• 4 مئی, 2024

کسرِِ صلیب

کسرِِ صلیب
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا اہم مقصد

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا علم کلام بہت وسیع اور ہمہ گیر علم کلام ہے۔ آپ نے ہندوستان میں موجود ہر مذہب کے رد میں دلائل بیان فرمائے اور سب مذاہب ہی سے کامیاب مقابلہ فرمایا ہےلیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آپ کی سب سے زیادہ توجہ عیسائیت کے ردّ کی طرف رہی ہے اور ہونا بھی ایسے ہی چاہئے تھا کیونکہ عیسائیت ہی اس وقت دیگر سب مذاہب سے بڑھ کر اسلام پر حملہ آور تھی۔لیکن اس خاص توجہ بلکہ ہر وقت عیسائی مذہب کے استحصال پر آپ کی توجہ مرکوز رہنے کا حقیقی سبب یہ تھا کہ آپ کی بعثت کے مقاصد میں سے سب سے اہم مقصد اسلام کو دیگر سب مذاہب کے مقابل پر سر بلند کرنا تھا جن میں عیسائیت پیش پیش تھی گویا عیسائیت کا مقابلہ کر کے اسے مغلوب کرنا آپ کی آمد کا سب سے بڑا مقصد تھا۔ آپ فرماتے ہیں:
’’ہمارا سب سے بڑا کام تو کسر صلیب ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد5 صفحہ257)

حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے ارشاد کی بنیاد اس حدیث نبوی پر ہے جس میں مسیح موعودؑ کی بعثت کی غرض یوں بیان کی گئی ہے:

یَکْسِرُ الصَّلِیْبَ وَ یَقْتُلُ الْخِنْزِیْرَ

(بخاری باب نزول عیسی بن مریم علیھما السلام)

یعنی مسیح موعود کے آنے کی غرض یہ ہوگی کہ وہ صلیب کو توڑ دے اور خنزیروں کو قتل کرے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ اعلان فرمایا ہے کہ خدا نے اپنے وعدے کے مطابق مسیح موعود کو اس امت محمدیہ میں سے پیدا کر دیا ہے اور اس کے آنے کا یہی مقصد ہے کہ صحیح معنوں میں کسر صلیب ہو جائے۔ آپ نے یہ بھی تحریر فرمایا ہے کہ زمانے بھی نوبت بہ نوبت آتے ہیں اور یہ زمانہ جو مسیح موعود کا زمانہ ہےکسر صلیب کا زمانہ ہے۔

آپؑ فرماتے ہیں:
’’زمانہ میں خدا نے نوبتیں رکھی ہیں۔ ایک وہ وقت تھا کہ خدا کے سچے مسیح کو صلیب نے توڑا اور اس کو زخمی کیاتھا اور آخری زمانہ میں یہ مقدر تھا کہ مسیح صلیب کو توڑے گا یعنی آسمانی نشانوں سے کفارہ کے عقیدہ کو دُنیا سے اُٹھا وے گا۔ عوض معاوضہ گلہ ندارد۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ201-202)

پھر آپ نے یہ بھی اعلان فرمایا کہ یقیناً سمجھو کہ یہ زمانہ کسر صلیب کا ہے اور اب آسمان پر یہ فیصلہ ہوچکا ہے کہ صلیب کو توڑ دیا جائے۔ آپؑ فرماتے ہیں:
’’کسر صلیب کا وقت آگیا یعنی وہ وقت کہ صلیبی عقائد کی غلطی کو ایسی صفائی سے ظاہر کر دینا جیسا کہ ایک لکڑی کو دو ٹکڑے کر دیا جائے۔‘‘

(مسیح ہندوستان میں، روحانی خزائن جلد15 صفحہ86)

پھر اسی ضمن میں آپؑ تحریر فرماتے ہیں:
’’نصرانی مذہب بھی ایک پھوڑاہے جو اندر پیپ سے بھرا ہواہے اس لیے باہر سے چمکتاہے۔ لیکن اب یہ وقت آگیاہے کے یہ ٹوٹ جاوے اور اس کی اندرونی غلاظت ظاہر ہو جاوے‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ170)

