• 15 مئی, 2024

والدہ صاحبہ ڈاکٹر خورشید رزاق کی یاد میں

ترجمہ: نوید الظفر۔ لندن
والدہ صاحبہ ڈاکٹر خورشید رزاق کی یاد میں

میں اپنی والدہ ڈاکٹر خورشید رزاق کی یاد میں کچھ لکھنا چاہتا ہوں جومنگل 19جنوری کو امریکہ کے شہر کنیکٹیکٹ میں انتقال کر گئیں۔ میرے والد عبدالرزاق صاحب کا پہلے ہی 1997ء میں انتقال ہوگیا تھا۔ والد صاحب کی وفات کے بعد ہماری والدہ صاحبہ نے اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کے باوجود ہماری پرورش میں والد کی کمی کبھی محسوس نہ ہونے دی۔

میری والدہ محترمہ ہمارے خاندان میں رہ جانے والے اُن چند بزرگوں میں سے ایک تھیں جن کو حضرت مسیح موعودؑ کے صحابہ کی صحبت نصیب ہوئی اور جنہوں نے ان سے تربیت کی توفیق پائی۔ ان کی اپنی ذات اور طبیعت میں بھی صحابہ کا سا رنگ پایا جاتا تھا۔

آباؤ اجداد

ڈاکٹر خورشید صاحبہ کا تعلق رئیسِ لاہورحضرت میاں چراغ دینؓ اور حضرت میاں معراج دینؓ کے خاندان سے تھا۔ جن کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبہ ’’جماعت احمدیہ لاہور کی ذمہ داریاں‘‘ کے آغاز میں اس رئیس خاندان کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اخلاص و محبت کے تعلق کا ذکر فرمایا ہے۔ حضورؓ فرماتے ہیں: ’’میاں چراغ دین صاحب اور میاں معراج دین صاحب کا خاندان اپنے پرانے تعلقات کے لحاظ سے جو بیعت سے پہلے کے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نگاہ میں بہت قرب رکھتا تھا …میرے عقیقہ پر جن دوستوں کو شامل ہونے کی دعوت دی گئی تھی ان میں میاں چراغ دین صاحب بھی تھے۔ پس اس جگہ پر جماعت کی بنیاد ایسے لوگوں سے پڑی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اس وقت سے اخلاص رکھتے تھے جب ابھی آپ نے دعویٰ بھی نہیں کیا تھا۔ پھر خدا تعالیٰ نے ان خاندانوں کو ترقی دی اور وہ اخلاص میں بڑھتے چلے گئے‘‘۔ حضورؓ مزید فرماتے ہیں کہ ’’پس لاہور میں یہی واحد اتنا بڑا رئیس خاندان تھا جو کہ اصل لاہور کے باشندگان پر مشتمل تھا جس نے قریباً اجتماعی طور پر بیعت کر لی تھی … یہ اللہ تعالیٰ کا خاص الخاص فضل تھا …اس طرح خاندان میاں فیملی لاہور میں احمدیت کی تقویت کا باعث بنا اور یہاں ایک مضبوط مخلص جماعت بن گئی۔

(بحوالہ لاہور تاریخ احمدیت مولف شیخ عبد القادر سوداگر مل منقول ازروزنامہ الفضل13 دسمبر1961ء)

