• 2 مئی, 2024

بنیادی مسائل کے جوابات (قسط 24)

بنیادی مسائل کے جوابات
قسط 24

سوال:۔ اس سوال پر کہ روزہ کے دوران اگر کسی خاتون کے ایام حیض شروع ہو جائیں تو اسے روزہ کھول لینا چاہئے یا اس روزہ کو مکمل کر لینا چاہئے۔ نیز جب یہ ایام ختم ہوں تو سحری کے بعد پاک صاف ہو سکتے ہیں یا سحری سے پہلے پاک ہونا ضروری ہے؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 30اپریل 2020ء اس سوال کا درج ذیل جواب عطاء فرمایا۔ حضور نے فرمایا:۔

جواب:۔ عورت کی اس فطرتی حالت کو قرآن کریم نے ’’أَذًى‘‘ یعنی تکلیف کی حالت قرار دیا ہے۔ اور اسلام نے اس کیفیت میں عورت کو ہر قسم کی عبادات کے بجالانے سے رخصت دی ہے۔ اس لئے جس وقت ایام حیض شروع ہو جائیں اسی وقت روزہ ختم ہو جاتا ہے۔ اور ان ایام کے پوری طرح ختم ہونے پر اور مکمل طور پر پاک ہونے کے بعد ہی روزے رکھے جا سکتے ہیں۔ نیز جو روزے ان ایام میں (بشمول آغاز اور اختتام والے دن کے) چھوٹ جائیں، ان روزوں کو رمضان کے بعد کسی وقت بھی پورا کیا جاسکتا ہے۔

سوال:۔ ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے نام اپنے خط میں حضرت ثوبانؓ سے مروی ایک حدیث کہ ’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمہارے ایک خزانہ کی خاطر تین شخص قتال کریں گے (اور مارے جائیں گے) تینوں خلیفوں (حکمران) کے بیٹے ہوں گے لیکن وہ خزانہ ان میں سے کسی کو بھی نہ ملے گا۔ پھر مشرق کی جانب سے سیاہ جھنڈے نمودار ہوں گے وہ تمہیں ایسا قتل کریں گے کہ اس سے قبل کسی نے ایسا قتل نہ کیا ہوگا۔ اس کے بعد آپ نے کچھ اور باتیں بھی ذکر فرمائیں جو مجھے یاد نہیں، پھر فرمایا جب تم ان (مہدی) کو دیکھو تو ان کی بیعت کرو اگرچہ تمہیں برف پر گھٹنوں کے بل گھسٹ کر جانا پڑے۔ کیونکہ وہ خلیفۃ اللہ المہدی ہیں۔‘‘ درج کر کے اس کے ایک حصہ کی تشریح کر کےاس بارہ میں حضور کی رائے دریافت کی۔ نیز حدیث کے ایک حصہ کے بارہ میں مزید وضاحت چاہی ہے۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 30 مئی 2020ءمیں اس سوال کا درج ذیل جواب ارشاد فرمایا۔ حضور نے فرمایا:۔

جواب:۔ آپ نے اس حدیث کا حوالہ البحر الزخار سے درج کیا ہے جبکہ یہ حدیث صحاح ستہ میں سے سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب خروج المہدی میں بھی روایت ہوئی ہے۔ حدیث میں بیان کنز اور خلیفوں کے بیٹوں کے بارہ میں آپ کی بیان کردہ تشریح ایک ذوقی تشریح ہے۔

میرے خیال میں اس حدیث میں آنحضور ﷺ نے امت مسلمہ میں آئندہ زمانہ میں نمودار ہونے والے مختلف واقعات کی خبردی ہے۔ جن میں بعض واقعات دنیاوی امور سے تعلق رکھتے ہیں اور بعض روحانی امور سے متعلق ہیں۔ خزانہ سے مراد اگرچہ بہت سے علماء نے خانہ کعبہ کا خزانہ مراد لیا ہے، مگر وہ خزانہ تو بہت سے حکمرانوں کے ہاتھ لگا بھی ہے۔ اس لئے حدیث میں مذکور خزانہ سے مراد خانہ کعبہ کا خزانہ مراد نہیں ہو سکتا۔کیونکہ حدیث میں حضور ﷺ فرما رہے ہیں کہ وہ خزانہ ان میں سے کسی کو نہیں ملے گا۔

