• 18 مئی, 2024

ارشادات حضرت مسیح موعودؑ بابت مختلف ممالک و شہر (قسط 12)

ارشادات حضرت مسیح موعودؑ
بابت مختلف ممالک و شہور
قسط 12

ارشادات برائے قادیان

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
حدیث سے یہ ثابت ہے کہ وہ دمشق کے مشرق کی طرف نازل ہوگا۔ قادیان دمشق سے عین مشرق میں ہے۔

(ملفوظات جلد8 صفحہ192 ایڈیشن 1984ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
اس قادیان میں پانچ سو حافظ قرآن شریف کے رہتے تھے۔ اس وقت اس جگہ کا نام اسلام پور تھا۔ اب یہاں کیا ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں میں بھی اس قدر تعداد حفاظ کی نہیں مل سکتی۔ اس جگہ کی اسلامی شوکت کو سکھوں نے خراب کردیا تھا۔ یہاں بہت سے سکھ رہتے تھےجن میں سے بعض نے سید احمد صاحب کے ساتھ بھی لڑائیاں کی تھیں مگر رفتہ رفتہ وہ سب مر گئے اور اب دو چارباقی ہوں گے۔

(ملفوظات جلد10 صفحہ7 ایڈیشن 1984ء)

ارشادات برائے یمن

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
پہلی حالت انسان کی نیک بختی کی ہے کہ والدہ کی عزت کرے۔ اویس قرنی ؓکے لئے بسا اوقات رسول الله صلی الله علیہ وسلم یمن کی طرف کو منہ کر کے کہا کرتے تھے کہ مجھے یمن کی طرف سے خدا کی خوشبو آتی ہے۔ آپ بھی فرمایا کرتے تھے کہ وہ اپنی والدہ کی فرمانبرداری میں بہت مصروف رہتا ہے اور اسی وجہ سے میرے پاس بھی نہیں آ سکتا۔ بظاہر یہ بات ایسی ہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں مگر وہ ان کی زیارت نہیں کر سکتے۔ صرف اپنی والدہ کی خدمت گزاری اور فرمانبرداری میں پوری مصروفیت کی وجہ سے۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ہی آدمیوں کو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کی خصوصیت سے وصیت فرمائی۔ یااویسں ؓ کو یا مسیحؑ کو۔ یہ ایک عجیب بات ہے جو دوسرے لوگوں کو ایک خصوصیت کے ساتھ نہیں ملی؛ چنانچہ لکھا ہے کہ جب حضرت عمر رضی الله عنہ ان سے ملنے کو گئے تو او یسں نے فرمایا کہ والدہ کی خدمت میں مصروف رہتا ہوں اور میرے اونٹوں کو فر شتے چرایا کرتے ہیں۔ ایک تو یہ لوگ ہیں جنہوں نے والدہ کی خدمت میں اس قدر سعی کی اور پھر یہ قبولیت اور عزت پائی۔ ایک وہ ہیں جو پیسہ پیسہ کے لئے مقد مات کرتے ہیں اور والدہ کا نام ایسی بری طرح لیتے ہیں کہ رذیل قو میں چوہڑے چماربھی کم لیتے ہوں گے۔ ہماری تعلیم کیا ہے؟ صرف اللہ اور رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک ہدایت کا بتلا دینا ہے۔ اگر کوئی میرے ساتھ تعلق ظاہر کر کے اس کو ماننا نہیں چاہتا تو وہ ہماری جماعت میں کیوں داخل ہوتا ہے؟ ایسے نمونوں سے دوسروں کو ٹھو کرلگتی ہے اور وہ اعتراض کرتے ہیں کہ ایسے لوگ ہیں جو ماں باپ تک کی بھی عزت نہیں کرتے۔