ان کے والدین دونوں ہی صحابی تھے۔ ان کے والد حضرت ماسٹر مرزا نذیر حسینؓ (صحابی) حضرت حکیم محمد حسینؓ (مرہم عیسیٰ) کے بیٹے تھے۔ اور ان کی والدہ حضرت عبدالعزیز مغلؓ (صحابی) کی بیٹی تھیں۔ دونوں بھائیوں نے اپنی پوری زندگی جماعت اور انسانیت کی خدمت میں صرف کی۔ حضرت مسیح موعودؑ کو حکیم محمد حسینؓ کے بارے میں اللہ کی طرف سے یہ پیغام دیا گیا تھا کہ وہ برطانوی حکومت کے خلاف مرہم عیسیٰؑ کے بارے میں اپنے عدالتی مقدمے میں کامیابی حاصل کریں گے۔ عبد العزیز مغل صاحبؓ ایک ایسے پُرجوش مبلغ تھے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں ہزار وں لوگوں کی بیعت کروانے کی توفیق پائی۔ وہ جب گھر سے باہر کچھ خریدنے جاتے تو اصل مقصد کو بھول کر تبلیغ میں اس قدر مصروف ہو جاتے کہ رات دیر سے گھر لوٹتے۔ مخالفین کے جلسوں میں بِلا خوف چلے جاتے اور پنجابی زبان میں اُونچی آواز میں اعلان کرتے ’’لوکو عیسیٰؑ آ گیا جے‘‘

حضرت مسیح موعودؑ لاہور میں اکثر انہیں کے گھروں میں قیام فرمایا کرتے تھے۔

والدین

میرے ناناجان حضرت ماسٹر مرزا نذیر حسینؓ کی پیدائش لاہور میں ہوئی تھی لیکن جب ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا تو وہ ابھی نوعمری میں ہی تھےکہ انہیں خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے گھرلے گئے اور پھر انہوں نے قادیان میں ہی پرورش پائی جبکہ ان کا باقی خاندان لاہور میں تھا۔

تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ کا تقرر قادیان کے تعلیم الاسلام کالج میں بطور اُستاد ہوا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نےناناجان کو اپنے بچوں کی تعلیم کی ذمہ داری سونپ رکھی تھی۔ اور اس طرح میرے نانا جان کو دو خلفاء یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ اور حضرت خلیفۃ المسیح الربع ؒ کے استاد ہونے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ جب بھی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ اپنے خاندان کے ساتھ چُھٹیاں گزارنے ڈلہوزی یا دوسرے مقامات پر تشریف لے جاتے تو میرے ناناجان حضرت ماسٹر مرزا نذیرحسینؓ بطور استاد اپنی فیملی کے ساتھ وہاں قیام کی توفیق پاتے۔ خاندان حضرت مسیح موعودؑ کی صحبت کی اس توفیق ملنے کا بڑا نیک اور گہرا اثر میری والدہ ڈاکٹر خورشید صاحبہ اور ان کے بہن بھائیوں کی تربیت پر بھی رہا۔ میرے ناناجان حضرت ماسٹر مرزا نذیر حسینؓ کو قرآن کریم سے ایک خاص عقیدت تھی اور ہمیشہ مضامین کی تحقیق میں مصروف رہتے تھے اور اپنی وفات تک نہایت باریک چھوٹی تحریر میں قرآنِ کریم کے صفحات میں اپنے نوٹس تحریر کرکے رکھتے رہے۔

میری نانی امتہ العزیز بیگمؓ نے بھی رئیسِ لاہورحضرت میاں چراغ دینؓ و میاں حضرت میاں معراج دینؓ کی اولاد ہونے کے باوجود ایک بہت ہی عام زندگی گزارنے میں میرے نانا جان کا بھرپور ساتھ دیا۔ وسائل محدود ہونے کے باوجود وہ ہمیشہ دوسروں کی دیکھ بھال کرتے تھےجبکہ ان کا اپنے خاندان کی ضروریات پوری کرنا بھی مشکل تھا۔ تقسیم کے بعد ان کے خاندان کو لاہور آنا پڑا اور اگرچہ ان کا گوالمنڈی لاہور میں بہت چھوٹا گھر تھا مگر پھر بھی میرے نانا نے اپنی بیوہ بہن اور ان کے بچوں کو ایک منزل رہائش کیلئے دے رکھی تھی۔ یہاں تک کہ انھوں نے اپنے ایک نواسے اور نواسی کو بھی لاہور لا کر رکھا تاکہ وہ تعلیم حاصل کرسکیں کیونکہ اُنہیں اپنی اولاد کواعلیٰ تعلیم دلوانے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ ان کے وہ نواسے اسلام آباد پاکستان کے ڈاکٹر پیر محمد نقی الدین تھے جن کی گزشتہ سال وفات پر حضورِ اَقدس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ میں بہت تفصیل سے ان کا تذکرہ کیا۔ ڈاکٹر پیر محمد نقی الدین میری والدہ کی بڑی بہن کے بیٹے تھے۔

