• 8 جولائی, 2025

ملکہ عالیہ

بچپن میں ہم ملکہ و شہزادیوں و پریوں کی کہانیاں بڑے شوق سے پڑھتے تھے۔ ربوہ کے ماحول میں رہتے ہوئے ایسا لگتا تھا کہ پرستان و شہزادے، شہزادیاں اور بادشاہ ملکہ صرف کہانیوں میں ہی ہوتے ہیں۔ اصل میں ان کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ یا شاید ہمارے سے بہت پرانے زمانے میں شاید مغلوں کے دور میں ان کا کوئی وجود ہوتا ہو گا۔ ہمارے لئے تو بہرحال یہ ایک خواب ہی تھا۔ گھر کا سادہ سا ماحول تھا ڈھیر بہن بھائی۔ کبھی کہانی پڑھتے دل میں خیال آ جاتا کہ جیسے شہزادی کہ منہ سے بات کرتے پھول جھڑتے تھے (اُس وقت یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ پھول جھڑنا محاورہ ہے) ہمارے منہ سے بھی کبھی پھول جھڑیں۔ پیارے پاپا جی مرحوم اللہ تعالیٰ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔ شام کو کبھی کبھار موتیے کے پھولوں کے ہار گھر لاتے تھے۔ ایک دن اُس میں سے بہت سے پھول لے کر چپکے سے منہ میں ڈال کر کھانے کی میز پر بیٹھی کہ سب کے سامنے بات کروں گی تو ایک ایک پھول منہ سے جھڑتا جائے گا۔ ابھی کسی کو اس بات کا احساس تک بھی نہیں ہوا تھا کہ میں نے منہ کھولا تو تمام پھول میز کے نیچے پیروں میں گر گئے اور یہ احساس تمام عمر کے لئے خاک ہو گیا کہ منہ سے پھول جھڑیں۔ خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔ ہم میٹرک میں تھے تو ہماری بڑی بہن کی شادی سے دو تین روز پہلے لیڈی ڈیانا اور پرنس چارلس کی شادی تھی اور یہ شادی PTV پر بھی براہِ راست دکھائی گئی۔ پیاری سی شہزادی اور حسین تاج، خوبصورت پریوں جیسا لباس اور جادوئی حسین و جمیل بگھی ہم اور سب مہمانوں نے انتہائی ذوق و شوق سے یہ طلسماتی شاہی شادی دیکھی۔ آہستہ آہستہ مختلف پیرایوں کنایوں سے ان سے رابطہ ہوتا رہا (اخبارات و رسائل کے توسط سے) تو پتہ چلا کہ اب بھی اس دنیا میں کہیں کہیں بادشاہ، ملکہ اور شہزادے شہزادیاں ہیں۔ شہزادی کی شادی میں ملکہ بھی دیکھی طمطراق والی۔ شہزادی کے حُسن اور حُسن اخلاق کے ہم بھی اور دنیا بھی گرویدہ تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اُس کو پیارے پیارے بچے بھی دیئے۔ یورپ آ کر تو ہم نے دیکھا کہ اکثر اخبارات و رسائل میں ان کی رنگین، دلربا تصاویر چھپی ہوتیں۔ شہزادی کے افسوسناک انجام نے بھی ہمیں بہت دکھی کیا۔

شہزادی کی وفات کے بعد اب ملکہ کی شخصیت بھی اُبھر کر سامنے آنے لگی، ویسے تو خیر پہلے بھی سامنے ہو گی مگر ہمیں ابھی نظر آئی۔ بہت ہی خیر اندیش اور باوقار لگتیں۔ صحیح ملکاؤں والا وقار تھا۔ اُن میں کشش، خوبصورتی اور بہادری بھی بلا کی تھی۔ ہر مشکل سے مشکل موقعہ پر کوہِ وقار کی طرح ڈٹی رہیں۔ اپنے ملک و قوم کی خوب حفاظت کی۔ ہر طبقۂ قوم کے جذبات و احساسات کا خیال رکھتیں۔ خوب گھوڑا دوڑاتیں، سر پہ سکارف باندھتیں تو بہت اچھی لگتیں۔ ہمیں تو اور زیادہ اس لئے بھی اچھی لگتیں کہ اب خلافت اسلامیہ احمدیہ کا مسکن بھی برطانیہ تھا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام امام الزمان نے اپنی زندگی میں محترمہ ملکہ وکٹوریا کو دو کتابیں تحفہ قیصریہ اور ستارہ قیصریہ خوبصورت سنہری جلد کے ساتھ روانہ فرمائی تھیں۔ اُمید واثق ہے کہ انہوں نے ضرور پڑھیں ہوں گی۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحفہ قیصریہ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’اُس خدا کا شکر ہے جس نے آج ہمیں یہ عظیم الشان خوشی کا دن دکھلایا۔ کہ ہم نے اپنی ملکہ معظمہ قیصرہ ہندوانگلستان کی شصت (60) سالہ جوبلی کو دیکھا۔ جس قدر اس دن کے آنے سے مسرت ہوئی کون اس کو اندازہ کر سکتا ہے؟ ہماری محسنہ قیصرہ مبارکہ کو ہماری طرف سے خوشی اور شکر سے بھری ہوئی مبارکباد پہنچے۔ خدا ملکہ معظمہ کو ہمیشہ خوشی سے رکھے!‘‘