(ملفوظات جلد1 صفحہ270 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
اب رہا مکان کے متعلق۔ سو یا در ہے کہ دجال کا خروج مشرق میں بتایا گیا ہے۔ جس سے ہمارا ملک مراد ہے چنانچہ صاحب حجج الکرامہ نے لکھا ہے کہ فتن دجال کا ظہور ہندوستان میں ہورہا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ ظہورمسیح اسی جگہ ہو جہاں دجال ہو۔ پھر اس گاؤں کا نام قدعہ قرار دیا ہے جو قادیان کا مخفف ہے۔ یہ ممکن ہے کہ یمن کے علا قہ میں بھی اس نام کا کوئی گاؤں ہو لیکن یاد رہے کہ یمن حجاز سے مشرق میں نہیں بلکہ جنوب میں ہے۔

(ملفوظات جلد1 صفحہ43 ایڈیشن 2016ء)

ارشادات برائے یونان

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
اول دیکھو صفت خلق اور پرورش۔یہ صفت اگر چہ انسان گمان کر سکتا ہے کہ ماں باپ اور دیگر محسنوں میں بھی پائی جاتی ہے، لیکن اگر انسان زیادہ غور کرے گا تو اس کو معلوم ہو جاوے گا کہ ماں باپ اور دیگر محسنوں کے اغراض و مقاصد ہوتے ہیں، جن کی بنا پر وہ احسان کرتے ہیں۔ اس پر دلیل یہ ہے کہ مثلاً بچہ تندرست، خوبصورت توا نا پیدا ہوتو ماں باپ کوخوشی ہوتی ہے اور اگرلڑ کا ہوتو پھر یہ خوشی اور بھی بڑی ہوتی ہے۔ شادیانے بجائے جاتے ہیں۔ لیکن اگر لڑکی ہو تو گویا وہ گھر ماتم کدہ اور وہ دن سوگ کا دن ہو جاتا ہے اور اپنے تئیں منہ دکھانے کے قابل نہیں سمجھتے۔ بسا اوقات بعض نادان مختلف تدابیر سے لڑکیوں کو ہلاک کر دیتے یا ان کی پرورش میں کم التفات کرتے ہیں اور اگر بچہ لنجا، اندھا، اپا ہج پیدا ہو، تو چاہتے ہیں کہ وہ مر جاوے اور اکثر دفعہ تعجب نہیں کہ خود بھی وبال جان سمجھ کر مار دیں۔ میں نے پڑھا ہے کہ یونانی لوگ ایسی بچوں کو عمد اًہلاک کر دیتے تھے، بلکہ ان کے ہاں شاہی قانون تھا کہ اگر کوئی نا کارہ بچہ اپا ہج، اندھا وغیرہ پیدا ہو تو اس کوفوراً مار دیا جاوے۔ اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ انسانی خیالات پرورش اور خبر گیری کے ساتھ ذاتی اور نفسانی اغراض سے ملے ہوئے ہوتے ہیں، مگر الله تعالیٰ کی اس قدر مخلوق کی ( جس کے تصور اور بیان سے وہم اور زبان قاصر ہے اور جو زمین اور آسمان میں بھری پڑی ہے) خلق اور پرورش سے کوئی غرض ہرگز نہیں ہے۔ وہ والدین کی طرح خدمت اور رزق نہیں چاہتا بلکہ اس نے مخلوق کو محض ربوبیت کے تقاضے سے پیدا کیا ہے۔ ہر ایک شخص مان لے گا کہ بوٹا لگانا پھر آب پاشی کرنا اور اس کی خبر گیری رکھنا اور ثمر دار درخت ہونے تک محفوظ رکھنا ایک بڑا احسان ہے۔ پس انسان اور اس کی حالت اور غور و پرداخت پر غور کر وتو معلوم ہوگا کہ خدا تعالیٰ نے کتنا بڑا احسان کیا ہے کہ اس قدر انقلابات اور بے کسیوں کے تغیرات میں اس کی دستگیری فرمائی ہے۔

