• 7 مئی, 2024

انسان کو ذہنی غلام کون بناتا ہے؟ مذہب یا دہریت

حال ہی میں ایک ویڈیو منظر عام پر آئی۔ اس ویڈیو میں مکرم ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے ایک شاعر محترم فقیر سائیں صاحب کا انٹرویو لیا ہے۔ڈاکٹر پرویز ہود بھائی پاکستان میں فزیکس کے نامور پروفیسر ہیں۔ اور ان کے متعدد تحقیقاتی مقالہ جات بھی شائع ہو چکے ہیں۔ڈاکٹر ہود بھائی پاکستان میں تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لئے کئی دہائیوں سے کوشاں ہیں۔ان کا نام نامی پاکستان کے علمی حلقوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔

کیا مذہب سوال کرنے سے روکتا ہے؟

اس انٹرویو میں ان دونوں حضرات نے اس رائے کا اظہار کیا کہ پاکستانیوں میں بالعموم اور طلباء میں بالخصوص سوال کرنے کی عادت ختم ہو گئی ہے۔ اور ان کی طبیعتوں میں تجسس بالکل نہیں رہا۔ اس کا نتیجہ سائنسی اور ذہنی پسماندگی کی صورت میں نکل رہا ہے۔اور دونوں اس بات پر متفق تھے کہ اس پسماندگی کی وجہ مذہب کا اثر ہے۔ کیونکہ مذہب اطاعت کا سبق دیتا ہے اور صرف اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ ’’مانو‘‘، اس لئے جب کوئی سوال اُٹھائے تو یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ یہ تو ابلیس کے نرغے میں آ گیا ہے۔

اس انٹرویو کا ایک حصہ ملاحظہ فرمائیں:
ہود بھائی: اب سائنس کی بنیاد بھی تو تجسس ہے نا، ہم جاننا چاہتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے اور ایسا کیوں ہےاور اس کے پیچھےجو وجوہات ہیں، وہ تلاش کرتے ہیں۔ لیکن جب ایمان ہم پر حاوی ہوجاتا ہے تو پھر وہ سوچنے سمجھنے اور سوال کرنے کی صلاحیتیں مفقود ہوجاتی ہیں۔۔۔۔

اس چوکھٹ کے اندر آپ رہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، اس کے باہر دیکھنا ہے اس طرف دیکھنا ہے یا اس طرف دیکھنا ہے۔ پھر وہ ایک اچھی چیز نہیں سمجھی جاتی۔ یہاں تک کہ اسکو کفر بھی کہا جاتا ہے۔

پھر یہ مکالمہ اس طرح جاری رہا :
فقیر سائیں: اور میں سمجھتا ہوں کہ ہم لوگ جو لکھتے ہیں جو شاعر ہیں، اگر ہم تجسس کو بڑھاوا دے رہے ہیں اور پرموٹ کر رہے ہیں تو یہ ہماری طرف سے بڑی خدمت ہوسکتی ہے، معاشرے کی۔ چاہے کوئی ہماری بات سنے یا نہ سنے، مانے یا نہ مانے، لیکن ہم نے یہ کام کرتے جانا ہے۔
ہود بھائی: مگر لوگ کہتے ہیں یہ تو پھر ابلیس کے نرغے میں آگئے، شیطان آپ کو اکساتا ہے سوال کرنے پر۔ آپ کیا کہتے ہیں؟ مجھے کچھ یاد آرہا ہے آپ نے کچھ لکھا بھی تھا نا اس کے اوپر؟

ہمیں خوشی ہے کہ خود مکرم ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے فرمایاکہ ہر چیز کے بارے میں سوالات اٹھانا ضروری ہے۔ہم اسی کلیہ کو ان کے نظریات پر لاگو کر کے ان کے اور فقیر سائیں صاحب کے نظریات کے بارے میں چند سوالات اُ ٹھائیں گے اور حقائق کی روشنی میں ان کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔

کیا مذہب سوال کرنے سے روکتا ہے؟

سب سے پہلے ہم یہ جائزہ لیں گے کہ اس بارے میں اسلامی تعلیم کیا ہے؟ اور جب اسلامی تعلیم کی بات ہو تو لازمی طور پر پہلے قرآن کریم کے احکامات کا جائزہ لینا ہوگا۔ سب سے پہلےیہ جائزہ لیتے ہیں کہ قرآن کریم سے کیا ظاہر ہوتا ہے ؟کیا علم بڑھانے کے لئے سوال کرنے کی ممانعت کی گئی ہے ؟ کیا عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کیا کرتے تھے؟ اس سے سلسلہ میں چند آیات کریمہ درج کی جاتی ہیں۔

سَأَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ [المعارج 2]

ترجمہ: کسی پوچھنے والے نے ایک لازماََ واقع ہونے والے عذاب کے بارے میں پوچھا۔

وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۔۔۔۔ [البقرہ 187]

