• 13 مئی, 2024

نیک اولاد

ایک مومن کے مرنے کے بعد اس کی نیک اولاد ان نیکیوں کو جاری رکھتی ہے جس پر ایک مومن قائم تھا۔ اپنے ماں باپ کے لئے نیک اولاددعائیں کرتی ہے جو اس کے درجات کی بلندی کا باعث بنتے ہیں۔ دوسری نیکیاں کرتی ہے جو ان کی درجات کی بلندی کا باعث بنتی ہیں۔ پس یہ اولاد کی نیکیاں اور اپنے ماں باپ کے لئے دعائیں اگلے جہان میں بھی ایک مومن کو آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَلَا تَعۡلَمُ نَفۡسٌ مَّاۤ اُخۡفِیَ لَہُمۡ مِّنۡ قُرَّۃِ اَعۡیُنٍ ۚ جَزَآءًۢ بِمَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۸﴾ (السجدہ: 18) پس کوئی ذی روح یہ نہیں جانتا کہ اس کے اعمال کے بدلہ میں اس کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک میں سے کیا کچھ چھپا کر رکھا گیا ہے۔

یہ ان لوگوں کے بارہ میں کہا گیاہے جو تقویٰ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا خو ف دل میں رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف بھی توجہ دیتے ہیں اور اس کی راہ میں خرچ بھی کرتے ہیں اور دو سری نیکیاں بھی بجا لاتے ہیں۔ وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر سیدھے راستے پر چلنے اور اپنی اولاد کے سیدھے راستے کی طرف چلنے کے لئے دعائیں کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے ایسی آنکھوں کی ٹھنڈک مانگتے ہیں جس کا علم صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی ذات کو ہے۔ اپنی اولاد وں اور اپنی بیویوں اور خاوندوں کے لئے اور بیویاں اپنے خاوندوں کے لئے دعا مانگتی ہیں کہ یہ سب تقویٰ پہ قائم رہیں اور اللہ تعالیٰ ان سب کے لئے اس دنیا میں بھی انعامات عطا فرمائے جو اس کی رضا کے حامل بنائے اور اگلے جہان میں بھی اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے ہوں۔ پس یہ دعا ہے جو اللہ تعالیٰ کے وہ بندے جو عبادالرحمن ہیں، نیکیاں بجا لاتے ہوئے مانگتے ہیں اور اپنے پیچھے بھی ایسی نسل چھوڑنے کی کوشش کرتے ہیں جو تقویٰ پر قدم مارنے والی ہو۔ یہ دعا اللہ تعالیٰ نے ہمیں سکھا کر ہمیں ہر وقت اس اہم کام کی طرف توجہ دلائی ہے جو اس کی رضا حاصل کرنے کا نہ صرف ہماری ذات کے لئے ذریعہ بنے بلکہ آئندہ نسلیں بھی اس راستے پر چلنے والی ہوں جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وارث بنیں۔ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا کہہ کر یہ بتا دیا کہ آنکھوں کی ٹھنڈک تبھی ہو سکتی ہے جب تم بھی اور تمہاری اولادیں بھی تقویٰ پر چلنے والے ہو گے۔ اگر تمہارے اپنے فعل ایسے نہیں جو تقویٰ کا اظہار کر تے ہوں تو اپنے دائرہ میں متقیوں کے امام بھی نہیں بن سکتے۔

پس ہم میں سے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا اس دعا کے ساتھ ہم آپس میں حقوق کی ادائیگی کے لئے تقویٰ پر چل رہے ہیں؟ اپنے بچوں کی تربیت کے لئے ان شرائط کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو انہیں تقویٰ پر چلانے والی ہوں۔ اگر گھریلو سطح پر بھی میاں بیوی تقویٰ کی راہوں پر قدم نہیں ما ر رہے تو اولاد کے حق میں اپنی دعاؤں کی قبولیت کے نشان کس طرح دیکھ سکتے ہیں۔ پھر اگر تقویٰ مفقود ہے تو خلافت اور جماعت کی برکات سے کس طرح فیض پا سکتے ہیں۔ خلافت کے لئے تو اللہ تعالیٰ نے اعمال صالحہ کی شرط رکھی ہوئی ہے۔ اگر تقویٰ نہیں تو اعمال صالحہ کیسے ہو سکتے ہیں یا اگر اعمال صالحہ نہیں توتقویٰ نہیں اور تقویٰ نہیں تو نہ ہی ایک دوسرے کے لئے قرۃ العین بن سکتے ہیں، نہ ہی اولاد قرۃ العین بن سکتی ہے۔ پس اولاد کو بھی قرۃ العین بنانے کے لئے، آنکھوں کی ٹھنڈک بنانے کے لئے، اپنی حالتوں اور اپنی عبادتوں کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم وہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آنحضرتﷺ نے میاں بیوی کی عبادتوں کے بارے میں یہ نصیحت کی ہے، آپؐ فرماتے ہیں کہ اللہ رحم کرے اس شخص پر جو رات کو اٹھے، نماز پڑھے، اور اپنی بیوی کو جگائے۔ اگر وہ اٹھنے میں پس و پیش کرے تو پانی کے چھینٹے ڈالے تاکہ وہ اُٹھ کھڑی ہو۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ رحم کرے اس عورت پر جو رات کو اٹھے، نماز پڑھے اور اپنے میاں کو جگائے، اگر وہ اٹھنے میں پس و پیش کرے تو پانی چھڑکے تاکہ وہ اٹھ کھڑا ہو۔

پس یہ فرائض دونوں کے ہیں۔ میاں کے بھی اور بیوی کے بھی کہ اپنی عبادتوں کی طرف توجہ دیں تاکہ نسلوں سے بھی قرۃ العین حاصل ہو۔

(خطبہ جمعہ 14 نومبر 2008ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 ستمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