(ملفوظات جلد1 صفحہ425-426 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
یقین ایک ایسی شے ہے جو انسان کو ایک قوت اور شجاعت عطا کرتا ہے۔ یقین معلومات سے بڑھتا ہے اور جب معلومات وسیع ہوں تو یقین کی قوت سے ایک ماتحت اپنے افسر کے سامنے اپنے مقصد کو بیان کرنے سے نہیں ڈرتا لیکن اگر معلومات کم ہوں تو یقین میں بھی ایک قسم کی کمزوری ہوگی اور پھر خواہ وہ افسر بھی ہوتو اسے بھی دبنا پڑتا ہے۔

یہ صحیح بات ہے کہ زندگی اور طاقت تب پیدا ہوتی ہے جب پور اعلم ہو۔ اس وقت انسان اپنے آپ کو مشکلات میں ڈالتا ہوا بھی پرواہ نہیں کرتا۔ جیسے صحابہ جو یقین اور معرفت کے نور سے بھر کر دل میں ایک قوت اور شجاعت رکھتے تھے۔ وہ بادشاہوں کے سامنے کس دلیری سے جا بولے۔ یقین ایسی چیز ہے جو موت کو بھی آسان کر دیتا ہے۔ اسی لیے شہادت کی موت سہل اور آسان ہے۔

اگر ایک پکے مسلمان کوقتل کی دھمکی دی جاوے تووہ قتل اس کوسہل معلوم ہو گا۔ یقین ایک روحانی مسکن ہے۔

شہادت کی موت والا دنیا اور طولِ اَمَل کو طاق پر رکھ دیتا ہے۔ غرض انسان کو یقین حاصل کرنا چاہیے۔ اس سے پہلے کہ وہ فلسفہ اور طبیعات میں ترقی کرے۔

اے کہ خواندی حکمت یونانیاں
حکمت ایمانیاں را ہم بخواں

جس نے حکمت ایمان نہیں پڑھی وہ مردہ پرست ہی رہا۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ93-94 ایڈیشن 2016ء)

ارشادات برائے یمامہ

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
اجتہادی غلطی سب نبیوں سے ہوا کرتی ہے اور اس میں سب ہمارے شریک ہیں اور یہ ضرور ہے کہ ایسا ہوتا تا کہ بشر خدا نہ ہو جائے۔ دیکھو حضرت عیسٰیؑ کے متعلق بھی یہ اعتراض بڑے زور شور سے یہود نے کیا ہے کہ اس نے کہا تھا کہ میں بادشاہت لے کر آیا ہوں اور وہ بات غلط نکلی۔ممکن ہے کہ حضرت مسیح ؑ کو یہ خیال آیا ہو کہ ہم بادشاہ بن جائیں گے؛ چنانچہ تلواریں بھی خر یدرکھی ہوئیں تھیں، مگر یہ ان کی ایک اجتہادی غلطی تھی۔ بعد اس کے خدا نے مطلع کر دیا اور انہوں نے اقرار کیا کہ میری بادشاہت روحانی ہے۔ سادگی انسان کا فخر ہوتا ہے۔ حضرت عیسٰؑی نے جو کہا سوسادگی سے کہا۔ اس سے ان کی خفت اور بے عزتی نہیں ہوتی۔ ایسا ہی آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے پہلے یہ سمجھا تھا کہ ہجرت یمامہ کی طرف ہوگی مگر ہجرت مدینہ طیبہ کی طرف ہوئی اور انگوروں کے متعلق آپؐ نے یہ سمجھا تھا کہ ابوجہل کے واسطے ہیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ عکرمہ کے واسطے ہیں۔ انبیاء کے علم میں بھی تدریجاً ترقی ہوتی ہے۔ اس واسطےقرآن شریف میں آیا ہے قُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا (طٰہٰ: 185) یہ آپؐ کا کمال اور قلب کی طہارت تھی جو آپ ؐاپنی غلطی کا اقرار کرتے تھے۔ اس میں انبیاء کی خفت کچھ نہیں۔ ایک حکیم ہزاروں بیماروں کا علاج کرتا ہے۔ اگر ایک ان میں سے مر جائے تو کیا حرج ہے۔ اس سے اس کی حکمت میں کچھ داغ نہیں آ جاتا ہے۔ کبھی حافظ قرآن کو پیچھے سے لقمہ دیا جاتا ہے تو اس سے نہیں کہا جاتا کہ اب وہ حافظ نہیں رہا۔ جو باتیں متواتر ات اور کثرت سے ہوتی ہیں ان پر حکم لگا یا جا تا ہے۔

