• 5 مئی, 2024

مراکش کی سیر اور جماعت احمدیہ کا تعارف

اللہ کے فضل سے بچوں کے ساتھ مراکش (Morocco) کی سیر کرنے کا موقع ملا۔ مراکش جانے سے قبل جب اس ملک کا تاریخی پس منظر پڑھا۔تو جو بات میرے لئے بہت مسرت اور دلچسپی کا باعث تھی وہ مراکش کی آزادی میں پاکستان کا کردار، تھی کہ 1956ء میں مراکش نے فرانس سے آزادی حاصل کی 1952ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر پاکستان کے پہلےوزیر خارجہ سر محمد ظفراللہ صاحب کی احمد عبدالسلام بلفرج کی حمایت میں مکمل تعاون اور رات گئے نیویارک میں قائم پاکستانی سفارت خانہ کھلوا کر پاکستانی پاسپورٹ جاری کروانے کا واقعہ۔ اس کے علاوہ مراکش پہلا ملک ہے جس نے 1777ء میں امریکا کوبطور آزاد ملک تسلیم کیا تھا۔

مراکش میں ہمارا قیام مکناس شہر میں تھا جو کہ کافی صاف ستھرا شہر ہے۔ شہر میں ہر طرف چھوٹے بڑے اپارٹمنٹس میں لوگ رہتے ہیں،الگ الگ مختلف ڈیزائن کے گھر بہت کم نظر آئے۔ سڑکوں کے کنارے کینو کے درخت گولائی کی صورت میں کاٹ کر لگائے گئے ہیں اور درختوں پر پیلے رنگ کے کینو بہت بھلے معلوم ہوتے ہیں لیکن یہ صرف خوبصورتی کے لئے ہیں۔ رس اور مٹھاس نہ ہونے کیوجہ سے یہ کھانے کے لئے استعمال نہیں ہوتے۔

اس ملک کی سرکاری زبان عربی ہے اور طرز حکمرانی آئینی بادشاہت ہے یہ ترقی پذیر ملک ہے سرکاری زبان عربی ہے اور عرب کلچر نمایاں ہے۔ ویسے یہاں 4 قومیں آباد ہیں اور 4 موسم ہوتے ہیں دو سمندر ہیں جو مکناس سے تقریباً 5 گھنٹے کی ڈرائیو پر ہیں۔ سفرکے دوران اونچے نیچے پہاڑی راستوں پربل کھاتی ہوئی سڑک پر بہت لطف آیا گندم کی فصل کٹ چکی تھی۔ موسم خشک تھا۔ گرمی اور پانی کی کمی کے باعث اکثر خالی جگہوں پر گھاس بھی خشک ہوگیا تھا لیکن انہی خشک پہاڑوں پر بڑی خوبصورتی اور منظم طریقےسے لگائے گئے زیتون کے چھو ٹے بڑے درخت خوبصورتی میں اضافہ کر رہے تھے اس کی وجہ یہ کہ بارش کے موسم میں یہ پودےلگائے جاتے ہیں اور پھر سارا سال ان کو بارش کا پانی ہی کافی ہوتا ہے قدرتی طور پر ہی یہ درخت بڑا ہوتا رہتا ہے۔ آج کل چھوٹے چھوٹے گہرے سبز رنگ کے پتوں والے یہ باغات سبز زیتون سے لدے ہوئے تھے ان کی خوبصورتی دیکھ کر زبان پر بےاختیار، سبحان اللّٰہ وبحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم کا ورد جاری ہو گیا اور کیوں نہ ہو کہ قرآن کریم میں ایک سورہ کا آغاز بھی، وَالتِّیۡنِ وَالزَّیۡتُوۡنِ سے ہوا ہے اسی طرح انجیر کے خوبصورت درخت نشیب میں چشموں کے کنارے پر نظر آئے اور پھل بھی کھایا الحمد للّٰہ۔

سمندر کے پار نظر آنے والا پہاڑی سلسلہ سپین کی سرحد تھی اور قریب ہی جبرالٹر کا مقام بھی تھا جہاں کبھی طارق بن زیاد نےکشتیاں جلائی تھیں۔ اس تاریخی واقعے کا دل پر بہت اثر تھا کہ دوران سفر درود شریف اور دوسری بہت سی دعائیں کرنے کی توفیق پائی الحمد للّٰہ۔

مراکش میں جماعت احمدیہ کا قیام

مراکش کا دارالحکومت، رباط ہے جسے Salé بھی کہا جاتا ہے جس میں ہماری جماعت ہے صدر مقامی کا نام العربی ہے العربی صدر صاحب اور محمد قطبہ یہاں کے پہلے مقامی احمدی ہیں محمد قطبہ صاحب وفات پا چکے ہیں بقول صدر صاحب2006ء میں یہاں جماعت احمدیہ کا آغاز ہوا۔

غزلان پہلی احمدی عورت ہیں جنہوں نے ایم ٹی اے العربیہ اور لقاءمع العرب پروگرام سننے کے بعد بیعت کی سعادت پائی پھر اپنےخاوند کو بھی دلائل سے قائل کیا پھر کچھ عرصہ بعد انہوں نے بھی احمدیت قبول کرلی اور اللہ کے فضل سے وہ اب مراکش میںجماعت کے امیر ہیں اور ان کا اپنا ریڈیو چینل بھی ہے جس پر یہ ایک دن سوال و جواب کا پروگرام کرتے ہیں امیر صاحب آج کل امریکہ میں اپنے بیٹے کے پاس آئے ہوئے ہیں۔
افراد جماعت کی کل تعداد 1000 ہے اور پانچ شہروں میں جماعت کے مراکز ہیں۔