ترجمہ: اور جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں۔ تو میں قریب ہوں۔۔

يَسْأَلُ أَيَّانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ [القیامہ 7]

ترجمہ: وہ پوچھتا ہے قیامت کا دن کب ہوگا؟

يَسْأَلُكَ النَّاسُ عَنِْ السَّاعَةِ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللَّهِ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُونُ قَرِيبًا [الاحزاب 64]

ترجمہ : لوگ تجھ سے ساعت کے متعلق پوچھتے ہیں تو کہہ دے کہ اس کا علم صرف اللہ کے پاس ہے۔ اور تجھے کیا چیز سمجھائے کہ شاید ساعت قریب ہو۔

يَسْأَلُونَكَ عَنِْ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا [النازعات۔42]

ترجمہ:وہ قیامت کی گھڑی کے متعلق تجھ سے پوچھتے ہیں کہ وہ کب برپا ہو گی۔

وَيَسْأَلُونَكَ عَنِْ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنسِفُهَا رَبِّي نَسْفًا [طه۔106]

ترجمہ : وہ تجھ سے پہاڑوں کے متعلق سوال کرتے ہیں۔ تو کہہ دے کہ میرا رب انہیں ریزہ ریزہ کر دے گا۔

وَيَسْأَلُونَكَ عَنِْ ذِي الْقَرْنَيْنِ قُلْ سَأَتْلُو عَلَيْكُمْ مِنْهُ ذِكْرًا [الكهف۔84]

ترجمہ: وہ تجھ سے ذوالقرنین کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔کہہ دے میں ضرور اس کا کچھ ذکر تم پر پڑھوں گا۔

وَيَسْأَلُونَكَ عَنِْ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِيلاً [الإسراء۔86]

ترجمہ:اور وہ تجھ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں تو کہہ دے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمہیں معمولی علم کے سوا کچھ نہیں دیا گیا۔

يَسْأَلُونَكَ عَنِْ الأَنْفَالِ قُلْ الأَنْفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ ۔۔۔۔ [الأنفال۔ 2]

ترجمہ: وہ تجھ سے اموال غنیمت سے متعلق سوال کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔

يَسْأَلُونَكَ عَنِْ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي ۔۔۔ [الأعراف۔188]

ترجمہ: وہ تجھ سے قیامت سے متعلق سوال کرتے ہیں کہ کب اسے بپا ہونا ہے۔ تو کہہ دے کہ اس کا علم صرف میرے رب کے پاس ہے۔۔۔

يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ ۔۔۔۔۔۔ [المائدة۔5]

ترجمہ: وہ تجھ سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لئے کیا حلال کیا گیا ہے۔۔۔۔

وَيَسْأَلُونَكَ عَنِْ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيض ۔۔۔۔ [البقرة۔223]

ترجمہ:وہ تجھ سے حیض کی حالت کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔تو کہہ دے کہ یہ ایک تکلیف [کی حالت] ہے۔۔

وَيَسْأَلُونَكَ عَنِْ الْيَتَامَى [البقرہ 221]

ترجمہ: وہ تجھ سے یتامیٰ کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔۔۔۔

يَسْأَلُونَكَ عَنِْ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِمَا وَيَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلْ الْعَفْوَ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ الآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ [البقرة:220]

ترجمہ: وہ تجھ سے شراب اور جوئے کے متعلق سوال کرتے ہیں۔ تو کہہ دے ان دونوں میں بڑا گناہ [بھی]ہے۔ اور لوگوں کے لئے فوائد بھی۔اور دونوں کا گناہ [کا پہلو] ان کے فائدے سے بڑھ کر ہے۔ اور وہ تجھ سے[ یہ بھی] پوچھتے ہیں کہ وہ کیا خرچ کریں ؟ ان سے کہہ دے کہ [ضروریات میں سے] جو بھی بچتا ہے۔ اسی طرح اللہ تمہارے لئے [اپنے] نشانات کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم تفکر کرو۔

يَسْأَلُونَكَ عَنِْ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ ۔۔۔۔ [ البقرہ 218]

ترجمہ: وہ تجھ سے عزت والے مہینے یعنی اس میں قتال کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔

يَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلْ مَا أَنفَقْتُمْ مِنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالأَقْرَبِينَ وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ [البقرة:216]

ترجمہ: وہ تجھ سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیا خرچ کریں۔تو کہہ دے کہ تم اپنے مال میں سے جو کچھ بھی خرچ کرنا چاہو تو والدین کی خاطر کرو اقرباء کی خاطر اور یتیموں کی خاطر اور مسکینوں کی خاطر اور مسافروں کی خاطر۔ اور جو نیکی بھی تم کرو تو اللہ یقیناََ اس کا خوب علم رکھتا ہے۔

يَسْأَلُونَكَ عَنِْ الأَهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ۔۔ [البقرة:190]

