• 6 مئی, 2024

مقبرہ بہشتی کا حقیقی مقام

مقبرہ بہشتی کا حقیقی مقام
دینداری اور قربانی کی شرط پوری کرنے والا خدا کے فضل سے یقیناً جنتی ہے

تبرکات
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ

لاہور سے اطلاع ملی ہے کہ ایک صاحب نے جو مخلص اور دیندار ہونے کے باوجود جلد بازی میں ذاتی ریمارک پاس کرنے کے عادی ہیں ایک ایسے شخص کے متعلق جو فوت ہو کر مقبرہ بہشتی میں دفن ہو چکا ہے دوران گفتگو میں اس قسم کے ریمارک کئے کہ اس میں یہ یہ عیب تھا۔ اور جب حاضر الوقت اصحاب میں سے ایک شخص نے انہیں ٹوکا کہ ایسے فوت شدہ شخص کے خلاف اس قسم کے ریمارک کرنا جو فوت ہو کر مقبرہ بہشتی میں دفن ہو چکا ہے بہت نامناسب اور خلافِ تعلیم اسلام اور خلافِ تعلیم احمدیت ہے تو کہا جاتا ہے (وَاللّٰہُ اَعْلَمُ) کہ ان صاحب نے حسبِ عادت جلدی سے فرمایا کہ اگر وہ مقبرہ بہشتی میں دفن ہو چکا ہے تو پھر کیا ہوا وہ کبھی بھی اپنے فلاں فلاں عیب کی وجہ سے بخشا نہیں جائے گا وغیرہ وغیرہ۔

اگر یہ رپورٹ درست ہے (اور میں یہ بات اگر کے الفاظ کے ساتھ کہہ سکتا ہوں) تو نہ صرف اخلاقاً اور شرعاً بہت قابلِ اعتراض ہے بلکہ نظامِ وصیت کی بشاراتِ ربّانیہ کے بھی قطعی طور پر خلاف اور سخت قابلِ ملامت ہے۔ کیونکہ اول تو حدیث میں ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا صریح ارشاد ہے کہ:

اُذْکُرُوْا مَوْتَاکُمْ بِالْخَیْرِ

یعنی اے مومنو! تم اپنے فوت ہونے والے بھائیوں اور بہنوں کا ذکر ہمیشہ خیر کے رنگ میں کیا کرو۔ اور اگر بالفرض ان میںکوئی کمزوری بھی تھی تو اسے حوالہ بخدا کرتے ہوئے اس کے ذکر سے اجتناب کرو۔

پس ان صاحب کی پہلی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے ایک فوت شدہ احمدی کے ذکرِ خیر کو ترک کر کے ذکرِ شر کا رستہ اختیار کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس صریح ارشاد کے خلاف قدم مارا کہ اپنے مرنے والوں کو ذکرِ خیر سے یاد کیا کرو۔

علاوہ ازیں کسی شخص کی نیکی یا کمزوری کا حقیقی علم صرف خدا کو ہے جو علّام الغیوب ہے۔ اور وہ اس بات کو بھی جانتا ہے کہ کسی انسان کی نیکیوں اور کمزوریوں میں سے کس کو غلبہ حاصل ہے۔ انسان کی نظر اس معاملہ میں دھوکا کھا سکتی ہے لیکن خدا کبھی دھوکا نہیں کھاتا۔ کیونکہ وہ دلوں کے پوشیدہ خیالات اور مخفی نیکیوں اور مخفی بدیوں تک کو جانتا ہے۔ پس عقلاً بھی ایسے معاملات میں امن اور سلامتی کا طریق یہی ہے کہ انسان اپنے مرنے والے بھائی یا بہن کے متعلق حسن ظنی سے کام لے اور اپنی زبان کو بدگوئی سے بچا کررکھے۔ کیونکہ بدگمانی اور بدگوئی ہر حال میں بہت بری اور مکروہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے کہ :

تم دیکھ کر بھی بد کو بچو بدگمان سے
ڈرتے رہو عقاب خدائے جہان سے
شائد تمہاری آنکھ ہی کر جائے کچھ خطا
شائد وہ بد نہ ہو جو تمہیں ہے وہ بدنما
شائد تمہارے فہم کا ہی کچھ قصور ہو
شائد وہ آزمائشِ ربّ غفور ہو
بندوں میں اپنے بھید خدا کے ہیں صد ہزار
تم کو نہ علم ہے نہ حقیقت ہے آشکار
پس تم بچاؤ اپنی زباں کو فساد سے
ڈرتے رہو عقوبتِ ربّ العباد سے
دو عضو اپنے جو کوئی ڈر کر بچائے گا
سیدھا خدا کے فضل سے جنت میں جائے گا
وہ اک زباں ہے عضوِ نہانی ہے دوسرا
یہ ہے حدیثِ سیّدنا سیّدالوریٰ