نیز فرمایا:
’’اس بات کی کس کو خبر نہیں کہ دنیا میں اس زمانہ میں ایک ہی فتنہ ہے جو کمال کو پہنچ گیا ہے اور الٰہی تعلیم کا سخت مخالف ہے یعنی کفاّرہ اور تثلیث کی تعلیم جس کو صلیبی فتنہ کے نام سے موسوم کرنا چاہئے۔ کیونکہ کفارہ اور تثلیث کے تمام اغراض صلیب کے ساتھ وابستہ ہیں۔ سو خدا تعالیٰ نے آسمان پر سے دیکھا کہ یہ فتنہ بہت بڑھ گیا ہے اور یہ زمانہ اس فتنہ کے تموّج اور طوفان کا زمانہ ہے۔ پس خدا تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق چاہا کہ اس صلیبی فتنہ کو پارہ پارہ کردے‘‘

(انجام آتھم، روحانی خزائن جلد11 صفحہ46)

حضرت مسیح موعودؑ کو خدا تعالیٰ نے چودھویں صدی ہجری کا مجدد اور رسول بنا کر دنیا میں بھیجا ہے۔ چودھویں صدی میں چونکہ مسیحی مذہب کا زور تھا اس لئے آپ نے استدلال فرمایا ہے کہ چودھویں صدی کے مجدد یعنی مسیح موعود کا کام یہ ہے کہ وہ اس صلیبی فتنہ کا استیصال کرے۔ آپ فرماتے ہیں:
’’عیسائیوں کا فتنہ امّ الفتن ہے اس لئے چودھویں صدی کے مجدد کا کام یکسر الصلیب ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ170)

نیز فرمایا:
’’خدا تعالیٰ کی غیرت اور رحمت نے چاہا کہ صلیبی عقیدہ کے زہرناک اثر سے لوگوں کو بچاوے اور جس دجالیت سے انسان کو خدا بنایا گیا ہے اس دجالیت کے پردے کھول دے۔ اور چونکہ چودھویں صدی کے شروع تک یہ بلا کمال تک پہنچ گئی تھی اس لئے اللہ تعالیٰ کے فضل اور عنایت نے چاہا کہ چودھویں صدی کا مجدد کسر صلیب کرنے والا ہو۔ کیونکہ مجدد بطور طبیب کے ہے اور طبیب کا کام یہی ہے کہ جس بیماری کا غلبہ ہو اس بیماری کی طرف توجہ کرے۔ پس اگر یہ بات صحیح ہے کہ کسر صلیب مسیح موعود کاکام ہے تو یہ دوسری بات بھی صحیح ہے کہ چودھویں صدی کا مجدد جس کا فرض کسر صلیب ہے مسیح موعود ہے۔‘‘

(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد13 حاشیہ صفحہ304-305)

ان حوالہ جات سے واضح ہوتا ہے کہ مسیح موعودؑ کی بعثت کا مقصد کسر صلیب ہے۔ آپ نے اس بات کو اپنی کتب میں بار بار مختلف پیرایہ میں اور بڑی تحدی کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ آپ نے بڑے وثوق اور یقین کے ساتھ اس امر کا اعلان فرمایا کہ اب خدا نے اپنی تقدیر نافذ کرنے کے لئے اپنے مسیح موعود کو بھیج دیا ہے۔ اب زمین کا کام نہیں کہ وہ اس فیصلہ کو قبول کرنے سے انکار کرے جو آسمان پر ہو چکا ہے۔ پھر آپ نے ببانگ دہل اعلان فرمایا کہ:

اک بڑی مدت سے دیں کو کفرتھا کھاتا رہا
اب یقیں سمجھو کہ آئے کفر کو کھانے دن

اپنے مقصد بعثت کو وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’یہ عاجز صلیبی شوکت کو توڑنے کے لئے مامور ہے یعنی خدا تعالیٰ کی طرف سے اس خدمت پر مامور کیا گیا ہے کہ جو کچھ عیسائی پادریوں نے کفّارہ اور تثلیث کے باطل مسائل کو دنیا میں پھیلایا ہے اور خدائے واحد لاشرِیک کی کسر شان کی ہے یہ تمام فتنہ سچے دلائل اور روشن براہین اور پاک نشانوں کے ذریعہ سے فرو کیا جائے۔‘‘

(انجام آتھم، روحانی خزائن جلد11 صفحہ40)