والدہ صاحبہ ڈاکٹر کیسے بنیں؟

جب میری والدہ اپنے ہائی اسکول سے فارغ ہو رہی تھیں تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے تحریک کی کہ خواتین تعلیم کے شعبہ میں سبقت لیں اور طِب اور تعلیم جیسے پیشہ میں جائیں۔ میرے نانا ہمیشہ طِب کے پیشہ کی قدر کرتے تھے کیونکہ ان کے والد صاحب ایک مشہور حکیم تھے لیکن والدہ کے انتقال کے وقت کم عمری کے سبب وہ خود حکمت کے پیشے کو آگے نہیں بڑھا سکے۔ انہوں نے ہمیشہ طب کے پیشہ کو مقدس سمجھا اور یہی وجہ ہے کہ میری والدہ ڈاکٹر بن گئیں۔ حقیقت میں میری والدہ نے خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ سے ایک ملاقات کے دوران بالکل رخصت ہوتے ہوئے حضور کی تحریک کے حوالے سے پوچھا ’’حضور میں ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں‘‘ حضور نے فرمایا یقیناً۔ میری والدہ نے وضاحت کی کہ ان کے والد (میرے نانا) نے ابھی تک ایک درویشی کی زندگی گزاری ہے اور ان کے پاس میڈیکل اسکول میں داخلہ فیس کے لئے بھی پیسے نہیں تھے۔ حضور نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور کچھ رقم نکال کردی جو معجزانہ طور پر اتنی ہی تھی جو فاطمہ جناح میڈیکل کالج لاہور میں داخلہ فیس کے لئے درکار تھی۔ میری والدہ اکثر کہا کرتی تھیں کہ خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی دعاوں کی وجہ سے اللہ نے ابتدائی چار سالوں تک ان کو اپنی کلاس میں اوّل درجہ پر رہنے اور اسکالرشپ حاصل کرنے کی تو فیق عطاء فرمائی۔

اپنی ڈاکٹری کی پڑھائی کے پانچویں سال کے دوران ان کی اپنی کلاس میں دوسری پوزیشن آ گئی اور وظیفہ نہ مل سکا۔ وہ ہمیشہ یہ کہتی تھیں کہ اُن کا ماننا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جان بوجھ کر انہیں دوسری پوزیشن دی تاکہ وہ کبھی بھی تکبر کا شکار نہ ہوں اور دوسرا یہ نشان ظاہر کرنے کیلئے کہ جب انہیں وظیفہ کی ضرورت نہیں تھی تو وہ اَوّل نہ آئیں مگر ان کا شمار ہمیشہ اعلیٰ طالب علموں میں رہا۔