(تحفۂ قیصریہ، روحانی خزائن جلد12 صفحہ254)

پھر آگے چل کر آپ علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:
’’منجملہ ان اصولوں کے جن پر مجھے قائم کیا گیا ہے۔ ایک یہ ہے کہ خدا نے مجھے اطلاع دی ہے کہ دنیا میں جس قدر نبیوں کی معرفت مذہب پھیل گئے ہیں اور استحکام پکڑ گئے ہیں اور ایک حصہ دنیا پر محیط ہو گئے ہیں اور ایک عمر پا گئے ہیں اور ایک زمانہ ان پر گزر گیا ہے۔ ان میں سے کوئی مذہب بھی اپنی اصلیت کی روح سے جھوٹا نہیں اور نہ ان نبیوں میں سے کوئی نبی جھوٹا ہے۔ کیونکہ خدا کی سنت ابتداء سے اسی طرح پر واقع ہے کہ وہ ایسے نبی کے مذہب کو جو خدا پر افتراء کرتا ہے اور خدا کی طرف سے نہیں آیا بلکہ دلیری سے اپنی طرف سے باتیں بناتا ہے کبھی سرسبز ہونے نہیں دیتا۔ اور ایسا شخص جو کہتا ہے کہ میں خدا کی طرف سے ہوں۔ حالانکہ خدا خوب جانتا ہے کہ وہ اس کی طرف سے نہیں ہے۔ خدا اس بےباک کو ہلاک کرتا ہے۔۔ ۔‘‘

(تحفۂ قیصریہ، روحانی خزائن جلد12 صفحہ256)

ملکہ وکٹوریا کو دعائیں دیتے ہوئے آپؑ تحریر فرماتے ہیں:
’’خدا تیری آنکھوں کو مرادوں کے ساتھ ٹھنڈی رکھے۔۔ ۔ اور تیری اولاد اور ذریت کو تیری طرح اقبال کے دن دکھلا دے اور فتح اور ظفر عطا کرتا رہے۔۔ ۔ ہمیں اس کے مبارک عہدِ سلطنت کے نیچے یہ موقعہ دیا کہ ہم ہر ایک بھلائی کو جو دنیا اور دین کے متعلق ہو حاصل کر سکیں اور اپنے نفس اور اپنی قوم اور اپنے بنی نوع کے لئے سچی ہمدردی کے شرائط بجا لا سکیں۔ اور ترقی کی ان راہوں پر آزادی سے قدم مار سکیں۔ جن راہوں پر چلنے سے نہ صرف ہم دنیا کی مکروہات سے محفوظ رہ سکتے ہیں بلکہ ابدی جہان کی سعادتیں بھی ہمیں حاصل ہو سکتی ہیں۔‘‘

(تحفۂ قیصریہ، روحانی خزائن جلد12 صفحہ267)

ملکہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اور مسیح کی آمد ثانی کی خبر دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’سو اُس نے اپنے قدیم وعدہ کے موافق جو مسیح موعود کے آنے کی نسبت تھا۔ آسمان سے مجھے بھیجا ہے۔ تا میں اُس مردِ خدا کے رنگ میں ہو کر جو بیت اللحم میں پیدا ہوا اور ناصرہ میں پرورش پائی۔ حضور ملکہ معظمہ کے نیک اور بابرکت مقاصد کی اعانت میں مشغول ہوں۔ اُس نے مجھے بےانتہا برکتوں کے ساتھ چُھوا اور اپنا مسیح بنایا تا وہ ملکہ معظمہ کے پاک اغراض کو خود آسمان سے مدد دے۔۔ ۔ اے مبارک اور بااقبال ملکۂ زمان جن کتابوں میں مسیح موعود کا آنا لکھا ہے ان کتابوں میں صریح تیرے پُر امن عہد کی طرف اشارات پائے جاتے ہیں مگر ضرور تھا کہ اسی طرح مسیح موعود دنیا میں آتا جیسا کہ ایلیا نبی یوحنّا کے لباس میں آیا تھا۔ یعنی یوحنّا ہی اپنی خُو اور طبیعت سے خدا کے نزدیک ایلیا بن گیا۔ سو اس جگہ بھی ایسا ہی ہوا کہ ایک کو تیرے بابرکت زمانہ میں عیسیٰ علیہ السلام کی خُو اور طبیعت دی گئی۔ اس لئے وہ مسیح کہلایا۔ اور ضرور تھا کہ وہ آتا۔ کیونکہ خدا کے پاک نوشتوں کا ٹلنا ممکن نہیں۔۔ ۔‘‘

(ستارۂ قیصریہ، روحانی خزائن جلد15 صفحہ116-117)

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا صلیب سے زندہ اتر آنا اور بعدہ طبعی وفات اور اپنے مسیحؑ کی خُو بُو پر آنے کے بارہ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’بہت سے قطعی دلائل اور نہایت پختہ وجوہ سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر فوت نہیں ہوئے بلکہ خدا نے اس پاک نبی کو صلیب پر سے بچا لیا۔ اور آپ خدا تعالیٰ کے فضل سے نہ مر کر بلکہ زندہ ہی قبر میں غشی کی حالت میں داخل کئے گئے اور پھر زندہ ہی قبر سے نکلے۔ جیسا کہ آپ نے انجیل میں خود فرمایا تھا کہ میری حالت یونس نبی کی حالت سے مشابہ ہو گی۔ آپ کی انجیل میں الفاظ یہ ہیں کہ یونس نبی کا معجزہ دکھلاؤں گا۔ سو آپ نے یہ معجزہ دکھلایا کہ زندہ ہی قبر میں داخل ہوئے اور زندہ ہی نکلے۔ یہ وہ باتیں ہیں جو انجیلوں سے ہمیں معلوم ہوتی ہیں۔۔ ۔‘‘

(ستارۂ قیصریہ، روحانی خزائن جلد15 صفحہ123)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام مزید تحریر فرماتے ہیں:
’’اس بارہ میں مَیں نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے مسیح ہندوستان میں۔ یہ ایک بڑی فتح ہے جو مجھے حاصل ہوئی ہے۔ اور میں جانتا ہوں کہ جلد تر یا کچھ دیر سے اس کا نتیجہ ہوگا کہ یہ دو بزرگ قومیں عیسائیوں اور مسلمانوں کی جو مدت سے بچھڑی ہوئی ہیں باہم شیر و شکر ہو جائیں گی اور بہت سے نزاعوں کو خیرباد کہہ کر محبت اور دوستی سے ایک دوسرے سے ہاتھ ملائیں گی۔۔ ۔ خدا تعالیٰ نے آسمان سے یہ اسباب پیدا کر دیئے ہیں کہ دونوں قوموں عیسائیوں اور مسلمانوں میں وہ اتحاد پیدا ہو جائے کہ پھر ان کو دو قوم نہ کہا جائے۔‘‘

(ستارۂ قیصریہ، روحانی خزائن جلد15 صفحہ124)

چند روز پہلے ملکہ الزبتھ دوم کے انتقال کے موقع پر ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان کی خوبیوں پر مشتمل سپاس نامہ پیش کیا۔ خدام الاحمدیہ یوکے، کے اجتماع کے موقع پر ملکہ عالیہ کے سوگ میں اسپورٹس اور ورزشی مقابلہ جات کینسل کر دیئے گئے۔

یہ دنیا تو فانی ہے۔ جو یہاں پہ آیا سب نے واپس جانا ہے صرف خدا کا نام باقی ہے۔ اللہ تعالیٰ ملکہ عالیہ کے سب خاندان کو صبر جمیل سے نوازے اور ان کی خوبیاں اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ شاہ چارلس، شہزادہ ولیم و کیٹ کے دل سینے اسلام احمدیت کے لئے وا کرے اور دنیائے روحانی کی بادشاہت بھی انہیں ملے۔ آمین

(مبارکہ شاہین۔ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

انڈیکس مضامین ستمبر 2022ء الفضل آن لائن لندن

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