ترجمہ: وہ تجھ سے پہلی تین راتوں کے چاند کے متعلق پوچھتے ہیں۔ تو کہہ دے یہ لوگوں کے لئے اوقات کی تعیین کا ذریعہ ہیں اور حج کی [تعیین] کا بھی۔

اوپر درج کی گئیں آیات کریمہ سے واضح ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر طرح کے سوالات کئے جاتے تھے۔ آپ سے یہ سوال بھی کیا جاتا تھاکہ قیامت کب آئے گی؟ آپ سے دریافت کیا جاتا تھا کہ عذاب کب آئے گا؟ آپ سے چاند کی تاریخوں کے متعلق سوالات کئے جاتے تھے۔آپ سے حرمت کے مہینوں کے بارے میں سوالات کئے جاتے تھے۔آپ سے مالی امور کے بارے میں سوالات کئے جاتے تھے۔ آپ سے تاریخی واقعات کے بارے میں سوالات کئے جاتے تھے۔حیض جیسے مسائل تک کے بارے میں سوالات کئے گئے۔ الغرض قرآن کریم گواہ ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر قسم کے سوالات کئے جاتے تھے۔ اور ان مذکورہ سوالات کے جواب میں یہ نہیں کہا گیا کہ تمہیں سوالات کرنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ ان کے جوابات قرآن کریم میں درج ہیں۔صرف ان سوالات کرنے سے منع کیا گیا جن کے نتیجہ میں انسان مشکل میں مبتلا ہوں۔ [سورۃ المائدہ 102]۔

اس انٹرویو میں مکرم ڈاکٹر پرویز ہود بھائی صاحب نے فرمایا تھا ’’لیکن جب ایمان ہم پر حاوی ہوجاتا ہے تو پھر وہ سوچنے سمجھنے اور سوال کرنے کی صلاحیتیں مفقود ہوجاتی ہیں‘‘۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایمان سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں اور آپ کے صحابہ کے ذہنوں پر حاوی تھا۔ لیکن یہ مثالیں واضح کرتی ہیں کہ ان میں سوال کرنے کی صلاحیت تو مفقود نہیں ہوئی تھی۔ کسی بھی نظریہ کو تسلیم کرانے کے لئے شواہد پیش کرنے پڑتے ہیں۔ مکرم ڈاکٹر پرویز ہود بھائی اور مکرم فقیر سائیں صاحب نے ایک نظریہ پیش کیا لیکن اس کے حق میں کوئی ثبوت پیش نہیں کئے۔ اور یہ آیات اس نظریہ کو غلط ثابت کر رہی ہیں۔

کیا مذہب تبادلہ خیالات اور غور و فکر سے روکتا ہے؟

اب ہم ایک مختلف پہلو سے اس بحث کا تجزیہ کرتے ہیں۔ کیا قرآن کریم کے مطابق صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کئے جاتے تھے کہ دوسروں سے سوالات کرنے کی ترغیب بھی دی گئی تھی۔ اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل آیات ملاحظہ ہوں

فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ [سورۃ النحل۔44]

ترجمہ: پس اہل ذکر سے پوچھ لو اگر تم نہیں جانتے۔

فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ [سورۃ الانبیاء۔8]

ترجمہ: پس اہل ذکر سے پوچھ لو اگر تم نہیں جانتے۔

سَلْ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَمْ آتَيْنَاهُمْ مِنْ آيَةٍ بَيِّنَةٍ ۔۔۔۔۔۔ [سورۃ البقرہ 212]

ترجمہ: بنی اسرائیل سے پوچھ لے ہم نے ان کو کتنے ہی کھلے کھلے نشان دیئے تھے۔

ان مثالوں سے واضح ہے کہ قرآن مجید میں دوسروں سے سوالات کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ کیونکہ سوالات کرنے سے ہی تبادلہ خیالات ہوتا ہے اور عقل اور علم ترقی کرتے ہیں۔ مکرم ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے فرمایا ہے کہ جو سوال کرے اس کے متعلق یہ کہا جا تا ہے کہ وہ ابلیس کے نرغے میں آ گیا۔ مجھے علم نہیں کہ وہ کس مذہب کی بات کر رہے ہیں۔ قرآن کریم تو اپنے تابعین کو سوالات کرنے کی تعلیم دے رہا ہے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ قرآن کریم کے مطابق تو ابلیس نے کوئی سوال کیا ہی نہیں تھا۔ اس نے کسی سوال اور جواب کے بغیر اظہار تکبر کیا تھا۔ البتہ فرشتوں نے آدم کی تخلیق کے وقت یہ سوال کیا تھا۔

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُّفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ۔۔۔۔۔ [البقرہ 31]

ترجمہ: اور [یاد رکھ] جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا یقیناََ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ انہوں نے کہا کیا تو اس میں وہ بنائے گا جو اس میں فساد کرے اور خون بہائےجبکہ ہم تیری حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور ہم تیری پاکیزگی بیان کرتے ہیں۔۔۔۔۔