نافع الناس وجود

میری والدہ کو ایسے وقت میں ڈاکٹر بننے کی توفیق ملی جب خواتین ڈاکٹروں کی ضرورت تھی۔ وہ پاکستان میں ماہر امراض نسواں تھیں۔ کراچی میں وہ ان پڑھ خواتین کے ساتھ اس قدر محبت اور پیار کا سلوک کرتی تھیں کہ وہ دور دراز سندھ کے دیہاتوں سے بھی ان کے پاس آتی تھیں۔ وہ اردو بہت کم بول سکتی تھیں لہذا میری والدہ نے سندھی زبان سیکھی تاکہ ان کی بولی میں ان سے بات کرنے کے قابل ہوسکیں تاکہ دیہاتی خواتین ان سے ایک دوست کی طرح اپنی مشکل اور پریشانی کھل کر بیان کر سکیں۔ اپنے باقاعدہ اسپتال کے اوقات کے علاوہ ہفتہ میں دو دن شام کو ایک مفت کلینک بھی چلاتی تھیں۔ مفت دوائیں بھی دیتی تھیں اور یہاں تک کہ ا کثر انہیں گھر واپسی کے سفر کے لئے نقد رقم بھی مہیا کردیا کرتی تھیں۔تاکہ دیہاتی خواتین کو والدہ کے اسپتال تک کراچی پہنچنے کیلئے لمبا فاصلہ طے کرکے آنے میں کوئی دشواری نہ ہو اور ان کی صحت کو نقصان نہ پہنچے۔ دوسری انتہا پر میری والدہ کے ہاتھ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے شفاء کے نتیجہ میں ایسے مریضوں کی بھی بڑی تعداد تھی جو حیثیت سے متمول خواتین تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ ان کے اسپتال کے باہر طویل شیورلیٹ کاریں اور دوسری مہنگی کاریں بھی کھڑی ہوتی تھیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ انہیں معلوم تھا کہ ہم احمدی ہیں ان میں سے زیادہ تر خواتین میری والدہ اور ہمارے کنبے کے ساتھ زندگی بھر کی دوست بن جاتی تھیں۔ ان میں سے بہت سی خواتین اکثر آدھی رات کے وقت اپنے نوزائیدہ بچے کے ساتھ ہمارے گھر کسی چھوٹی سی تکلیف یا بخار کی وجہ سے پریشان ہو کر آ جاتی تھیں اور میری والدہ ان کا استقبال ایسے کرتی تھیں جیسے ہمارے گھر میں دن کا وقت ہو۔ یہاں تک کہ اگر انہیں زیادہ پریشان دیکھتیں تو انھیں کبھی کبھی ہمارے گھر رات رہنے کی اجازت دے دیتیں۔ تاکہ ان کے نوزائیدہ بچے کی دیکھ بھال میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔

بحیثیت بیٹی

میری والدہ ہمیشہ اپنے والدین یعنی میرے نانا اور نانی کی بہت دیکھ بھال کرتی تھیں۔ مثال کے طور پر1971ء کی جنگ کے دوران چونکہ لاہور ہندوستان کی سرحد کے قریب تھا اس لئے میرے نانا نانی ہمارے ساتھ کراچی میں قیام کرنے آ گئے تھے۔ ایک ڈاکٹرہونے کے ناطے میری والدہ کو دن یا رات میں کسی بھی وقت بچے کی پیدائش کے لئےبلایا جاتا تھا۔ اسپتال میں اپنے گھنٹوں رہنے کے باوجود جب وہ گھر آتیں تو اپنے آرام کی بجائے وہ ہمیشہ میرے نانا اور نانی کی ہر طرح سے خدمت کے لئے مصروف رہتیں۔