لہٰذا اس سے مراد وہ روحانی خزانہ ہے جس کی آنحضورﷺ نے اپنے بعد خلافت علی منہاج النبوۃ کے اجراء کی صورت میں بشارت عطاء فرمائی تھی۔ اور چونکہ اس خزانہ کو پانے کیلئے قرآن کریم نے سب سے اوّل شرط ایمان اور عمل صالح قرار دی ہے، جو ان دنیاوی حکمرانوں میں مفقود ہو چکی تھی، اس لئے انہوں نے اس کے حصول کیلئے قتال یعنی جنگیں تو بہت کیں لیکن کسی کے ہاتھ وہ روحانی خزانہ نہ آیا۔

اسی لئے اس حدیث میں آنحضورﷺ نے خزانہ کیلئے قتال کرنے والوں کیلئے صرف ’’ابن خلیفۃ‘‘ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ یعنی وہ خلیفہ بمعنی جانشین ہوں گے لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے قائم کردہ خلیفہ یا نبوت کی بناء پر ملنے والی خلافت کے تابع خلیفہ نہیں ہوں گے۔ جبکہ اسی حدیث میں حضور ﷺ نے اس شخص کیلئے جسے یہ خلافت علی منہاج النبوۃ کا روحانی خزانہ ملنا تھا ’’خلیفۃ اللہ المہدی‘‘ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔

اس حدیث میں مسلمانوں کے قتل و غارت کا جو ذکر ہے، آپ نے اس کے بارہ میں اپنا خیال ظاہر کیا ہے کہ وہ مہدی کے ذریعہ ہو گا۔جو میرے نزدیک درست نہیں ہے۔

اگر اس سے مراد ظاہری قتل وغارت اور خونریزی لی جائے تو یہ مہدی کے ذریعہ ہر گز نہیں ہو سکتی بلکہ اس سے مراد حضورﷺ کی ایک دوسری حدیث (مندرج مشکوۃ المصابیح) میں ’’مُلْكًا عَاضًّا‘‘ اور ’’مُلْكًا جَبْرِيَّةً‘‘ کے الفاظ میں بیان پیشگوئی کے مطابق، ان ہر دو ادوار میں مسلمانوں کی آپس کی جنگوں میں ہونے والی خونریزی اور کشت و خون ہے۔ نیز تیرھویں صدی میں منگولوں کے ہاتھوں ہونے والی مسلمانوں کی قتل و غارت مراد ہے۔

خلیفۃ اللہ المہدی کے ذریعہ اس قتل و غارت کے وقوع پذیر نہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ حضور ﷺ نے آنے والے مہدی کی ایک نشانی ’’يَضَعُ الْحَرْبُ یعنی وہ جنگ و جدال اور کشت و خون کا خاتمہ کر دے گا‘‘ (صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسی) بیان فرمائی ہے۔ پس یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک طرف تو حضور ﷺ آنے والے مہدی کو امن و آشتی کا علمبردار قرار دے رہے ہوں اور دوسری طرف اسی کے ذریعہ امت محمدیہ کے افراد کی ایسی خونریزی کی اطلاع دے رہے ہوں جیسی خونریزی پہلے زمانوں میں کبھی کسی نہ کی ہو؟