(درثمین اردو)

مگر اس معاملہ میں سب سے بڑی بات جو اعتراض کرنے والے صاحب کے قول کو سخت بھیانک صورت دے دیتی ہے وہ نظامِ وصیت کی خلاف ورزی سے تعلق رکھتی ہے۔ جیسا کہ سب دوستوں کو علم ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وصیت کا نظام خدا تعالیٰ کے خاص ارشاد اور خاص بشارات کے ماتحت قائم کیا تھا اور اس کے لئے دین داری اور نیکی اور مالی قربانی کی شرط لگائی تھی ا ور خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ تھا کہ جو لوگ ان شرائط کو پورا کر کے جماعتی نظام کے ماتحت مقبرہ بہشتی میں داخل ہوں گے وہ خدا کے فضل سے یقیناً جنت میں جائیں گے۔ اور اگر ان میںکوئی کمزوری بھی ہو گی (کیونکہ کوئی نہ کوئی کمزوری کم و بیش اکثر انسانوں میں ہوتی ہے) تو اللہ تعالیٰ ان کی نیکی اور قربانی اور اپنی ذرہ نوازی کی وجہ سے ان سے عفو اور بخشش کا سلوک فرمائے گا اور انہیں اپنے فضل سے جنت میں جگہ دے گا۔ اور اسی لئے اس مقبرہ کا نام خدائی بشارت کے ماتحت بہشتی مقبرہ رکھا گیا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام رسالہ الوصیت میں صراحت اور وضاحت سے فرماتے ہیں کہ :
’’ایک جگہ مجھے دکھلائی گئی اور اس کا نام بہشتی مقبرہ رکھا گیا۔ اور ظاہر کیا گیا کہ وہ ان برگزیدہ جماعت کے لوگوں کی قبریں ہیں جو بہشتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس قبرستان کے لئے (خدا کی طرف سے) بڑی بھاری بشارتیں مجھے ملی ہیں اور نہ صرف خدا نے یہ فرمایا کہ یہ مقبرہ بہشتی ہے بلکہ یہ بھی فرمایا کہ اُنْزِلَ فِیْہِ کُلُّ رَحْمَۃٍ۔ یعنی ہر ایک قسم کی رحمت اس قبرستان میں اُتاری گئی ہے۔ اور کسی قسم کی رحمت نہیں جو (علیٰ قدرِ مراتب) اس قبرستان والوں کو اس سے حصہ نہیں۔‘‘

(رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 318-316)

اس زبردست خدائی بشارت کے ہوتے ہوئے جو شخص مقبرہ بہشتی کے کسی مدفون مرد یا مدفون عورت کے خلاف طعن اور اعتراض کی زبان کھولتا ہے وہ یقینا ایک خطرناک غلطی کا مرتکب ہوتا ہے بلکہ وہ خدائی نظامِ وصیت پربھی ایک ایسی ضرب لگاتا ہے جس کے نتیجہ میں نہ صرف خدا تعالیٰ کی غیرمعمولی بشارتوں پر زد پڑتی ہے۔ بلکہ نظامِ وصیت کے متعلق بھی جماعت میں بد دلی کا رستہ کھلتا ہے اور اس کی کشش کو سخت دھکا لگتا ہے۔ پس اس شخص کو توبہ کرنی چاہئے ورنہ وہ یقینا خدا کے حضور خطاکار شمار ہو گا۔ بے شک جیسا کہ میں نے اوپر اشارہ کیا ہے کوئی نہ کوئی کمزوری اکثر لوگوں میں پائی جاتی ہے اور خدا کے خاص الخاص لوگوں یعنی نبیوں وغیرہ کے سوا کوئی شخص بھی کمزوریوں سے کلیتہً پاک نہیں۔ اور ہو سکتا ہے بلکہ بالکل ممکن ہے کہ مقبرہ بہشتی میں دفن ہونے والوں میں سے بھی بعض لوگوں میں کم و بیش کمزوریاں پائی جاتی ہوں۔ مگر جب خدا نے جو عفو و غفور ہے اپنے وعدہ کے مطابق انہیں اپنی مغفرت کی چادر میں ڈھانک لیا اور ان کی کمزوریوں سے درگزر فرمایا اور ان کا انجام اچھا ہو گیا تو اس خوش قسمت جماعت کے خلاف زبان کھولنا اور انہیں ان کے مرنے اور مقبرہ بہشتی میں دفن ہونے کے بعد ناگوار طعن کا نشانہ بنانا ایسی جسارت ہے جو سچی توبہ کے سوا ہر گز معاف نہیں ہو سکتی۔ پس میں ایسے لوگوں سے کہتا ہوں کہ خدا سے ڈرو اوراپنے مرنے والوں اور مقبرہ بہشتی میں جگہ پانے والوں پر اعتراض کر کے اپنی عاقبت کو خطرہ میں نہ ڈالو اور دوسروں کے عیب گننے کی بجائے خود اپنے انجام کی فکر کرو۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس حکیمانہ شعر کو کبھی نہ بھولوکہ :