میری والدہ بتاتی تھیں کہ ان کی والدہ (میری نانی امی) نے میری والدہ کی تربیت میں اس بات کا بہت خیال رکھا کہ وہ نہ صرف تعلیم یافتہ ہوں اور ڈاکٹر بنیں بلکہ گھریلو کاموں میں بھی انہیں عبور ہو۔ اس لیے تعلیم کے ساتھ ساتھ میری والدہ کو گھریلو کام کے شیڈول پر بھی عمل پیرا ہونا پڑتا جو میری نانی اپنے سب بچوں کو دیتی تھیں۔ چونکہ میری نانی گھر کے تمام کاموں میں بہت اچھی تھیں اس نے اس بات کو یقینی بنادیا کہ ان کے سارے بچوں کو بھی اچھی طرح سے عبور حاصل ہو۔ میری والدہ اس وجہ سے ایک ماہر ڈاکٹر ہونے کے ساتھ گھر داری کے کاموں میں جیسے کھانا پکانے، کپڑے سلائی کرنے بچوں کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھنے میں ہر طرح سے کامیاب رہیں۔ جب ہم کراچی پاکستان میں رہتے تھے تو ہمارے پاس کچھ نوکر تھے جن میں ایک ڈرائیور بھی شامل تھے۔ میری والدہ ہمیشہ نوکروں کے ساتھ عزت اور وقار اور برابری کے ساتھ پیش آئیں جیسے یہ ہمارے ہی خاندان کا حصہ ہیں۔ وہ کسی بھی طبی ضروریات کے لحاظ سے ان کی دیکھ بھال کرتی اور مثال کے طور پر عید کے موقع پر انہیں عیدی مل جاتی اور میرے والدین ان کے اور ان کے بچوں کے لئے تحائف خریدتے۔

اپنی اولاد سے تعلق اور تربیت

میری والدہ نہ صرف ہماری اچھی تربیت کا ہر وقت خیال رکھتی تھیں بلکہ ہماری اولاد کی بہترین تربیت کے لیے ہر دم کوشاں رہتی تھیں۔ میرے بڑے بیٹے کو جب تعلیم کیلئے دوسرے شہر جانا پڑا تو اپنی بیماری اور ضعیف العمری کے باوجود اپنا گھر چھوڑ کر ویسٹ ورجینیا میں خود اس کے ساتھ رہتی تھیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ اپنی میڈیکل اسکول کی تعلیم بھی ان کے سایہِ شفقت میں رہ کر حاصل کر سکے۔ جب میرا دوسرا بیٹا لاء اسکول میں داخل ہوا تو وہ اس کے ساتھ بھی رہنے کے لئے نیو یارک جانے کے لئے تیار تھیں۔ اس طرح والدہ نہ صرف میرے بچوں کے لئے ہر وقت دعائیں کرتی تھیں بلکہ وہ خود ہر وقت انکے پاس رہنے کے لیے بھی تیار رہتی تھیں۔ مجھے معلوم ہے کہ وہ زندگی کے آخری دن تک ان کے لئے دعا کرتی رہیں۔

خاندان کی بزرگ کی حیثیت سے انہوں نے نہ صرف اپنے بچوں بلکہ اپنے بہن بھائیوں کے بچوں سے بھی تعلق رکھا۔ آخری وقت تک ہر ماہ مختلف ممالک میں آباد بہن بھائیوں کے اکثر بچوں اور پھر ان کے بھی بچوں کو باقاعدگی سے فون کرتی تھیں۔