قرآن کریم کی رو سےحضرت آدم کی تخلیق کے وقت فرشتوں نے سوال کیا تھا اور ابلیس نے بغیر کسی سوال کے صرف تکبر کا اظہار کیا تھا۔تو یہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ جو سوال کرنا ابلیس کی پیروی کرنا ہے۔

اگر یہ بات درست ہوتی کہ مذہب صرف یہ تاکید کرتا ہے کہ تم صرف مانو اور سوال اور تجسس سے منع کرتا ہے تو قرآن کریم میں بار بار غور و فکر کرنے کا حکم نہ دیا جاتا۔ جیسا کہ قرآن کریم میں حکم دیا گیا ہے

قُلْ إِنَّمَا أَعِظُكُمْ بِوَاحِدَةٍ أَنْ تَقُومُوا لِلّٰهِ مَثْنٰى وَفُرَادٰى ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا مَا بِصَاحِبِكُمْ مِنْ جِنَّةٍ إِنْ هُوَ إِلاَّ نَذِيرٌ لَّكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ [سبا۔ 34۔47]

ترجمہ: تو کہہ دے کہ میں محض تمہیں ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ تم دو دو ایک ایک کر کے اللہ کی خاطر کھڑے ہو جائو۔پھر خوب غور کرو۔ تمہارے ساتھی کو کوئی جنون نہیں۔ وہ تو محض ایک سخت عذاب سے پہلے تمہیں ڈرانے والا بن کر آیا ہے۔

كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ [البقرہ 220]

ترجمہ: اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لئے [اپنے] نشانات کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم تفکر کرو۔

كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ [البقرہ 267]

ترجمہ: اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لئے [اپنے] نشانات کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم تفکر کرو۔

أَفَلاَ تَتَفَكَّرُونَ [الانعام۔51]

ترجمہ: کیا تم تفکر نہیں کرتے۔

الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللّٰهَ قِيَامًا وَّقُعُودًا وَعَلٰى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلاً سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ [آل عمران 3 :192]

ترجمہ:وہ لوگ جو اللہ کو یاد کرتے ہیں کھڑے ہوئے بھی اور بیٹھے ہوئے بھی اور اپنے پہلوئوں کے بل بھی اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور و فکر کرتے رہتے ہیں۔[اور بے ساختہ کہتے ہیں]۔اے ہمارے رب تو نے ہر گزیہ بے مقصد پیدا نہیں کیا۔پاک ہے تو پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔

یہ چند مثالیں واضح کر دیتی ہیں کہ قرآن کریم انبیاء کی بعثت پر، قرآن کریم کی آیات پر اور سائنسی امور پر غور و فکر کا حکم دیتا ہے۔ سوچ کے دروازے بند نہیں کرتا۔ اگر مذہب لوگوں کو بغیر دلیل اور سوال کے صرف ماننے کی تلقین کرتا تو تین مرتبہ قرآن کریم میں غیر مذاہب کے لوگوں کو مخاطب کر کے یہ اعلان نہ کیا جاتا کہ ’’ھاتوا برھانکم’’ یعنی اپنی دلیل پیش کرو۔ [البقرہ 112، الانبیاء 25، النمل 65]

فلسفیوں کے یوٹوپیا میں انسانی آزادی کا تصور

کم از کم دو تین ہزار سال سے فلسفیوں کی طرف سےمذہب پر اس قسم کے سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں کہ مذہب غلام اورمحکوم بناتا ہے۔اور ذہنی آزادی کو ختم کرتا ہے۔ یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ اتنی صدیوں سے فلسفی کا کیا نظام تجویز کرتے رہے ہیں؟ ایک ایسا نظام جس کی بنیاد مذہب نہ ہو۔ جس کی بنیاد خدا کی راہنمائی نہ ہو۔ایک ایسا نظام جسے اُس دور کے چوٹی کے ذہنوں نے تجویز کیا ہو۔ایک ایسا ہی نظام افلاطون (Plato) نے تجویز کیا تھا۔ایک آئیڈیل ریاست۔ اس ریاست کا نام یوٹوپیا (Utopia) ہے۔ اور یہ نام ایک ضرب المثل بن چکا ہے۔ اب یہ جائزہ لیتے ہیں کہ اس ریاست میں انسانوں کی آزادی کے لیے کیا انتظامات تجویز کئے گئے ہیں۔فلسفے کی تاریخ میں یہ پہلا قابل ذکر ریاستی نظام تھا جو کہ کسی فلسفی نے تجویز کیا تھا۔اور اب تک فلسفہ کی دنیا میں افلاطون کے خیالات کو ایک خاص اہمیت دی جاتی ہے۔

