سکتا اس لئے کہ اصل ہدایت خداتعالیٰ کی طرف سے ہی آتی ہے۔

جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَلَنۡ تَرۡضٰی عَنۡکَ الۡیَہُوۡدُ وَلَا النَّصٰرٰی حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمۡ …… (البقرہ: 121) اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ کے لئے ضروری ہے کہ ہم دعا کریں اور اپنی عبادت کو صحیح طریق پر بجا لائیں۔ جب ہم دعا مانگتے ہیں کہ اے خدا ہمیں صراط مستقیم دکھا اور اس پر چلا تو یہ دعا قلب سے ہونی چاہئے۔ سورۃ محمد میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِیۡنَ اہۡتَدَوۡا زَادَہُمۡ ہُدًی وَّاٰتٰہُمۡ تَقۡوٰٮہُمۡ (محمد: 18) الامام مرزا مسرور احمد نے قرآن کریم کی یہ آیت بھی پڑھی جو سورۃ التغابن 12 ہے۔ مَاۤ اَصَابَ مِنۡ مُّصِیۡبَۃٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ وَمَنۡ یُّؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ یَہۡدِ قَلۡبَہٗ …… اور سورۃ النور آیت 55 قُلۡ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَاَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ ۚ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنَّمَا عَلَیۡہِ مَا حُمِّلَ وَعَلَیۡکُمۡ مَّا حُمِّلۡتُمۡ ؕ وَاِنۡ تُطِیۡعُوۡہُ تَہۡتَدُوۡا ؕ وَمَا عَلَی الرَّسُوۡلِ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡنُ

آخر میں الامام نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں سیدھے راستے پر ہمیشہ چلنے کی توفیق دے۔

(مولانا سید شمشاد احمد ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

انڈیکس مضامین مئی 2022ء الفضل آن لائن لندن

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