بحیثیت ڈاکٹر ریاست کنیکٹیکٹ امریکہ کیلئے خدمات

میں آپ کو انسانیت کی خدمت کےلیے کی جانے والی کاوشوں کی کچھ مثالیں بھی دینا چاہتا ہوں اور ان کے ساتھ کام کرنے والوں کی طرف سے ان کا کس طرح احترام کیا گیا۔ جب وہ کنیکٹیکٹ آئیں تو اسوقت ان کی عمر زیادہ ہوچکی تھی۔ مگر جب انہوں نے دیکھا کہ کنیکٹیکٹ میں دماغی چوٹ کے علاج اور نگہداشت کا کوئی یونٹ نہیں اورجو لوگ دماغی چوٹ کی وجہ سے اسپتالوں میں داخل تھے ان کا علاج معالجہ بھی دوسرے نفسیاتی مریضوں کے ساتھ کیا جارہا تھا۔ میری والدہ نے ریاست کنیکٹیکٹ کے اٹارنی جنرل کے ساتھ مل کر ایسے مریضوں کیلئے الگ علاج کی سہولت کے لئے کیس دائر کیا اور ماہرڈاکٹر کی حیثیت سےشامل رہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی دعاوں کے ساتھ ریاست نے آخر کار پانچ سال عدالت میں لڑنے کے بعد مقدمہ جیت لیا۔ میری والدہ کو مڈل ٹاؤن کنیکٹیکٹ کے کنیکٹیکٹ ویلی اسپتال میں ٹرومیٹک دماغی چوٹ کے لئے ایک نیا یونٹ شروع کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔ 2007ء میں ریٹائر ہونے تک وہ اس یونٹ کی سربراہ رہیں۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے وقت پوری ریاست کنیکٹیکٹ کے انچارج اعلی ڈاکٹر نے بتایا کہ میری والدہ نے 100 سے زیادہ ٹرومیٹک برین انجری کے مریضوں کا علاج کیا اور 20 سے کم مریضوں کو دوبارہ داخل ہونے کی ضرورت پیش آئی۔ جو دوسرے ڈاکٹروں کے مریضوں کے مقابلہ میں بہت کم تعداد تھی۔ حیران کن بات یہ تھی کہ وہ اپنے مریضوں کے علاج کے لئے اس شعبہ میں موجود دیگر ڈاکٹروں کی نسبت صرف 18۔20 فیصد دواؤں کا استعمال کررہی تھی۔ اگرچہ دوسرے ڈاکٹر ادویات کا دینے میں جلدی کرتے تھے۔ ان میں سے کچھ اپنے مضر اثرات کی وجہ سے نقصان دہ تھیں لیکن میری والدہ ہمیشہ مریض کی تفصیل سے بہت وقت لگا کر بات سننے کی کوشش کرتی تھیں پھر دعا کرتی تھیں اور جب تک کسی دوائی کا دینا ضروری نہ ہو جاتا اس وقت تک دوا دینے سے پرہیز کرتی تھیں۔ مجھے واضح طور پر یاد ہے کہ میری والدہ ہمیشہ میرے بڑے بیٹے کو یہ کہتی رہتی تھیں کہ جب آپ ڈاکٹر بن جائیں تو آپ ہمیشہ اپنے مریضوں کے لئے دعا کرنا اللہ سے رہنمائی طلب کرنا کیونکہ جب آپ ان کا علاج کرتے ہو تو ان کے لئے اللہ تعالیٰ کے وسیلہ کی حیثیت سے مشورہ دیتے ہو۔ دراصل اللہ ہی شفاء بخشنے والا ہے۔ وہ خود بھی واقعی ہی اس پر یقین رکھتی تھیں اور اس پر عمل کرتی تھیں۔ وہ اکثر ہمیں بتاتی تھیں کہ انہیں اپنے دادا حکیم محمد حسینؓ مرہم عیسیٰ کو اس طرح کرتے دیکھا۔

امریکہ بیماری کے دوران اسپتال میں

میری والدہ ایک انتہائی باہمت، دھیمےمزاج کی شفیق، شائِستہ اور بردبار طبیعت کی مالک تھیں۔ ایک بار اپنی بیماری کے دوران جب وہ گھٹنوں کے آپریشن کے بعد ریکوری روم میں تھیں تو میں لنچ کے اوقات میں ان سے ملنے گیا۔ ایک نرس انہیں دوائی دینے آئی۔ یہ نا جانتے ہوئے کہ میری والدہ میڈیکل ڈاکٹر ہیں نرس اونچی آواز میں میری والدہ کو تفصیل سے یہ بتانے لگی کہ ان کے لیے یہ دوا کیوں ضروری ہے۔ میں اپنی والدہ کے ساتھ بیٹھنے کے لئے وقت لینا چاہتا تھا لہذا میں نے وقت بچانے کے لیے نرس کو بتایا کہ میری والدہ ڈاکٹرہیں اور انگریزی جانتی ہیں اوروہ کنیکٹیکٹ ریاست میں ٹرامیٹک دماغی چوٹ کے یونٹ کی سربراہ تھیں۔ لہذا اس دوا کے بارے میں پہلے ہی جانتی ہیں۔ جب نرس کمرے سے چلی گئی تو میری والدہ شائستگی سے مجھے کہنے لگیں کہ مجھے نرس کو اپنا کام کرنے اور دوائیوں کی وضاحت کرنے دینا چاہئے تھا – وہ ہمیشہ چاہتی تھیں کہ ہر کسی سے اس کی سطح پر آ کر بات کریں۔ یہاں تک کہ ماہر ڈاکٹر کی حیثیت بھی ہمیشہ یہی کوشش رہتی کہ اپنے شعبہ میں موجود عملہ اور مریضوں سے کبھی بھی کوئی ایسی بات نہ کرتی تھیں جس سے وہ اپنے آپ کو آپ سے کم علم محسوس کریں۔