اس تجویز کردہ نظام میں افلاطون نے بیان کیا تھا کہ شہریوں کو تین طبقات میں تقسیم کر دینا چاہیے۔ایک طبقہ عام شہریوں کا ہو گا۔ ایک طبقہ سپاہیوں کا ہو گا۔ اور ایک قلیل لوگوں کا طبقہ اس ریاست کے ‘‘سرپرستوں’’ کا ہوگا۔ساری سیاسی طاقت ان ‘‘ سرپرستوں ’’ کے ہاتھ میں ہو گی۔ اور یہ سرپرست فلاسفر ہوں گے۔ گویا اس نظام کی بنیاد ہی یہ تھی کہ انسانی مساوات کو ختم کر دیا جائے۔ اور جو جس طبقے میں پیدا ہو گا اسی طبقے میں رہے گا۔ البتہ استثناء کے طور پر کچھ لوگوں کو اپنے آبائی طبقہ سے اوپر جانے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔اس طرح فلاسفروں نے یہ تجویز کیا تھا کہ دنیا میں فلاسفروں کی نسلی حاکمیت قائم کر دی جائے اور باقی انسان ان کے محکوم بن کر گذارا کریں۔اور اس حاکم طبقے کے اختیارات کی کوئی حدود مقرر نہیں کی گئیں۔

چونکہ یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ مذہب تعلیمی آزادی پر قدغن لگاتا ہے۔ اب یہ دیکھتے ہیں کہ فلاسفروں کی اس ریاست میں تعلیم کا نظام کتنا آزاد ہوگا۔شروع ہی سے طلباء کو جو کچھ پڑھنے کو ملے گا اسے ریاست سنسر کرے گی۔ یہاں تک کہ نوجوان جو موسیقی سنیں گے وہ بھی ریاست سے منظور شدہ ہو گا۔ تاکہ ان کی پروان ریاست کی خواہش کےمطابق ہو۔اور یہاں تک کہ مائیں بچوں کو جو کہانیاں سنائیں گی وہ بھی ریاست یا فلاسفروں کے اس صاحب اقتدار طبقہ سے منظور شدہ ہوں گی۔

فلاسفروں کی یہ حکومت لوگوں کے باورچی خانوں میں بھی کافی دخل اندازی کرے گی۔شہریوں پر پابندی ہوگی کہ وہ گوشت اور مچھلی اچھی طرح بھون کر کھائیں۔ چٹنیوں اور مٹھائیوں پر پابندی ہو گی۔ کیونکہ افلاطون کا یہ خیال تھا کہ اس طرح ڈاکٹروں کی ضرورت ختم ہو جائے گی۔[ڈاکٹر اس تجویز پر بہر حال خوش نہیں ہو ں گے]

پڑھنے والے سوچتے ہوں گے کہ اس فلسفیانہ ریاست میں لوگ شادی کیسے کریں گے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ لوگ اس طرح شادیاں نہیں کریں گے جیسے دنیا میں کی جاتی ہے۔ بلکہ بہت سے مردوں کی بہت سی بیویاں ہوں گی۔ اور ریاست یہ فیصلہ کرے گی کہ کس نے کس کے گروپ میں شامل ہونا ہے تاکہ اچھی نسل حاصل کی جا سکے۔ اور کسی کو نہیں پتہ ہوگا کہ وہ کس کی اولاد ہے۔ اور بچوں کو پیدا ہونے کے بعد ماں باپ سے لے کر ریاست کی تحویل میں لے لیا جائے گا۔دوسرے الفاظ میں فلاسفروں کی اس ریاست میں انسانوں سے وہ سلوک ہوگا جو کہ گھوڑوں سے اصطبل میں اور جانوروں سے ڈیری فارم میں ہوتا ہے۔کیا یہ آزادی ہے؟ کیا اس طریق پر لوگوں کو مذہب کی زنجیروں سے آزاد کیا جائے گا؟ کیا اس طریق پر لوگوں کو ذہنی آزادی دلائی جائے گی؟ یہ آزادی نہیں بلکہ فلاسفروں کی غلامی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ مذہب انسانوں کو آزادی دیتا ہے اور فلاسفر انہیں اپنا غلام بنانا چاہتا ہے۔

(The History of Western Philosophy , by Bertrand Russel, published by SIMON AND SCHUSTER, NEW YORK p 108-110)

حیرت تو اس بات پر ہے کہ اب تک ایک طبقہ جو کہ مذہب پر شدید تنقید کرتا ہے، افلاطون خیالات پر سر دھنتا ہے اور اسے فلسفہ کے عظیم بانیوں میں شمار کرتا ہے۔ادب سے عرض ہے کہ خود ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے اپنے ایک مضمون میں جو کہ یکم فروری 2020 کو روزنامہ ڈان میں شائع ہوا، افلاطون کے طریقہ تدریس کی تعریف کی تھی۔ کیونکہ وہ اپنے طلباء کو ریاضی اور جیومیٹری پڑھاتے ہوئے ہر چیز کی صحیح تعریف دریافت کرتے تھے۔ ریاضی اور جیومیٹری کا ذکر تو ایک طرف رکھیں لیکن اگر اس افلاطونی انداز میں دنیا کو چلانے کی کوشش کی گئی تو دنیا اس تباہی کا منہ دیکھے گی جس کی مثال اب تک کی تاریخ میں نہیں ملتی۔