(ملفوظات جلد2 صفحہ104-105 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
منہاج نبوت کو دیکھا جاوے توصریح نظر آتا ہے کہ انبیاء سے اجتہادوں میں غلطیاں ہوتی ہیں جیسے عیسٰی علیہ السلام نے کہا کہ تم ابھی نہیں مروگے کہ میں واپtdsس آ جاؤں گا تو یہ آپ کا اجتہاد تھا مگر خدا تعالیٰ کے نزدیک ان کے آنے سے یہ مراد نہ تھی بلکہ دوسرے کا آناتھا اورممکن ہے کہ الیاس کا بھی یہ خیال ہو کہ میں ہی واپس آؤں گا اسی طرح پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کا سفر کیا تو حضرت عمرؓ کو ابتلا آیا خودآنحضرتؐ کا اجتہاد اس طرف دلالت کرتا تھا کہ ہم فتح کر لیویں گے مگر وہ اجتہادصحیح نہ نکلا اسی طرح ایک دفعہ آپ نے کہا کہ میں نے سمجھا تھا کہ ہجرت یمامہ کی طرف ہوگی مگر یہ بات درست نہ نکلی کیونکہ یہ آپ کا اجتہادتھا خدا پر یہ امر لازم نہ تھا کہ ہر ایک بار یک امر آپ کو بتلا دیوے پس بحث مباحثہ میں اول مخالف سے منہاج نبوت کو قبول کروا کر اس کے دستخط کروا لینے چاہئیں۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ338-339 ایڈیشن 2016ء)

ارشاد ات برائے یروشلم و بیت المقدس

اس تذکرہ پر کہ عیسائیوں اور یہودیوں میں پھر اس امر کی تحریک ہورہی ہے کہ ارض مقدس کو تر کوں سے خرید کر لیا جاوے۔ مختلف باتوں کے دوران میں فرمایا:۔
یروشلم سے مراد در اصل دارالامان ہے۔ یروشلم کے معنی ہیں وہ سلامتی کو دیکھتا ہے یہ سنت اللہ ہے کہ وہ پیشگوئیوں میں اصل الفاظ استعمال کرتا ہے اور اس سے مراد اس کا مفہوم اور مطلب ہوتا ہے۔
اسی طرح پر بیت المقدس یعنی مسجداقصیٰ آتی ہے ہماری اس مسجد کا نام بھی اللہ تعالیٰ نے مسجد اقصیٰ رکھا ہے کیونکہ اقصیٰ یا باعتبار بُعد زمانہ کے ہوتا ہے اور یا بُعد مکان کے لحاظ سے۔ اور اس الہام میں اَلْمَسْجِدُ الْاَقْصَی الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہٗ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تاثیر است زمانی کو لیا ہے اور اس کی تائید وَ اٰخَرِيْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْابِھِمْ (الجمعۃ: 4) سے بھی ہوتی ہے اور بَارَکْنَا حَوْلَہٗ کا اس زمانہ کی برکات سے ثبوت ملتا ہے جیسے ریل اور جہازوں کے ذریعہ سفروں کی آسانی اور تاراور ڈاک خانہ کے ذر یعہ سلسلہ رسل و رسائل کی سہولت اور ہر قسم کے آرام و آسائش قسم قسم کی کلوں کے اجراء سے ہوتے جاتے ہیں اور سلطنت بھی ایک امن کی سلطنت ہے۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ310 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
یاد رکھو اور سمجھو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں کیا یہود تو رات کو چھوڑ بیٹھے تھے اور اس پر ان کا عمل نہ تھا؟ ہرگز نہیں یہودی تو اب تک بھی تو رات کو مانتے اور اس پر عمل کرتے ہیں۔ ان کی قربانیاں اور رسوم آج بھی اسی طرح ہوتی ہیں جیسے اس وقت کرتے تھے وہ برا بر آج تک بیت المقدس کو اپنا قبلہ سمجھتے ہیں اور اسی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں۔ ان کے بڑے بڑے عالم اور احبار بھی اس وقت موجود تھے پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور کتاب اللہ کی کیا ضرورت پڑی تھی؟ دوسری طرف عیسائی قوم تھی ان میں بھی ایک فرقہ لَآاِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ کو مانتا تھا پھر کیا وجہ تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے معبوث فر ما یا اور کتاب الله کو بھیجا؟ یہ ایک سوال ہے جس پر ہمارے مخالفوں اور ایسا اعتراض کرنے والوں کو غور کرنا چاہیے اگر چہ یہ ایک بار یک مسئلہ ہے لیکن جو لوگ غور و فکر کرتے ہیں ان کے لیے بار یک نہیں ہے۔