پھر آپ نے تحدّی فرمائی کہ کسر صلیب بہر حال ہو کر رہے گی اور دنیاکی کوئی طاقت اس کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی۔ آپؑ نے فرمایا:
’’مسیح کے نام پر یہ عاجز بھیجا گیا تا صلیبی اعتقاد کو پاش پاش کر دیا جائے۔ سو میں صلیب کے توڑنے اور خنزیروں کے قتل کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں۔ میں آسمان سے اُترا ہوں اُن پاک فرشتوں کے ساتھ جو میرے دائیں بائیں تھے۔ جن کو میرا خدا جو میرے ساتھ ہے میرے کام کے پورا کرنے کے لئے ہر ایک مستعد دل میں داخل کرےگا بلکہ کر رہا ہے اور اگر میں چُپ بھی رہوں اور میری قلم لکھنے سے رُکی بھی رہے تب بھی وہ فرشتے جو میرے ساتھ اُترے ہیں اپنا کام بند نہیں کر سکتے اور اُن کے ہاتھ میں بڑی بڑی گرزیں ہیں جو صلیب توڑنے اور مخلوق پرستی کی ہیکل کچلنے کے لئے دئیے گئے ہیں‘‘

(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد3 حاشیہ صفحہ11)

نیز فرمایا:
’’اب وقت آگیا ہے کہ انسان پرستی کا شہتیر ٹوٹ جاوے‘‘

(ملفوظات جلد5 صفحہ461)

الغرض آپ نے خدا سے خبر پاکر یہ اعلان فرما دیا کہ اب کسر صلیب بہر صورت ہو کر رہے گی۔ نیز یہ بھی فرمایا کہ یہ کسر صلیب ایسی کامل اور مستقل ہوگی کہ پھر اس صلیب کے دوبارہ جڑنے اور اس مذہب کے دوبارہ غالب آنے کا کبھی سوال بھی پیدا نہ ہو گا۔ حضرت مسیح موعودؑ کس شان اور یقین سے فرماتے ہیں:
’’اس نے اپنے اس مسیح کو بھیجا تاوہ دلائل کے حربہ سے اس صلیب کو توڑ دےجس نے حضرت عیسیؑ کے بدن کو توڑاتھا اور زخمی کیا تھا۔ مگر جس وقت حضرت مسیح کا بدن صلیب کی کیلوں سے توڑا گیا اس زخم اور شکست کے لئے تو خدا نے مرہم عیسی تیار کر دی تھی جس سے چند ہفتوں میں ہی حضرت عیسی شفا پا کر اس ظالم ملک سے ہجرت کر کے کشمیر جنت نظیر کی طرف چلے آئے۔لیکن اس صلیب کا توڑنا جواس پاک بدن کے عوض میں توڑا جائے گا جیسا کے صحیح بخاری میں ذکر ہےایسا نہیں ہے جیسا کہ مسیح کا مبارک بدن صلیب پر توڑاگیا جو آخر مرہم عیسی کے استعمال سے اچھا ہو گیا بلکہ اس کے لئے کوئی بھی مرہم نہیں جب تک کہ عدالت کا دن آئے۔ یہ خدا کا کام ہے جو اس نے اپنا ارادہ اس نہایت عاجز بندہ کے ذریعہ سے پورا کیا۔‘‘

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15 صفحہ15-16)

اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف آپ کو کسر صلیب کے لئے مبعوث فرمایا بلکہ ابد الابدال تک کے لئے اس مذہب کا استیصال کرنا آپ کا مشن تھا۔ اس مشن کے پورا کرنے کے لئے جس جوش، توجہ اور مسلسل جد و جہد کی ضرورت تھی وہ بھی آپ کو عطا کی گئی۔ حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی پر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی ساری توجہ اس مذہب کے استیصال کی خاطر لگی ہوئی تھی اور اس مقصد کے حصول کے لئے آپ کے دل میں بے پناہ جذبہ اور جوش پایا جاتا تھا۔ آپؑ فرماتے ہیں:
’’کسر صلیب کے لئے جس قدر جوش خدا نے مجھے دیا ہے اس کا کسی دوسرے کو علم نہیں ہو سکتا۔۔۔ ۔خدا تعالیٰ نے مجھے وہ جوش کسر صلیب کے لئے دیا ہے کہ دنیا میں اس وقت کسی اور کو نہیں دیا گیا۔‘‘

(ملفوظات جلد5 صفحہ97)

نیز فرمایا:
’’میں سچ کہتا ہوں میرے لئے اگر کوئی غم ہے تو یہی ہے کہ نوع انسان کو اس ظلم صریح سے بچاؤں کہ وہ ایک عاجز انسان کو خدا بنانے میں مبتلا ہو رہی ہے اور اس سچے اور حقیقی خدا کے سامنے ان کو پہنچاؤں جو قادر اور مقتدر خدا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد6 صفحہ448)