بندوں میں اپنے بھید خدا کے ہیں صد ہزار
تم کو نہ علم ہے نہ حقیقت ہے آشکار

(درثمین اردو)

خود میرایہ حال ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان متضرعانہ دعاؤں کے باوجود جو حضور نے اپنی اولاد کے متعلق فرمائی ہیں۔ اور پھر ان خدائی بشارتوں کے باوجود جو حضور کو اپنی اولاد کے متعلق خدا کی طرف سے ملتی رہی ہیں۔ا ور پھر اس بات کے بھی باوجود کہ خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اہل و عیال کو وصیت سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ میں ہمیشہ اپنے انجام سے متعلق خائف رہتا اور خدا سے بخشش کی دعا مانگتا رہتا ہوں۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پیارا قول کبھی میری آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوتا کہ حقیقتاً نجات خدا کے فضل سے ہے نہ کہ انسان کے اپنے عمل سے۔ میرا اصل مضمون تو اس جگہ ختم ہو گیا مگر ایک ضمنی سوال کا جواب دینا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ کسی خاص جگہ میں دفن ہونا انسان کو جنّتی بنادے جبکہ اخروی نجات خدا کے فضل پر موقوف ہے۔ اور انسان کی نیکی اور دینداری اس کے فضل کی جاذب بنتی ہے؟ سواس کے متعلق اچھی طرح خیال رکھنا چاہئے کہ ہمارا ہرگز یہ عقیدہ نہیں کہ مقبرہ بہشتی کی مٹی کسی شخص کو جنّتی بنا دیتی ہے بلکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے بار بار صراحت فرمائی ہے۔ چونکہ مقبرہ بہشتی میں دفن ہونے کے لئے نیکی اور دینداری اور قربانی کی شرط مقرر کی گئی ہے۔ اس لئے مقبرہ بہشتی کے تعلق میں خدا تعالیٰ ایسا تصرف فرماتا ہے کہ وہی شخص اس مقبرہ میں دفن ہوتا ہے جو خدا کے علم میں جنّتی ہوتا ہے۔ پس مقبرہ بہشتی کی مٹی کسی کو جنّتی نہیں بناتی بلکہ اس کے برعکس وہی شخص اس مقبرہ میں دفن ہونے میں کامیاب ہوتا ہے جو خدا کے علم میں اپنی دین داری اور نیکی کی وجہ سے جنتی ہوتا ہے۔ اور اس کی نیکیوںکو اس کی کمزوریوں پر غلبہ حاصل ہوتا ہے۔ چنانچہ کئی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ ایک شخص بظاہر موصی ہونے کے باوجود اپنی کسی مخفی بے دینی کی وجہ سے مقبرہ بہشتی میں دفن ہونے سے محروم ہو گیا۔ دوسری طرف ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ جو شخص مقبرہ بہشتی میں دفن نہ ہو وہ نعوذباللہ جنّتی نہیں۔ کیونکہ مقبرہ بہشتی کے علاوہ بھی خدائی رحمت کا دروازہ کھلا ہے۔ بلکہ ہمارا عقیدہ صرف یہ ہے کہ اس مقبرہ میں دفن ہونے والا خدا کے فضل سے جنتی ہے۔ اور اگر اس میں کوئی کمزوری ہے تو خدا تعالیٰ اپنی ذرہ نوازی سے اس سے عفو او ربخشش کا سلوک فرماتا ہے۔ جو شخص اس زمانہ میں اپنے لئے خدائی بخشش کو یقینی بنانا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ دین داری اور قربانی کی شرط پوری کرتے ہوئے وصیت کے نظام میں داخل ہوجائے۔ کیونکہ مادیت کے اس زمانہ میں یہی امن او رسلامتی کا یقینی حصار ہے۔ فَافْھُمْ وَ تَدَبَّرْ وَلَا تَکُنْ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ۔ وَاٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَظِیْم۔

(روزنامہ الفضل ربوہ 12 جولائی 1960ء)

٭…٭…٭

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 ستمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 ستمبر 2020