یاد رکھو اللہ تعالی ٰروح اور روحانیت پر نظر کرتا ہے وہ ظاہری اعمال پر نظر اور نگاہ نہیں کرتا وہ ان کی حقیقت اور اندرونی حالت کو دیکھتا ہے کہ ان اعمال کی تہہ میں خودغرضی اور نفسانیت ہے یا الله تعالیٰ کی سچی اطاعت اور اخلاص مگر انسان بعض وقت ظاہری اعمال کو دیکھ کر دھوکا کھا جاتا ہے۔ جس کے ہاتھ میں تسبیح ہے یا وہ تہجد واشراق پڑھتا ہے بظاہر ابرار واخیار کے کام کرتا ہے تو اس کو نیک سمجھ لیتا ہے مگر خدا تعالیٰ کو تو پوست پسند نہیں۔

یہ پوست اور قشر ہے الله تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتا اور کبھی راضی نہیں ہوتا جب تک وفاداری اور صدق نہ ہو بے و فا آدمی کتے کی طرح ہے جو مردار دنیا پر گرے ہوئے ہوتے ہیں وہ بظاہر نیک بھی نظر آتے ہیں، لیکن افعال ذمیمہ ان میں پائے جاتے ہیں اور پوشیده بد چلنیاں ان میں پائی جاتی ہیں جونمازیں ریا کاری سے بھری ہوئی ہوں ان نمازوں کو ہم کیا کریں اور ان سے کیا فائدہ؟

(ملفوظات جلد5 صفحہ364-365 ایڈیشن 2016ء)