Salé

رباط (Salé) میں محترم صدر صاحب نے اپنے گھر کی بالائی دو منزلیں جماعت کے لئے وقف کی ہوئی ہیں نیچے والی دو منزلوں میں یہ خود رہتے ہیں تیسری منزل ایک بڑے ہال کمرے پر مشتمل ہے جو کہ نماز سینٹر ہے حضرت مسیح موعود اور خلفائے عظام کی تصویروں کے ساتھ ایک الماری میں حضرت مسیح موعودؑ کی روحانی خزائن کی جلدیں جن کا عربی میں ترجمہ کیا گیا ہے، ترتیب سےرکھی گئی ہیں اور کچھ بنیادی نصاب کی کتابیں بھی۔ نماز جمعہ اور علاقے کی ساری میٹنگز اسی ہال کمرے میں ہوتی ہیں۔

ہم دودن یہاں رہے اور ان کی بلکہ سب کی بے لوث مہمان نوازی سے بہت متاثر ہوئے تینوں وقت کھانے کی میز انواع واقسام کے کھانوں سے بھر دی جاتی کہ ہم حیران ہو جاتے۔ انہوں نے بہت خوش دلی سے ہماری بھرپور ضیافت بھی کی اور ساتھ سمندر کی سیر بھی کروائی ساتھ ہی کچھ قدیمی عمارتیں اور پرانا قلعہ بھی دیکھا قلعے کی بہت موٹی اور مضبوط دیوار تو وہی ہے لیکن اندرونی حصے میں نئے گھر بنا دیے گئے ہیں سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جائیں تو سارا شہر اور سمندر صاف نظر آتا ہے شام کا وقت اور یہ منظر بہت ہی خوبصورت اور بھلا لگ رہا تھا اور ان دنوں کا تصور کہ جب اسلامی فوجوں نے ان قلعوں کو فتح کیا تھا اور اسلامی حکومتیں قائم ہوئی تھیں اور دل سے دعائیں کر رہی تھی کہ اللہ کرے اب دوبارہ جلد اسلام احمدیت اس ملک میں بھی پھیل جائے اور غلبہ نصیب ہو، آمین۔

2010ء اور 2011ء میں پیارے حضور اقدس کےارشاد پر فرانس کے امیر صاحب، اشفاق ربانی صاحب مراکش آچکے ہیں اور انہوں نے جماعت کے نظام کو سمجھنے اور منظم کرنے میں بہت راہنمائی کی ہے۔

اس ملک کے مشہور شہر کاسا بلانکا میں حال ہی میں اللہ کے فضل سے ایک نیا تعمیر شدہ فلیٹ، جو کہ شاید پانچ منزلہ ہے خریدنےکی توفیق ملی ہے۔ بقول صدر صاحب، مراکش میں مذہبی آزادی ہے۔ کوئی مخالفت نہیں ہے۔ حکومت سے منظوری کے بغیرکوئی بھی اپنے مسلک کی مسجد نہیں بنا سکتا۔ اور یہ دیکھ کر حیرانگی ہوئی کہ جو بھی مساجد دیکھیں وہ ایک ہی ڈیزائن اور نقشے کی تھیں۔ ایم ٹی اے العربیہ کے ذریعہ لوگ احمدیت سے متعارف ہوتے ہیں اور جماعت احمدیہ میں داخل ہو رہے ہیں، الحمد للّٰہ۔

دن کے دوران منفرد طرز تعمیر کی حامل مسجد، حسن ثانی، جو کہ شہر کاسا بلانکا میں واقع ہے اور سمندر کے کنارے پرتعمیر کی گئی ہے یہ دنیا کی ساتویں بڑی مسجد ہے جو کہ بہت بڑے رقبے پر تعمیر کی گئی ہے بناوٹ اور خوبصورتی کے لحاظ سے بےمثال ہے یہاں مکمل سیکیورٹی تھی صرف نمازوں کے اوقات میں اندر جانے کی اجازت تھی۔ نماز عصر کا وقت ہوا چاہتا تھا کچھ دیر انتظار کرنا پڑا کافی لوگ جمع ہو چکے تھے کہ گیٹ کھلتے ہی لوگ اندر جانے شروع ہو گئے ہر دروازے پر نگران عورت تھی جو کہ وضو اور پھر نماز کے ہال کی طرف اشارہ کر کے گائیڈ کرتی تھی جو کہ سیڑھیاں چڑھ کر دوسری منزل پر تھا۔ اللہ کے فضل سے نماز ظہر وعصر ادا کی اور اندرون سے اس بڑی اور شاندار مسجد کا نظارہ کیا الحمد للّٰہ۔

کہا جاتا ہے کہ ہر جمعہ کے روز شاہ مراکش اس مسجد میں نماز ادا کرتے ہیں۔

ہماری بہو مراکش سے ہیں اور نومبائعہ ہیں۔ کافی بڑا خاندان ہے۔ سب نے بڑی خوش دلی سے خوش آمدید کہا، بےلوث ضیافت کی اور جماعت کا تعارف بھی ہوا۔ قارئین الفضل سے عاجزانہ دعا کی درخواست ہے کہ اللہ کرے احمدیت کا یہ پودا ثمر آور ثابت ہو اور پھولے پھلے۔ اللہ کرے ہمارا پوتا اسلام احمدیت کا مبلغ بنے۔ آمین

(رضیہ بیگم۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 ستمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