پھر اس حدیث میں راوی کا یہ بیان کہ ’’اس کے بعد حضورﷺ نے کچھ اور باتیں بھی فرمائیں جو مجھے یاد نہیں۔‘‘ خاص توجہ کا متحمل ہے۔ اور بہت ممکن ہے کہ وہ امور دجال کے ظہور کے بارہ میں ہوں کیونکہ متعدد ایسی روایات کتب احادیث میں موجود ہیں جن میں حضور ﷺ نے دجال کے فتنہ کو سب سے بڑا فتنہ قرار دیا اور اس کے مقابلہ کیلئے اپنی امت کو مسیح موعود کی آمد کی خوشخبری عطاء فرمائی۔ راوی کے مطابق ان باتوں کے بعد حضور ﷺ نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی آمد کا ذکر فرمایا اور ان کی بیعت کو لازمی قرار دیتے ہوئے تاکیداً فرمایا کہ اگر تمہیں برف کی سلوں سے گھٹنوں کے بل گھسٹ کر بھی جانا پڑے تو ضرور اس کی بیعت کرنا، کیونکہ وہ خلیفۃ اللہ المہدی ہے۔

پس حضورﷺ نے اس حدیث میں تین الگ الگ زمانوں کا ذکر فرمایا ہے۔ ایک وہ زمانہ جب حضور ﷺ اور خلافت راشدہ کا مبارک دور حسب منشاء الہٰی اختتام پذیر ہوجائے گا۔ اور اس کے بعد مسلمان آپس میں جنگ و جدال کریں گے اور اپنے ہی لوگوں کو تہہ تیغ کرکے ان کا خون بہائیں گے، اس وقت وہ روحانی خزانہ سے محروم ہو جائیں گے۔ دوسرا وہ زمانہ جب مسلمانوں کے دنیاوی لحاظ سے بھی کمزور ہو جانے کی وجہ سے ان کے غیر مسلم مخالفین انہیں خونریزی کا نشانہ بنائیں گے۔ اور پھر تیسرا وہ زمانہ جب آنحضورﷺ کی بشارتوں کے مطابق امام مہدی اور مسیح محمدی کی بعثت ہو گی اور امت محمدیہ کا وہ حصہ جو حضورﷺ کے اس غلام صادق اور روحانی فرزند کی بیعت کر کے اس کی آغوش میں آ جائے گا، اس کیلئے ایک مرتبہ پھر اسی ترو تازگی کا زمانہ آئے گا جس کا مشاہدہ امت محمدیہ نے اپنے آقا و مطاع حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ کے عہد مبارک میں کیا تھا اور اِس وقت پھر ’’صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا‘‘ کی نوید ان خوش نصیبوں کیلئے پوری ہو گی۔

حدیث میں مندرج قتل و غارت کو اگر استعارۃ ً لیا جائے تو پھر اس کے معنی یہ ہوں گے کہ جس طرح صحیح بخاری میں ’’يَضَع الْحَرْب‘‘ والی حدیث میں مذکورہ ’’فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ وَيَقْتُلَ الْخِنْزِيرَ‘‘ کا حقیقی مطلب صلیب توڑنا اور سؤر مارنا نہیں۔ بلکہ اس سے مراد عیسائیت کی طرف سے اسلام پر ہونے والے اعتراضات کا منہ توڑ جواب دینا مراد ہے، اسی طرح امام مہدی کے ذریعہ مسلمانوں کے قتل سے مراد ان میں راہ پا جانے والے غلط عقائد کا قلع قمع کرنا اور دین کی تجدید کر کے اسے آنحضور ﷺ کی تعلیمات کے عین مطابق دنیا میں رائج کرنا ہو گا۔

پس میرے خیال میں اگر اس حدیث کو اس طرح لیا جائے تو زیادہ بہتر تشریح بنتی ہے اور قتل کی بھی وضاحت ہو جاتی ہے۔

سوال:۔ ایک عرب دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ اباضیہ فرقہ کی حدیث کی کتاب مسند الربیع بن حبیب میں بیان احادیث کو جماعت احمدیہ صحیح سمجھتی اور ان پر عمل کرتی ہے؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 30 مئی 2020ء میں اس استفسار پر درج ذیل ارشاد فرمایا۔ حضور نے فرمایا:۔

