• 18 مئی, 2024

کیا، کیسے اور کہاں لکھا جائے؟

کیا لکھا جائے؟ ایک ایسا سوال جو ہر اس قاری کے ذہن میں آتا ہے جو لکھنا چاہتا ہے۔ فن تحریر خدداد بھی ہے اور کسبی بھی۔ لیکن ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک صبح آپ بیدار ہوں اور اچھے لکھاری بن چکے ہوں۔ اچھا لکھنے کے لیے اچھا پڑھنا ضروری ہے ورنہ بقول شخصے ’’بہت سے لوگ جنہیں پڑھنا چاہیے، لکھ رہے ہیں‘‘ کی مثال صادق آئے گی۔ مضمون نویسی کا مقصد کسی موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کرنا ہے۔ یہ لکھنے والے کے ذاتی میلان پر منحصر ہے کہ وہ مضمون نویسی کے لیے روایتی یا غیر روایتی موضوعات میں سے کس کا انتخاب کرتا ہے۔ روایتی مضامین سنجیدہ موضوعات پر مشتمل ہوتے ہیں جن میں تربیت کا پہلو نمایاں ہو۔ غیر روایتی موضوعات میں سائنس، طب، کھیل اور مزاحیہ موضوعات پر خامہ فرسائی کی جا سکتی ہے۔ ہمارے ہاں نہ تو موضوعات کی کمی ہے نا ہی ان پر موجود مواد کی۔ اب تو تیز ترین انٹر نیٹ کا دور ہے جہاں صرف ایک لفظ ٹائپ کرکے سرچ کرنے پر لاکھوں نتائج آپ کے سامنے ہوں گے۔ جس میں ہر طرح کی تحریر اور تحقیق موجود ہوگی اور لا تعداد کتب ان موضوعات پر آپ کو مل جائیں گی۔ ایسے میں مضمون نویسی کے لئے موضوع کا انتخاب پہلا مرحلہ ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ جس فورم پر آپ لکھنا چاہتے ہیں اس کے مزاج سے آشنائی ہو۔ فورم کا مواد قاری کے مزاج کو سمجھنے میں معاون ہوتا ہے اس لیے جہاں لکھنا چاہتے ہیں وہاں پہلے سے موجود مواد کا اچھی طرح مطالعہ کرنا ضروری ہے۔

عنوان کا انتخاب

تحریر کا عنوان تحریر کی قسمت طے کرتا ہے۔ جس طرح قیافہ شناس چہرے کو دیکھ کر شخصیت کا تاثر قائم کرتا ہے اسی طرح قاری تحریر کے عنوان سے تحریر کے متن کے بارے میں تاثر قائم کرتا ہے۔ عنوان جتنا دلچسپ اور معانی خیز ہوگا اتنا ہی قاری کی توجہ اپنی جانب مبذول کر پائے گا۔ ایک عنوان سے ہی قاری یہ طے کرتا ہے کہ تحریر پڑھے یا آگے بڑھ جائے۔ ساتھ ہی عنوان کا تحریر کے متن سے مطابقت رکھنا بھی ضروری ہے۔ جیسا کہ آجکل پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا وطیرہ ہے ایسا کرنا بھی بد دیانتی کے مترادف ہے کہ عنوان ہو ’’ٹائی ٹینک کیسے ڈوبا‘‘ اور مضمون کے اندر پکوڑے تلنے کی ترکیب بتائی ہو۔ یعنی ایسا بھڑکیلا عنوان کہ قاری لنک پر کلک کرنے پر مجبور ہو جائے۔ جیسا کہ ابتداء میں عرض کیا ہمارے پاس موضوعات اور مواد کی کمی نہیں ہے ایسے میں مضمون کو یکسانیت سے بچانا بہت ضروری ہو جاتا ہے۔ مسائل کی نشاندہی کے ساتھ اگر حل پیش نہیں کیا جاتا تو قاری پر تحریر کا کچھ بھی اثر نہیں ہوگا۔

تحقیق کی ضرورت

مضمون کے متن سے یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل امر نہیں کہ صاحب تحریر نے مضمون کے لیے تحقیق کی ہے یا نہیں۔ تربیتی امور کے لیے لکھے جانے والے روایتی مضامین کو قرآن و سنت، احادیث کی مستند روایات اور اسلاف کی تحقیق سے مرصّع کیا جا سکتا ہے نیز جماعتی لٹریچر سے بھی استفادہ کرنا چاہیے۔ غیر روایتی مضامین کے لیے متن میں موجود معلومات کو کراس چیک کرنا ضروری ہے کہ تاکہ غیر مستند مواد مضمون کا حصہ بن کر قاری کو گمراہ کرنے کا موجب نہ بنے۔ ایسے مضامین کی تحقیق کے لیے انٹرنیٹ اور لائبریری سے مدد لی جا سکتی ہے۔ ایسا مواد پہلی فرصت میں رد کر دینا بہتر ہے جو آپ کو صرف ایک فورم پر ہی نظر آئے۔ مضمون کے حوالہ سے مطلوبہ مواد کو گوگل پر سرچ کریں۔ ملنے والے نتائج کو دیکھیں کہ کس کس فورم پر متعلقہ مواد موجود ہے۔ مستند ویب سائٹ سے مضمون میں دی گئی معلومات کا موازنہ کرنے کے بعد ہی اپنے مضمون کا حصہ بنائیں۔ بڑے بڑے عالمی شہرت یافتہ ادارے جن میں اخبارات اور نیوز چینل وغیرہ بھی شامل ہیں عام طور پر غیر مستند مواد کو جگہ نہیں دیتے۔ وہاں سے مواد لیتے وقت حوالہ موجود ہو تو اسے اصل ویب سائٹ یا کتاب سے دیکھیں۔ اس طرح غیر مستند مواد کو مضمون کا حصہ بننے سے بچا جا سکتا ہے۔