نیچہ نے مذہب سے کس طرح آزادی دلائی

ان گذارشات پر شاید یہ اعتراض کیا جائے کہ یہ تو قبل مسیح دور کی باتیں ہیں۔ اس وقت فلسفہ ابھی خام حالت میں تھا۔ اب تو فلاسفر بالغ ہو گئے ہیں۔ اس لئے اب ہم فلسفہ کے اس دور میں داخل ہوتے ہیں جسے جدید دور کہا جاتا ہے۔ یعنی انیسویں صدی کا آخر۔ہم جرمن فلاسفر نیچہ [Nietzsche] کی مثال پیش کریں گے۔اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ نیچہ کا شمارجدید دہریہ فلسفے کے بانیوں میں کیا جاتا ہے اور خود محترم ڈاکٹر پرویز ہود بھائی صاحب نے اسے ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ہے:

The notion of rationality – which is so crucial to science – exists within every idea system although the importance assigned to it may vary. What does rationality mean? The 19th century philosopher Nietzsche gave a succinct definition: rationality is a matrix of connections which assigns cause to effect. Looking for the roots of rationality, Nietzsche delved deep into the psycho-biological roots of epistemolgy.

(Islam and Science Religious Orthodoxy and The Battle for Rationality Pervez Hoodbhoy, published by Zed Publications 1991, p 119)

ترجمہ: عقلیت کا نظریہ سائنس کے لئے بہت اہم ہے۔ یہ نظریہ ہر نظریاتی نظام میں موجود ہے اگرچہ مختلف نظاموں میں اسے مختلف اہمیت دی گئی ہے۔انیسویں صدی کے فلاسفر نیچہ نے اس کی بہت مختصر اور جامع تعریف کی ہے۔ عقلیت روابط کا ایک نظام ہے جو کہ علت اور معلول کو متعین کرتا ہے۔ عقلیت کی جڑوں کو تلاش کرتے ہوئے نیچہ نے علم الکلام کی نفسیاتی اور حیاتیاتی جڑوں کا گہرا جائزہ لیاہے۔

اب ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ اس فلاسفر نے انسانوں کو خدا کے تصور سے علیحدہ کر کے کیسی آزادی دلائی۔

1882میں جرمن فلاسفر نیچہ نے ایک تمثیل لکھی جس کا نام تھا The Parable of the Madman

اس میں تمثیل میں بیان کیا گیا ہے کہ ایک شخص نے دن کے وقت لالٹین ہاتھ میں لی اور باہر نکل کر آوازیں لگانی شروع کیں کہ خدا کہاں ہے؟ اور پھر اس نے اعلان کیا کہ ہم نے [نعوذُ باللہ] خدا کو قتل کر دیا ہے۔ میں اور تم اس کے قاتل ہیں۔ہمارے ہاتھوں سے یہ خون کون صاف کرے گا؟

یہ خیالات واضح ہیں کہ کوئی خدا موجود نہیں۔ اس کے بعد نیچہ نے کن خیالات کا اظہار کیا؟ ان کے نزدیک کوئی خدا موجود نہیں تھا۔ ان پر کوئی مذہبی اثر نہیں تھا۔ انہوں نے دنیا کے لئے کیا نظام تجویز کیا ؟ کیا ان کے تجویز کردہ نظام میں انسانوں کے لئے آزادی کا پیغام تھا ؟

اس تمثیل کے تین سال بعد 1885 میں نیچہ نے ایک اور کتاب لکھی جس کا نام Thus Spoke Zarathustraتھا۔اس کتاب میں انہوں نے نظریہ پیش کیا کہ انسان تو بندر سے بھی زیادہ بندر ہے اور اعلیٰ ترین انسان بھی ننگے ہیں۔ دنیا بھر کے انسانوں کا یہی مقصد ہے کہ وہ غلاموں کی طرح ایک برتر قسم کا انسان Overmanبنانے کی کوشش کریں۔ اس برتر انسان کی راہ میں خدا کا تصور حائل تھا۔ اب یہ تصور ختم ہو گیا ہے تو یہ فرضی برتر انسان ظہور کرے گا۔ یہ فرضی انسان ایک علیحدہ مخلوق معلوم ہوتا ہے۔انہوں نے نظریہ پیش کیا کہ انسانیت کو نظر انداز کر کے اس برتر انسان کو ڈھونڈنا پڑے گا۔اور جن انسانوں کو انہوں نے اپنے زعم میں خدا کی غلامی سے آزاد کرایا تھا، ان کے لئے یہ لائحہ عمل تجویز کیا:

I love those who…… sacrifice themselves for the earth, so that the earth may one day become the overman’s.

