رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے دور میں پیدا ہوئےجب شرک اور بت پرستی عام تھی۔ کفروضلالت کا دور دورہ تھا۔مادہ پرستی اور اللہ تعالیٰ کے احکامات سے بغاوت لوگوں کی فطرت بن چکی تھی گمراہی کو راہ راست سمجھا جاتاتھا۔اور ہر وہ برائی معاشرہ میں موجود تھی جو انسانیت کےمنافی ہے۔لیکن ان حالات میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے چالیس برس پاکیزگی اور شائستگی کے ساتھ زندگی کے دن گزارے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت اور اخلاق لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔معاملات میں آپ صادق اورامین تھے۔عام لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو غور سے سنتےاور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ کرتے تھے اور اپنی امانتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رکھتے تھے۔
تاریخ گواہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماں کی گود سے لے کر اپنے معاشرہ، اپنے شہر اور گرد و نواح کے ماحول کا ذرہ برابر بھی اثر قبول نہیں کیا۔یہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ہر بچہ سب سے پہلے ماں کی گود اور اپنے گھر والوں کا اثر قبول کرتا ہے۔اس کے بعد گلی کوچوں اور پڑوسیوں سے متاثر ہوتا ہے۔پھر مدرسہ یااسکول میں تعلیم و تربیت حاصل کرتا ہے اور اپنے اساتذہ کےاثرات کو جزوسیرت بنا تاہےاور جوانی کے عالم میں اپنے شہر اور گرد و نواح کے ماحول میں رنگین ہوجاتا ہے۔لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہ اس کے برعکس حسن اخلاق کے تمام تر نمونے آپ کی سیرت پاک میں شامل تھے اور آپ کی فطرت ان حالات سے جو انسانوں کی گمراہی کی وجہ سے پراگندہ تھے بالکل الگ تھی۔کسی استاد یا مدرسہ میں تعلیم حاصل کئے بغیر تمام علوم کو جاننا اور مہارت رکھنا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث شدہ رسول ہیں اور کمال علم اور حسن اخلاق کے زیور سے براہ راست اللہ تعالیٰ نے آپ کو نوازا ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی عمر کے چالیس سال تک سماج کی برائیوں کو دیکھتے رہے اور دل ہی دل میں کُڑھتےرہے۔ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذہن میں ایک ہی بات رہتی تھی کہ کس طرح سماج کی ان برائیوں کو اور بد عنوانیوں کو ختم کیا جائے اور سماج کی اصلاح کی جائے۔ نبوت ملنے سے کچھ عرصہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گمراہ سماج سے اُکتا گئے تھے اورتنہاء پسند ہوگئےتھے۔ غارحرا جو مکہ کے قریب پہاڑ پر واقع ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مسکن بن گیا تھا۔ کئی کئی دن وہاں گزارتے تھے اور اپنے طور پر اللہ تعالیٰ کی عبادت اور فکر میں غرق رہتے۔ایک دن اسی غار میں حضرت جبریل علیہ السلام جو اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتوں میں سے ایک ہیں اور نبیوں اور رسولوں پر وحی لانے کا کام سرانجام دیتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول ہونے کی خوشخبری سنائی۔اور اللہ کایہ پیغام دیا:
اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الَّذِیۡ خَلَقَ ۚ﴿۲﴾ خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ عَلَقٍ ۚ﴿۳﴾ اِقۡرَاۡ وَرَبُّکَ الۡاَکۡرَمُ ۙ﴿۴﴾ الَّذِیۡ عَلَّمَ بِالۡقَلَمِ ۙ﴿۵﴾ عَلَّمَ الۡاِنۡسَانَ مَا لَمۡ یَعۡلَمۡ ﴿۶﴾
(العلق: 2-6)
پڑھ اپنے رب کےنام کےساتھ جس نےپیدا کیا۔ اُس نے انسان کو ایک چمٹ جانے والے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ پڑھ تیرا رب سب سے زیادہ معزز ہے جس نے قلم کے ذریعہ سکھایا۔ انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔
حضرت جبریل علیہ السلام کی قربت اور رسالت کی ذمہ داری سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم مبارک کانپنے لگا اور گھر آتے آتے بخار آگیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی اور کہا کہ آپ تو حسن ِاخلاق کا کامل نمونہ ہیں۔یتیموں اور بیواؤں کی ذمہ داری قبول فرماتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ محبت کا برتاؤ کرتے ہیں۔پڑوسیوں کےساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں۔بڑوں اوربزرگوں سےعزت کے ساتھ پیش آتےہیں۔سب سےاچھے مہمان نواز ہیں۔آپ کواللہ تعالیٰ کبھی پریشانی میں مبتلاءنہیں کرے گا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کمبل اوڑھ کر لیٹ گئے۔جب کچھ افاقہ ہوا تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہانےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کولےکر اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں جو ایک بڑے عالم تھے اور سارا واقعہ بیان کیا۔ ورقہ بن نوفل نے وحی کے سچے ہونے کی تصدیق کی اور کہا کہ یہ وہی فرشتہ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل حضرت موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام پر وحی لے کر آیا کرتا تھا اور آپ یقینی طور پر اللہ کے سچے رسول ہیں۔ اس دن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے احکام کی تبلیغ شروع کر دی اور 23سال کے عرصہ میں وہ کر دکھایا جو تمام انبیاء علیہم السلام نہ کر سکتے تھے اور دین حق کو تکمیل کی حد تک پہنچایا۔
اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو ظاہری و باطنی حسن عطا فرمایا تھا وہ آج تک کسی کے حصے میں نہیں آیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اچھے اخلاق و کردار کا اعلیٰ نمونہ تھے۔پاکیزگی اور صفائی کا بےانتہاء خیال رکھتے تھے۔گفتگو کرنے کا انداز اس قدر پیارا تھا کہ مخاطب کو اپنی توجہ کا ہٹانا ناممکن نظر آتا تھا۔زبان مبارک سے جو الفاظ نکلتے تھے وہ بے انتہاءفصیح وبلیغ ہوتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت صبر اور ایثار کرنے والے تھے اوراپنے دشمنوں سے بھی محبت سے پیش آتے تھے۔اپنی ذات کے لیےکبھی کسی سے بدلہ نہیں لیا۔جنگ احد اور سفر طائف میں زخمی ہوئے تھے تو اللہ تعالیٰ سے ان کی ہدایت کے لئے دعا مانگتے رہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سخاوت کا بہترین عملی نمونہ تھے۔ کسی سوال کرنے والے کو خالی ہاتھ واپس نہیں کیا۔ اگر کہیں سے مال و اسباب آتا تو مسجد میں ہی تشریف رکھتے۔سارا تقسیم کر کے گھر تشریف لے جاتے۔ہر شخص کی عزت کا خیال رکھتے۔غریبوں اور غلاموں کی دعوت قبول کرنے سے انکار نہیں کرتےتھے۔بیماروں کی عیادت کو بہ نفس نفیس تشریف لے جاتے تھے۔ کسی کی برائی سننا آپ کو پسند نہیں تھا۔ہمیشہ وعدہ پورا کرتے تھے۔ عدل و انصاف،امانت و دیانت کے مخالفین بھی قائل تھے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف اس طرح بیان فرمائی ہے: وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ
(محمد عمرتماپوری۔ علی گڑھ، انڈیا)