بیٹھے ہوئے ہیں شادی و ماتم کے درمیاں
عالم سے دور بیٹھے ہیں عالم کے درمیاں
جنت کی آرزو ہے تو آتش میں کود جا
جنت ملے گی تجھ کو جہنم کے درمیاں
تجھ کو غم معاش ہے مجھ کو غم جہاں
کتنا لطيف بعد ہے غم غم کے درمیاں
جاری ہے آج بھی تو وہی پہلی کشمکش
ابلیس اور حضرت آدم کے درمیاں
روح فنا بقا و لقا کے ہیں مرحلے
حضرت مسیح و یحیی و مریم کے درمیاں
آیا خدا بھی دوڑ کے دوڑی جو ہاجرہ
کوہ صفا و مروه و زمزم کے درمیاں
حائل ہے تیرا پیار ترے پیار کی قسم
زخمِ دل فسرده و مرہم کے درمیاں
کچھ بھی نہیں ہے فرق سوا درد کے ظفر
قطرات اشک و قطرۂ شبنم کے درمیاں
(حضرت مولانا ظفر محمد ظفر)
(روز نامہ افضل 2 مارچ 1978)