کسر صلیب سے مراد

اس موقع پر اس بات کی وضاحت کر دینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ کسر صلیب سے کیا مراد ہے؟

یاد رہے کہ ان الفاظ کے لفظی معنی تو صلیب کو توڑنے کے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مسیح موعود ان لکڑی یا لوہے کی صلیبوں کو توڑتا پھرےگا جو گرجا گھروں کے اوپر لگی ہوتی ہیں کیونکہ ایسا کرنا تو بے معنی، بے فائدہ اور لغو کام ہے اور انبیاء کی شان اس سے بہت بالا ہوتی ہے۔ پس کسر صلیب کے حقیقی معنی یہی ہیں کہ مسیح موعود اس مذہب اور اس کے عقائد کو باطل ثابت کرے گا جس کا ظاہری نشان صلیب ہے۔ گویا اس کا مطلب یہ ہے کہ مسیح موعود عیسائی مذہب کا ایسا کامیاب مقابلہ کرے گا کہ اس کو باطل ثابت کر دےگا۔ کسر صلیب کے یہ معنی گزشتہ علماء نے بھی کئے ہیں۔ چنانچہ مرقاۃ شرح مشکوۃ کے صفحہ 221 پر کسر صلیب کے یہ معنی لکھے ہیں۔

ای فیبطل النصرانیۃ

یعنی وہ نصرانی مذہب (عیسائیت) کو باطل ثابت کر دیگا۔ اور بھی بہت سے علماء نے یہی معنی کئے ہیں۔

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی کسر صلیب سے یہی مراد لی ہے کہ مسیح موعود عیسائیت کے جملہ عقائد کا ایسا کامیاب رد کرے گا کہ یہ مذہب بحیثیت مجموعی باطل اور بے حقیقت ہو کر رہ جائے گا۔ آپؑ فرماتے ہیں:
1۔ ’’کسر صلیب کا جو لفظ حدیثوں میں آیا ہے وہ بطور مجاز استعمال کیا گیا ہے اور اس سے مراد کوئی جنگ یا دینی لڑائی اور درحقیقت صلیب کا توڑنا نہیں ہے اور جس شخص نے ایسا خیال کیا اس نے خطا کی ہے بلکہ اس لفظ سے مراد عیسائی مذہب پر حجت پوری کرنا اور دلائل واضح کے ساتھ صلیب کی شان کو توڑنا ہے۔‘‘

(نجم الہدیٰ، روحانی خزائن جلد14 حاشیہ صفحہ78)

2۔ ’’حدیثوں میں جو ہے کہ مسیح موعود صلیب کو توڑے گا اس سے یہ مطلب نہیں کہ وہ درحقیقت صلیب کی صورت کو توڑے گا بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ ایسے دلائل اور براہین ظاہر کرےگا جن سے صلیبی اصول کی غلطیاں ظاہر ہو جائیں گی اور دانشمند لوگ اس مذہب کا کذب یقین کر لیں گے۔‘‘

(ایام الصلح، روحانی خزائن جلد14 صفحہ60-61)

3۔ ’’مسیح موعود کی بعثت کا وقت غلبۂ صلیب کے وقت ٹھہرایا گیا ہے اور وہ صلیب کو توڑنے کے لئے آئے گا۔ اب مطلب صاف ظاہر ہے کہ مسیح موعود کی آمد کی غرض عیسوی دین کا ابطال کلی ہوگا اور وہ حجت اور براہین کے ساتھ جن کو آسمانی تائیدات اور خوارق اور بھی قوی کر دیں گے۔ اس صلیب پرستی کے مذہب کو باطل کر کے دکھا دے گا اور اس کا باطل ہونا دنیا پر روشن ہو جائے گا اور لاکھوں روحیں اعتراف کریں گی کہ فی الحقیقت عیسائی دین انسان کے لئے رحمت کا باعث نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ساری توجہ اس صلیب کی طرف لگی ہوئی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ18-19)

4۔ ’’مسیح موعودؑ کے وقت میں خدا کے ارادہ سے ایسے اسباب پیدا ہو جائیں گے جن کے ذریعہ سے صلیبی واقعہ کی اصل حقیقت کھل جائے گی۔ تب انجام ہو گا اور اس عقیدہ کی عمر پوری ہو جائے گی۔‘‘

