• 25 اپریل, 2024

یتامٰی سے احسان کا سلوک کریں

حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
…… یتیموں سے بھی احسان کا سلوک کرو۔ یتیم بھی معاشرے کا ایک ایسا حصہ ہیں جن کی مدد کرنا ہر ایک کا فرض ہے۔ ان کو معاشرے کا فعال حصہ بنانا چاہئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مَیں اور یتیم کی پرورش کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے آپ نے اپنی انگلیاں سامنے کرکے دکھائیں۔ تو یہ کہتے ہوئے آپؐ نے انگلیاں ذرا سا فاصلہ دے کر جیسا کہ مَیں نے کہا رکھیں۔(اس موقع پر حضور انور نے بھی اپنی انگلیوں سے ایسے ہی کرکے دکھایا)۔ تو یہ ہے یتیم کی پرورش کرنے والے کا مقام۔ جیسا کہ مَیں نے کہارمضان کے دنوں میں عموماً دل نرم ہوئے ہوتے ہیں۔ اس لئے اس طرف بھی توجہ ہوتی ہے۔ گزشتہ دنوں پاکستان میں جو ایک خوفناک زلزلہ آیا، جس سے بہت سارے بچے یتیم ہوگئے، کئی لوگوں نے مجھے لکھا کہ ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ بچے اپنا لیں، ہم پیشکش کرتے ہیں کہ اتنے بچے سنبھا لیں گے۔ بہرحال وہ تو حکومت کی پالیسی ہے، کیابنتی ہے۔ لیکن کچھ تازہ تازہ واقعہ کی وجہ سے، کچھ رمضان کی وجہ سے، عبادتوں کی وجہ سے،اس طرف توجہ بھی تھی تو اگر لے نہیں سکتے تو کم از کم مستقل توجہ دینی چاہئے۔ جماعت میں یتیموں کی پرورش کا نظام رائج ہے اس میں اللہ کے فضل سے لوگ رقمیں جمع کرواتے ہیں۔ تو جن کو اس نیکی کی توفیق ہے کہ وہ اس پرورش کے لئے دے سکیں ان کو اب اس میں باقاعدگی اختیار کرنی چاہئے۔ بعض اَور ادارے بھی ہیں اگر قابل اعتبار ہوں تو وہاں بھی رقمیں دی جا سکتی ہیں۔ دنیا میں ہر جگہ جماعت میں بہت سے یتیموں کی پرورش کی جاتی ہے۔ تو یہ جاری نیکیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنانے والی ہوتی ہیں۔

مسکینوں سے بھی احسان اور شفقت کا سلوک کرو۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ اگر تو چاہتا ہے کہ تیرا دل نرم ہو جائے تو مساکین کو کھانا کھلااور یتیم کے سر پر ہاتھ رکھ۔ اب یہ عید کا دن بھی آپ کو اس نیکی کے بجا لانے والا، اس طرف توجہ دلانے والا ہونا چاہئے جونیکی آپ نے رمضان میں غریبوں اور مسکینوں کو کھانا کھلا کر ان کے روزے کا سامان کرکے کی تھی۔رمضان میں تو بہت سے دل نرم ہو جاتے ہیں جیسا کہ مَیں نے کہا غریبوں کا، ضرورت مندوں کا، روزہ رکھنے والوں کا خیال رکھنے والے بہت سارے لوگ ہو تے ہیں۔ جماعت میں تو ایسے نہیں لیکن دوسروں میں ایسے بھی ہیں جو خود چاہے عبادت کریں یا نہ کریں، روزے رکھیں نہ رکھیں، قرآن پڑھیں نہ پڑھیں، لیکن عموماً دوسرے مذاہب والوں کوبھی کم از کم اس نیکی کا خیال آ جاتا ہے۔ تو عید کے دنوں میں بھی مسکینوں کی خوشیوں میں شامل ہونا چاہئے۔ غریبوں کی خوشیوں میں بھی شامل ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے (وَیُطعِمُونَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسکِینًا وَّ یَتِیمًا وَّ اَسِیرًا)(الدھر:9) اور وہ کھانے کو اس کی چاہت کے ہوتے ہوئے بھی مسکینوں اور یتیموں اور اسیروں کو کھلاتے ہیں۔ تو اپنی ضروریات کے ہوتے ہوئے بھی اپنے مال میں سے خرچ کرکے مسکینوں یتیموں کا خیال رکھنا نیکی ہے کیونکہ یہ نیکی خدا کی خاطر کی جا رہی ہوتی ہے۔ پس جس طرح گزشتہ دنوں میں اس نیکی کے کرنے کی توفیق ملی تھی، اب بھی یہ نیکی جاری رہنی چاہئے۔

(خطبہ عید فرمودہ 4نومبر 2005ء)(الفضل انٹرنیشنل 25نومبر تا یکم دسمبر 2005ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 اگست 2020

اگلا پڑھیں

قارئین کرام سے ضروری درخواست برائے اطلاعات و اعلانات