• 11 مئی, 2025

اس میں کیا شک ہے کہ حضورؐ کا نام ۔۔۔

اس میں کیا شک ہے کہ حضورؐ کا نام دَافِعُ الْبَلَآءِ وَالْوَبَآءِ ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
حضرت رحمت اللہ صاحبؓ احمدی پنشنر بیان کرتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے چند ماہ لدھیانہ میں قیام فرمایا۔ میری عمر اُس وقت قریباً سترہ اٹھارہ برس کی ہو گی اور طالب علمی کا زمانہ تھا۔ مَیں حضور کی خدمتِ اقدس میں گاہے بگاہے حاضر ہوتا۔ مجھے وہ نور جو حضور کے چہرہ مبارک پر ٹپک رہا تھا نظر آیا جس کے سبب سے میرا قلب مجھے مجبور کرتا کہ یہ جھوٹوں کا منہ نہیں ہے، مگر گردونواح کے مولوی لوگ مجھے شک میں ڈالتے۔ اسی اثنا میں حضور کا مباحثہ مولوی محمد حسین بٹالوی سے لدھیانہ میں ہوا جس میں مَیں شامل تھا۔ اس کے بعد خدا نے میری ہدایت کے لئے ازالہ اوہام کے ہر دو حصے بھیجے۔ وہ سراسر نور و ہدایت سے لبریز تھے۔ خدا جانتا ہے کہ مَیں اکثر اوقات تمام رات نہیں سویا۔ اگر کتاب پر سر رکھ کر غنودگی ہو گئی تو ہو گئی، ورنہ کتاب پڑھتا رہا اور روتا رہا کہ خدایا یہ کیا معاملہ ہے کہ مولوی لوگ کیوں قرآنِ شریف کو چھوڑتے ہیں، (تقویٰ ہو تو پھرانسان اس حالت میں کتاب پڑھتا ہے) کہتے ہیں خدا جانتا ہے کہ میرے دل میں شعلہ عشق بڑھتا گیا۔ مَیں نے مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کو لکھا کہ حضرت مرزا صاحب عیسیٰ علیہ السلام کی وفات تیس آیات سے ثابت کرتے ہیں۔ آپ براہ مہربانی حیات کے متعلق جو آیات اور احادیث ہیں تحریر فرما دیں، اور ساتھ جو تیس آیات قرآنی جو حضرت مرزا صاحب لکھتے ہیں کی تردید فرما کر میرے پاس بھجوا دیں، میں شائع کروا دوں گا۔ جواب آیا کہ آپ عیسیٰ کی حیات و ممات کے متعلق حضرت مرزا صاحب یا اُس کے مریدوں سے بحث مت کریں کیونکہ اکثر آیات وفات ملتی ہیں، یہ مسئلہ اختلافی ہے۔ اس امر پر بحث کرو کہ مرزا صاحب کس طرح مسیح موعود ہیں؟ (اس پر بحث نہ کرو کہ عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے یا زندہ ہیں، اس پر بحث کرو کہ مرزا صاحب کس طرح مسیح موعود ہیں؟ کیونکہ قرآنِ کریم تو وفاتِ مسیح کی تائید کرتا ہے۔ کہتے ہیں مَیں نے) جواب میں عرض کیا کہ اگر حضرت عیسیٰ فوت ہو گئے ہیں تو حضرت مرزا صاحب صادق ہیں۔ جواب ملا کہ آپ پر مرزا صاحب کا اثر ہو گیا ہے، مَیں دعا کروں گا۔ (کہتے ہیں) جواب میں مَیں نے عرض کیا کہ آپ اپنے لئے دعا کریں۔ آخر مَیں آستانہ الوہیت پر گرا اور میرا قلب پانی ہو کر بہہ نکلا۔ گویا مَیں نے عرش کے پائے کو ہلا دیا۔ (عرض کی) خدایا مجھے تیری خوشنودی درکار ہے۔ مَیں تیرے لئے ہر ایک عزت کو نثار کرنے کو تیار ہوں اور ہر ایک ذلت کو قبول کروں گا۔ تو مجھ پر رحم فرما۔ تھوڑے ہی عرصے میں مَیں اس ذات کی قسم کھاتا ہوں جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ بوقتِ صبح قریباً چار بجے پچیس دسمبر 1893ء بروز سوموار جناب سیدنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی۔ تفصیل اس خواب کی یہ ہے کہ خاکسار موضع بیرمی میں نماز عصر کا وضو کر رہا تھا (یہ خواب کی تفصیل بتا رہے ہیں)۔ کسی نے آکر مجھے کہا کہ رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم آئے ہوئے ہیں اور اسی ملک میں رہیں گے۔ مَیں نے کہا کہاں؟ اُس نے کہا یہ خیمہ جات حضور کے ہیں۔ میں جلدنماز ادا کر کے گیا۔ حضور چند اصحاب میں تشریف فرما تھے۔ بعد سلام علیکم مجھے مصافحہ کا شرف بخشا گیا۔ میں باادب بیٹھ گیا۔ حضور، یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عربی میں تقریر فرما رہے تھے۔ خاکسار اپنی طاقت کے موافق سمجھتا تھا اور پھر اردو بولتے تھے۔ فرمایا میں صادق ہوں۔ میری تکذیب نہ کرو۔ وغیرہ وغیرہ۔ مَیں نے کہا اٰمَنَّا وَ صَدَّقْنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ۔ تمام گاؤں مسلمانوں کا تھا مگر کوئی نزدیک نہیں آتا تھا۔ مَیں (خواب میں) حیران تھا کہ خدایا یہ کیا ماجرا ہے۔ آج مسلمانوں کے قربان ہونے کا دن تھا، گویا حضور کا ابتدائی زمانہ تھا، گو مجھے اطلاع دی گئی کہ حضور اسی ملک میں تشریف رکھیں گے مگر حضور نے کوچ کا حکم دیا۔ میں نے رو کر عرض کی کہ حضور جاتے ہیں۔ مَیں کس طرح مل سکتا ہوں؟ میرے شانہ پر حضور نے اپنا دستِ مبارک رکھ کر فرمایا۔ گھبراؤ نہیں ہم خود تم کو ملیں گے۔ اس خواب کی تفہیم ہوئی کہ حضرت مرزا صاحب رسولِ عربی ہیں۔ مجھے فعلی رنگ میں سمجھایا گیا۔ مَیں نے بیعت کا خط لکھ دیا مگر بتاریخ 23؍دسمبر 1898ء بروز منگل قادیان حاضر ہو کر بعدنماز مغرب بیعت کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ خدا کے فضل نے مجھے وہ استقامت عطا فرمائی کہ کوئی مصائب مجھے تزلزل میں نہیں ڈال سکے اور یہ سب حضور کی صحبت کا طفیل تھا جو بار بار حاصل ہوئی اور ان ہاتھوں کو حضور کی مٹھیاں بھرنے کا یعنی دبانے کا فخر ہے۔ گو مجھے اعلان ہونے پر رنگا رنگ کے مصائب پہنچے مگر خدا نے مجھے محفوظ ہی نہیں رکھا بلکہ اس نقصان سے بڑھ کر انعام عنایت کئے اور میرے والد اور بھائی اور قریبی رشتہ دار احمدی ہو گئے، اَ لْحَمْدُ لِلّٰہِ۔ لکھتے ہیں کہ اگر طوالت کا خوف نہ ہوتو مَیں چند واقعے اور تحریر کرتا اور یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ درود تاج احمدی ہونے کے بعد بھی پڑھا کرتا تھا۔ یہ بھی درود کی ایک قِسم ہے۔ انہوں نے جومختلف جو درُود بنائے ہوئے ہیں۔ میرے استاد مولوی عبدالقادر صاحب لدھیانوی میرے بعد احمدی ہو گئے تھے۔ مجھے منع فرماتے تھے کہ شرک ہے۔ مت پڑھا کرو۔ مَیں نے کہا کہ مسیح موعود سے کہلا دو پھر چھوڑ دوں گا۔ اتفاقاً کسی جلسہ سالانہ پر خاکسار اور مولوی صاحب بھی موجود تھے۔ حضور ہوا خوری کے لئے، سیر کے لئے نکلے، مولوی صاحب نے اس موقع پر عرض کیا کہ حضور! منشی رحمت اللہ صاحب درود تاج پڑھتے ہیں، مَیں نے منع کیا کہ یہ شرک ہے۔ حضور نے میری طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ کیا ہے؟ درود تاج پڑھو۔ (مجھے بتاؤ یہ کونسا درود ہے جو تم پڑھتے ہو؟) مَیں نے پڑھ کر سنایا۔ فرمایا اس میں تو شرک نہیں۔ مولوی صاحب نے عرض کیا کہ اس میں یہ الفاظ ہیں۔ دَافِعُ الْبَلَآءِ وَالْوَبَآءِ وَالْقَحْطِ وَالْمَرَضِ وَالْاَلَمِ۔ تو حضور نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتبہ کو لوگوں نے سمجھا نہیں۔ اس میں کیا شک ہے کہ حضور کا نام دَافِعُ الْبَلَآءِ وَالْوَبَآءِ ہے۔ بہت لمبی تقریر فرمائی۔ مولوی صاحب خوش ہو گئے اور فائدہ عام کے لئے تحریر کیا گیا۔ (پھر بعد میں مضمون لکھا)

(رجسٹرز روایات صحابہ (غیرمطبوعہ) رجسٹر نمبر3 صفحہ58 تا 60۔ روایت حضرت رحمت اللہ صاحبؓ)

(خطبہ جمعہ 24؍ اگست 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

مدرسہ بزبان فُلفُلدے برکینا فاسو

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 دسمبر 2021