(مسیح ہندستان میں، روحانی خزائن جلد15 صفحہ64)

5۔ ’’صلیب کے توڑنے سے مراد کوئی ظاہری جنگ نہیں بلکہ روحانی طور پر صلیبی مذہب کا توڑ دینا اور اس کا بطلان ثابت کر کے دکھا دینا ہے۔‘‘

(توضیح مرام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ57)

6۔ ’’یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ صحیح بخاری میں آنے والے مسیح کی نسبت جو لکھا ہے کہ یکسر الصلیب و یقتل الخنزیر یعنی وہ صلیبوں کو توڑے گا اور خنزیروں کو قتل کرےگا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ جنگلوں میں چوہڑوں اور چماروں کی طرح شکار کھیلتا پھرے گا اور گرجوں پر چڑھ کر صلیبیں توڑتا پھرے گا۔ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ خنزیر نجاست کھانے والے کو کہتے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ نجاست جانوروں کی ہی ہو بلکہ جھوٹ اور دروغ کی جو نجاست ہے وہ سب سے گندی اور بدبودار نجاست ہے اس لئے ایسے لوگوں کا جو ہر وقت جھوٹ اور فریب سے دنیا کو گمراہ کرتے رہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے خنزیر نام رکھا ہے اور یہ جو فرمایا یکسر الصلیب تو اس کے معنی یہ نہیں کہ مسیح جب آوے گا تو پتھر، تانبےاور لکڑی وغیرہ کی صلیبوں کو جو پیسے پیسے پر فروخت ہوتی ہیں توڑتا پھرے گا بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ صلیبی مذہب کی بنیاد کو توڑ دے گا۔‘‘

(ملفوظات، جلد10 صفحہ55-56)

7۔ ’’صلیب کے توڑنے سے یہ سمجھنا کہ صلیب کی لکڑی یا سونے چاندی کی صلیبیں توڑی جائیں گی یہ سخت غلطی ہے۔ اس قسم کی صلیبیں تو ہمیشہ اسلامی جنگوں میں ٹوٹتی رہی ہیں بلکہ اس سے یہ مطلب ہے کہ مسیح موعود صلیبی عقیدہ کو توڑے گا اور بعد اس کے دنیا میں صلیبی عقیدہ کا نشو و نما نہیں ہو گا۔ ایسا ٹوٹے گا کہ پھر قیامت تک اس کا پیوند نہیں ہوگا۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ325)

کسر صلیب کے ضمن یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اس سے ہر گز یہ مراد نہیں کہ مسیح موعود کی آمد کے بعد کوئی عیسائی باقی نہیں رہے گا۔ کسر صلیب سے صرف یہ مراد ہے کہ عیسائیت مغلوب ہو جائے گی۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کسر صلیب کے حقیقی مفہوم کے ذکر میں فرماتے ہیں:
’’یہ خیال بھی غلط ہے کہ کوئی عیسائی دنیا میں نہ رہے گا۔ اسلام ہی اسلام ہو گا جبکہ خدا تعالیٰ خود قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ ان کا وجود قیامت تک رہے گا۔ مطلب یہ ہے کہ نصاریٰ کا مذہب ہلاک ہو گا اور عیسائیت نے جو عظمت دلوں پر حاصل کی ہے وہ نہ رہے گی۔‘‘

(ملفوظات، جلد6 صفحہ212)

اس جگہ یہ ذکر کردینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ احادیث میں مسیح موعود کو کاسرِ صلیب قرار دیا گیا ہے اور اس کا کام کسرصلیب بیان کیا گیا ہے لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ کسر صلیب کا عظیم الشان کام کسی ایک فرد کاکام نہیں اور نہ ہی ایک فرد کی طاقت میں ہے کہ وہ اتنا عظیم الشان کام سر انجام دے سکے۔ یہ کام تو خدا تعالیٰ کا ہے اور دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے یا ہوگا اسی کے حکم سے ہوگا۔ پس اگر کسر صلیب کے مفہوم کو مدنظر رکھا جائے تو اصل بات یہ نظر آتی ہے کہ اس زمانہ میں صلیب کو توڑنا خدائی فیصلہ ہے اور خدا خود کاسرِ صلیب ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے یہ بھی فرمایا ہے:
’’در حقیقت صلیب کا کاسر مسیح موعود نہ ہوگا بلکہ خود خدا ہو گا۔‘‘

(ملفوظات جلد6 صفحہ212)