جواب:۔ احادیث نبویہ ﷺ کے بارہ میں جماعت احمدیہ کا عقیدہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں یہ ہے کہ قرآن کریم اور سنت کے بعد تیسرا ذریعہ ہدایت کا حدیث ہے اور وہ قرآن کی خادم اور سنت کی خادم ہے۔لیکن جو حدیث قرآن اور سنت کے نقیض ہو اور نیز ایسی حدیث کی نقیض ہو جو قرآن کے مطابق ہے یا ایسی حدیث ہو جو صحیح بخاری کے مخالف ہے تو وہ حدیث قبول کے لائق نہیں ہوگی۔ کیونکہ اس کے قبول کرنے سے قرآن کو اور ان تمام احادیث کو جو قرآن کے موافق ہیں ردّ کرنا پڑتا ہے۔

حضور علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ہماری جماعت کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ اگر کوئی حدیث معارض اور مخالف قرآن و سنت نہ ہو تو خواہ کیسے ہی ادنیٰ درجہ کی حدیث ہو اس پر وہ عمل کریں اور انسان کی بنائی ہوئی فقہ پر اس کو ترجیح دیں۔

حضور علیہ السلام نےفرمایا کہ قرآن شریف کی اتباع کریں۔ اور احادیث کی جو پیغمبر خدا سے ثابت ہیں اتباع کریں۔ ضعیف سے ضعیف حدیث بھی بشرطیکہ وہ قرآن شریف کے مخالف نہ ہو ہم اسے واجب العمل سمجھتے ہیں۔

حضور علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اگر کوئی حدیث نصوص بینہ قطعیہ صریحہ الدلالت قرآن کریم سے صریح مخالف واقع ہو گو وہ بخاری کی ہو یا مسلم کی میں ہر گز اس کی خاطر اس طرز کے معنی کو جس سے مخالفت قرآن لازم آتی ہے قبول نہیں کروں گا۔

پس جو بھی حدیث مذکورہ بالا معیار کے مطابق ہو گی، خواہ وہ کسی بھی کتاب کی ہو جماعت احمدیہ کے نزدیک قابل قبول اور قابل حجت ہے۔

سوال:۔ کسی خاتون کا اپنی مرضی سے اپنا بچہ اپنی جیٹھانی کو دیکر،کئی سال بعد دونوں خاندانوں میں اختلاف کی صورت پیدا ہو جانے پرماں کی طرف سے بچہ کی واپسی کے مطالبہ کے بارہ میں ایک خط حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں موصول ہوا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 24 جون 2020ء میں اس بارہ میں درج ذیل ہدایات عطاء فرمائیں۔ حضور نے فرمایا:۔

جواب:۔ عام دنیوی اشیاء کی لین دین میں جب انسان اپنی مرضی اور خوشی سے کسی کو اپنی چیز دیدیتا ہے توپھر اس چیز کی واپسی کے مطالبہ کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ اولاد اگرچہ اس قسم کی دنیوی اشیاء میں تو شمار نہیں ہوتی لیکن پھر بھی جب کوئی شخص اپنی مرضی اور خوشی سے کسی کو اپنا بچہ دیدے اور دوسرا شخص اسے اپنی اولاد کی طرح رکھے تو پھر اس کی واپسی کا مطالبہ بھی اخلاقاً پسندیدہ نہیں اسی لئے جماعتی قضاء نے تمام حالات کا جائزہ لیکر یہی فیصلہ دیا ہے کہ حقیقی ماں کا اپنے بچہ کی واپسی کا مطالبہ درست نہیں۔