ارشادات برائے سرینگر کشمیر

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
اب کسرِ صلیب کے سامان کثرت سے پیدا ہو گئے ہیں اور عیسائی مذہب کا باطل ہونا ایک بدیہی مسئلہ ہو گیا ہے۔ جس طرح پر چور پکڑ ا جا تا ہے تو اول اول وہ کوئی اقرار نہیں کرتا اور پتہ نہیں دیتا مگر جب پولیس کی تفتیش کامل ہو جاتی ہے تو پھر ساتھی بھی نکل آتے ہیں اور عورتوں بچوں کی شہادت بھی کافی ہو جاتی ہے۔ کچھ کچھ مال بھی برآمد ہو جا تا ہے۔ تو پھر اس کو بے حیائی سے اقرار کرنا پڑتا ہے کہ ہاں میں نے چوری کی ہے۔ اسی طرح پر عیسائی مذہب کا حال ہوا ہے۔ صلیب پر مرنا یسوع کو کاذ ب ٹھہراتا ہے۔ لعنت دل کو گندہ کرتی اور خدا سے قطع تعلق کرتی ہے۔ اور اپنا قول کہ یونسؑ کے معجزہ کے سوا اور کوئی معجزه نہ دیا جاوے گا۔ باقی معجزات کو رد کرتا اور صلیب پر مرنے سے بچنے کومعجزہ ٹھہراتا ہے۔ عیسائی تسلیم کرتے ہیں کہ انجیل میں کچھ حصہ الحاقی بھی ہے۔ یہ ساری باتیں مل ملا کر اس بات کا اچھا خاصہ ذخیرہ ہیں جو یسوع کی خدائی کی دیوار کو جوریت پر بنائی گئی تھی بالکل خاک سے ملا ویں اور سرینگر میں اس کی قبر نے صلیب کو بالکل توڑ ڈالا۔ مرہم عیسٰی اس کے لیے بطور شاہد ہوگئی۔ غرض یہ ساری باتیں جب ایک خوبصورت ترتیب کے ساتھ ایک دانشمند سلیم الفطرت انسان کے سامنے پیش کی جاویں تو اسے صاف اقرار کرنا پڑتا ہے کہ مسیحؑ صلیب پر نہیں مرا۔ اس لئے کفارہ جو عیسائیت کا اصل الاصول ہے، بالکل باطل ہے۔

(ملفوظات جلد2 صفحہ505 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
اس جنگ سے توپ و تفنگ کی لڑائی مراد نہیں بلکہ یہ عیسائیت اور الٰہی دین کی آخری جنگ ہے۔ عیسائیت نے زمینی خدا بنا لیا ہے اور یہ وہی خدا یا خیالی خدا ہے جیسے بہت سی عورتیں ایک وہمی حمل رجا کا کر لیتی ہیں یہاں تک کہ پیٹ میں وہمی طور پر حرکت معلوم ہوتی ہے اور پیٹ بڑھتا بھی ہے۔ اس طرح پر فرضی مسیح بنالیا گیا ہے جسے خدا سمجھا گیا ہے۔ غرض سچے مسیح کے مقابل وہ کھڑا ہے اب یہ لڑائی ان دونوں میں شروع ہے اور خدا اس میں اپنا چمکتا ہوا ہاتھ دکھلائے گا۔

چالیس کروڑ سے بھی زائد انسان عیسائی ہو چکے ہیں جب اول ہی اول کہ لوگ آئے تو مولوی ان کے حملوں اور اعتراضوں سے محض ناواقف تھے ان کو پورا علم نہ ان کے اعتراضوں کا تھا اور نہ قر آن شریف کے حقائق ہی سے آگاہ تھے، برخلاف اس کے عیسائیوں کے پاس اقبال اور تالیف قلوب کے ذریعے تھے، اس لیے ان کی ترقی ہوتی گئی مگر اب ان میں ایک بھی نہیں جو اس کے تنزل کو دیکھ سکے اب ان کا دور ختم ہونے والا ہے اور مختصر طور پر جعلی فرضی خدا کو سمجھ لیں گے اصل بات تو یہ ہے کہ عیسائیوں کا تانا بانا آریہ اور سناتن سے بھی بودہ ہے۔ کیونکہ انہوں نے ساری بنیاد حیات مسیح پررکھی ہوئی ہے اس کے ٹوٹنے کے ساتھ ہی ساری عمارت گر جاتی ہے۔ یہ بات اس زمانہ میں کہ وہ زنده آسمان پر گیا ہے، کوئی مان نہیں سکتا جبکہ دلائل قطعيۃ الدلالت کے ساتھ ثابت ہو گیا کہ وہ مر گیا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اب تو لاش کے دکھا دینے تک نوبت بن گئی ہے۔ کیونکہ (سرینگر) کشمیر میں اس کی قبرواقعات صحیحہ کی بنا پر ثابت ہوگئی ہے۔