امریکہ میں جماعتی خدمات

میری والدہ کو 1990ء میں شروع ہونے والی کنیکٹیکٹ جماعت کے لئے صدر لجنہ کی حیثیت سے خدمت دین کا موقع ملا۔ کنیکٹیکٹ میں کچھ احمدی ممبر تھے لیکن تعداد بہت کم تھی۔ جب میری شادی 1989ء میں ہوئی تو میرے والدین کنیکٹیکٹ کے بالکل ٹھیک باہر ڈچس کاؤنٹی نیویارک چلے گئے تھے تاکہ وہ ہر ہفتے کے آخر میں مجھے ملنے آئیں۔ نیوجرسی سے تعلق رکھنے والی میری بہن بھی مجھ سے ملنے کنیکٹیکٹ آتی تھیں۔ ابتدائی طور پر یہ صرف ہمارے کنبے کے افراد اور دیگر دو کنبوں کے افراد تھے جنہوں نے کنیکٹیکٹ کی جماعت کو تشکیل دیا۔ پھر آہستہ آہستہ اور لوگ بھی کنیکٹیکٹ میں منتقل ہوگئے اور یہ تعداد تقریبا 20-30 ممبران تک پہنچ گئی۔ اس طرح سے کنیکٹیکٹ کی جماعت کا آغاز ہوا۔ آج ہماری جماعت میں اللہ کے فضل ماشاء اللہ سے 300 سے زیادہ احباب شامل ہو چکے ہیں۔ میری والدہ نے 10 سال تک لجنہ صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں جس کے بعد میری بہن صدر ہوگئیں لیکن چونکہ ہمارے کنیکٹیکٹ میں مسجد نہیں تھی جماعت کے تمام پروگرام میرے والدین کے گھر مڈل ٹاؤن کنیکٹیکٹ میں ہوتے تھے۔ جس میں نماز جمعہ بھی شامل تھی۔ عید کی دو نمازیں میرے والدین کے کنیکٹیکٹ میں بڑے گھر میں منعقد کی گئیں کیونکہ وہاں جماعت کے 100 ممبران بھی شامل ہوسکتے تھے۔ میری والدہ اور بیوی کھانا پکاتے جبکہ میرے والد اور میں اپنے بچوں کے ساتھ گھر کی صفائی کرتے تھے – ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ہمارا اپنا کنبہ ملنے آرہا ہے اور جماعت کے ممبران بھی اسی طرح محسوس کرتے تھے۔

پچھلے 30 سالوں کے دوران جب میری والدہ کنیکٹیکٹ جماعت میں تھیں بہت سی شادیاں ہوئیں اور لجنہ دوسری ریاستوں یا ممالک سے یہاں تک کہ پاکستان سے بھی آرہی تھیں اور ان سب کے لئے میری والدہ ایک شفیق ماں کی حیثیت رکھتی تھیں۔ وہ لجنہ کی تمام ممبرات سے بے حد پیار کرتی تھی اور ان میں سے ہر ایک ان کے لیے دعا کرتی تھی- یہ پیار اور تعلق دو طرفہ تھا اور لجنہ بھی ان سے اپنی ماں کی حیثیت سے احترام اور پیار کا تعلق رکھتی تھیں۔