میرے نزدیک اگر بچہ کی عمر نوسال سے زیادہ ہے تو اب فقہی اصول خیار التمییز کے تحت اس معاملہ کا فیصلہ ہونا چاہئے اور بچہ سے پوچھنا چاہئے کہ وہ کس کے پاس رہنا چاہتا ہے، جہاں بچہ اپنی مرضی اور خوشی سے جانے کا عندیہ دے بچہ کو وہیں رکھا جائے۔

اللہ تعالیٰ آپ دونوں خاندانوں کو عقل اور سمجھ عطاء فرمائے، آپ خدا تعالیٰ کے خوف اور تقویٰ کو مدنظر رکھتے ہوئے محض اس کی رضا کی خاطر ایک دوسرے کیلئے اپنے جائز حقوق چھوڑ کر ان جھگڑوں کو ختم کرنے والے ہوں۔ آمین

سوال:۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ طلباء جامعہ احمدیہ گھانا کی Virtual نشست مؤرخہ 05 دسمبر 2020ء میں ایک طالبعلم کے اس سوال پرکہ جو لوگ خدا تعالیٰ کو نہیں مانتے ان کو سمجھانے کیلئے سب سے مضبوط دلیل کونسی ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔

جواب:۔ بات یہ ہے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کو نہیں مانتے وہ بات سننا بھی نہیں چاہتے۔ خدا تعالیٰ کی ذات کی مضبوط دلیلیں تو اپنا ذاتی تجربہ ہے۔ آپ ان کو کہیں کہ تم کہتے ہو خدا نہیں ہے میں کہتا ہوں خدا ہے۔ میں نے خدا سے مانگا، اس نے مجھے دیدیا۔آپ کی کوئی دعا قبول ہوئی ناں؟ آپ نے کبھی دعا کی، آپ کی دعا قبول ہوئی کہ نہیں ہوئی؟ (طالبعلم نے عرض کیا کہ جی، جی قبول ہوئی۔) بس تو جو خدا کو نہیں مانتے ان سے کہو کہ تم کہتے ہو کہ خدا تعالیٰ نہیں ہے۔ میں نے تو اللہ تعالیٰ سے مانگا اور مجھے اللہ تعالیٰ نے دیا۔ میرا تو اللہ تعالیٰ کی ذات میں ذاتی تجربہ ہے۔ میں کس طرح کہہ دوں کہ خدا تعالیٰ نہیں ہے۔ہاں تم بھی اگر کوشش کرو گے تو پھر تمہیں بھی اللہ مل جائے گا۔ لیکن یہ لوگ جو خدا کو نہیں مانتے یہ لوگ بڑے ڈھیٹ لوگ ہوتے ہیں۔یہاں بھی ایک Atheist ہے جس کا نام Richard Dawkins ہے۔ وہ بھی خدا تعالیٰ کو نہیں مانتا۔ اور اس نے خدا تعالیٰ کے خلاف کتاب بھی لکھی ہے۔ میں نے اس کو Five volume commentary بھی بھجوائی اور اسلامی اصول کی فلاسفی اور دوسری کتابیں بھی بھجوائیں۔ اور میں نے کہا یہ پڑھو پھر ہم سے بات کرو، تمہیں پتہ لگے کہ خداکیا ہے اور خدا کا کیا تصور ہے۔اس نے کہا میں نے کچھ نہیں پڑھنا۔ صرف تم میری کتاب پڑھو، میں نے تمہاری کتابیں کوئی نہیں پڑھنی۔ تو یہ لوگ ڈھیٹ ہوتے ہیں، اور جو ڈھیٹ ہو جائیں انہوں نے کسی طرح نہیں ماننا۔ ہاں جن کے اندر تھوڑی سی نیک فطرت ہوتی ہے ان سے ذاتی تعلق رکھو اور ان کو پھر اپنے ذاتی تعلق کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے قریب لے کے آؤ۔ بعض دفعہ جو اپنا قرب ہے وہ بھی اثر ڈالتا ہے اور دوسرے انسان کیلئے تبدیلی کا باعث بن جاتا ہے۔ تو ذاتی تجربہ جو ہے وہ سب سے مؤثر چیز ہے۔ یہاں میرے پاس بھی کئی دفعہ ملاقاتیں کرنے والے، پریس والے بعض لوگ آتے ہیں۔ بعض نے بعد میں اظہار کیا کہ ہم خدا کو تو نہیں مانتے لیکن اگر کبھی خدا کو مانا توہم تمہارے خلیفہ کی وجہ سے مانیں گےکہ اس نے ہمیں خدا تعالیٰ کی صحیح طرح بات بتائی ہے۔پھر دلوں کو نرم کرنے کیلئے دعا ہونی چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ دلوں کو نرم بھی کرے۔ اس لئے اپنا ذاتی نمونہ جو ہے وہ بہت ضروری ہے وہ پیش کریں اور قبولیت دعا کیلئے اپنے تجربات بیان کریں۔ سب سے زیادہ تو یہ ہے کہ میرے ساتھ اللہ کا کیا سلوک ہے۔ جب اپنے ساتھ اللہ کا سلوک بتائیں گے تو وہ جو First-hand experience ہے اس سے لوگ پھر زیادہ Impressed ہوتے ہیں۔ باقی دلیلیں تو بے شمار ہیں۔ ’’ہمارا خدا ہے‘‘، ’’ہستی باری تعالیٰ کے دس دلائل ہیں‘‘، حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی کتاب ’’ہستی باری تعالیٰ‘‘ ہے۔ یہ ساری کتابیں اردو میں بھی اور انگلش میں بھی آگئی ہیں۔ یہ پڑھو اور ان کو بھی یہ پڑھنے کیلئے دو۔ اسی طرح اگر کوئی پڑھا لکھا آدمی ہے اور وہ پڑھنا جانتا ہے تو اس کو ایک تو اسلامی اصول کی فلاسفی پہلے دینی چاہیئے، پھر ہستی باری تعالیٰ کے دس دلائل ہیں وہ دینی چاہیئے۔یہ چھوٹی چھوٹی کتابیں ہیں۔ پھر حضرت خلیفہ رابع ؒ کی کتاب Revelation Rationality ہے اس کا ایک Chapter جو خدا تعالیٰ کی ذات پہ ہے وہ بھی بعضوں کو متاثر کر دیتا ہے۔ ’’ہمارا خدا‘‘ کی بھی انگلش ٹرانسلیشن ہو چکی ہے وہ دینی چاہیئےکہ پڑھو۔ اب پڑھنے کے بعد بھی اگر کوئی نہیں مانتا تو ہمارا کام تو صرف پیغام پہنچانا ہے، کسی کی ہدایت کیلئے ہم گارنٹی نہیں دے سکتے۔ ہدایت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اپنے سپرد لی ہے۔ ہمارے سپرد صرف تبلیغ کی ذمہ داری ڈالی ہے کہ ہم تبلیغ کریں اور اللہ تعالیٰ کے رستہ کی طرف لے کے آئیں۔

سوال:۔ اسی ملاقات میں ایک اور طالبعلم نے عرض کیا کہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا سب سے بہترین ذریعہ کیا ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس سوال کے جواب میں فرمایا:۔

جواب:۔ اللہ کی عبادت کرو۔ اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ میں نے انسان کو عبادت کیلئے پیدا کیا ہے۔ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ۔ اور اپنی پیدائش کا جو حق ہے وہ ادا کرو۔ پہلی بات تو اللہ تعالیٰ نے فرمائی ایمان بالغیب۔ ایمان بالغیب کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا يُقِيْمُوْنَ الصَّلَاةَ، نمازیں قائم کرو۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے نماز قائم کرو، تو دوسری اہم چیز عبادت ہے۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد نمازوں کی ادائیگی ہے۔ پھر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ نماز میں انسان جب سجدہ کی حالت میں ہوتا ہے اس وقت وہ اللہ تعالیٰ کے سب سے قریب ہوتا ہے۔ اس لئے سجدہ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنا قرب عطاء کرے۔