(ملفوظات جلد2 صفحہ526-527 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
یوز آسف وہی ہے جس کو یسوع کہتے ہیں۔ اور آسف کے معنی ہیں پراگندہ جماعتوں کو جمع کرنے والا۔ چونکہ مسیح علیہ السلام کا کام بھی بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کو جمع کرنا تھا اور اہل کشمیر بہ اتفاق اہل تحقیق بنی اسرائیل ہی ہیں۔ اس لئے ان کا یہاں آنا ضروری تھا۔ اس کے علاوہ خود یوز آسف کا قصہ یورپ میں مشہور ہے۔ بلکہ یہاں تک کہ اٹلی میں اس نام پر ایک گرجا بھی بنایا گیا ہے اور ہر سال وہاں ایک میلہ بھی ہوتا ہے۔ اب اس قدرصرف کثیر سے ایک مذہبی عمارت کا بنانا اور پھر ہر سال اس پر ایک میلہ کرنا کوئی ایسی بات نہیں ہے جو سرسری نگاہ سے دیکھی جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ یوز آسف مسیح کا حواری تھا۔ ہم کہتے ہیں یہ بات سچی نہیں ہے۔ یوز آسف خود ہی مسیح تھا۔ اگر وہ حواری ہے تو یہ تمہارا فرض ہے کہ تم ثابت کرو کہ مسیح کے کسی حواری کا نام شہزادہ نبی ہو۔

یہ ایسی باتیں ہیں جوصلیب کے واقعہ کا سارا پردہ ان سے کھل جاتا ہے۔ ہاں اگرمسیحی اس بات کے قائل نہ ہوتے تو البتہ بحث بند ہو جاتی لیکن جب کہ انہوں نے قبول کر لیا ہے کہ یوز آسف ایک شخص ہوا ہے اور اس کی تعلیم انجیل ہی کی تعلیم ہے اور اس نے بھی اپنی کتاب کا نام انہیں ہی رکھ لیا ہے۔ اور جس طرح پر شہزادہ نبی مسیح کا نام ہے اس کو بھی شہزادہ نبی کہتے ہیں۔ اب غور کرنے کے قابل بات ہے کہ اگر یہ خود مسیح ہی نہیں تو اور کون ہے؟

(ملفوظات جلد2 صفحہ162 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
عیسائی مذہب کے استیصال کے لئے ہمارے پاس تو ایک دریا ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ یہ طلسم ٹوٹ جاوے اور وہ بت جو صلیب کا بنایا گیا ہے گر پڑے اور اصل بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر مجھے مبعوث نہ بھی فر ما تا تب بھی زمانہ نے ایسے اور اسباب پیدا کر دیئے تھے کہ عیسائیت کا پول کھل جاتا۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کی غیرت اور جلال کے یہ صریح خلاف ہے کہ ایک عورت کا بچہ خدا بنایا جاتا جو انسانی حوا ئج اور لوازم بشریہ سے کچھ بھی استثناء اپنے اندر نہیں رکھتا۔

میں نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں میں نے کامل تحقیقات کے ساتھ ہی ثابت کر دیا ہے کہ یہ بالکل جھوٹ ہے کہ مسیح صلیب پر مر گیا۔ اصل یہ ہے کہ وہ صلیب پر سے زندہ اتار لیا گیا تھا اور وہاں سے بچ کر وہ کشمیر میں چلا آیا۔ جہاں اس نے ایک سو بیس برس کی عمر میں وفات پائی۔ اور اب تک اس کی قبر خانیار کے محلہ میں یوز آسف یا شہزادہ نبی کے نام سے مشہور ہے۔