خلافت سے تعلق

میری والدہ ہمیشہ ہر دور میں خلفاء سے والہانہ عقیدت و محبت کا تعلق رکھا اور ہمیشہ خلفاء کی ہدایات سننے اور ان پر عمل کرنے کی پوری کوشش کی۔ وہ خوش قسمتی سے چار خلفاء یعنی خلیفۃ المسیح الثانیؓ، خلیفۃ المسیح الثالثؒ، حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ سے ذاتی طور پر ملاقاتوں کا شرف حاصل کرتی رہیں۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ قادیان میں ان کی والدہ ہر جمعہ کو خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے گھر جاتی تھیں۔ وہ حضورؓ کے باورچی خانے میں مٹی کے چولہے دوبارہ تعمیر کرتیں۔ کیونکہ وہ کھانا بہت اچھا پکاتی تھیں لہٰذ ا انہوں نے یہ توفیق بھی پائی کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ اور ان کےکنبہ کے لئے پراٹھے بناتیں۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیالے میں سے تھوڑا سا کھانا کھاتےاورباقی بطور تبرک باورچی خانے سے واپس بھیج دیا کرتے تاکہ میری نانی اور میری والدہ کے سب بہن بھائی اس پیالے سے کھا سکیں۔ انہیں اکثر آپؓ کو دیکھنے کا موقع بھی ملتا رہتا۔

میری والدہ ہمارے خاندان کے اُن چند بزرگ افراد میں سے ایک تھیں جنہوں نے خلفاء کی صحبت پائی۔ جنہوں نے براہ راست صحابہ ہی سے تربیت کی توفیق پائی اور زندگی بسر کرنا سیکھا۔ وہ ہمارے خاندان کی پہلی خاتون ڈاکٹر تھیں اور وہ اس کردار میں انسانیت اور جماعت دونوں کی خدمت کرنے میں کامیاب رہیں۔ الحمدللّٰہ۔ وہ اپنی زندگی کے آخری دن تک پنجوقتہ نمازوں، نوافل کی ادائیگی، دعاؤں اور تفسیر کے ساتھ قرآن پاک پڑھنے کے سلسلے میں ہمارے لئے ایک مضبوط مثال بنتی رہیں۔ 2019ء میں لندن آکر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ملاقات کرنے کی توفیق پائی۔ جب حضورِ اقدس نے فرمایا کہ ’’آپ کو اب اس بڑھاپے اور بیماری میں سفر نہیں کرنا چاہئے۔‘‘ تو والدہ کہنے لگیں۔ ’’حضور، میرے لئے ناممکن ہے کہ میں حضور کو ذاتی طور پر دیکھے اور ملے بغیر چلی جاوٴں۔ خدا تعالیٰ کے خصوصی فضل، رحمتیں اور برکتیں آپ کے بابرکت وجود کی صحبت میں رہ کر ہی حاصل ہو سکتی ہیں۔‘‘

اپنے غفور الرحیم ربِ کریم سے دعا ہے کہ وہ ہماری والدہ ڈاکٹر خورشید رزاق سے انتہائی رحم و کرم اور بخشش کا سلوک فرمائے اُن سے راضی ہو جائے۔ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطاء فرمائے۔ اللہ تعالیٰ میری والدہ کی تمام دعاؤں کو قبول فرمائے اور ہمیں اور ہماری اولاد کو اپنے ان بزرگوں کے نقش قدم پر چلنے اور ان کے نیک اعمال کو ہمیشہ جاری رکھنے اور اپنے بزرگوں اورخاندان کی نیک نامی کو ہمیشہ روشن رکھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین ثم آمین۔

(تحریر:ظفر احمد رزاق۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 جولائی 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