جو تم سے مانگتا ہوں وہ دولت تمہیں تو ہو۔

اللہ سے کہو جو دولت میں تجھ سے مانگ رہا ہوں وہ تم ہی ہو۔مجھے پیسہ نہیں چاہیئے،مجھے دنیا نہیں چاہیئے۔ مجھے تیرا قرب چاہیئے۔اور جب تیرا قرب مل جائے گا تو دنیا کی دولت بھی میری لونڈی بن جائے گی، میری غلام بن جائے گی اور دنیا کی سہولتیں بھی میری غلام بن جائیں گی۔ اور میری روحانیت بھی بڑھ جائے گی۔ تو پھر سجدہ میں دعا کیا کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنا قرب عطاء کرے۔ ٹھیک۔

سوال:۔ اسی Virtual نشست مؤرخہ 05 دسمبر 2020ء میں ایک اور طالبعلم نے حضورانور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ نماز میں لذت کیسے حاصل کرسکتے ہیں؟ اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔

جواب:۔ لذت کیسے حاصل کرسکتے ہیں؟ اس کا ایک سادہ سا طریقہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بتایا ہے کہ تم رونی شکل بنالو۔ جب انسان ظاہری طور پر اپنی شکل بناتا ہے توجیسی حالت طاری کرنے کی کوشش کرتا ہے دل کے جذبات بھی پھرویسے ہونے شروع ہوجاتے ہیں۔ جب سورۃ فاتحہ پڑھ رہے ہو تو إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کو بار بار دہراؤ اور غور کرو اور رونی شکل بناتے جاؤ تو ایک وقت میں تمہیں رونا آجائے گا۔ جب تمہیں رونا آئے گا، جب دل پہ رقت طاری ہوگی، نرمی پیدا ہوگی تو پھر تمہیں اس میں ایک لذت آنی شروع ہوگی۔ پھر جب تم رکوع میں جاؤ گے، پھر تم دعا پڑھو گے پھر تمہیں لذت آئے گی۔ پھر سمع اللہ کہو گے تو پھر تمہیں لذت آئے گی۔ سجدہ میں جاؤ گے پھر بے چینی سے تڑپو گے، پھر تمہیں لذت آئے گی۔ تو اسی شکل کو اپنے آپ پہ طاری کرنا پڑے گا۔ ایک مجاہدہ ہے، ایک کوشش ہے، وہ کوشش کرو گے تو پھر لذت پیدا ہوتی جائے گی۔ اور جب ایک دفعہ لذت آجائے گی تو پھر تمہیں مزہ آتا رہے گا۔ ہر دفعہ ہی تم کوشش کرو گے کہ میں نماز میں اللہ کےحضور حاضر ہوں اور رؤوں تو مجھے مزہ آئے، مجھے لطف آئے۔ اور جو اللہ کے آگے سجدہ میں رونے کا مزہ آتا ہے ناں وہ ہر مزہ سے بہت بڑھ کے ہوتا ہے۔ ٹھیک ہے ؟ اور اللہ سے یہ دعا کرو کہ جس عہد کے ساتھ تم جامعہ احمدیہ میں آئے ہو اللہ تعالیٰ اس عہد کو پورا کرنے کی، نبھانے کی توفیق دے۔ اور تم ایک اچھے مربی اور مبلغ بن کے نکلو اور اپنی قو م میں تبلیغ کرکے اس قوم کو اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکانے والے بنو۔ اور پھر ان میں سے بھی وہ لوگ پیدا ہوں جن کو عبادتوں میں لذت آئے۔

(مرتبہ:۔ ظہیر احمد خان۔انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 جولائی 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