(Thus Spoke Zarusthra p 8)

ترجمہ: میں ان سے محبت کرتا ہوں جو کہ خود کو زمین پر قربان کر دیتے ہیں تاکہ یہ زمین ایک دن اُس برتر انسان کی ملکیت بن جائے۔

اس طرح خدا کے تصور سے علیحدہ کر کے انسانیت کو آزاد نہیں کیا جا رہا بلکہ ایک فلسفیانہ نظریات کی پیداوار فرضی برتر انسان کی غلامی میں دھکیلا جا رہا ہے۔ اور اسے یہ تلقین کی جا رہی کہ تم ان نظریات پر قربان ہو جائو۔نیچہ کا نظریہ تھا کہ ایک پوری قوم کی تکالیف ایک عظیم انسان کی غم کے سامنے کوئی حیثیث نہیں رکھتیں۔ انہوں نے ایک بین الاقوامی حکمران طبقہ کا تصور پیش کیا۔ ان کے نزدیک باقی انسانیت کا یہی کام تھا کہ وہ اس بالا طبقے کی نازبرداریاں کرے۔

نیچہ نے عورتوں کے حقوق پر بھی کافی تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ان کا نظریہ تھا کہ عورتیں اس قابل بھی نہیں ہیں کہ ان سے دوستی کا تعلق رکھا جائےمردوں کو چاہیے کہ انہیں اپنی جائیداد سمجھیں۔ایک عورت کی سطح گائے اور بلی سے زیادہ نہیں ہے۔جس طرح جنگ کے لئے مردوں کی تربیت کی جاتی ہے، اسی طرح عورتوں کو اس بات کی تربیت دینی چاہیے کہ وہ ان مردوں کا دل بہلائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عورت ایک پہیلی ہے اور اس کا حل یہ ہے کہ اسے حمل ہو جائے۔اگر مضبوط مرد انہیں قابو نہ کریں تو یہ عورتیں بالکل نا قابل برداشت ہو جائیں۔عورتوں کا اہم ترین مصرف یہ ہے کہ وہ ایک برتر قسم کے مرد کو جنم دیں۔

یہ لغو اور اوٹ پٹانگ خیالات اس قابل بھی نہیں ہیں کہ سنجیدگی سے ان کا تجزیہ کیا جائے۔ لیکن ان خیالات کے باوجود نیچہ کو یہ شکوہ تھا کہ مذاہب نے انسان کو غلام بنا دیا ہے۔ حالانکہ ان کے خیالات میں انسانیت کے لئے غلامی کے علاوہ کوئی پیغام نہیں ہے۔ نیچہ نے یہ نعرہ لگایا کہ وہ لوگوں کو خدا کے تصور سے آزادی دلا رہا ہے اور پھر آدھی انسانیت کو جانور قرار دے دیا۔ یہ خوب آزادی ہے؟

(The History of Western Philosophy , by Bertrand Russel, published by SIMON AND SCHUSTER, NEW YORK p 760-765)

اور ملاحظہ فرمائیں کہ آج تک نیچہ کا شمار ان بڑے فلاسفروں میں کیا جاتا ہے ایسا فلاسفر جس نے لوگوں کو مذہب کی غلامی سے نجات دلائی۔اور ان خیالات کے باوجود وہ عظیم ترین فلاسفر شمار ہوتے ہیں۔ان مثالوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جب ایک فلسفی یہ نعرہ لگاتا ہے کہ وہ لوگوں کو خدا کے تصور سے آزاد کرا رہا ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ انسانیت کو خدا اور مذہب سے بیگانہ کرکے اپنے نظریات کی غلامی کا طوق پہنا رہا ہے۔ فلسفیوں کے اقتدار میں نہ سوچ کی آزادی ہے اور نہ ہی کسی اور چیز کی۔

اشتراکی ممالک کی مثال

اس ساری بحث کے بعد یہ دیکھنا ضروری ہے کیا ماضی قریب کی تاریخ میں کبھی ایسا ہوا ہے کہ کسی ملک میں یا کئی ممالک میں زبردستی مذہب کا تصور ختم کیا گیا ہو۔ اگر تاریخ میں ایسے ممالک کی مثال موجود ہے تو پھر یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ کیا ان ممالک کے معاشرے میں سوچ اور سوال کرنے کی آزادی میں اضافہ ہوا یا اظہار خیال کو جرم قرار دے دیا گیا؟ آخر محترم پرویز ہود بھائی نے فرمایا ہے کہ سوال اٹھانا ضروری ہے۔