نیز فرمایا :
’’یہ کسر صلیب اعزازاً اور اکراماً مسیح موعود کی طرف منسوب کی جاتی ہے ورنہ کرتا تو سب کچھ خدا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد5 صفحہ305)

ظاہر ہے کہ جب کسر صلیب خدا کا کام ہے اور حقیقت میں خدا کاسرِ صلیب ہے تو دنیا کی کیا مجال ہے کہ وہ صلیب کو نہ ٹوٹنے دے۔ یہ صلیب ضرور ٹوٹے گی اور پاش پاش ہوگی اور ایسی بری طرح ٹوٹے گی کہ پھر دوبارہ جڑنے کی کوئی صورت نہ ہوگی۔

اس ضمن حضرت مسیح موعودؑ نے نہایت پرشوکت الفاظ میں تحریر فرمایا:
’’مسیح موعود صلیبی عقیدہ کو توڑے گا اور بعد میں اس کے دنیا میں صلیبی عقیدہ کا نشو و نما نہیں ہو گا۔ ایسا ٹوٹے گا کہ پھر قیامت تک اس کا پیوند نہیں ہوگا۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ325)

اگر یہ سوال ہو کہ یہ کسر صلیب کس طرح اور کن ذرائع سے ہوگی تو اس کا جواب بھی حضرت مسیح موعودؑ کی تحریرات میں ملتا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں:

’’انزل مسیح الموعود لیکسر الصلیب الاعداء و ان ھذا الکسر لیس بسیف ولا سنان کما زعمہ فریق من عمیان بل الکسر کلہ بدلیل وبرہان و آیات من السماء و سلطان‘‘

(لجۃ النور، روحانی خزائن جلد16 صفحہ13-14)

یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے مسیح موعود کو اس غرض سے بھیجا ہے کہ وہ دشمنوں کی صلیب کوتوڑ دے۔ یقینًا یاد رکھو کہ یہ کسر صلیب تلوار یا تیروں کے ذریعہ نہیں ہو گی جیسا کہ بعض نادان خیال کرتے ہیں بلکہ یہ ساری کسر صلیب دلیل، برہان، آسمانی نشانات اور روحانی غلبہ کے ذریعہ ہوگی۔

نیز فرمایا:
’’اس پیشگوئی میں یہی اشارہ تھا کہ مسیح موعود کے وقت میں خدا کے ارادہ سے ایسے اسباب پیدا ہو جائیں گے جن کے ذریعہ سے صلیبی واقعہ کی اصل حقیقت کھل جائے گی۔ تب انجام ہو گا اور اس عقیدہ کی عمر پوری ہو جائے گی۔ لیکن نہ کسی جنگ اور لڑائی سے بلکہ محض آسمانی اسباب سے جو عملی اور استدلالی رنگ میں دنیا میں ظاہر ہوں گے۔ یہی مفہوم اس حدیث کا ہے جو صحیح بخاری اور دوسری کتابوں میں درج ہے۔‘‘

(مسیح ہندستان میں، روحانی خزائن جلد15 صفحہ64)

پھر اس ضمن میں حضرت اقدسؑ فرماتے ہیں:
’’طبعًا یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسیح موعود کو کیونکر اور کن وسائل سے کسر صلیب کرنا چاہئے؟۔۔۔ اس کا جواب یہ ہے کہ۔۔۔ مسیح موعود کا منصب۔۔۔ یہ ہے کہ حجج عقلیہ اور آیات سماویہ اور دعا سے اس فتنہ کو فرو کرے۔ یہ تین ہتھیار خدا تعالیٰ نے اس کو دئیے ہیں اور تینوں میں ایسی اعجازی قوت رکھی ہے جس میں اس کا غیر ہر گز اس سے مقابلہ نہیں کرسکے گا۔ آخر اسی طور سے صلیب توڑا جائے گا۔ یہاں تک کہ ہر ایک محقق نظر سے اس کی عظمت اور بزرگی جاتی رہے گی اور رفتہ رفتہ توحید قبول کرنے کے وسیع دروازے کھلیں گے۔ یہ سب کچھ تدریجاً ہو گا کیونکہ خدا تعالیٰ کے سارے کام تدریجی ہیں کچھ ہماری حیات میں اور کچھ بعد میں ہوگا۔‘‘

(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد13 صفحہ305)

(مولانا عطاء المجیب راشد۔ امام مسجد فضل لندن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 ستمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