کیسے لکھا جائے؟

گزشتہ سطور میں تحریر کے لیے عنوان کی اہمیت پر نظر ڈال چکے ہیں مضمون کا ابتدائیہ مضمون کی شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں صاحب تحریر نے گویا قاری کو مضمون پڑھنے کے لیے آمادہ کرنا ہوتا ہے۔ اگر اس مرحلہ پر قاری کی تشفی ہو جاتی ہے تو قاری لازماً اختتام تک مضمون پڑھے گا۔ لیکن اس بات کا خیال رہے کہ اس رضامندی والے معاملہ کو چند سطور سے زیادہ لمبا نہ کھینچا جائے۔ مضمون کے اس حصے میں قاری کی توجہ حاصل کرنے کے لیے کسی مشہور قول، محاورے یا مختصر اقتباس کا سہارا بھی لیا جا سکتا ہے۔ ابتدائیہ کے بعد اگلا مرحلہ نفس مضمون ہے جس کا عنوان کے ساتھ مطابقت رکھنا ازحد ضروری ہے۔ حتی المقدور موضوع پر رہتے ہوئے تحریر کو مختصر رکھنا چاہیے، ایک جیسے الفاظ اور دی گئی معلومات کی تکرار قاری کی اکتاہٹ کا موجب بنتی ہے۔ مضمون میں پیش کیے گئے خیالات، معلومات اور اعداد و شمار کا درست اور منظم ہونا بھی ضروری ہے۔

اختتامیہ

اختتامیہ کسی بھی مضمون کے متن کا نچوڑ ہوتا ہے۔ کسی مسئلہ کی نشاہدی کا حل تجویز کرتے ہوئے مضمون کو سمیٹا جاتا ہے اور مضمون میں اٹھائے گئے سوالات کے جواب دیے جاتے ہیں جو قاری کو کسی نتیجے پر پہنچاتے ہیں۔ یا تحریر کا انداز ایسا ہو جو قاری کو خود سوچنے پر مجبور کر دے۔

انگریزی زبان کا محاورہ ہے Practice makes perfect اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مشق انسان کو مشاق بنا سکتی ہے۔ اپنا لکھا ہوا مضمون بار بار پڑھنے سے اپنی اصلاح ہوتی ہے۔ پروف کی غلطیاں دور کی جا سکتی ہے اور مضمون کے متن کو بہتر ترتیب میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ کسی بھی فورم پر مضمون بھجواتے وقت مضمون کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے۔

کہاں لکھا جائے؟

آجکل بے شمار آن لائن اور پرنٹ میڈیا فورم موجود ہیں جو نو آموز لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کرتے اور ان کی تحاریر شائع کرتے ہیں۔ ان میں ڈان اردو، ڈی ڈبلیو، ایکسپریس اردو، آئی بی سی اردو، مکالمہ ڈاٹ کام، دلیل ڈاٹ کام، دانش ڈاٹ کام اور ہم سب شامل ہیں۔ اخباری بلاگنگ ویب سائٹ جیسا کہ ایکسپریس، ڈان اور ڈی ڈبلیو وغیرہ روایتی مضامین جن میں مذہبی عنصر نمایاں ہو شائع نہیں کرتیں۔ ان کے علاوہ دیگر بلاگنگ ویب سائٹس قطع و برید کے روایتی مضامین بھی شائع کر لیتی ہیں۔ ان سب کا مزاج ایسا ہے کہ غیر روایتی اور تحقیق پر مبنی تحاریر کو فوقیت دی جاتی ہے۔ ایسے مضامین جو روایتی اور غیرروایتی دونوں طرز تحریر رکھتے ہوں ان کے لیے جماعتی جرائد اچھا انتخاب ہے۔

تحریر کا تعلق تخلیقی صلاحیت سے ہے اور خالق نے انسانی دماغ میں یہ صلاحیت کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ انسان کا یہ خاصہ ہے کہ وہ ملٹی ٹاسک کر سکتا ہے۔ آپ سفر کر رہے ہوں، لان میں پودوں کو پانی دے رہے ہوں، کھانا کھا رہے ہوں یا ہر وہ جبلی صلاحیت سے ہونے والا کام جس میں توجہ اور سوچ کا زیادہ عمل دخل نہ ہو کے دوران آپ متنوع موضوعات پر سوچ بچار کر سکتے ہیں۔ میں اپنے کھیت میں کام کرتے وقت زیر تحریر مضمون کے متعلق سوچ رہا ہوتا ہوں یا کسی نئے موضوع کی تلاش میں تخیل کے گھوڑے دوڑا رہا ہوتا ہوں۔ غرض چلتے پھرتے سوچ بچار کی جاسکتی ہے اور آنے والے کسی نئے خیال کو نوٹ کرکے مضمون کا حصہ بنایا جاسکتا ہے۔ اگر آپ الفضل آن لائن کے مستقل قاری ہیں اور اداریہ کو پڑھتے ہیں تو غور کریں کہ کس طرح اچھوتے خیال کی بنیاد پر ایک مضمون ترتیب دیا جا سکتا ہے۔ وہ خیال کوئی محاورہ ہو سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر گردش کرتا کوئی قول ہو سکتا ہے، کسی مضمون کا عنوان ہو سکتا ہے۔ کسی شعر کا مصرعہ ہو سکتا ہے۔ کیا معلوم کون سا لمحہ اور کون سا لفظ آپ میں پورا ایک مضمون بیدار کر جائے۔ بشرطیکہ غور کی عادت ہو۔

(مدثر ظفر)

پچھلا پڑھیں

انڈیکس مضامین مئی 2022ء الفضل آن لائن لندن

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