پہلی جنگ عظیم کے دوران اشتراکی سوویت یونین کا قیام۔ اور دوسری جنگ عظیم کے بعد مشرقی یورپ کا اشتراکیت کے زیر اثر آجانا ایک ایسا منفرد واقعہ ہے جب کئی ممالک میں بیک وقت مذہب کے اثر کو ختم کیا گیا بلکہ مذہب کو عام لوگوں کی افیون قرار دیا گیا۔ یہ کوششیں کی گئیں کہ لوگوں کے ذہنوں سے خدا کا تصور بھی ختم ہوجائے۔ ان ممالک میں ریاست کی طاقت مذہب کا مذاق اڑانے کے لئے وقف تھی۔ جہاں تک سوویت یونین کا تعلق ہے تو لینن کے دور میں بھی مذہب پر پابندیاں لگنی شروع ہو گئی تھیں۔ چرچ کی جائیدادیں ضبط کر لی گئی تھیں۔ مذہبی تنظیموں پر پابندیاں لگا دی گئی تھیں۔لیکن سٹالن کے دور میں مذہب کے تصور کو اور زیادہ سختی سے ختم کیا گیا۔اور اس مہم کا سب سے زیادہ نشانہ رشین اورتھوڈوکس چرچ اور مسلمان تھے۔ہزاروں پادریوں کو گولی مار دی گئی۔ہزاروں لوگوں کو مذہبی خیالات کی پاداش میں کیمپوں میں بھجوا دیا گیا۔عبادتگاہوں کو ضبط کر لیا گیا اور مذہبی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی گئی۔

لیکن کیا نتیجہ نکلا؟ کیا اس دور میں سوچ اور سوال کرنے کی آزادی بڑھی یا اس پر قدغنوں کے انبار لگا دیئے گئے۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اس معاشرے میں جسے مذہب سے پاک کیا گیا تھا شہریوں کو سوچ کی یا اظہار خیال کی کوئی آزادی نصیب نہیں ہوئی تھی۔ خدا کی عبادت پر تو پابندی لگادی گئی لیکن جب لینن کا انتقال ہو ا تو ان کی لاش کو حنوط کر کے مستقل نمائش کے لئے رکھ دیا۔ اور شہری اس لاش کی زیارت کرتے تھے۔ جس طرح بعض لوگ مزاروں کی زیارت کے لئے جاتے ہیں۔روس کے عیسائی گھروں میں اور پبلک مقامات پر روایتی طور پر حضرت عیسیٰ کی شبیہ آویزاں کرتے تھے۔ ان تصویروں کو تو اتار دیا گیا لیکن یہ دیواریں خالی نہیں رہیں۔ ان پر لینن اور سٹالن کی بڑی بڑی تصویریں آویزاں کر دی گئیں۔ کمیونسٹ لیڈروں کے بڑے بڑے مجسمے ہر جگہ اتنی بڑی تعداد میں نصب کئے گئے جو کسی بت پرست قوم نے بھی نصب نہیں کئے۔

اس موضوع پر سینکڑوں کتابیں لکھی گئی ہیں۔یہ تفصیلات نوبل انعام یافتہ مصنف الیگزینڈر سولزینٹسن Aleksandr] Solzhenitsyn] کی کتاب Gulag Archipelagoمیں بھی ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔اگر کوئی پرائیویٹ خط میں بھی سٹالن کی پالیسی یا کمیونزم پر تنقیدکرتا تو اسے گرفتار کر کے دس سال کے لئے جبری مشقت کے کیمپ میں بھجوا دیا جاتا۔کوئی دشمن کی مشینوں کی تعریف کرتا تو دس سال کے لئے قید اس کا مقدر بن جاتی۔جو کوئی کمیونسٹ نظریات سے اختلاف کرنے کی جرأ ت کرتا تو اسے ریاست کا دشمن قرار دیا جاتا اور جبری مشقت کے کیمپ بھجوا دیا جاتا۔ہر چھپنے والے حرف کو پرکھا جاتا کہ اس میں اشتراکی نظریات کے خلاف تو کچھ نہیں لکھا جا رہا۔ اب اتنے تاریخی حقائق سامنے آچکے ہیں کہ اس پہلو پر کسی بحث کی بھی ضرورت نہیں کہ ان ممالک میں جب سرکاری طور پر مذہب کو شجر ممنوعہ قرار دیا گیا تو اس کے نتیجے میں ان ممالک کے شہریوں کو سوچنے اور سوال کرنے کی کوئی آزادی نصیب نہیں ہوئی تھی۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ اشتراکی فلسفے نے یہ نعرہ بلند کیا کہ ہم لوگوں کو مذہب کی غلامی سے نجات دلا رہے ہیں اور اس کے بعد لوگوں کو اپنے نظریات کا غلام بنا لیا۔دہریہ فلاسفر مذہب کی شدید مخالفت کرتا ہے کیونکہ جب تک لوگوں کے ذہنوں میں خدا تعالیٰ کا تصور موجود ہے وہ اپنے جیسے انسانوں کی مکمل ذہنی غلامی پر آمادہ نہیں ہو سکتے۔ اور دہریہ فلاسفر انسانیت کو اپنا مکمل غلام بنانا چاہتا ہے۔

(مرسلہ: ابو نائل)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 اکتوبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 اکتوبر 2020