• 27 اپریل, 2024

ہمیں اپنے جائزے بھی لینے ہوں گے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پس جب یہ ہر احمدی کا فرض بھی ہے کہ اس پیغام کو پھیلائے تو پھر جیسا کہ مَیں اکثر کہتا رہتا ہوں کہ ہمیں اپنے جائزے بھی لینے ہوں گے کہ ہم جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں ہم میں سے کتنے ہیں جو چوبیس گھنٹے میں ایک مرتبہ یا ہفتے میں ایک مرتبہ یا مہینے میں ایک مرتبہ اس بات پر گہرا غور کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر ہم اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف منسوب سمجھتے ہیں توپھر منسوب ہو تے ہوئے ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں؟ ان پر کبھی غور کیاکہ ہماری عبادتوں کے معیار کیا ہونے چاہئیں؟ ہمارے اخلاق کے معیار کیا ہونے چاہئیں؟ ہم جو یہ دعویٰ کرتے ہیں اور فخر سے بتاتے ہیں کہ ہمارے اندر خلافت علیٰ منہاجِ نبوت قائم ہے تو اُس کی مدد کرنے کے لئے ہم کیا کردار ادا کر رہے ہیں؟ پس یہ سوچنے کا مقام ہے۔ اللہ تعالیٰ کے رحم نے تو جوش مارا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جیسے عظیم انسان اور آنحضرتؐ کے عاشقِ صادق کو ہماری اصلاح کے لئے بھیجا ہے اور ہمیں اس بات کی توفیق عطا فرمائی ہے کہ ہم اُس کی بیعت کر لیں۔ لیکن کیا اس عظیم انسان کی بیعت کر لینا ہی کافی ہے۔

جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آخری زمانہ بھی پہلے زمانے کی طرح بہتر اور مبارک ہے تو آپ کی اس سے مراد یہ تھی کہ مسیح محمدی کے ماننے والے اُس عظیم انقلاب کے لانے کا باعث بنیں گے جس کے لانے کے لئے مسیح موعود کو بھیجا گیا ہے۔ وہ اس تغیرکو زمانے میں لانے میں حصہ دار بنیں گے جس تغیر کے لانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مبعوث فرمایا گیا تھا۔ وہ جنت دنیا میں پیدا کرنے کا ذریعہ بنیں گے جو آئندہ کی زندگی کی جنت کا وارث بنانے میں بھی مدد گار ہو گی۔ پس آج ہر احمدی کا کام ہے کہ وہ انقلاب لانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ زمانے میں ایک عظیم تغیر لانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ دنیا کو جنت بنانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ اور اس کے لئے ہمیں قرآنِ کریم کی طرف رجوع کرتے ہوئے اُس کے احکامات پر غور کرنا ہو گا اور جب ہم اپنی زندگیوں کو اُس طرح ڈھال لیں گے جس سے انقلاب پیدا ہوتے ہیں، جس سے تغیر پیدا ہوتے ہیں، جس سے دنیا بھی جنت بن جاتی ہے تو ان شاء اللہ تعالیٰ دنیا ہمارے پیچھے آئے گی اور ضرور آئے گی۔ آج ہم کمزور ہیں، بظاہر دنیا کی نظر میں ہماری کوئی حیثیت نہیں، ہر جگہ ہم ظلموں کا نشانہ بن رہے ہیں لیکن جب ہم اپنی بیعت کی حقیقت کو جانتے ہوئے ایک نئے عزم کے ساتھ اُٹھیں گے تو اگر ان لوگوں کو توفیق نہ ملی تو ان کی نسلیں ضرور ایک دن مسیحِ محمدی کے غلاموں میں شامل ہونا اپنا فخر سمجھیں گی۔ پس اپنے قول و فعل کو اپنی بیعت کا حق دار بنانے کی ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے۔ ان مغربی ممالک میں دنیا کی رنگینیوں میں غائب نہ ہو جائیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اجتماعات اور جلسے آپ کی زندگیوں پر اثر ڈالتے ہیں تو اس اثر کو عارضی نہ رہنے دیں بلکہ انہیں زندگیوں کا حصہ بنائیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں ایسے لوگ ہیں جو اس حقیقت کو سمجھتے ہیں، اپنے نفس کی قربانیاں بھی کرتے ہیں اور اس کی روح کو سمجھ کر کرتے ہیں۔ یہ لوگ نوجوانوں میں بھی ہیں، مَردوں میں بھی ہیں، عورتوں میں بھی ہیں۔ پہلے مجھے واقفینِ نوَنوجوانوں کی یہ فکر ہوتی تھی کہ اُن کو پتہ ہی نہیں تھا کہ وقفِ نَو کیا چیز ہے؟ جوان ہو گئے ہیں لیکن سمجھتے تھے کہ جو واقفینِ نَوجامعہ میں چلے گئے وہی جماعت کاکام کرنے والے ہیں۔ باقی کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے کام شروع کر دئیے اور مرکز کو پتہ ہی نہیں ہوتا تھا کہ کہاں گیا واقفِ نَو؟ سمجھتے تھے کہ وقفِ نو کا نام ہمیں مل گیا بس یہ کافی ہے۔ لیکن اب یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے جو سٹوڈنٹ ہیں، اُن سے بھی پوچھو تو یہی بتاتے ہیں کہ ہم یہ تعلیم آپ سے پوچھ کر، مرکز سے پوچھ کر حاصل کر رہے ہیں اور ختم کرنے کے بعد مکمل طور پر جماعت کی خدمت کے لئے حاضر ہو جائیں گے۔ ان شاء اللہ۔ پس یہ روح اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہے۔ اس ماحول میں رہتے ہوئے اپنے آپ کو غلط کاموں سے، غلط باتوں سے پاک رکھنے کی کوشش کریں اور یہ لوگ پاک رکھنے کی کوشش کرتے بھی ہیں۔ مالی قربانی کا سوال ہے تو کل ہی ایک خاتون ایک ڈھیر سونے کے زیورات کا مجھے دے گئیں کہ مَیں نے جماعت کو دینے کا عہد کیا ہوا تھا اب یہ مجھ پر حرام ہے۔ باوجود میرے کہنے کے کہ اپنے لئے کچھ رکھ لو یہی کہا کہ جو عہد مَیں نے اپنے خدا سے کیا ہے اس کو پورا کرنے سے مجھے نہ روکیں۔ پس یہ انقلاب ہی تو ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی جماعت کے افراد میں پیدا کیا ہے۔ یہ لوگ عبادت کرنے میں بھی خشوع و خضوع دکھانے والے ہیں۔ شریعت کے دوسرے احکام میں بھی عمل کرنے والے ہیں۔ چاہے وہ کاروباری معاملات ہوں یا گھریلو معاملات تا کہ گھر بھی اور معاشرہ بھی جنت نظیر بن جائے۔ اس زمانے میں جب ہر طرف دنیا داری اور نفسا نفسی کا غلبہ ہے، نیکیوں کا جاری کرنا اور اُنہیں جاری رکھنا اور پھر اللہ تعالیٰ سے استقامت کی دعا مانگنا، یہ یقیناً اللہ تعالیٰ کی رضا کا باعث بناتاہے اور جیسا کہ میں نے کہا، ایسے لوگ تو ہیں لیکن ایسے لوگوں کی بھی بہت بڑی اکثریت ہونی چاہئے تا کہ ہمارا پورا ماحول اور ہمارا معاشرہ اس دنیا میں بھی اور آئندہ دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کی جنتوں کا وارث بنا رہے۔ اور مسیح موعود کے زمانے کے لئے تو اللہ تعالیٰ نے ویسے بھی فرمایا ہے کہ اُس زمانے میں جنت قریب کر دی جائے گی۔ جیسا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَ اِذَا الۡجَنَّۃُ اُزۡلِفَتۡ (التکویر: 14) اور جب جنت کو قریب کر دیا جائے گا۔ پس خوش قسمت ہیں وہ جو مسیح موعود کی بیعت میں آ کر اس قریب کی ہوئی جنت سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں اور فکر کا مقام ہے اُن لوگوں کے لئے جو اللہ تعالیٰ کے اس انعام سے بھر پور فائدہ نہیں اُٹھا رہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ صرف ایک قسم کی نیکی کرنے سے تم اللہ تعالیٰ کی مکمل رضا کے حقدار بن جاؤ گے بلکہ تمام نیکیوں کو بجا لانے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے (ماخوذ از ملفوظات جلدنمبر3 صفحہ615۔ ایڈیشن 2003ء) تا کہ اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر تم پر پڑے۔ پس ہمیں اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر حاصل کرنے کے لئے اپنے تمام اعمال پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے تا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت سے جو جنت ہمارے قریب کر دی گئی ہے اُسے پکڑ سکیں۔

(خطبہ جمعہ 23؍ ستمبر 2011ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 جولائی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 جولائی 2021