(ملفوظات جلد2 صفحہ439 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
اور پھرمسیح کی لاش ایک ایسے آدمی کے سپرد کر دی گئی جومسیح کا شاگردتھا اور اصل تو یہ ہے کہ خود پیلاطوس اور اس کی بیوی بھی اس کی مرید تھی چنانچہ پلاطوس کو عیسائی شہیدوں میں لکھا ہے اور اس کی بیوی کو ولیہ قرار دیا ہے اور ان سب سے بڑھ کر مرہم عیسیٰ کا نسخہ ہے جس کو مسلمان، یہودی، رومی اور عیسائی اور مجوسی طبیبوں نے بالاتفاق لکھا ہے کہ یہ مسیح کے زخموں کے لیے تیار ہوا تھا اور اس کا نام مرہم عیسیٰ اورمرہم حوارین اور مر ہم رسل اور مرہم شیخہ وغیرہ بھی رکھا۔ کم از کم ہزار کتاب میں نسخہ موجودہے اور یہ کوئی عیسائی ثابت نہیں کر سکتا کہ صلیبی زخموں کے سوا اور بھی کبھی کوئی زخم مسیح کو لگے تھے اور اس وقت حواری بھی موجود تھے۔ اب بتاؤ کہ کیا یہ تمام اسباب اگر ایک جا جمع کیے جاویں، تو صاف شہادت نہیں دیتے کہ مسیح صلیب پر سے زندہ بچ کر اتر آیا تھا۔

اس پر اس وقت ہمیں کوئی لمبی بحث نہیں کرنی ہے یہودیوں کے جوفرقے متفرق ہو کر افغانستان یا کشمیر میں آگئے تھے وہ ان کی تلاش میں ادھر چلے آئے اور پھر آخر کشمیرہی میں انہوں نے وفات پائی۔ اور یہ بات انگریز محققوں نے بھی مان لی ہے کہ کشمیری در اصل بنی اسرائیل ہیں چنانچہ برنیئر نے اپنے سفر نامہ میں یہی لکھا ہے۔ اب جبکہ یہ ثابت ہوتا ہے اور واقعات صحیحہ کی بناء پر ثابت ہوتا ہے کہ وہ صلیب پر نہیں مرے بلکہ زندہ اتر آئے تو پھر کفارہ کا کیا باقی رہا۔

(ملفوظات جلد2 صفحہ440-441 ایڈیشن 2016ء)

مسیح کی قبر سری نگر خانیار کے محلہ میں ثابت ہوگئی ہے اور یہ وہ بات ہے جو دنیا کو ایک زلزلہ میں ڈال دے گی، کیونکہ اگر مسیح صلیب پر مرے تھے تو یہ قبر کہاں سے آگئی؟

سوال: آپ نے خود دیکھا ہے؟

جواب: میں خود وہاں نہیں گیا لیکن میں نے اپنا ایک مخلص ثقہ مرید وہاں بھیجا تھا۔ وہ وہاں ایک عرصہ تک رہا اور اس نے پوری تحقیقات کر کے پانچ سو معتبر آدمیوں کے دستخط کرائے جنہوں نے اس قبر کی تصدیق کی۔ وہ لوگ اس کو شہزادہ نبی کہتے ہیں اور عیسیٰ صاحب کی قبر کے نام سے بھی پکارتے ہیں۔ آج سے گیارہ سو سال پہلے اکمال الدین نام ایک کتاب چھپی ہے وہ بعینہٖ انجیل ہے۔ وہ کتاب یوز آسف کی طرف منسوب ہے۔ اس نے اس کا نام بشریٰ یعنی انجیل رکھا ہے۔ یہی تمثیلیں، یہی قصے، یہی اخلاقی باتیں جو انجیل میں ہیں پائی جاتی ہیں اور بسا اوقات عبارتوں کی عبارتیں انجیل سے ملتی ہیں اب یہ ثابت شدہ بات ہے کہ یوزآسف کی قبر ہے۔

(ملفوظات جلد2 صفحہ161-162 ایڈیشن 2016ء)

(جاری ہے)

(سید عمار احمد)

پچھلا پڑھیں

مدرسہ بزبان فُلفُلدے برکینا فاسو

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 دسمبر 2021